صبح ساڑھے سات بجے'
پورا گھر جاگ جاتا ہے لیکن صالحہ اپنے بستر پر لیٹ کر خوابوں کی دنیا کی سیر کر رہی تھی۔
کہی ذہن میں حسین خواب تو کانوں میں امی کی آواز۔
امی: ساری دنیا جاگ گئ ہے اور اس کی پلکوں سے نیند ہی نہیں جا رہی ہے ہم لوگ کام کر کر کے پریشان اور یہ رانی آرام کر کے۔
ہر کوئی پانی بھرنے میں اس قدر مصروف تھا جیسے آج کے بعد پھر پانی نہیں ملے گا، ہر چیز میں پانی بھرنے کی ناکام کوششیں کی جارہی تھی گملا ہو یا چمچہ۔
ایک تیر کی طرح عبداللہ دوڑ کر آیا ہےاور کہنے لگا
عبداللہ: آج تو آپا کے کالج کا پہلا دن ہے نا"
پیچھے سے بھابھی آواز لگاتی ہے،
بھابھی: ارے میں تو بھول گئ ذاکر کب سے صالحہ کا انتظار کر رہے ہیں۔
ایک بیک پورا گھر خاموش ہوجاتا ہے پھر اچانک پورے گھر میں ایسی شوروغل مچتی ہے جیسے مچھلی بازار لگا ہو۔
امی: ایک یہ لڑکی ہے جو کسی کی نہیں سنتی اور ایک یہ ہے جو سنتی سب کی ہے مگر یاد کچھ نہیں رہتا۔
بھابھی: ارے امی نیچے آتے ہی میں گھر کے کاموں میں اتنی مصروف ہوگئی کہ پھر بھول ہی گئ-
گردن گھوماتے ہوۓ امی نے آواز لگائ
امی: دیکھ رہے ہو جی!
اسکی امی اسکے والد کی طرف نظریں کرتی ہوئی کہتی ہے
صالحہ کے والد اسے آکر ڈانٹتے ہوۓ کہتے ہیں
ابو: ارے اسے کیا ہے بس آرام فرمانا ذاکر تو ہم پر ہی غصہ کریگا۔
عبداللہ: ذاکر بھائی آ رہے ہیں بھابھی اور امی تیار ہو جائے۔ذاکر کے داخل ہوتے ہی پورا گھر واپس خاموش ہوجاتا ہے۔
وہ خاموشی سے صالحہ کے کمرے میں جاتا ہیں اور پیار سے کہتا ہے
ذاکر: صالحہ صبح ہو گئی ہے جاگ جاؤ اور جلدی کرو ہمیں کالج کے لیے بھی تو نکلنا ہے۔
ذاکر پھر باہر چلا جاتا ہے
امی: اسی نے اسے سر پر چڑھا کر رکھا ہے۔
وہ بھابھی کے ساتھ آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگتی ہے۔
صالحہ اپنے خواب کو توڑتے ہوۓ اٹھتی ہے تیار ہوتی ہے۔ جلدی سے ناشتہ کر کے ذاکر بھائی کے ساتھ کالج کے لیے نکل پڑتی ہیں۔ کالج پہنچ کر ذاکر سے کہتی ہے
صالحہ:کیوں بھائی کچھ کہوگے نہیں!
ذاکر: کیا!
صالحہ:یہی کے کالج میں کوئی پریشان کرے تو بتانا۔ وغیرہ وغیرہ
ذاکر: میں تو سب کو صلح دونگا کہ تجھ سے ہی بچ کر رہے۔
صالحہ: کچھ بھی مت بولوـ
ذاکر چلا جاتا ہے اور صالحہ اپنی کلاس کھوج کر بیٹھ جاتی ہے
◇◇◇
کچھ دیر میں سر داخل ہوتے ہیں کلاس شروع ہوتی ہیں اور سب پڑھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
آدھے کلاس کے دوران دو لڑکے داخل ہوتے ہیں۔
سر: کون ہو تم لوگ؟
لڑکا: میرا نام محمد اکرم ہے اور یہ واحد ہم بھی اسی کلاس میں پڑھتے ہیں آج آنے میں ذرا دیر ہوگئی۔
سر: اچھا!آج کالج کا پہلا دن ہے اور آپ آج دیر سے آۓ، مطلب کل آپ وقت پر آۓ ہونگے
پورا کلاس ہنس پڑتا ہے"
اکرم: سوری سر-
سر: اندر آؤ
اکرم اور واحد جلدی سے لاسٹ بینچ پر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر سب واپس خاموش ہو جاتے ہیں۔
لنچ کے وقت صالحہ کلاس کی کچھ لڑکیوں سے دوستی بھی کر لیتی ہے۔
جب چھٹی کے وقت صالحہ کالج کے گیٹ پر آتی ہے تو ذاکر انتظار کر رہا ہوتا ہے۔
گھر پہنچ کر صالحہ امی اور بھابھی کو کالج کا پورا واقعہ بتاتی ہیں اور سبھی کو اکرم اور واحد پر ہنسی آتی ہے۔
اگلے دن پھر کالج میں واحد اور اکرم دیر سے آتے ہے اور پھر اسے ڈانٹ پڑتی ہے۔اب روز کا یہی حال رہتا ہے۔ایک دن لنچ بریک کے دوران کینٹین میں اچانک صالحہ اور اکرم کی نظریں ملتی ہے تو صالحہ بےساختہ پوچھ لیتی ہے،
صالحہ: تم روزانہ دیر کیوں کرتے ہو؟
واحد: ہم دیر نہیں آتے کالج سویرے کھل جاتا ہے۔
سبھی سہیلیاں کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہے۔ واحد اور اکرم بھی ہنستے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔
ایک روز صالحہ سبھو کے ساتھ دعوت میں جاتی ہے۔ وہاں وہ اکرم اور واحد کو دیکھتی ہے۔ وہ لوگ ویٹر کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ بنا ٹوکے چلی جاتی ہے۔
◇◇◇
اگلے روز پھر کالج کا وہی قصہ۔ لیکن آج صالحہ کینٹین میں اکرم سے بات کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن وہ دھیان نہیں دیتا اور لائیبریری میں داخل ہوتا ہے اور ایک کتاب لے کر بیٹھ جاتا ہے۔ وہ بھی لائبریری میں اس کے پاس جا کر بیٹھتی ہے اور ایک کتاب نکال کر ایسے اداکاری کرتی ہے جیسے وہ اسے پڑھ رہی ہو۔
صالحہ: اچھا بتاؤ آنے میں دیر کیوں کرتے ہو؟
اکرم: مجھے کہہ رہی ہو کیا؟
صالحہ: نہیں اس کتاب سے۔ پوری لائبریری میں یہ اکیلا ہی ہے جو روز دیر سے لائبریری آتا ہے۔ میں تو اسے کہہ رہی ہوں کہ تم سے کچھ سیکھے۔۔
اکرم: تم مجھے طانہ دے رہی ہو!
