منزل پر پہنچ کر منزل تلاشنا دشوار تھا۔۔ لمحے گویا وہیں ٹھہر گئے۔ اس نے خود کو ماضی کے ٹھہرے ہوئے کسی حصے میں محسوس کیا۔ ایک جھلک، ایک یاد اور وہی عذاب۔۔
پلٹ کر ویران آنکھوں نے پیچھے چھوڑے راستوں کو دیکھا جو سنسان تھے۔ زندگی ہمیشہ ایک رخ پر نہیں رہتی۔ اسے محسوس ہوا جیسے یہی وہ دوسرا رخ ہے جس سے وہ خوف کھاتا ہوا آیا تھا۔ ہاتھ میں سفری سامان تھا مگر دل اس سفر سے بھاگ رہا تھا۔ کاش زندگی دل کی مرضی سے گزاری جاسکتی۔ اس نے گہری سانس خارج کرتے ہوئے فضا میں تحلیل کی۔
خیالات اور حالات دونوں ہی پہلے جیسے نہیں ہو سکتے تھے۔ سفر آغاز ہونے میں وقت تھا۔ پیشانی کی لکیروں پر کڑی مسافت کی لکیریں موجود تھیں۔ جیسے سفر آج کا نہ ہو۔۔ بہت پہلے ہی شروع ہوچکا ہو۔ نگاہیں ایک بار پھر پلٹ کر دھول اڑاتے رستوں پر اٹھیں۔ شاید کہ کوئی شناسائی آنکھوں کو نظر آئے۔ وہ تنہا تھا۔۔ ایک ہارے ہوئے مسافر کی طرح بس اسٹیشن پر کھڑا گاڑی کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ دیکھا جو اس وقت کھردرے اور سفید ہو رہے تھے۔ سفید کالر والی شرٹ کے اوپر کا بٹن کھول کر اس نے خود کو اطمینان سے سانس لینے کا سکھ بخشا۔ بیگ اور سوٹ کیس گھسیٹتے ہوئے لوگ ویٹنگ ایریا میں بیٹھ رہے تھے۔ اس نے اپنا ٹکٹ دیکھا اور بنھویں ملاتا ہوا سورج کو دیکھنے لگا جو گزرتے وقت کے ساتھ سر پر چڑھ رہا تھا۔ دل اس سفر سے کترا رہا تھا مگر کہیں نہ کہیں وہ خود کو مطمئن محسوس کر رہا تھا۔۔ جیسے اس شہر سے بھاگ جانا چاہتا ہو۔ وہ حقیقت سے فرار چاہتا تھا۔ ان لوگوں سے دور جو اسے جانتے تھے۔۔ اپنوں سے دور۔۔
اسے یاد تھا وہ لاہور آنے کے لیے خوش تھا کہ کچھ وقت تنہائی میں سکون سے گزار سکے گا۔۔ اب اسے یہاں سے جانے کی جلدی تھی۔ وہ لوٹ جانا چاہتا تھا۔
اب وہ یہ نہ کہہ سکے گا کہ تو کتنا خوش رہنے لگا ہے۔۔ خوشیاں روٹھ جائیں تو لبوں پر غم رہ جاتا ہے۔ ہونٹ مسکرانا بھول جاتے ہیں۔۔ دل وحشت سے بھرا ہوا تھا۔
خود کو بے بس محسوس کرتا ہوا وہ نچلا ہونٹ چبانے لگا۔ سب کچھ دھندلا گیا۔ حالات اپنے نقش چھوڑ گئے۔ اسے لگا وہ دنیا کا نہایت بدقسمت انسان ہے جو خود کی خوشیوں کے لیے نہ لڑ سکا۔ مٹھیاں بے جان ہونے لگیں۔ تیس سال کے تر و تازہ چہرے پر ایک دم پختگی سی محسوس ہونے لگی۔ اس نے سوٹ کیس کھینچتے ہوئے ویٹنگ ایریا کی سیٹ پکڑ لی۔ لوگوں کی چہل پہل اب بھی جاری تھی۔ کوئی اسلام آباد کی بس کے لیے اٹھ رہا تھا تو کوئی مزید انتظار کرنے کے لیے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی نگاہیں ناک کی سیدھ دیوار پر ٹکی ہوئی تھیں۔
اس شہر میں مزید گزارا ناممکن تھا۔ رویوں نے جذبات کو ٹھیس پہنچائی تھی۔ دل بھرا بیٹھا تھا مگر آنکھوں میں ویرانی تھی۔۔
"لاہور سے کراچی جانے والی بس تیار ہے۔"
اس کی ٹانگوں نے تیزی سے حرکت کی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ہاتھ میں موجود ٹکٹ پر گرفت مضبوط ہوئی۔ اپنا سوٹ کیس گھسیٹتا ہوا وہ بس کے نزدیک آیا۔ مسافر چڑھ رہے تھے۔
"یہ دونوں بیگ اندر رکھنے ہیں؟" اس نے کندھوں پر لٹکا بیگ یونہی رہنے دیا۔
"نہیں۔۔ آپ یہ سوٹ کیس اندر رکھ دیں۔" سفید یونیفارم میں ملبوس وہ بس کا آدمی تھا جو سب کے بیگ اس گاڑی کے نچلے حصے میں حفاظت سے رکھ رہا تھا۔ قدم آگے کی جانب بڑھنے لگے۔ بس کے دروازے پر پہنچنے تک اس نے ایک آخری بار پلٹ کر اسٹیشن کے دروازے پر دیکھا تھا۔ شناسائی نہ ملا۔۔ اس کا دل ویران رہ گیا۔ چلو اب یہاں دل کا لگانا کیا۔ اس نے بس کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بس ہوسٹس کو دیکھا جو ٹکٹ لے رہی تھی۔
"سیٹ نمبر اکیس۔" اس نے ٹکٹ دیکھتے ہوئے ایک نظر اسے دیکھا۔
لمبی چوڑی قدرے اونچی یہ بس اندر سے بھی اتنی ہی کشادہ تھی۔ کھڑکیوں پر گہرے رنگ کے پردے تھے۔ بزنس کلاس کی سیٹوں پر نگاہ ڈالتا ہوا وہ بس کے پیچھے کی جانب بڑھنے لگا جیسے اپنی سیٹ تلاش رہا ہو۔ ہر سیٹ کے اوپر سامان رکھنے کا خانہ تھا اور اس خانے پر سیٹ نمبر بھی درج تھا۔
"سیٹ نمبر کہاں درج ہیں؟" اسے اپنے کچھ پیچھے ایک لڑکی کی آواز سنائی دی جو بس ہوسٹس سے پوچھ رہی تھی۔
"ہر سیٹ کے پیچھے ایک اسکرین ہے۔ اس پر بھی نمبر درج ہیں۔" بس ہوسٹس کی آواز پر اس نے تجسس بھرے انداز میں سیٹ کے پیچھے دیکھا جہاں واقعی اسکرین پر سیٹ نمبر موجود تھے۔
"سیٹ نمبر اکیس۔۔" اس کے لبوں نے جنبش کی۔ بے تاثر نگاہوں سے اس نے آگے بس کے دروازے پر دیکھا جہاں لوگ چڑھ رہے تھے۔ اپنا بیگ کندھوں سے اتار کر وہ گود میں رکھتا ہوا شیشے کی طرف والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اس نے کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھا۔ زندگی کبھی نہ سمجھنے والا قصہ ہے۔ کبھی اچھے دن دکھاتی ہے اور کبھی برے دنوں میں لاوارث چھوڑ دیتی ہے۔ لوگ محنت نہیں دیکھتے۔۔ بس نتیجے پر غور کرتے ہیں۔
وہ سوچنے لگا اس کا ہونا نہ ہونا دونوں بے معنی ہے۔ کسی کو اس کی موجودگی سے غرض نہیں۔ کوئی اس کی زندگی کا حصہ بننے کا خواہشمند نہیں۔۔
مثبت خیالوں کی جگہ اب نا امیدی نے لے لی تھی۔
یہ سب دھوکہ تھا۔۔
ایک دھندلاہٹ۔۔
"کیا میں کھڑکی والی جگہ لے سکتی ہوں؟" نسوانی آواز پر وہ کچھ بوکھلایا اور گردن پھیر کر اس لڑکی کو دیکھنے لگا جو پریشان حال معلوم ہوتی تھی۔ وہ اسے دیکھتا رہا جیسے جواب سوچ رہا ہو۔ دبلی نازک سی ڈوپٹہ سر پر ڈالتے ہوئے وہ اس سے سنجیدگی سے پوچھ رہی تھی۔ آنکھوں میں گہرا کاجل اور ماتھے پر لکیریں۔
"نہیں۔" لہجہ بیزار ہوگیا۔ وہ لب کاٹتی ہوئی بیٹھ گئی۔
ہاں وہ لڑکی جس کا سیٹ نمبر بائیس تھا۔
وہ ایسا ہی تھا۔۔
یا شاید ہوچکا تھا۔۔
"کوئی بات نہیں۔۔" وہ لڑکی ذرا سا مسکرائی۔
اس نے رخ پھیر کر دوبارہ کھڑکی سے باہر نگاہیں ٹکالیں۔
"آپ اپنا بیگ اوپر رکھ سکتے ہیں۔" اس کی آواز پر وہ آنکھیں زچ ہوتے ہوئے بھینچ گیا۔ جانے یہ صورت حال بھی کیسی تھی کہ وہ کسی سے نہ مخاطب ہونا چاہتا تھا اور نہ یہ چاہتا تھا کہ کوئی اس سے مخاطب ہو۔
"جی نہیں شکریہ۔"
"کوئی بات نہیں۔" لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کی نرم آواز دوبارہ کانوں سے ٹکرائی اور لمبی خاموشی چھا گئی۔
"کیا سیٹ نمبر بائیس پر پیسنجر موجود ہے؟" بس ہوسٹس نے آواز لگائی۔
"جی۔" اس لڑکی نے ہاتھ اٹھا کر اپنی موجودگی کا بتایا۔
یہ ہلکا پھلکا شور بھی کانوں کو برا لگنے لگا۔ اسے چند پل کی خاموشی چاہئیے تھی مگر وہ جانتا تھا کہ جب بس چل پڑے گی تو خاموشی خود ہی پھیل جائے گی۔
بس چل پڑی۔
پہیے گھومنے لگے۔۔
پیچھے ایک دنیا چھوڑ کر وہ آگے بڑھنے لگا۔۔
کچھ حلق میں پھنستا ہوا محسوس ہوا تو اس نے بے چینی تھوک نگلا۔ کتنا طویل سفر تھا۔۔ اسے سوچ کر ہی کوفت ہونے لگی۔
