راہ یاب 2

6 0 0
                                    


           کئی دفعہ ہم کافر ہو جاتے ہیں۔۔۔ ہمیں محسوس نہیں ہوتا لیکن ہم ہو جاتے ہیں۔ کافر کیسے ہو جاتے ہیں ؟ کافر کون کر جاتا ہے ؟ یہ سمجھنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔! ہمارا من جو ہوتا ہے نا ، ہمارا نفس یہ سب سے بڑا اور سب سے پیارا دشمن ہوتا ہے۔ کئی دفعہ یہ ہمیں اتنا پیارا لگتا ہے کے ہم اس کی پرستش شروع کر دیتے ہیں اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا۔۔۔! ہم اسے سب سے اوپر رکھنے لگتے ہے ، اللہ رب العزت سے بھی اوپر۔۔۔! ہم اسے مطمئن کرنے کے لیے وہ سب کرتے ہے جو یہ ہم سے کرنے کو کہتا ہے اور یہ ایک بار میں ہم سے سب کچھ نہیں مانگتا یہ دھیرے دھیرے ہمیں اپنا غلام کر لیتا ہے خود ہمارا آقا بن جاتا ہے۔



اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۴۳﴾  



کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے کیا آپ اس کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں؟



      میں نے بھی یہی تو کیا تھا ، ایمان کے بدلے کُفر خریدا تھا۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ میں نے کُفر جیسی بے مول چیز خریدنے کے لیے ایمان جیسی انمول چیز بیچ دی تھی۔ مجھے تو یہی لگتا تھا محبت کرنا کوئی گناہ تھوڑی ہے ! پر مجھے یہ نہیں پتہ تھا کے کون سی محبت گناہ ہے اور کون سی نہیں ! بلکہ جو میں کر رہی ہوں وہ محبت ہے بھی یا نہیں۔۔۔!



◕◕◕◕◕◕

اسکول ختم ہوا تھا۔ اب اُسے کالج کے لیے اپلائی کرنا تھا۔ اُس نے اُسی کالج میں ایڈمشن لیا تھا جس کالج میں صمد ایڈمشن لے رہا تھا اُن دونوں نے اسٹریم بھی یکساں ہی لی تھی، کامرس ! صمد آگے جا کر اپنے والد کا بزنس سنبھالنے والا تھا ، وہ کیا کریگا ؟ کیسے کریگا؟ یہ سب اُس کے والد ہی طے کرتے تھے اب بھی اُنہوں نے ہی طے کیا تھا۔

ماہی کے گھر کا حال کچھ عجیب ہوا تھا جب اُس نے کامرس لینے کی بات کی تھی۔ احمد صاحب اپنی بیٹی سے کسی اور چیز کی امید لگائے ہوئے تھے لیکن جب ماہی نے اپنی خواہش ظاہر کی تو اُنہوں نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اُنھیں اپنی بیٹی پر بڑا بھروسہ تھا دوسری جانب آسماں بیگم نے ا یڑی چھوٹی کا زور لگا کر اُس کا فیصلہ بدلوانا چاہا تھا لیکن وہ بھی ڈٹی رہی تھی۔

اُن کا ساتھ اور گہرا ہو گیا تھا وہ کالج کا سارا وقت ساتھ ہی گزارا کرتے ، کلاسز بنک کر کے وہ اکثر کہیں گھوم آیا کرتے تھے۔ ماہی کو اُس کی زندگی بہت ہی زیادہ حسین اور خوبصورت محسوس ہونے لگی تھی۔ صمد اکثر اُسے تحفے دیا کرتا تھا۔ وہ اُسے سچ میں پسند کرتا تھا وہ تھی ہی اتنی خوبصورت اور ذہین۔

اُسے صمد ایک رہنما کی طرح لگنے لگا تھا وہ اُس کے پیچھے اندھوں کی طرح چل رہی تھی اُس کی ہر کہی ہوئی بات اُس کے لیے پتھر کی لکیر تھی۔ صمد نا صرف اُسے دُنیا میں رہنے کا ڈھنگ سیکھا رہا تھا بلکہ وہ اُسے اسلام کی تعلیم بھی دے رہا تھا۔۔۔ وہ اسلامی تعلیم جس کا علم اُسے ذرّہ برابر بھی نہیں تھا۔ وہ اُسے وہ اسلام سکھایا کرتا جو وہ اپنے ماں باپ اور بہنوں سے سیکھ رہا تھا۔ خود کا ایجاد کردہ مذہب ، جس کا نام تو اسلام تھا ، لیکن وہ کسی بھی پہلو سے اسلام نا تھا۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Apr 16, 2023 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

راہ یاب (raah yab ) از قلم : الفیا Where stories live. Discover now