صالحہ: نہیں اس کتاب سے بات کر رہی ہوں
اکرم: بھلا کتاب آنے میں دیر کیسے کریگا اور میں ہی تو روزانہ دیر کرتا ہوں نا۔۔
صالحہ: میرے سامنے نزاکت نہ کرو سب پتا ہے مجھے۔
اکرم اُٹھ کر چلنے لگتا ہے صالحہ اس کے پیچھے پیچھے جاتی ہے،
صالحہ:تم اور واحد شادی کے گھروں میں کام کرتے ہونا۔۔ میں نے کل دیکھا تھا۔
اکرم: ہاں کرتا ہوں اب پورے کالج میں شور مت کر دینا۔ اور تمہیں کیا
اس کا لہجہ ذرا غصہ والا تھا
صالحہ: میں تو بس کہہ رہی ہوں اور مجھ سے نہ ڈرو بہت لوگوں کے راز چھپا رکھے ہے میں نے۔
واحد یہ تماشا دیکھتا ہے تو اکرم کو آواز لگاتا ہے ۔
واحد: کیا ہوگیا تھا جھگڑا کیوں کر رہے تھے؟
اکرم: پاگل ہے وہ لڑکی کہہ رہی تھی سب کے راز جانتی ہے اور ہم لوگ کل کام پر۔۔ جس کے دعوت میں گھر گۓ تھے وہاں دیکھا ہے اس نے ہمیں۔
واحد: تو کیا ہوا ہم محنت سے کماتے ہیں کھاتے ہیں اسے کیا۔ تو یہ سب چھوڑ۔
◇◇◇
دن گزرتا جاتا ہے اور صالحہ کو اکرم کے بارے میں تمام باتیں جانیں کی خواہش بڑھتی جاتی ہیں۔
ایک روز صالحہ اکرم اور واحد کی باتیں سن لیتی ہیں کہ وہ آج کسی شاعر کے یہاں جانے والے ہیں۔
جب صالحہ گھر جاتی ہے تو ذاکر بھائی تیار ہو رہے ہوتے ہیں۔
صالحہ: بھابھی آج بھائی اتنا بن ٹھن کر آپ کو گھر پر تنہا چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟
بھابھی: اپنے دوستوں کے ساتھ شاعروں کی محفل میں جا رہے ہیں اور مجھے شاعری سمجھ نہیں آتی۔
صالحہ زور سے کہتی ہے،
صالحہ: تو میں چلی جاتی ہوں
سب لوگ اسے غور سے دیکھنے لگ جاتے ہیں۔
صالحہ: ارے کیا ہوا؟
ابو: اپنی پوری زندگی میں ایسا مذاق نہیں سنا۔ سب سے زیادہ ہنسی تو مجھے ہی آ رہی ہے۔
امی: سمجھ میں آتی بھی ہے
عبداللہ: آپا تو بورڈ کے امتحانات میں بھی غزل چھوڑ کر آئی تھی
بھابھی: ذاکر سے پوچھلو پہلے اور دھیان سے کہی وہ مارے خوشی کے بیہوش نہ ہو جائے۔
گھر میں غزل اور شاعری ذاکر کو ہی پسند تھی۔
صالحہ: بھائی! میں نے سنا آپ شاعری سنے جارہے ہیں
ذاکر: ہاں تو!
صالحہ: تو بھائی مجھے بھی ساتھ میں لے چلو نا
ذاکر: تمہیں شاعری کب سے سمجھ آنے لگی
صالحہ: میرے کالج میں اردو کی کلاس ہوتی ہے نا تو اب شاعری، غزلیں، اور نظمیں بھی سمجھ آتی ہیں۔
ذاکر: لیکن میں تو اپنے دوستوں کے ساتھ جا رہا ہوں
صالحہ: تو مجھے بھی ساتھ لے چلو وہاں مجھے ایک کونے میں بیٹھا دینا میں کہی نہیں جاؤں گی۔
ذاکر: نہیں نہیں!
صالحہ: بھائی!
KAMU SEDANG MEMBACA
خواب گاہ
Romansaمحبت ایسے ہی تھوڑی ہوجاتی ہے کبھی بھی انسان خود کر لیتا ہے اور کبھی بول بول کر کروا دی جاتی ہے۔ قدرت اس وقت تک کسی شخص کو کسی سے ٹکراتی رہتی ہے جب تک اسے وہ پسند نا آجاۓ۔ Mohobat aise hi thori ho jati hai kbhi insaan khud kr leta hai or kabhi bol b...