"گلاس۔" اسے بس ہوسٹس کی آواز نے چونکایا۔ وہ اس کی جانب ڈسپوزیبل گلاس بڑھا رہی تھی جسے اس نے لب بھینچتے ہوئے تھاما اور اپنے آگے والی سیٹ کی پشت کی جیب میں ڈال دیا۔ ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ سب لوگ اپنی اپنی سیٹ پر آرام فرمانے لگے۔
وہ ماضی کے وقت میں لوٹنے لگا۔
اسے یاد تھا۔۔
بھلا یہ بھی کوئی بھولنے والی بات تھی۔
ریت کے ٹیلے اور ریت کا گھر۔۔
سائیکل چلانے کے وہ حسین دن۔۔۔
رنگین دنیا۔۔
خواہشوں کا ڈھیر۔۔
ڈھیر ہی رہ گیا۔۔
وہ تمام خواب۔۔
خواب رہ گئے۔
"سنیں۔" اسے اپنے برابر موجود لڑکی کی آواز آئی۔ وہ بری طرح چونک اٹھا۔
"جی؟" جھنجھلاہٹ نے جگہ لے لی۔ لہجے میں سختی تھی۔ اس کے خیالوں کی دنیا پھر ادھوری رہ گئی تھی۔
"آپ کو ڈرنک چاہئیے؟" اس نے پوچھتے ہوئے بس ہوسٹس کی جانب اشارہ کیا جو کولڈ ڈرنک کی بوتل لیے کھڑی تھی۔
"نہیں۔" اس نے بس ہوسٹس کو انکار کیا اور دوبارہ باہر دیکھنے لگا۔ اس امید پر کہ اب کوئی اسے خیالوں کی دنیا سے کھینچنے والا نہیں ہوگا۔
وہ اب بھی آبادی میں تھے۔
اسے یکدم ہی اپنے آس پاس قہقہوں کا اٹھتا شور محسوس ہوا۔ وہ جانتا تھا یہ سب اس کا وہم ہے۔۔ گویا اس پر ہنسا جا رہا ہو۔ قہقہے لگائے جا رہے ہوں۔
زندگی میں جو چاہا وہ تو اسے ملا ہی نہیں۔۔ ہر چیز میں مثبت پہلو ڈھونڈنے والا کئی سالوں پہلے ہی نا امید ہوچکا تھا۔
ائیر کنڈیشنر کی ٹھنڈی ہوا سکون پہنچانے لگی۔ اس نے سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔
"آپ کا نام؟" وہی آواز۔ وہ چونکا اور پھر ضبط کرتا ہوا اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
"میں نہیں جانتا۔" اس نے سانس خارج کی۔ وجود ریزہ ریزہ ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ گویا وہ ایک کڑی مسافت سے تھکا ہوا محسوس کر رہا ہو۔ لڑکی نے اسے عجیب نگاہوں سے دیکھا۔ وہ اس کی نظروں کی تپش خود پر محسوس کرنے لگا۔
یقیناً وہ اسے کوئی عجیب و غریب آدمی سمجھ رہی ہوگی۔ وہ خود سے ہی خیال کرنے لگا۔ یکدم ہی ہنسی کی آواز ابھری۔ اس نے حیرانی سے آنکھیں کھولیں۔ وہ ہنس رہی تھی۔۔ اور اس کی کھلکھلاہٹ کی آواز پر وہ اس کا چہرہ تکتا رہ گیا تھا۔ اس نے اس چند وقت میں پہلی بار اس لڑکی کو غور سے دیکھا۔ تروتازہ چہرہ اور کالی سیاہ آنکھیں۔۔
"میں بتول! بتول رضا۔" وہ اب مسکرا کر بتا رہی تھی۔
"اس کا فائدہ نہیں۔۔ مجھے نام یاد نہیں رہتے۔" اس نے اپنی گود میں رکھے بیگ کو کھول کر اپنا موبائل نکالا۔
"نام یاد رہے نہ رہے۔ موجودگی تو یاد رہے گی۔ بتول یاد نہیں رہے گی لیکن سیٹ نمبر بائیس کی پیسنجر یاد رہے گی۔" اس کی باتیں بھی عجیب تھیں۔۔ مگر اثر رکھتی تھیں۔ موبائل دیکھتا ہوا وہ کچھ ٹھہر سا گیا۔
"مجھے کوئی یاد نہیں رہتا۔ کوئی بھی نہیں۔۔ خاص طور پر انسان! لوگوں کو یاد رکھنا بے وقوفی ہے۔" انداز بے پرواہ تھا۔ بتول نامی لڑکی نے اس کا چہرہ بغور دیکھا جیسے کچھ پڑھنا چاہ رہی ہو۔
"مگر کچھ لوگ ناچاہتے ہوئے بھی یاد رہ جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں کیا کہیں گے آپ؟"
اس نے بیزاری سے لڑکی کو دیکھا۔
"میری طرف سے وہ سب بھاڑ میں جائیں۔" لہجہ کھردرا ہوا۔ بتول چونکی اور پھر ہنس پڑی۔
"واہ۔ لگتا ہے سفر اچھا گزرنے والا ہے۔" لڑکی ابھی بھی مسکرا رہی تھی اور وہ حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
اس قدر روکھے اور زندگی سے تنگ انسان کی ذات میں وہ دلچسپی لے رہی تھی۔
"آپ مجھے نہیں جانتیں اس لیے ایسا کہنا بے وقوفی ہے۔"
"کوئی بھی انسان کسی کو مکمل نہیں جانتا۔ ہم بس کبھی ایک دوسرے کی زندگی میں کچھ حصے کے لیے آتے ہیں۔" چہرے کے چلبلے تاثرات سے وہ کسی صورت سنجیدہ نہیں معلوم ہوتی تھی۔
"میں کچھ دیر صرف سفر کو انجوائے کرنا چاہتا ہوں۔" اس نے پہلو بدلا۔ وہ شاید اس کی خاموشی چاہتا تھا۔
"میرے پاس کتاب ہے۔ آپ چاہیں تو پڑھ سکتے ہیں۔" بتول رضا اپنا بیگ کھنگالنے لگی۔
"خاموشی سے۔۔" تیزی سے بات کاٹی۔ وہ چونک اٹھی۔ "میں سفر تھوڑی دیر خاموشی سے گزارنا چاہتا ہوں۔" لہجہ اتنا روکھا تھا کہ بتول بھی خفت کے مارے کچھ بول نہ سکی۔ اسے لڑکی کے لیے ذرا برا لگا۔ مگر وہ شاید واقعی خاموشی کا طلب گار تھا۔ آنکھیں موند گیا۔ ماضی کے خیالوں نے ایک بار پھر جگہ لے لی۔
اسے وہ دن بھی یاد تھے جب وہ کسی کی یادوں میں گزارا کرتا تھا۔ سب چھین لیا گیا۔ اسے یاد تھا کہ لوگوں نے اسے کیسے دھتکارا۔ وقت کے شکنجوں نے اس کے خوابوں کو توڑ ڈالا تھا۔ الزام، بہتان۔۔ وہ آنکھیں میچ گیا۔ یہ سب سوچنا بھی تکلیف دہ تھا۔
سات سال کا تھا جب ماں نے اسے آخری بار پیار کیا تھا اور پھر چھوڑ کر کہیں دور چلی گئی۔۔ یہ سب تو پھر بھی قابل برداشت تھا۔ وہ ماں کے جانے کی وجہ سوچتا ہی رہ گیا۔ ابا بھی بہلاتے گئے۔ اسے یاد تھا اس کے پوچھنے پر "بیٹا چند وقت کے لیے گئی ہیں تمہاری اماں۔ لوٹ آئیں گی" کہا کرتے تھے۔
پھر ایک دن جانے وہ راز کیسے کھلا کہ محلے والوں کو بھی علم ہوگیا۔ اسے ان کے قہقہے لگاتے چہرے اور حقارت بھری نگاہیں یاد رہ گئیں۔
"تمہاری ماں کو دوسرا شخص بھا گیا ہے۔ اس لیے تمہیں اور تمہارے باپ کو چھوڑ گئی۔" محلے والوں کی زبانی یہ سب سن کر وہ جتنا بوکھلایا اتنی ہی بے عزتی کا صدمہ ابا نے دل پر لے لیا۔
ابھی تو وہ وضاحتیں چاہتا تھا۔۔ اور انہیں سوالوں سے ڈر کر ابا ایک دن پنکھے سے جھولتے پائے گئے۔ محلے میں بدنامی ان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ اسے اپنے باپ کا آنسوؤں سے تر چہرہ اب بھی یاد تھا۔ ایسے لمحے چاہ کر بھی نہیں بھولتے۔
وہ دنیا کی بھیڑ میں کھو جاتا اگر اس کے ابا کے چچیرے بھائی اسے اپنے گھر پناہ نہ دیتے۔ انہوں نے اس پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھ کر اسے احساس دلایا گیا کہ وہ تنہا نہیں۔ ماضی کی تکلیفوں نے اس کے دل پر گہرے نشان چھوڑے تھے۔ وہ ایسا ہی تھا۔۔ روکھا اور کھردرا مزاج۔
آج جانے دل قابو میں کیوں نہ تھا اور دماغ ماضی کو ہی کیوں سوچنا چاہتا تھا۔ عورت ذات ہی دھوکے کا نام ہے۔ ان سے محبت خود پر ظلم کے مترادف ہے۔ ماں گئی سو گئی۔۔ جس پر دل آیا وہ بھی دغا کر گئی۔ اور اس سب میں وہ اپنا قصور سوچتا رہ گیا۔
جانے کتنا وقت بیت گیا تھا۔ اس نے یکدم ہی کسی خوف سے آنکھیں کھولیں۔ مائیک پر اناؤسمنٹ ہورہی تھی۔
"معزز خواتین و حضرات۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم اپنے اسٹاپ پر ٹھہریں گے۔ وقفہ محض دس منٹ کا ہوگا۔ براہ مہربانی اپنے اہم ساز و سامان کی خود حفاظت کریں۔ کسی بھی دوسری صورتحال میں عملہ ذمہ دار نہ ہوگا۔" اس نے برابر بیٹھی اس لڑکی کو دیکھا جو کتاب میں مگن تھی۔ نجانے وہ کون سی کتاب تھی۔ اسے اشتیاق ہوا مگر وہ پوچھنا نہیں چاہتا تھا۔ بلاوجہ کی گفتگو سے گریز کرتا ہوا چہرہ آگے کی جانب موڑ گیا۔ مغرب ہونے کو تھی۔ اس نے اپنا بیگ خود سے قریب کر لیا۔
