ناول : مسیحائے عشقم
از قلم: مریم رائٹس
Episode 2
Don't copy paste without my permission ❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌
چار سال پہلے۔۔۔۔ڈینئیل کہاں جا رہے ہو ۔ ایڈورڈ اپنے کمرے سے نکلا اور ڈینئیل کو جاتے دیکھ کر بولا۔
ڈیڈ دوستوں کے ساتھ جا رہا ہوں کلب ۔ اُسکے بعد فل نائیٹ پارٹی ہے۔ ڈینئیل نے ایک نخرے سے اپنے باپ کو جواب دیا۔ ایڈورڈ نے اپنے نیلی آنکھوں والے بیٹے کو دیکھا جو کافی لڑکیوں کی دل کی دھڑکن تھا۔ اُسکی کئی گرل فرینڈز تھیں جن کے ساتھ وہ صرف ٹائم پاس کرتا۔ اُسکی عمر ابھی اکیس سال تھی ۔ ہر سہولت موجود تھی۔ جس نے اسکو حد درجہ بگڑا امیرزادہ بنا دیا تھا۔ ایڈورڈ بھی خوب سمجھ رہا تھا کس طرح کی پارٹی ہونے والی ہے۔ انکی پارٹی میں شراب اور بائک ریسنگ شامل تھی۔ اوہ ڈینئیل میرے بیٹے کہاں جا رہے ہو۔ لیزا کمرے سے نک سک سی تیار نکلی۔ بنا بازو کے شرٹ اور شارٹ سکرٹ پہنے جو گھٹنوں سے تھوڑا نیچے آتی ، لال لپسٹک سے ہونٹوں کو رنگا ہوا اور بلونڈ کلر کے کندھوں تک آتے بال کھلے چھوڑ کر شانوں پر ڈالے ہوئے تھے ۔ موم دوستوں کے ساتھ پارٹی۔ ڈینئیل نے بیزاریت سے اپنی ماں کو دیکھا۔ اچھا ٹھیک ہے جاؤ۔ اُسکے اتنے روکھے جواب پر لیزا کا منہ لٹک گیا۔ ڈینئیل کا رویہ شروع سے ایسا ہی تھا۔ وہ لیزا سے نفرت کرتا تھا مگر اظہار کم کرتا تھا۔ اسکو لگتا تھا کہ لیزا نے اُس سے اُسکی ماں کو چھین لیا ہے ۔ اُسکے نزدیک ایڈورڈ اور لیزا کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ ٹھیک ہے ڈینئیل جاؤ مگر رات دیر تک گھر سے باہر مت رہنا۔ بارہ کے بعد تُم مجھے گھر میں چاہئیے ہو۔ اوہ کم آن ڈیڈ میں کوئی بچہ نہیں ہوں جو آپ اس طرح بول رہے ہیں۔ میرا اچھا برا آپکو سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ بس اپنی بیوی کے ساتھ خوش رہیں ۔ میں اپنا خیال خود رکھ سکتا ہوں۔ ڈینئیل کا غرور عروج پر تھا۔ کہ کر وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ ...
ڈینئیل ایڈورڈ ، نیلی مسحور کن آنکھیں ، لمبا قد ، چوڑا سینہ، گولڈن براؤن بال جو ہلکے سے ماتھے پر بکھرے رہتے تھے، دائیں ہاتھ میں بلیک بینڈز جو چار یا پانچ تھے جو وہ ہمیشہ پہنے رکھتا اور بائیں ہاتھ میں گھڑی ۔ ہر کوئی بائیں ہاتھ میں گھڑی پہننے کی وجہ پوچھتا تُو اُسکا ایک ہی جواب ہوتا کے ڈینئیل ایڈورڈ وہ کام کرتا ہے جو کوئی نہیں کرتا ۔ ایک غرور تھا اُسکی پرسنالٹی میں جس سے کئی لڑکیاں اُسکی دیوانی بن جاتیں۔ مگر وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سب کو اگنور کرتا۔ بائک ریسنگ کا وہ ماہر کھلاڑی تھا۔ آج تک اُسے کوئی ہرا نہیں سکا تھا۔ اُسکے دوست اُس کے آگے پیچھے گھومتے مگر ڈینئیل ایڈورڈ کو کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ یورپ کے ملک ڈینمارک میں رہتا تھا۔ ڈینمارک میں کاپنہانجن شہر میں اُسکی رہائش تھی۔ جہاں ڈینمارک کا پارلیمنٹ فولکٹنگ بھی موجود تھا ۔ اس لحاظ سے وہ شہر کافی مشہور تھا کیوں کہ وہ ڈینمارک کا دارلخلافہ تھا۔ اور ڈینئیل ایڈورڈ کو زیادہ تر لوگ وہاں پرنس آف کاپنہنجن کہتے تھے۔ مگر ڈینئیل ایڈورڈ خود کو ڈیول کہتا تھا۔ اُسکا ایک جملہ جو سارے کاپنهنجن میں مشہور تھا وہ تھا " call me devil” جو وہ ہر کسی سے کہتا ۔۔