باب اول : خنجر

24 1 0
                                    

 ریسٹورنٹ میں کام کرنے والا معمولی سا ورکر "حماد قریشی"،مگر اصل میں ہم کون ہیں؟؟ایک برائی۔۔ایک گینگسٹر ہیں ہم دونوں۔۔۔قاتل،فریبی اور پتا نہیں کن کن ناموں سے نوازے گی یہ دنیا جب اسے ہماری اصلیت پتا چلے گی۔مجھے کسی سے ڈر نہیں لگتا،اگر ڈر ہے تو صرف یہ کہ میں اپنے اصل روپ میں اس دنیا کا سامنا کیسے کرونگی؟؟؟ابھی میں سب کے سامنے بہت وقار اور شان و شوکت کے ساتھ چلتی ہوں مگر اس وقت کیسے؟؟؟۔۔۔"آج کافی دنوں بعد اس نے اپنے دل کا حال بیان کیا تھا

"غاضفہ!!میں سمجھ سکتا ہوں تمہاری حالت مگر یہ وقت ان سب چیزوں کا نہیں۔۔ابھی اس وقت کو آنے میں بہت دیر ہے۔۔ان سب سے پہلے بھی بہت کچھ باقی ہے!!!"وہ اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسے حوصلہ دلاتے ہوئے بولا

"اچھا چلو اب کیک کھاتے ہیں آخر اتنی بڑی ڈیزائنر نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے تو کھانا تو بنتا ہے"تحسین نے ایک چھوٹا سا پیس کٹ کیا اور پہلے غاضفہ کو کھلایا پھر خود کھایا

وہ آج صبح سے ہی کاموں میں مصروف تھی۔دو دن بعد گھر میں شادی کے فنکشن شروع تھے۔وہ ابھی بھی ڈیزائنر کے پاس سے اپنا قیمتی جوڑا لے کر آئی تھی۔ابھی وہ صوفے پر بیٹھے جوس پی رہی تھی کہ اسکے نمبر پر آدم کی کال آنے لگی۔اس نے فورا سے کال ریسیو کرلی۔

"ہاں ہیلو!!کہاں ہو تم؟صبح سے تمہارا نمبر ٹرائی کررہی ہوں"اس نے فورا سے سوالات شروع کردیے

"زیبا میں کام سے آؤٹ آف ٹاؤن گیا ہوا تھا اور موبائل میں چارج بھی ختم ہوگئی تھی۔تمہیں کوئی کام تھا؟؟"دوسرے جانب سے آدم کی تھکی تھکی سی آواز آئی

"نہیں۔۔کوئی کام تو نہیں تھا مگر۔۔اس گاڑی نے پھر تمہارا پیچھا کیا؟"

"نہیں اسکے بعد سے تو وہ نظر نہیں آئی۔۔۔کیوں کوئی بات ہے؟"آدم نے تشویش سے پوچھا

"آج میں اپنا ڈریس لینے بوتیک گئی تھی۔وہاں سے واپسی پر ایک گاڑی نے میرا پیچھا کیا۔اسکی بھی کوئی نمبر پلیٹ نہیں تھی اور اسکے ڈرائیور نے بھی ماسک لگا رکھا تھا۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے آدم۔آخر ہے کون وہ شخص؟"زیبا نے تھکن سے آنکھیں بند کرلیں

"میرا خیال ہے کہ وہ صرف ہمیں ڈرانا چاہتا ہے ورنہ اگر اسکا مقصد ہمیں نقصان پہنچانا ہوتا تو وہ کب کا کچھ کرچکا ہوتا۔لیکن اس نے ابھی تک کچھ نہیں کیا۔۔تم فکر مت کرو۔۔یہ لمحے بہت قیمتی ہیں،انہیں خوشی سے جیو۔بار بار یہ وقت نہیں آتا"آدم نے اتنا کہہ کر کال کٹ کردی۔دوسری جانب زیبا بھی آرام کی غرض سے اپنے کمرے کی طرف چل دی

رات چاروں طرف پھیل چکی تھی۔کریم ہائیٹس میں اس وقت شادی کی تیاریاں زوروشور سے چل رہی تھیں۔مہمانوں کا گھر میں ڈیرا تھا۔آدم کی ماں بھی خوشی سے سب مہمانوں کی تواضع کررہی تھی۔لاؤنج میں موجود دس بارہ لڑکیاں تیز آواز موسیقی پر ڈانس پریکٹس کررہی تھیں۔آدم ہلکی آواز میں ٹی وی پر نیوز دیکھ رہا تھا۔اچانک ڈور بیل بجی۔ملازم نے آکر اطلاع دی کہ کوئی آدم کو بلا رہا ہے۔آدم جب باہر گیا تو وہاں کوئی نہیں تھا جبکہ اسے اپنے پیچھے کسی کا سایہ محسوس ہوا۔