بس اسٹاپ پر رکتے ہی مسافر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس نے بتول رضا کو دیکھا جو اپنی چادر درست کرتی اٹھ رہی تھی۔ وہ خود بھی گاڑی سے باہر نکل کر آکھڑا ہوا۔ مرد وضو کے لیے ایک طرف کو چل پڑے اور عورتیں دوسری جانب۔۔ سامنے ایک مارٹ تھا اور ساتھ میں کچھ اور دکانیں۔ اس کی نگاہ ہرے رنگ کی چادر پہنی اس لڑکی پر گئی جو اس کا نام جاننے لیے اشتیاق تھی۔ جانے کیوں وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ لیڈیز واش روم کی جانب بڑھ کر وہ آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔
لمبی سانس خارج کرتا ہوا وہ خود بھی اپنا بیگ کندھوں پر لٹکائے آگے بڑھ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"سر۔" اسے بس ہوسٹس کی آواز آئی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر ہوسٹس کے ہاتھوں سے ڈبہ لیا۔ وہ جانتا تھا اندر کھانے کے لیے کچھ سامان ہے مگر کھولنے میں دلچسپی نہ ہوئی تو سامنے والی سیٹ کی پشت پر لگی پاکٹ میں ڈال دیا۔ البتہ بتول نامی وہ لڑکی اپنا پیکٹ کھول کر بسکٹ کھانے لگی۔
"سفر کتنا اچھا ہے۔" اس بار بھی اسی نے ہی شروعات کی۔
"یہ صرف ان کے لیے اچھا ہے جنہیں منزلوں کا جنون ہے۔" وہ استہزایہ انداز میں بولا۔
"تو یعنی آپ منزل نہیں پانا چاہتے؟" اس کی آواز نرمی تھی۔
"میں سفر بھی جاری نہیں رکھنا چاہتا۔" عجیب تھا۔۔ کسی اجنبی کو بتا رہا تھا۔ اپنی ہی باتوں سے مکر کر نئی باتیں خیالوں میں بُن رہا تھا۔ بتول رضا مسکرائی۔
"امیدیں اچھی ہوتی ہیں۔" یہ ایک مختلف بات تھی مگر اس کے حالات پر درست بیٹھتی تھی۔
"نہیں۔۔ امیدیں اچھی نہیں ہوتیں۔" اس نے تیزی سے نفی میں سر ہلایا۔
"یہ آپ کو زندگی گزارنے میں مدد دیتی ہیں۔"
"یہ زندگی مزید کھٹن بنادیتی ہیں۔" وہ اپنی بات منوانا چاہتا تھا۔
"اگر امیدیں نہ ہوں تو انسان اپنے برے وقت میں ہی ٹھہر جائے۔"
"نہیں۔۔ انسان کو ہر برے وقت کے لیے ذہن بنا کر رکھنا چاہئیے۔ امیدیں ٹوٹتی ہیں تو دل دکھتا ہے اور دل دکھتا ہے تو جانتی ہیں کتنی تکلیف ہوتی ہے؟ انسان صرف تکلیف دیتے ہیں۔" وہ اپنہ ڈبہ کھولنے لگا۔ بتول رضا اس کے تیزی سے چلتے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔ نجانے بس کو جھٹکا لگا یا اس کا ہاتھ کپکپایا۔ ڈبہ کھلتے ہی جھٹکے سے اس کی گود سے گر کر الٹ گیا۔ وہ جہاں کا تہاں رہ گیا جیسے اسے بھی اپنی بری قسمت سمجھ رہا ہو۔ ہاں بھوک تو لگی تھی مگر اب وہ صرف اپنے پیٹیس اور کھلے بسکٹ کو دیکھ رہا تھا جو گر کر کھانے کے قابل نہ رہے تھے۔
یکدم ہی ایک ہاتھ اس کی جانب بڑھا۔ اس نے ٹھٹک کر بتول رضا کا چہرہ دیکھا جہاں ہمیشہ کی مسکراہٹ تھی۔ وہ شاید صرف مسکراتی رہتی تھی۔ اس کے علاؤہ جیسے اسے کچھ آتا ہی نہ ہو۔ بسکٹ بڑھاتا ہاتھ اب بھی ہوا میں تھا۔ وہ دیکھتا رہ گیا۔
"ہر انسان تکلیف نہیں دیتا۔ کچھ اپنے سینوں میں دل رکھتے ہیں۔" میٹھا لہجہ۔۔
اگر وہ اسے چند گھنٹوں سے جانتا نہ ہوتا تو اس کے میٹھے لہجے کو بناوٹی سمجھتا۔ بھوک کا احساس جاگا تو وہ بسکٹ تھام کر کھانے لگا۔ نیچے گرا وہ کھانا دوبارہ ڈبے میں ڈال کر اس نے سیٹ پاکٹ میں ڈال دیا۔
وہ لڑکی عجیب تھی۔۔ بے حد عجیب۔۔
"ایک اجنبی مسافر کے لیے آپ نے اپنا ایک وقت کا کھانا چھوڑ دیا۔" بات باعثِ حیرانی تو تھی۔
"میرے پاس اور بھی ہے۔" وہ ہنس دی اور بیگ سے بسکٹ اور جوس نکالنے لگی۔ "سفر کے لیے یہ میرا سب سے پسندیدہ سامان ہے۔ مسٹر اجنبی! آپ لے سکتے ہیں۔" وہ آفر نہیں کر رہی تھی۔ بتاتے ساتھ اس کے بیگ کے اوپر رکھ رہی تھی۔
"اس کی ضرورت نہیں۔" وہ بوکھلایا۔
"مگر مجھے لگتا ہے کہ آپ کو کھا لینا چاہئیے۔ سفر لمبا ہے اور کھانا رات تین بجے سے پہلے نہیں ملے گا۔"
"بس سے میرا یہ پہلا سفر ہے۔ چند دنوں پہلے جہاز سے لاہور آیا تھا مگر اب بس سے کراچی لوٹ رہا ہوں۔ لگتا ہے آپ کافی بار بس کا سفر کر چکی ہیں۔" وہ پہلی بار اتنا زیادہ بولا۔ بتول رضا مسکرادی۔
"خوشی ہوئی کہ آپ ایک جملے سے زیادہ بولتے بھی ہیں۔ سفر گزارنا اب اتنا دشوار نہیں ہوگا۔"
وہ سوچنے لگا کہ کیا واقعی وہ صرف اس سے گفتگو کر رہی تھی یا ہر بار بس کے سفر میں ساتھ مسافروں سے یوں گفتگو کرتی ہوگی؟
بس میں خاموشی چھا گئی۔ وقت کی سوئیاں گھومنے لگیں۔ نجانے کب آنکھ لگی اور کتنا وقت گزرا۔ اب کی بار آنکھ دوسری اناؤسمنٹ پر کھلی تھی۔
ائیر کنڈیشنر کی تیز ہوا نے اسے بے آرام کیا۔ اس نے برابر بیٹھی اس لڑکی کو دیکھا جو دوسرے رخ پر سو رہی تھی۔ ان کی سیٹوں کے درمیان فاصلہ تھا مگر اس کے باوجود بھی وہ خود کو ہر طرح سے کور کر کے رکھی ہوئی تھی۔ اسے اس کا یوں خود کی حفاظت کرنا اچھا لگا۔
بس ایک بار پھر رکی۔ اس نے وقت دیکھا۔ تین بج رہے تھے۔ اس نے ٹھیک کہا تھا۔۔ کھانے کا وقفہ ہوگیا تھا۔
مسافر جاگتے گئے اور نیچے اترتے گئے۔ ایک جانب کھانے کا بڑا ایریا تھا۔ وہ خالی میز دیکھتے ہوئے بیٹھ گیا۔ ارد گرد لوگ سوئیٹر اور مفلر میں خود کو لپیٹے ہوئے تھے۔
یوں بس کا سفر اس کا پہلا سفر تھا جو کہ اسے بہت عجیب اور بے آرام کر رہا تھا۔ ایک سیٹ پر بیٹھے بیٹھے گویا ٹانگیں ہی جم گئی تھیں۔
"آپ کی ٹرے۔" وہاں کام کرنے والا اس کے آگے کھانے کی ٹرے رکھ گیا۔ اس نے سرخ رنگ کی وہ ٹرے دیکھی جس کے ایک حصے میں دال اور سالن تھا اور ایک جانب چاول۔۔
"یہ کیا ہے؟" اس نے چاولوں کی جانب اشارہ کیا جو پوری طرح سے سفید بھی نہ تھے۔
"بریانی۔" اس لڑکے نے جواب دیا۔ تاثرات بدلے۔ وہ عجیب طریقے سے ان چاولوں کو دیکھنے لگا جو کہیں سے بھی بریانی نہیں لگتے تھے۔ یکدم ہی اسے اپنا کراچی یاد آیا۔
"ہم کراچی والے ہیں اور یہ سادے چاول نما بریانی ہمارے لیے بلکل نہیں۔۔" اسے بتول رضا کی آواز سنائی دی تو نظر اٹھا کر دیکھنے لگا۔ لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ بتول نے اسے پہلی بار مسکراتے دیکھا۔ وہ اب روٹی کو دیکھ رہا تھا جو امید سے زیادہ موٹی اور کچی تھی۔
وہ سوچنے لگا اسے کھانا ہے یا ابھی مزید بنانا ہے۔
عجیب کشمکش تھی۔
"اہاں نہیں شکریہ۔۔ اسے لے جاؤ۔ کیا مجھے ایک کپ چائے مل سکتی ہے؟" اس نے ایک آنکھ چھوٹی کرتے ہوئے لڑکے سے پوچھا۔
"چائے آپ کے مینیو میں نہیں ہے۔ اس کے پیسے لگیں گے۔" لڑکا بتانے لگا۔
"ٹھیک ہے۔ میرے لیے چائے لے آؤ۔" اسے آرڈر دیتے ہوئے وہ ارد گرد دیکھنے لگا جہاں ساری میزیں مصروف تھیں اور وہ لڑکی اس کے سامنے کھڑی تھی۔
