آج کا سفر

7 2 3
                                    

میں حسب معمول کالج جانے کے لیئے اسٹیشن پہنچی تو دیکھا پلیٹ فارم پر مسافروں کا رش تھا اور ٹرین ندارد۔ ہر ایک کو اس لاڈلی کا انتظار تھا۔ میرے اسٹیشن پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ٹرین کی اعلان ہوتی ہے اور پھر ٹرین اسٹیشن پر آلگتی ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو ڈھکیلتے ہوئے ٹرین پر چڑھتے ہیں۔میں بھی چڑھی۔چڑھتے ہی کھڑکی والے سیٹ پڑ بیٹھ گئی ٹرین اپنی منزل پر روانہ ہونے کے لیے تیار ہو گئی پھر بھی کچھ مسافر اس ٹرین کو پکڑنے کے لیے دوڑتے ہوئے آئے اور چڑھ گئے۔ٹرین تیزی سے چلنے لگی میں کھڑکی سے ٹھنڈئی ہواؤں کو محسوس کر رہی تھی اور تیزی سے بھاگتے درختوں اور بجلی کے کھمبوں کو دیکھ کر لطف اندوز ہو رہی تھی کہ یکایک میری نظر میرے سامنے بیٹھی ایک عورت پر پڑی جو اپنے موبائل فون پر اپنے پسندیدہ ٹی وی شو دیکھ رہی تھی۔ میں نے ادھر ادھر نظر گھمایا تو دیکھا کہ ہر کوئی اپنے اپنے فون میں مگن ہے کوئی فون پر گفتگو کر رہا ہے تو کوئی واٹس ایپ ،فیس بک،انسٹا گرام چلا رہا ہے ۔میرے ذہن میں کچھ پرانی تصویریں ابُھرنے لگی۔ پہلے جب میں سفر کیا کرتی تھی اور یہ اسمارٹ فون نہیں ہوا کرتے تھے تو لوگ کس طرح کھڑکی کے باہر کے نظارے دیکھ کر لطف اندوز ہوتے تھے۔ ٹرین میں مختلف قسم کے اشیاء فروخت کرنے والوں سے لوگ کیسے گھل مل کر باتیں کرتے اور اس سے اپنے ضرورت کے اشیاء خریدتے۔ لیکن آج وہی لوگ اپنے موبائل فون میں اس قدر مگن ہے جیسے انُکے آس پاس کوئی ہو ہی نہ۔ اشیاء فروخت کرنے والے اپنے اشیاء دیکھانے کے لیے کیا کیا نہیں کرتے لیکن ان کے کان میں جوں تک نہ رینگتے ایسا لگتا ہے کہ موبائل انُکے دوست،ساتھی،ہمدم،ہمسفر ہو۔ میں یہ سب سوچ ہی رہی تھی کے میرے سامنے بیٹھی عورت اپنے منزل پر جیسے ہی اتُری انکا پیر پھنسنے کی وجہ سے پلیٹ فارم پر گر گئی۔ لوگ اسے اٹھانے کے بجائے اسُکے گرنے کا ویڈیو بنانے لگے اور اس ویڈیو کو فیس بک اور انسٹا پر اپلوڈ کر دیا اوربار بار فیس بک ،انسٹا کھول کر دیکھ رہے ہیں کے کتنے لوگوں نے اس ویڈیو کو دیکھا اور کتنے نے اس پر کمنٹ کیا ہے۔ پھر میری منزل آ گئی اور میں اتر گئی۔

آج کا سفر از نجمہ خاتون Where stories live. Discover now