"Who's there?"آدم نے سایہ کی طرف منہ کر کے پوچھا

"Your death is near..."سایہ کی طرف سے ہلکی سی آواز آئی۔

اس سے پہلے کہ آدم مزید کچھ کہتا پیچھے سے کسی نے اسکی پیٹھ میں خنجر سے وار کردیا۔

ایک۔دو۔۔تین۔۔۔اور ختم۔۔

آدم کی سانسوں کی ڈور ٹوٹ چکی تھی۔وہ سایہ اب ایک انسان میں ڈھلتا چلا گیا۔وہ وہی ماسک والا بندہ تھا جو آدم کا پیچھا کرتا تھا۔تحسین مراد عرف حماد قریشی

اور جس نے اسکی پیٹھ میں تین بار خنجر گھونپا تھا وہ کوئی اور نہیں بلکہ "دی گریٹ ڈیزائنر ، غاضفہ ملک" تھی۔

جاتے جاتے تحسین واپس پلٹا۔وہ اب کیا کرنے والا تھا؟وہ لاش کے قریب گیا ، ایک سرنج نکالی اور آدم کی نبض میں ڈال دی۔اس نے وہ پورا انجیکشن آدم کے خون سے بھر دیا۔پھر اسے حفاظت سے بند کیا اور جیب میں رکھتا ہوا چل دیا۔

وہ دونوں اب وہاں سے جاچکے تھے۔کسی کو کان و کان خبر نہیں تھی کہ پیرس کی اس سنسان سڑک پر ہونے والے اس قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟

جس گھر میں آج مہندی کا فنکشن ہونے والا تھا ابھی وہاں پر ہر طرف کہرام مچا ہوا تھا۔دیواروں پر لگے پھول ابھی تک کھلے ہوئے تھے۔میت کے ایک طرف آدم کی ماں بیٹھی زاروقطار رو رہی تھی اور دوسرے جانب زیبالنسا صدمے کی حالت میں بیٹھی تھی۔آج جسکے نام کی مہندی وہ اپنے ہاتھوں پر لگانے جارہی تھی ، ابھی اسی کے نام کا سوگ منا رہی تھی۔جس دن آدم نے دولہا بننا تھا اس دن اسکا جنازہ اسکے گھر میں سجا رکھا تھا۔

دوسری جانب اس خالی کمرے میں ایک کونے میں غاضفہ وہ آدم کے خون سے بھری سرنج لیے بیٹھی تھی اور تحسین اسکے عین سامنے بیٹھا سگریٹ کے کش لے رہا تھا۔۔کچھ دیر بعد غاضفہ نے سامنے دراز سے ایک خالی کاغذ اور ایک نیا قلم نکالا۔آہستہ آہستہ اس نے وہ خون اس قلم میں ڈال دیا۔دیکھنے میں وہ سرخ سیاہی معلوم ہوتی تھی لیکن اصل میں تو وہ لہو تھا۔اب اس نے اس خالی کاغذ پر لکھنا شروع کیا۔خون سے لکھی گئی سرخ تحریر۔اس نے دو سطر لکھی اور لہو کو سوکھنے کی غرض سے کاغذ وہیں چھوڑ دیا اور وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔تحسین نے ایک نظر اس خونی کاغذ کو دیکھا۔

رات کے تین بج رہے تھے۔غاضفہ اپنے کمرے کی لائٹس بند کیے بیٹھی تھی۔وہ سکون میں تھی لیکن یہ سکون مکمل نا تھا۔اسے ابھی اور بھی بہت کچھ کرنا تھا اپنی بے سکونی دور کرنے کے لیے۔وہ برے کام نہیں چاہتی تھی مگر اسکے پاس کوئی اور رستہ بھی نا تھا۔وہ بری نہیں تھی اسے برا بننا پڑتا تھا۔وہ خود بھی برا بننا نہیں چاہتی تھی۔وہ کیا چاہتی تھی؟انتقام ، جنون ، بدلہ۔۔۔لیکن ابھی بھی اسکی زندگی کے کچھ برے کام باقی تھے۔ابھی بھی اسکی زندگی باقی تھی۔۔۔

ناول:خونی کاغذWhere stories live. Discover now