اب بیٹھنے کا نہ کہتا تو کیا کرتا۔
"آپ بیٹھ سکتی ہیں۔" اس نے اشارہ دیا تو وہ مسکراتی ہوئی بیٹھ گئی۔
"سو مسٹر اجنبی! آدھا سفر ہی سہی مگر کیسا گزرا؟" لہجے میں اشتیاق تھا۔
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس پڑا۔
"میں ایسا تجربہ دوبارہ نہیں کرنا چاہوں گا۔" وہ آفس کے کام سے جب بھی دوسرے شہر گیا تو سفر جہاز کا ہی کرتا۔ مگر اس بار اس کی مجبوری تھی۔
"مجھے لگتا ہے یہ بہترین سفر ہے۔ انسان کو ہر حالات میں جینے کی عادت ہونی چاہئیے۔" اس نے اپنی کافی کا گھونٹ بھرا۔
"تو آپ بھی کھانا نہیں کھا رہیں؟"
"وہ چاول اتنے برے نہیں تھے اور نہ وہ روٹی اتنی بد ذائقہ تھی۔ بس ذرا سی کچی تھی۔"
"اور ذرا سی موٹی۔" وہ بات مکمل کر گیا۔ شاید وہ پہلے کسی سفر میں تجربہ کر چکی تھی اس لیے بتا رہی تھی۔
لڑکا چائے لے آیا۔
"میں ایک چائے کی پیالی پر ہی اکتفا کر سکتا ہوں۔" اس کا لہجہ سنجیدہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی وہ اس کی میز سے اٹھ گئی۔ نجانے کہاں چلی گئی تھی۔
وہ ٹھنڈ سے ٹھٹھرنے لگا۔ نجانے یہ کراچی اور لاہور کے درمیان کی کونسی جگہ تھی۔ منہ سے دھواں نکل رہا تھا۔ اس نے اپنی جیکٹ دوسرے بیگ میں رکھی تھی جو گاڑی کے نیچے والے حصے میں بند تھا۔ چائے کا گرم کپ لبوں سے لگاتے ہوئے اس نے خود کو پرسکون کیا۔
بالاخر چائے کی پیالی بھی خالی ہوگئی۔ اس نے سامنے چائے کی دکان کو دیکھا اور بیگ لٹکاتے ہوئے چائے کی پیالی لے کر دکان کی جانب بڑھنے لگا۔ والٹ سے پیسے نکال کر وہ ادا کر کے پلٹ ہی رہا تھا جب اسے جانی پہچانی ہنسی کی آواز سنی۔ بھلا جس ناک میں دم لڑکی سے وہ بھاگ رہا تھا اسے کیسے نہ پہچانتا۔
"اتنا مہنگا سوہن حلوہ؟ مجھے لگتا ہے سونے کے بھاؤ دے رہے تھے وہ بھائی صاحب۔" اس نے اپنی گاڑی کی ہی ایک مسافر کو نئی نئی سہیلی بنا لیا تھا۔ اب اس کے ساتھ مل کر ہنس رہی تھی۔
"یہاں تو بچوں کے کھلونے بھی اتنے مہنگے ہیں۔ میری خالہ زاد کے بچے پہلے ہی امید رکھ بیٹھے ہیں کہ پھپھو کھلونے لائیں گی مگر اب مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔" اسے آواز سنائی دی۔
"امید۔۔" اس کے لبوں نے جنبش کی۔
کھانے پینے کی دکان سے چند چیزیں خرید کر اپنے بیگ میں ڈالنے لگا۔
"کراچی جانے والی گاڑی تیار ہے۔" وہ آواز پر آگے بڑھ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"باتوں سے کافی اچھے شخص ہیں آپ۔" اس نے بتول کو کہتے سنا تو بے حد حیرانی سے اسے دیکھنے لگا۔ وہ لڑکی کبھی خاموش نہیں رہ سکتی تھی۔
"نہیں میں بلکل اچھا نہیں ہوں۔" وہ ہنس پڑا۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا۔ "آپ شاید مجھے پہچان نہیں سکیں۔"
"مجھے لوگوں کی پہچان رہتی ہے۔"
"لوگ مجھے خود سر اور انتہائی مطلبی شخص کہتے ہیں۔ کوئی بھی اچھا نہیں سوچتا پھر آپ کو اچھا کیسے لگ سکتا ہوں؟" وہ اس کی بات غیر سنجیدگی سے لیتے ہوئے بولا۔
"کوئی بھی ہمیشہ سے ایسا نہیں ہوتا۔ بس کچھ لوگوں کو ان کی زندگی کی کہانی موڑ دیتی ہے۔" اس کا لہجہ بے حد گہرا تھا کہ اس کے لیے سانس لینا دشوار ہوگیا۔ یہ ایک سچ تھا۔۔ ایک بھیانک سچ۔ وہ جیسے اس کا دماغ پڑھ رہی تھی۔
"لوگ آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ کون ہیں۔"
"نہیں۔۔ لوگ صرف اتنا بتاتے ہیں جتنا وہ جانتے ہیں۔ ہر انسان خود کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے۔ تو پھر اگر آپ خود کو کوئی نام دینا چاہیں تو وہ کیا ہوگا؟" چہرے سے وہ اتنی گہری نہیں لگتی تھی۔
اس نے لب بھینچ لیے جیسے خود میں جھانک رہا ہو۔
وہ خود کو کیا نام دینا چاہے گا۔۔
وہ خود کو کیا سمجھتا ہے۔۔
کیا وہ خود سر تھا؟
شاید نہیں۔۔
ایک ایسا شخص جسے ہر موقع پر دھوکا دیا گیا۔ اسے معاشرے کی آنکھ میں برا بنا دیا گیا۔ اور اب مطلبی۔۔
"آپ دوست بہت جلدی بنا لیتی ہیں۔" اس نے سیٹ نمبر انیس پر موجود لڑکی کو دیکھ کر کہا جو بتول کی اب دوست بن چکی تھی۔ وہ بات کو بہت آرام سے تبدیل کر گیا تھا۔
"ہم سب کو ایک ہم سفر چاہئیے ہے۔ میں نے بس چھوٹی سی کوشش کی تھی اور وہ میرے سفر کی ساتھی بن گئی۔" لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
"حالانکہ مجھے لگتا ہے کہ جتنے کم لوگ زندگی میں ہوں اتنا ہی صحت کے لیے اچھا ہے۔ ایسے میں انسان کسی سے امید نہیں رکھتا۔ وہ اپنی ذات میں رہتا ہے۔"
"ہر جاندار کو ان جیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ وہ گھٹ کر رہ جاتا ہے۔۔ آپ کی طرح۔" اس کے الفاظ تھے یا خنجر۔۔ اسے لگا جیسے وہ طنز کر رہی ہو۔
"میں گھٹ کر رہ رہا ہوں؟" وہ ہنسا۔ "میرے پاس سب کچھ ہے۔ مجھے گھٹ کر رہنے کی کیا ضرورت ہوگی بھلا۔" یہ کیا بے وقوفانہ بات کی تھی۔
"چیزیں گھٹن دور نہیں کرتیں۔ گھٹن تو دل کی ہوتی ہے۔" اس کے الفاظ کسی تیر کی طرح محسوس ہوئے۔
"یہ سب بے معنی باتیں ہیں۔" اس نے خود کو اس شکنجے سے نکالنا چاہا۔ "اور جب لوگ آپ سے کہیں کہ وہ آپ سے خوش نہیں؟ کیا اب بھی وہ شخص برا نہیں کہلایا جائے گا؟"
"لوگ تو کبھی خوش نہیں رہتے۔"
"ہاں اور وہ محنت بھی نہیں دیکھتے۔۔ انجام دیکھتے ہیں۔ جیت گیا تو بازی لے گیا اور ہار گیا تو اپنے کام کے ساتھ وفادار نہیں۔ محنت تو کہیں بھی نہیں ہوتی۔ سب رائیگاں چلا جاتا ہے۔" وہ جیسے سب باتوں کو اپنے حالات پر فٹ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"مگر ہم لوگوں کے لیے نہیں جیتے۔"
اب کی بار وہ اسے مکمل خاموش کر گئی۔ اس نے خود لاجواب محسوس کیا۔ طویل خاموشی پھیل گئی۔
بس ڈرائیور نے سفید لائٹ بند کرکے سرخ رنگ کی لائٹ جلادی تاکہ مسافر بنا تنگ ہوئے نیند پوری کر سکیں۔ اس نے ارد گرد دیکھا جہاں سب لوگ سو چکے تھے بس وہ جاگا ہوا تھا۔
بتول رضا بھی دوسری جانب رخ موڑ کر آنکھیں موند گئی۔
اس نے بغور دیکھا۔
بے حد عجیب لڑکی تھی۔
جانے کیوں اس کے ساتھ ہمدردی دکھا رہی تھی۔
بچپن میں ہی بچپن چھین لیا گیا تھا۔ زندگی کے ستائیس سال یونہی بیت گئے۔ چند سال معصومیت میں اور چند سال دھوکے کی زد میں۔۔
ماں کسی اور کے لیے چھوڑ گئی اور باپ نے خود کشی کرلی۔ جوانی میں جس سے محبت ہوئی وہ اسے اس بری طرح دھوکا دے گئی کہ وہ آج تک محبت کے نام سے نفرت کر آیا۔
سڑک بلکل سنسان اور کالے اندھیرے میں گھری ہوئی تھی۔ اسے باہر کچھ بھی نظر نہ آیا۔ نیند حاوی ہونے لگی تو اس نے آنکھیں موند لیں۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"ہم باہر جارہے ہیں۔" اس نے بتول رضا کو کہتے سنا۔
گاڑی پھر کسی اسٹاپ پر رکی ہوئی تھی۔ آنکھیں چندھیا کر کھولتے ہوئے اس نے باہر کھڑکی کے پار دیکھا۔ روشنی پھیل چکی تھی۔ آسمان پر پھیلی شفق نے منظر کو دلکش بنایا ہوا تھا۔ لمحے بیت گئے مگر اس کی نگاہیں سراب نہ ہوسکیں۔ آنکھیں پھیلائے وہ بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔ سورج کی آمد آمد تھی۔
اس نے گردن پھیر کر وہ سادہ سا چہرہ دیکھا جس کی آنکھیں اسی پر مرکوز تھیں۔۔
"آپ آنا چاہیں گے؟ سورج طلوع ہونے والا ہے۔" وہ اسے آفر دے رہی تھی۔ گود میں رکھا لیپ ٹاپ بیگ تھامے وہ چار و ناچار اٹھ کھڑا ہوا۔ کیونکہ اسے 'ناں' کہنے کا مطلب لاجواب ہونا تھا۔
وہ یقیناً اسے منانے کے لیے کچھ نہ کچھ بول اٹھتی۔۔
اللہ کی زمین پر قدم رکھتے ہوئے وہ خود کو فریش محسوس کرنے لگا۔ ایک گہری سانس اندر لیتے ہوئے اس نے خود کو سکون بخشا۔
مرد بیت الخلا کی جانب بڑھ رہے تھے اور وہی تھا جو بس اپنی جگہ پر کھڑا تھا۔ اس نے بتول کو کھوجا مگر وہ بھی نماز کی ادائیگی کے لیے عورتوں کے بنائے سیکشن میں چلی گئی تھی۔
وہ تنہا یہاں کیا ہی کرتا۔۔ مردوں کے پیچھے چلا گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
خدا کے آگے سجدہ کرتا ہوا وہ ایک نئے احساس سے دوچار ہوا۔ یہ احساس کتنا بھلا تھا۔ جانے یہ کیا بات تھی۔ اسے اپنا یوں موجود ہونا برا نہ لگنے لگا۔ خود کو تر و تازا محسوس کرتے ہوئے وہ بے حد مطمئن تھا۔
دل کا بوجھ دبنے لگا۔
کوئی بھی پریشانی بڑی نہ محسوس ہوئی۔
خود کے بارے میں اتنا منفی سوچنے والا وہ شخص اب خود کو بہت ہلکا پھلکا اور اچھا محسوس کر رہا تھا۔
اس لڑکی کی باتیں سحر تھیں جو اس کے دماغ پر اپنا قبضہ جما رہی تھیں۔ منفی سوچوں کو باہر نکال رہی تھیں۔
کیا وہ واقعی زندگی سے خوش لڑکی تھی؟ یا کوئی غم اس کے پاس نہ تھا؟
اسے صبح کا یہ وقت اچھا لگنے لگا تو اٹھ کر باہر آگیا۔ سورج کی ہلکی سی جھلک نظر آئی۔ ایک مناسب جگہ دیکھ کر وہ وہیں بیٹھ گیا۔ ماحول میں ٹھنڈک برقرار تھی۔ سورج بہت آہستگی سے ابھر رہا تھا۔ بلکل ویسے جیسے اس کے دل میں جینے کی کرن نمودار ہورہی تھی۔
"یہ منظر بہت خوبصورت ہے۔" اس نے بتول کو کہتے سنا۔ وہ اس کے پیچھے فاصلے سے کھڑی تھی۔
ویسی ہی جیسی وہ پہلے تھی۔۔ چادر میں خود کو مکمل محفوظ کیے۔
"آپ بیٹھ سکتی ہیں۔" جگہ کافی بڑی تھی۔ وہ مزید کنارے پر ہوگیا۔ دونوں کے درمیان چار لوگوں کا فاصلہ تھا۔ بس کے کچھ اور مسافر بھی باہر تھے جیسے اس خوبصورت منظر سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہوں۔
"آپ جینے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟" اس نے چہرہ دیکھا۔ وہ مسکرا دیا۔
"جی تو رہا ہوں۔"
"سانس لینے کو جینا نہیں کہتے مسٹر اجنبی۔"
"سکندر۔۔ سکندر کہتے ہیں مجھے۔۔" بلآخر اس نے اپنے نام سے آگاہ کیا۔ پہلی بار اس کا دل چاہا کہ وہ بتول رضا سے بات کرے۔
"نام کافی اچھا ہے۔" وہ ہنس دی۔
"مگر مجھے نہیں لگتا کہ آپ کو پسند آیا ہے۔ اگر آیا ہوتا تو آپ ہنستی نہیں۔" اس نے خود سے ہی اخذ کر لیا۔
"آپ کی ذات کا منفی پہلو ایک یہ بھی ہے کہ آپ خود سے باتیں سوچ لیتے ہیں۔ مجھے آپ کا نام پسند آیا تھا۔۔ سوچ رہی تھی کہ سکندر ہو کر بھی آپ زندگی سے اتنا مایوس ہیں۔"
"ضروری نہیں کہ نام کا ذات پر اثر پڑے۔" وہ بول اٹھا۔
سورج آدھے سے زیادہ آسمان کو اٹھ گیا تھا۔ وہ بے حد انہماک سے سورج کو دیکھ رہی تھی۔ اپنی بڑی آنکھیں پوری کھول اس نے آسمان پر ٹکالیں۔
اور سکندر بتول رضا کو دیکھ رہا تھا۔
کوئی انسان اتنا مثبت کیسے ہوسکتا تھا۔
ہر چھوٹی چھوٹی چیزوں میں خوشیاں تلاش کر ان سے لطف اندوز ہونے والی بتول رضا واقی ایک عجیب لڑکی تھی۔
اس نے پلٹ کر دیکھا کہ کہیں بس نہ نکل جائے۔
مگر نہیں۔۔ بس کا شاید کوئی کام نکل آیا تھا جسے بس ڈرائیور اور اس کے ساتھی مکمل کر رہے تھے۔
"میں نے آخر بار یوں سورج نکلتے دو ماہ پہلے دیکھا تھا۔" اپنے ہی خیالات میں کھوئی وہ اسے بتانے لگی۔
"اور میں نے دو سال پہلے۔۔" وہ ہنس پڑا۔ "کبھی اتنا اشتیاق نہیں ہوا کہ یوں سورج کو بیٹھ کر تکا جائے۔" اس نے سر جھٹکا۔
"سورج اب بھی اتنا ہی خوبصورت معلوم ہوتا ہے جتنا پہلے ہوا کرتا تھا۔"
لہجہ معنی خیز تھا۔
غموں کے آجانے سے دوسری خوشیاں ختم تو نہیں ہو جاتیں۔ جذبات مر تو نہیں جاتے۔۔
"آپ کی زندگی کتنی پرفیکٹ ہے۔ شاید اس لیے یہ مثبت باتیں آپ پر جچتی ہیں۔ جن کی زندگی میری طرح ہو وہ کبھی آپ کی طرح نہیں سوچتے۔"
وہ ہنس پڑی اور سکندر اس کی ہنسی پر مبہوت رہ گیا۔۔
سورج کی کرنیں اس کے چہرے پر پڑ رہی تھیں۔
"سکندر صاحب میں نے کہا تھا نا آپ خود سے ہی سب کچھ سوچ لیتے ہیں۔ اپنے گھر کی ایک آخری فرد ہوں جو اس دنیا میں باقی ہے۔ پچھلے ماہ اپنے باپ اور بھائی کو حادثے میں کھو بیٹھی تھی۔" اس کا چہرہ پھیکا پڑنے لگا۔ سکندر کو دھچکا لگا۔ اس کا چہرہ، اس کی باتیں یہ تو نہ بتلاتی تھیں۔
"آئم۔۔ آئم س۔سوری۔۔" وہ شدید بوکھلایا ہوا تھا۔
"اس کی ضرورت نہیں۔۔" بتول مسکرا دی۔
"پھر یہ سفر کس لیے؟"
"ہمارا لاہور میں ایک بڑا گھر تھا۔ ابا اور چچا کی وراثت۔۔ اس میں ہمارا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا چچا کا۔۔ ابا اور بھائی کے انتقال کے بعد میں نے اپنے لیے جائیداد کا تقاضا کیا تو چچا نے طیش میں انکار کردیا۔ انہوں نے احساس دلایا کہ بن باپ کی اولاد ہونا کیسا ہوتا ہے۔ مجھے اب بس ایک چھت چاہئیے جو اس سفر کے بعد ہی ملے گی۔ اب ایک رشتے کی خالہ ہیں جنہوں نے مجھ پر رحم کھایا ہے۔ مجھے وہ بے حد عزیز ہیں۔ انہی کے پاس جا رہی ہوں۔" وہ بول چکی تو خاموش ہوگئی۔ سکندر کا چہرہ ساکت رہ گیا۔ یہ سب ناقابل یقین تھا۔ اس سب کے باوجود بھی وہ زندگی سے بھرپور کیسے ہوسکتی تھی؟
"برا وقت تو ہر کسی پر آتا ہے۔ انسان جینا نہیں چھوڑ سکتا سکندر صاحب۔۔" لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
"میں معافی چاہتا ہوں۔" اسے بے جا شرمندگی ہوئی۔ نگاہ سامنے ڈالی تو سورج پورا ظاہر ہوچکا تھا۔
"اس کی ضرورت نہیں۔۔ میں جان گئی ہوں کہ آپ نے اذیت کے دن کاٹے ہیں۔"
وہ استہزایہ ہنسا۔
"میں نہیں جانتا کہ ہم دونوں میں سے کس کا غم زیادہ بڑا ہے مگر ہر انسان کے لیے اس کی مشکل زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ بس کو چلنے میں پانچ منٹ باقی تھے۔ بتول رضا بھی اٹھ کھڑی ہوئی کہ اب دوبارہ سفر جاری رکھنے کا وقت تھا۔
"سفر ختم ہونے کو ہے۔ اس کے بعد ہمارا آخری اسٹاپ ہے پھر ہم سب اپنی اپنی منزلوں پر رواں ہوجائیں گے۔" اس نے اطمینان سے بتایا۔
لیکن یہ بات اس کے لیے ایک عجیب سکون کا باعث تھی کہ بتول اور وہ ایک شہر کے باسی تھے۔
"آپ کے لیے وہ آخری اسٹاپ ہوگا۔ میری وہ منزل ہے۔ اس سفر کا اختتام۔" اپنا بیگ کندھے پر ڈالتے ہوئے وہ اس کے پیچھے بس کی جانب بڑھ رہی تھی۔
یہ بات سکندر کو ٹھٹکنے پر مجبور کر گئی۔ اس نے پلٹ کر بتول کو دیکھا جو پیچھے پیچھے آرہی تھی۔
"اگلا اسٹاپ حیدرآباد کا ہے۔" سکندر کو لگا جیسے اسے یاد نہ ہو۔
"ہاں اور حیدرآباد میں ہی میری خالہ رہتی ہیں۔" وہ مسکراتے ہوئے اس کو بتانے لگی مگر وہ تو جیسے ٹھہر گیا تھا۔ اسے خود دل کی حالت سمجھ نہ آسکی۔ وہ کیوں اتنا برا محسوس کر رہا تھا۔۔ ایک کمی سا۔۔ ادھورا پن سا۔۔
اسے یاد تھا سفر کے آغاز میں وہ اس لڑکی سے کتنا اکتایا ہوا تھا اور کی خاموشی کا طلبگار تھا۔ مگر اب یہ سوچ کر ہی وحشت ہورہی تھی کہ اسے ایک اسٹاپ کا سفر تنہا ہی گزارنا پڑے گا۔
وہ سوچنے لگا کہ لاہور سے نکلتے ہوئے وہ اس سفر کو کتنا طویل سمجھ رہا تھا۔
کیا یہ سفر اتنا ہی مختصر تھا؟
کاش کہ سفر طویل ہوتا جائے اور منزل دور ہوتی جائے۔۔
"سب ٹھیک ہے سکندر صاحب؟" اس نے گہرائی سے سکندر کا چہرہ دیکھا۔ وہ نا سمجھنے والی کیفیت میں مبتلا تھا۔
"ج۔جی۔"
وہ مسکرا دی۔ یکدم ہی دوسری جانب سے اسے ایک لڑکی نے آواز دی۔
"بتول۔۔" ہاں یہ وہی لڑکی تھی جو اس کی نئی نئی سہیلی بنی تھی۔ وہ اسے عورتوں کے سیکشن میں بلا رہی تھی۔ بتول نے ایک نظر سکندر کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
"میں آتی ہوں۔" وہ چلی گئی اور سکندر بوجھل ہوتے دل کے ساتھ بس کی جانب بڑھ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"سیٹ نمبر پانچ کا پیسنجر ناموجود ہے۔" بس ہوسٹس گنتی کر رہی تھی۔ اس نے آنکھیں کھول کر برابر خالی سیٹ کو دیکھا۔ یکدم ہی بس میں سیٹ نمبر پانچ کا پیسنجر چڑھا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
"سب موجود ہیں؟" اس نے آخری بار پوچھا۔ بس ہوسٹس دوبارہ گنتی کرنے لگی۔ سکندر نے کھڑکی سے باہر ارد گرد نگاہ ڈالی۔ وہ کہاں تھی۔۔ ہاں وہ شاید اپنی سہیلی کے ساتھ تھی۔ اس نے کچھ کھڑے ہوکر گاڑی کے دروازے کی جانب دیکھا جہاں ایک لڑکی چڑھی تھی۔ وہ انتظار کرنے لگا کہ کب بتول رضا کا چہرہ نظر آئے گا۔
"آپ کی سیٹ کا نمبر؟" بس ہوسٹس کی آواز ابھری۔
"انیس۔"
یہ وہی بتول رضا کی سہیلی تھی۔
سکندر کو فکر ہوئی۔ اسے ایک عورت کی فکر ہو رہی تھی۔
یہ بات اس کے لیے ناقابل یقین تھی۔ وہ پرواہ کر رہا تھا۔۔
"پیسنجرز مکمل ہیں؟ میں ایک بار پھر گنتی کرلیتی ہوں۔" ابھی بس ہوسٹس نے بتایا ہی تھا کہ سکندر بول اٹھا۔
"سیٹ نمبر بائیس کی پیسنجر یہاں موجود نہیں۔" اس کا دل چاہا کہ گاڑی سے اتر کر اسے تلاش کرے۔ مردانہ گھمبیر آواز مزید بھاری ہوئی۔ ابھی اس کا کہنا ہی تھا کہ بس کی سیڑھیاں چڑھ کر کوئی اوپر آیا۔
"میں آگئی۔ سیٹ بائیس کی پیسنجر۔" اس نے ایک نظر ہوسٹس کو دیکھا تاکہ اپنی موجودگی درج کروا سکے اور سکندر کو دیکھتی ہوئی سیٹ پر آبیٹھی۔
"تھینک یو۔" وہ مسکرا رہی تھی۔ ہاتھوں میں سفید پھول تھا۔
"کس لیے؟" اسے جاننے کا اشتیاق ہوا۔
"آپ نے میری نا موجودگی کو محسوس کیا۔ مجھے عمارت کے پیچھے یہ پھول مل گیا تھا۔ دل کو اتنا بھا گیا کہ اسے توڑ لائی۔" سورج کی روشنی کی وجہ سے اسے سکندر کی بھوری آنکھیں مزید ہلکے رنگ کی نظر آنے لگیں۔ وہ محض اثبات میں سر ہلا گیا۔
بس ایک بار پھر آگے بڑھنے لگی۔ ہوا کو چیرتے ہوئے سب سے آگے۔۔ سب سے پہلے۔۔ ہرے بھرے کھیت اور گھنے درختوں نے توجہ کھینچی۔ اس نے دور ایک چھوٹی جھونپڑی دیکھی۔ منظر شاندار تھا مگر دل کی حالت پہلی جیسی نہیں تھی۔ اسے سفر اچھا لگ رہا تھا۔
"آپ کو اپنی ماں سے ملنے کی بھی خوشی نہیں؟"
"میری ماں نہیں ہے۔"
"اوہ معذرت۔۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ۔۔" نجانے کیا سمجھتی بتول رضا اسے ہنسنے پر مجبور کر گئی۔
"وہ حیات ہیں۔۔ بس میرے ساتھ نہیں ہیں۔ چھوٹا تھا جب چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔"
وہ کافی حیران ہوئی۔
"اوہ۔۔ آپ کو یاد تو آتی ہوگی۔"
"چھوٹا تھا تو تب آتی تھی۔ اب نہیں آتی۔۔ ذرا بھی نہیں۔"
پیشانی پر ابھرتی لکیروں میں اضافہ ہوا۔
جب غم نہیں تھا تو کس بات کا غم تھا۔۔
"آپ نے مجھے اپنی باتیں کیوں بتائیں؟" وہ پوچھنا چاہتا تھا۔ ایک تجسس سا تھا۔ کوئی بھلا ایک اجنبی کو اپنے حالات کیسے بتا سکتا تھا۔ "آپ کو ڈر نہیں؟"
"مجھے کس بات کا ڈر ہونا چاہئیے؟ جب آپ کو کوئی سننے والا نہ ہو تو آپ کسی اجنبی مسافر کو اپنی سنا سکتے ہیں۔۔ دل ہلکا کرنے کے لیے یہ ایک بہترین طریقہ ہے۔ سفر تو وقتی ہے۔۔ منزل آنے پر سب لوگ اپنے اپنے راستے چلے جائیں گے۔ ایک دوسرے سے کبھی نہ مل سکیں گے۔ آپ کو سننے والا مسافر بھی غائب ہو جائے گا۔ پھر کسی کو بھی آپ کی باتیں یاد نہیں رہیں گی۔" وہ اسے غور سے سن رہا تھا۔ باعث حیرت یہ کہ اس نے آج سے قبل کسی عورت کی باتوں کو اتنی غور سے نہ سنا تھا۔
سکندر نے اپنے دل میں بار محسوس کیا۔ کاش وہ بھی اس کی طرح ہوجائے اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کردے۔
"مجھے امید ہے کہ ایک دن میں اپنی منزل پالوں گی۔" اس نے بیگ سے ایک چھوٹی پرچی نکال کر کھولی۔ اس پر گھر کا نمبر اور پتہ درج تھا۔ یہ شاید اس کی خالہ کے گھر پتہ تھا۔ مگر وہ جانتا تھا کہ جس منزل کی وہ بات کر رہی ہے وہ اس کی خالہ کا گھر نہیں ہے۔۔ وہ ایک محفوظ منزل ہے۔
"جو دل کے اچھے ہوتے ہیں دنیا بھی ان کی ہوتی ہے۔" لہجے میں صداقت تھی۔ وہ بولے بنا نہ رہ سکا۔
"پھر تو دنیا آپ کی بھی ہے سکندر صاحب!"
وہ ہنس پڑا۔
"اب آپ غلطی پر ہیں محترمہ۔" اب کی بار وہ پکا اسے اپنی بات سے ہرائے گا۔ وہ ہر بار کی طرح اس کی بات کو غلط قرار دے رہی تھی۔
"خود کو معاف کرتے رہنا چاہئیے سکندر۔ دنیا آپ کی غلطیاں گنوانے کے لیے پہلے ہی موجود ہے۔ ہمارا سب سے بڑا دشمن ہم خود ہیں۔ ہم خود کو اپنی غلطیوں پر معاف نہیں کرتے۔"
سکندر اب کی بار ششدر رہ گیا۔ وہ حیران تھا۔ اس کے ماضی پر مرہم بہت نرمی سے لگایا گیا تھا۔ وہ کیا عجیب لڑکی تھی۔ جادوگرنی۔۔ اسے اپنی باتوں کے قابو میں کر رہی تھی۔
"اور میں خوش ہوں کہ مجھے پچھتاوے نہیں۔"
"پچھتاوے عمر کھا جاتے ہیں۔" بے ساختہ بول اٹھا۔
"اکثر جہاں ہماری غلطی نہیں بھی ہوتی مگر ہم خود کو ذمہ دار ٹھہرا جاتے ہیں۔"
سکندر کی دنیا ہی ساکت رہ گئی۔
"ہمیں اپنے ساتھ ہوئیں تمام زیادتیاں یاد رہتی ہیں حالانکہ ہماری زندگی میں ایسے خوشگوار لمحات بھی ہوتے ہیں جنہیں ہم یاد نہیں رکھتے۔۔ بس برے وقت یاد رہ جاتے ہیں۔ ہمیں اچھے وقتوں پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہئیے۔"
اس نے پہلی بار یہ سنا اور اسے دل پر محسوس کیا۔
ہم صرف دوسروں کو معاف کرنے کے بارے میں سوچا کرتے تھے۔۔ خود کو معاف کرنے کی باری کب آئے گی؟ یہ کسی کا ذہنی توازن برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھا۔
"آپ کو۔۔" وہ ذرا ہچکچایا۔ "کبھی ایسے شخص نے دھوکا دیا جس سے آپ کو محبت ہو؟" شاید وہ محبت میں ہاری ہوئی تھی تب ہی ایسی باتیں کر رہی تھی۔ انسان کے پاس غم کا سامان ہو تو ہی وہ ان باتوں کو گہرائی سے سوچتا ہے۔
اس کی بات پر وہ ہنس دی۔
"نہیں۔ میں نے محبت ہی نہیں کی۔ آپ کو؟"
خاموشی پھیل گئی۔
"ہاں۔ ایک بار۔" وہ گم صم لہجے میں بولا۔ "مگر وہ سب دھوکا تھا۔" دوسرے ہی پل وہ ہنس دیا۔ "ایک فریب۔۔ میں بیس سال کا تھا جب دوسرے محلے کی ایک لڑکی اچھی لگنے لگی تھی۔" وہ مختصراً بتا کر خاموش ہوگیا۔
"پھر؟" اسے شاید تجسس ہوا تھا۔ وہ اپنی زندگی کا راز بتا رہا تھا۔۔ ایسا راز جس کے بعد وہ نہ خود کو معاف کر سکا نہ معاشرے کو۔۔
"مجھے لگتا تھا کہ اسے بھی مجھ سے محبت ہے مگر یہ مکمل جھوٹ تھا۔ میں تو اس کے لیے محض اس کی منزل کا راستہ تھا۔ مجھے سب جانتے تھے مگر اس تیسرے شخص کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ حتی کہ میں بھی نہیں۔۔" ایک گہری سانس لینے کو رکا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ ان باتوں کو اب بھی سوچا کرتا تھا۔ بلکہ اب تو اسے خود پر ہنسی آتی تھی۔ ایک عورت کے لیے کتنا بے وقوف بن گیا تھا۔ "وہ جس سے شادی کرنا چاہتی تھی وہ اس کے جوڑ کا نہیں تھا۔ ماں باپ راضی نہ ہوئے تو اس نے مجھے اپنی باتوں میں گھیر لیا۔ ماں باپ کے ظلم کا قصہ سنایا کرتی تھی۔ پاگل تھا میں۔۔ باتوں میں آگیا۔ وہ جانتی تھی میں اسے پسند کرتا ہوں اس لیے فائدہ اٹھا رہی تھی۔" وہ تمسخرانہ انداز میں بول رہا تھا۔ "ایک دن مجھ پر بدکرداری جیسا گھٹیا بہتان لگا کر خود کو بے قصور بنا گئی۔ مجھے یاد ہے وہ دن۔۔" اس نے تھوک نگل کر دوسری جانب دیکھا۔ "اس نے مجھے کتاب لینے کے بہانے بلایا تھا۔ میں دروازے سے لوٹا کر پلٹنے والا تھا جب اس نے چیخ کر رونا شروع کردیا۔ مجھے یاد ہے کتنا ڈر گیا تھا میں۔۔" بتول رضا کی نگاہیں ٹھہر سی گئیں۔ "جب تک کچھ سمجھ میں آتا اس نے سب کو اکھٹا کر لیا۔ جھوٹ گھڑنے لگی کہ میں نے اس پر گندی نظر رکھی۔ مجھے اپنے جسم پر وہ نشان اب بھی نہیں بھولتے۔ مگر دل پر لگے نشان زیادہ گہرے ہیں۔" وہ مسکرا رہا تھا اور بتول رضا اس کو اپنی لرزتی پلکوں سے دیکھ رہی تھی۔
"وہ لاہور شفٹ ہوگئی تھی۔ آج واپسی کے سفر میں' میں نے اسے کئی سالوں بعد دیکھا۔ ماضی کی تلخیاں تازہ ہوگئیں۔"
وہ خاموش رہی کہ الفاظ نہ مل پائے۔
طویل خاموشی محسوس کرتے ہوئے سکندر نے اس کے چہرے کے تاثرات نوٹ کیے۔ وہ تلخی سے مسکرایا اور سر جھٹک کر باہر دیکھنے لگا۔
"مجھے یہ سب نہیں بتانا چاہئیے تھا۔ اب آپ بھی وہی رائے رکھنے لگیں گی جو میرے بارے میں لوگ رکھتے ہیں۔" ماضی نے اسے سنجیدہ بنا دیا تھا۔ وہ اب لوگوں کے درمیان مطلبی اور خود سر تھا۔۔ جو صرف اپنے فائدے کے لیے کام کرتا۔
"نہیں ایسا نہیں ہے۔۔ میں بس سوچ رہی ہوں کہ۔۔" وہ ٹھہری۔ "میرے لیے یہ سب سننا کتنا مشکل ہے اور پھر آپ نے یہ سب برداشت کیا۔ اس الزام سے اسے کیا فائدہ ہوا؟"
"فائدہ؟ اس کا نقصان کیا ہوا؟ جو گھر والے پہلے اس شخص سے شادی نہ کروانا چاہتے تھے وہ اب اس ڈر سے مان گئے کہ ان کی بیٹی سے اب شادی ہی کون کرے گا۔ وہ اب خوش ہے۔ دو بچوں کی ماں ہے۔ عجیب ہے نا؟ وہ غلط کر کے بھی کتنی خوشی سے رہ رہی ہے۔۔ اور کچھ نہ کر کے بھی میں بے سکون ہوں۔ ویسے بھی یہ باتیں بہت پرانی ہیں۔ میں اس واقعے کو تقریباً بھول چکا ہوں۔" اس نے کندھے اچکائے۔
"خود سے کوئی شکایت؟" لہجہ سنجیدہ تھا۔
"مجھے اس کی باتوں میں نہیں آنا چاہئیے تھا۔ مجھ سے غلطی ہوگئی۔" اس نے گہری سانس بھری۔
"خود کو معاف کردیں۔۔" اس کی آواز میں نرمی تھی اور وہ ہنستا رہ گیا تھا۔
"بھلا وہ کیسے؟ میں نے کہا نا میں ان باتوں کو سوچتا نہیں۔۔ پھر کیوں خود کو معاف کرنے کی نوبت آئے گی۔"
"خود کو احساس دلائیں کہ آپ سے جو ہوا اس میں آپ کا قصور نہیں۔ آپ خود کو معاف کریں۔۔ جو ہوا سو ہوا۔ پچھتاؤوں کے لیے یہ عمر بہت چھوٹی ہے سکندر۔ خود کی غلطیاں در گزر کرنا سیکھ لیں۔ غلطیوں سے سیکھیں۔ نہ کہ انہیں سارے زندگی پچھتاوے کی صورت یاد رکھیں۔"
وہ پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند گیا۔
اس کی باتیں اثر رکھتی تھیں۔
"سفر ختم ہونے والا ہے۔۔ اس کے بعد ہم سب کے راستے الگ ہیں۔ کون کہاں جائے گا کوئی جان نہ سکے گا۔" وہ گہری باتیں کرتی تھی۔ مسکرا رہی تھی۔
اس کی سیاہ آنکھوں میں کوئی بات ضرور تھی۔
دونوں کے درمیان آدھے گھنٹے کی طویل خاموشی چھا گئی۔ وہ خود کی زندگی پر غور کرنے لگا۔ بتول رضا کی باتوں کو اپنے حالات سے جوڑ کر خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔
آدھے گھنٹے بعد اس کی کسی ہلچل پر آنکھ کھلی۔ سفر کی نیندیں تو پھر ایسی ہی ہوا کرتی ہیں۔ وہ لڑکی بیگ میں کچھ کھنگال رہی تھی۔ اس کی یوں آنکھ کھلنے پر وہ شرمندہ ہوئی۔
"معافی چاہوں گی۔ میری وجہ سے آپ کی نیند ٹوٹ گئی۔"
"آپ معافی مانگ کر مجھے شرمندہ نہ کریں۔" اسے یوں اس کا معذرت کرنا دل کو اچھا نہ لگا۔ "کچھ ڈھونڈ رہی ہیں؟"
"ہاں بس اپنا بسکٹ ڈھونڈ رہی ہوں۔ حیدرآباد آنے میں آدھا گھنٹہ مزید ہے اور میری بھوک ناقابل برداشت ہے۔" وہ ہنس کر بتانے لگی تو سکندر بھی مسکرادیا۔
اس عجیب سی مسافر میں ایک عجیب سی کشش تھی۔
اس نے اپنا بیگ کھول کر بسکٹ کے دو پیکٹ نکالے اور اس کی جانب بڑھائے۔ وہ شرمندہ ہونے لگی۔
"نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ آپ کا شکریہ۔ میں آدھا گھنٹہ انتظار کر سکتی ہوں۔" تیزی سے سیدھا ہو کر بیٹھتے ہوئے اس نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا لیا۔
"یہ میں نے رات تین بجے والے اسٹاپ سے خریدا تھا اور سچ کہوں تو مجھے اس کی ضرورت نہیں۔۔ ویسے بھی گھر پہنچنے کے بعد میں اپنے ملازم کے ہاتھ کا بہترین ناشتہ کرنے والا ہوں۔" آخری بات کہتے ہوئے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ آج ایک کامیاب انسان تھا۔ اپنے ماضی سے سیکھ کر خود کو ایک مالی طور پر مضبوط انسان بنا چکا تھا۔ ایک پرائیوٹ جاب اور اچھی سیلری۔۔ یہ سب ہی تو اس کی ضرورت تھی۔ اسے خود سے امید تھی کہ چند سالوں بعد وہ خود کا کاروبار بھی کرے گا۔
"آپ کا شکریہ۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں اس سفر کو بھول پاؤں گی۔ مجھے آپ ہمیشہ یاد رہیں گے۔"
وہ اتفاق کرتا تھا۔ مسکرا دیا۔ دل چاہا کہ اپنے خیالات کا بھی اظہار کرے مگر ہمت نہ ہوئی۔
اب اسے خبر ہوئی کہ ہر عورت ایک سی نہیں ہوتی۔۔ بلکل ویسے ہی جیسے ہر مرد ایک سا نہیں ہوتا۔
ہر عورت دھوکے باز نہیں ہوتی۔۔ اور نہ وہ مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔۔ کچھ بتول رضا جیسی ہوتی ہیں۔ سادی سی مگر خاص۔۔ انمول!
ایک جادوگرنی۔۔ جو اپنے الفاظوں کا جادو چلاتی تھی۔
اس نے کبھی کسی کی باتوں کو اتنا سنجیدگی سے نہ لیا تھا جتنا وہ اس لڑکی کی باتوں کو لے رہا تھا۔
سفر ختم ہورہا تھا اور سکندر کے دل کی وحشت ایک عجیب طرح سے بڑھ رہی تھی۔
"معزز خواتین و حضرات۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم حیدرآباد اسٹاپ پر ٹھہریں گے۔ وقفہ محض دس منٹ کا ہوگا۔ براہ مہربانی اپنے اہم ساز و سامان کی خود حفاظت کریں۔ کسی بھی دوسری صورتحال میں عملہ ذمہ دار نہ ہوگا۔"
مائیک پر اعلان ہونے لگا۔
وہ لڑکی اپنی چادر درست کرنے لگی۔
سکندر نے خود کو بے آرام محسوس کیا۔
وہ لڑکی جس کی موجودگی سے وہ آغاز میں تنگ تھا۔۔ اب اس کے لوٹنے پر لب کاٹ رہا تھا۔
جس کی باتیں دل موہ لینے والی تھیں۔
جس کا دل خوبصورت تھا۔
بالاخر گاڑی رک گئی۔ چند مسافر کھلی فضا سے لطف اندوز ہونے اٹھ کھڑے ہوئے جبکہ چند نے گاڑی سے اترنا مناسب نہ سمجھا۔
اس نے بتول رضا کو اپنا سامان سنبھالتے ہوئے اٹھتے دیکھا۔ کیا وہ اسے خدا حافظ نہیں کہنے والا تھا؟ وہ گردن پھیر کر سکندر کو دیکھنے لگی جس نے نگاہ کھڑکی سے باہر کی ہوئی تھی۔ وہ چند لمحے تکتی رہی۔
کیا یہ اس کی سنگ دلی تھی؟
"خدا حافظ۔" نرمی سے کہتے ہوئے وہ آگے بڑھ کر بس سے اتر گئی۔ سکندر نے دل میں عجیب ہڑبڑی محسوس کی۔
آخری ملاقات۔۔
ایک آخری نظر۔۔
اس نے خود پر قابو رکھنا چاہا۔
بس ڈرائیور کا ساتھی گاڑی کے نچلے حصے سے بتول کا سامان نکال رہا تھا۔
"وہ بھورے رنگ کا بیگ۔۔" اس نے نشاندہی کی۔
"اور کوئی سامان؟" بیگ نکال کر سامنے رکھتے ہوئے وہ مزید پوچھنے لگا۔
"جی نہیں شکریہ۔" اس نے سر کا ڈوپٹہ مزید آگے کیا جو پیچھے کو کھسک رہا تھا۔ پیشانی پر مسافت کی لکیریں موجود تھیں۔ ایک دنیا وہ تھی جسے وہ پیچھے چھوڑ کر آرہی تھی۔۔ ایک دنیا یہ تھی جس کی جانب وہ بڑھ رہی تھی۔ جہاں اسے اپنے مستقبل کا اندازہ بھی نہیں تھا۔
زندگی کا ایک نیا رخ دیکھنے کے لیے وہ تیار کھڑی تھی۔۔ مگر لبوں پر مسکراہٹ تھی۔
وہ مسکراہٹ جو کبھی بھولتی ہی نہیں۔
اس نے بیگ اٹھایا اور مڑنے لگی جب مردانہ گھمبیر پکار پر ٹھہر سی گئی۔
"خدا حافظ۔" وہ بس سے تیزی سے اتر کر آیا تھا اور اب دو لفظ کہے بے چین سا معلوم ہوتا تھا۔ اب کی بار بتول رضا مسکرائی تو مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
"سفرکا اختتام ہوا سکندر صاحب۔۔"
"مجھے ایک لڑکی یاد رہے گی۔" لہجہ دل موہ لینے والا تھا۔
"سیٹ نمبر بائیس یاد رکھے گا۔" اس کی بات پتھر پر لکیر تھی۔
اس کا لب و لہجہ محسوس کرتا سکندر اسے دیکھنے لگا۔
"کچھ باتیں جو ہمارے درمیان ادھوری رہ گئی تھیں۔۔" بتول نے بولنا شروع کیا۔ "یہ سفر میرا پہلا سفر تھا۔" اس کی بات نے سکندر کو حیران کیا۔ کیا واقعی یہ سچ تھا؟ پھر اسے اتنی معلومات کیسے تھی۔۔ "آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پھر مجھے وہ باتیں کیوں معلوم تھیں جس سے میں نے آپ کو آگاہ کیا تھا۔ میرا بھائی مجھے ہمیشہ سفر کے قصے سناتا تھا۔ میں سفر کی شوقین ہوں مگر کبھی موقع نہ ملا تو اس سے ہی سن کر خوش ہوجایا کرتی تھی۔ مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ جب سفر کرنے کا شوق پورا ہوگا تب حالات ایسے ہوں گے۔۔"
"واقعی۔۔" وہ مزید کچھ نہ کہہ سکا۔
"کل رات وہ بریانی اتنی بری نہیں تھی۔۔ روٹی زیادہ کچی نہیں تھی اور سالن اتنا پھیکا نہیں تھا۔ ہمیں زندگی میں ہر چیز پلیٹ میں سجا کر نہیں ملتی سکندر صاحب۔ کوشش کریں کہ ہر طرح کے حالات میں خود کو فٹ کریں۔ زندگی باپ کی جاگیر نہیں۔۔ ہر طرح کے لوگ اور ہر طرح کے حالات کے لیے خود کو تیار رکھنا پڑتا ہے۔" وہ اس سے آخری کے پانچ منٹ گفتگو کرنا چاہتی تھی اور وہ بڑے انہماک سے اسے سن رہا تھا۔
"اس پورے سفر میں مجھے سننے کے لیے آپ کا شکریہ۔ ہوسکے تو اس مسافر کو یاد رکھیے گا۔" وہ ہنستی ہوئی وہاں سے گزر گئی اور سکندر جہاں کا تہاں رہ گیا۔ سفر ختم ہوگیا۔۔ وہ چلی گئی تھی۔
مسافر دوبارہ گاڑی میں بیٹھنے لگے۔
اس نے خود کو اس لمحے بے حد تنہا پایا۔
گاڑی کراچی کی جانب رواں دواں ہوگئی۔۔
اس نے کچھ وقت کے وقفے سے اپنے برابر والی سیٹ کی جانب دیکھا۔ اس کی سیٹ پر ایک مسلا ہوا پھول تھا۔ جانے اس نے کیا سوچا کہ اٹھا کر دیکھنے لگا۔ یہ وہی سفید پھول تھا جس کی وجہ سے وہ بس میں تاخیر سے داخل ہوئی تھی۔ پھول مرجھا رہا تھا۔۔ وہ اسے بغور دیکھنے لگا۔
عجیب اپنائیت سے بڑھنے لگی۔
جانے وہ لڑکی خیالوں میں کیوں آرہی تھی۔
وہ اس کے ساتھ گزرا چھوٹا سا سفر سوچنے لگا۔
دل ادھورا پن محسوس کرنے لگا۔
ایک اجنبی اسے اپنا اسیر کر گیا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
میز پر چابیاں رکھتے ہوئے اس نے ارد گرد پھیلی خاموشی کو نوٹ کیا۔ سوٹ کیس وہیں کھڑا کر کے اس نے بیگ کندھوں سے اتارا۔
"لگتا ہے صاحبزادے نے گھر کی راہ لی ہے۔" اسے دوسرے کمرے سے آواز آئی۔ وہ مسکرا دیا۔ آج دل کا ماحول سے بیزار نہیں تھا۔ وہ اس تھکا دینے والے سفر کے باوجود خود کو اچھا محسوس کر رہا تھا۔ اس گھر میں مزید اور کون ہی تھا۔۔ صرف مظفر صاحب اور انہیں باپ کی جگہ دینے والا سکندر۔۔
حالات ماضی کی طرح نہیں تھے۔ اچھی جاب کی وجہ سے وہ آج اپنا گھر بنانے میں کامیاب ہوا تھا۔
"مجھے لگا تھا آپ سورہے ہوں گے۔" وہ چلتا ہوا کامن روم میں داخل ہوا۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔
"ارے کیسے سوتے؟ ہمیں خبر تھی کہ تم گیارہ بجے پہنچنے والے ہو۔" اس پر ایک نگاہ محبت کی ڈال کر وہ پینٹنگ میں مصروف ہوگئے۔۔ ہاں یہ پینٹنگز۔۔ سکندر نے کامن روم کی دیواروں کو دیکھا جن پر طرح طرح کی خوبصورت پینٹگ لگی ہوئی تھیں۔ یہ سب مظفر صاحب کے ہاتھوں کا کمال تھا۔ آج وہ اپنی پینٹنگز سیل کرتے تھے۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کا خواب مکمل کرنے میں ساتھ دیا تھا۔
"تو پھر کیسا گزرا یہ ہفتہ میرے بغیر؟" ہنس کر پوچھتے ہوئے وہ دھپ سے صوفے پر لیٹنے کے انداز میں گرا۔ مظفر صاحب نے اس کی ہنسی پر مڑ کر چہرہ دیکھا۔ آج اس کے چہرے پر اطمینان و سکون کے رنگ تھے۔ وہ نگاہ نہ ہٹا سکے۔ اس کے لب و لہجے میں تازگی تھی۔
"میں نے ایک بات جان لی کہ میری پینٹنگز تمہاری ناموجودگی میں بہت اچھی بنتی ہیں۔ کوئی میرے پینٹس اور برشز کو مجھے تنگ کرنے لیے چھپاتا نہیں ہے۔" عینک ناک پر تھی اور وہ بے حد سنجیدگی سے کہتے ہوئے اسے کھلکھلانے پر مجبور کر گئے۔ کتنے وقتوں بعد وہ یوں کھل کر مسکرایا۔ جانے مظفر صاحب کی بات مزاحیہ تھی یا اس کے چہرے پر کسی اور کے رنگ تھے۔
"کیسا محسوس کر رہے ہو؟" انہوں نے برش رکھ کر اپنی کرسی اس کی جانب گھمائی۔ دل کا حال جاننا ضروری ہوگیا۔ سکندر کی مسکراہٹ سمٹنے لگی۔
یہ سوال بہت مشکل تھا۔
وہ چہرہ تکتا رہ گیا۔
خیالوں میں کسی کا چہرہ گھومنے لگا۔
آج دل بھاری نہیں تھا۔
بتول رضا کہتی تھی کہ اپنا دل ہلکا کرنے کے لیے یہ طریقہ بہت اچھا ہے کہ ایک اجنبی مسافر کو اپنے دل کا بوجھ سنایا جائے۔۔ مسافر بھول جائے گا اور دل کا بوجھ بھی ہلکا ہو جائے گا۔ سکندر نے اپنے دل کو بے حد ہلکا محسوس کیا۔ وہ بھی بوجھ اتار آیا تھا۔
مظفر صاحب کی گہری نگاہیں اب بھی اس کے چہرے پر تھیں۔ وہ اس کی جانب سے جواب کے انتظار میں تھے۔
سکندر نے تھوک نگل کر خود کو دیوار کے بڑے آئینے میں دیکھا۔
"سفر تنہا ہوگیا۔۔"
اس کے لبوں جنبش کی۔
"سیٹ نمبر بائیس کا مسافر اپنی باتوں سے میرے دل میں گھر کر گیا۔" اس کی آواز اتنی دھیمی تھی کہ وہ خود ہی سن سکا۔
اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے اس نے برشز کو دیکھا۔
"ایک چہرہ یاد رہ گیا۔ اسے کینوس پر اتارنا چاہتا ہوں۔"
اس کے الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے۔
"منزل آنے پر سب لوگ اپنے اپنے راستے چلے جائیں گے۔ ایک دوسرے سے کبھی نہ مل سکیں گے۔ آپ کو سننے والا مسافر بھی غائب ہو جائے گا۔" وہ لہجے کی نرمی۔۔
"کون کہاں جائے گا کوئی نہیں جان سکے گا۔" وہ لہجہ۔۔
اسے یاد تھا جب اس نےسفر کے بارے میں بتول سے کہا تھا کہ وہ یہ تجربہ دوبارہ نہیں کرنا چاہے گا۔۔ مگر اب دل اپنی بات سے پھر چکا تھا۔
وہ سیٹ نمبر اکیس کا مسافر دوبارہ بننا چاہے گا اگر سیٹ نمبر بائیس پر بتول رضا ہوگی۔
"کیا وہ چہرہ کسی لڑکی کا ہے؟" مظفر صاحب کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری۔
"ہاں۔۔" اس نے دھیرے سے بتایا۔
"کون لڑکی؟"
"جو اپنے لفظوں کا سحر چلاتی ہے۔۔"
سیٹ نمبر بائیس۔۔
حیدرآباد۔۔
وہ سفید پھول جو سکندر کے بیگ میں تھا۔۔
ماضی میں بولے گئے الفاظ اس کے دماغ میں گونجنے لگے۔
بتول رضا یاد رہے نہ رہے۔۔ سیٹ نمبر بائیس کا پیسنجر یاد رہے گا۔۔
ہمیشہ۔۔
وہ خود تو آگے بڑھ گیا مگر دل سفر میں ہی ٹھہر گیا۔