صبح سب واپسی کے لیے روانہ ہوۓ۔ اکرم نے غور کیا کہ صالحہ آج چپ سی تو ہے پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ کالج پہنچنے کے بعد الیشا نے اسے وہ ویڈیو دکھائی۔ صالحہ کی دل کی دھڑکنیں اور زیادہ رفتاری سے چلنے لگی۔
صالحہ: اچھا بتاؤ کیا کروں میں آخر میرے ہی ساتھ کیوں کر رہی ہو
الیشا: نہیں یار صرف تم تھوڑی نا اور بھی لڑکیوں کے بنائے ہے ویڈیوز پر کالج میں تم پہلی ہو۔
صالحہ: مسئلہ کیا ہے تمہارا
الیشا: کچھ نہیں
صالحہ: تو
الیشا: بہرحال میں نے ابھی تک سوچا نہیں ہے کہ کیا کروں تو تھوڑا انتظار کرو۔
وہ اپنی بات مکمل کر کے آگے بڑھ گئ صالحہ وہی کی وہی کھڑی۔ اسکا پورا جسم ٹھنڈا پڑ گیا تھا جیسے کوئی جھٹکا لگا ہو۔ آواز بھی کچھ حلق میں اٹکی ہوئ معلوم ہوتی تھی۔ تھمے ہوۓ قدم کو آگے بڑھایا تو اکرم سے ٹھوکر لگی
اکرم: لگتا ہے اپنی آنکھیں وہی بھول آئ ہو
وہ بےپرواہی سے آگے بڑھ گئ۔ صالحہ کا یہ لہجہ ذرا عجیب تھا۔
ہمیں لوگوں کی آواز نہیں چبھتی الفاظ اور انداز چبھتی ہے۔
◇◇◇
صبح صادق کے وقت صالحہ سب سے پہلے اٹھ گئ اور جلدی کالج کے لیے بھی نکل گئ۔ وہاں پہنچ کر اس نے الیشا کا بہت انتظار کیا مگر آج وہ نہیں آئ تھی۔
صالحہ: آج اردو کی کلاس بنک کر کے میرے ساتھ الیشا کے گھر چلونا۔۔۔
کلاس میں بیٹھتے ہی اسنے آہستہ سے پوچھا
ندا: ہاں ٹھیک ہے چلو۔
○○○
وہ دونوں کلاس بنک کر کے الیشا کے گھر پہنچی۔ سب سے پہلے انہیں ایک خوبصورت باغ نظر آیا وہاں ہر کوئ اپنے اپنے کام میں مصروف تھا ایسا معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہاں بس دو لوگ ہی رہتے ہیں۔ اس کے آگے ایک گھر، وہ ایک عالیشان بنگلہ تھا۔
دربان: اے۔۔ کہاں جانا ہے؟
صالحہ: ہمیں الیشا سے ملنا ہے۔
دربان: کیا کام ہے اور اپوئنٹمینٹ؟
ندا: ہم اس کی دوست ہے اور آج وہ کالج نہیں آئ نا تو بس ملنے آگۓ
دربان: ایک منٹ!
دربان نے ٹیلیفون پر کسی سے بات کی اور انہیں اندر جانے کی اجازت دے دی۔
ندا: یار اتنے بڑے گھر میں تو ہمارا پورا محلہ آجائے
صالحہ: چپ نا کام پر فوکس کر۔
انہیں اندر جاتے ہی تھوڑا کم تھوڑا زیادہ عمر کا ایک آدمی نظر آیا اس نے سفید رنگ کا کُرتا پہنا تھا اور اس کے اوپر سنہرے میں میکس گلابی رنگ کا ایک کوٹ اور چہرے پر ہلکی مسکراہٹ اور سفید داڑھی
صالحہ: اسلامو علیکم! ہم الیشا کے ساتھ کالج میں پڑھتے ہیں آج وہ نہیں آئ تو ہم بس اسکی خیر و خبر کے لیے آگۓ
آدمی: وعلیکم سلام۔ (کچھ مسکراتے ہوئے) جی ابھی تو وہ ٹھیک ہے صبح ذرا بخار تھا لیکن اب اللہ کا شکر ہے کافی بہتر ہے
ایک نوکر نے آکر بتایا کے الیشا انہے اپنے کمرے میں بولا رہی ہے وہ دونوں اس کے پیچھے پیچھے کمرے کی طرف بڑھی دروازہ کھلا ہوا تھا اندر سے آواز آئی "اندر آؤ" وہاں انہوں نے الیشا کو پایا۔ اس کے ہاتھ میں ایک میگزین تھی۔ اس نے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میگزین کو بند کر کے انکے کچھ کہنے کا انتظار کرنے لگی
صالحہ: ابھی تم کیسی ہو
الیشا: ویل کیسی دیکھ رہی ہوں
ندا: ماشاءاللہ سے اچھی بھلی فیٹ لگ رہی ہو
اس نے دانت پیستے ہوۓ کہا
الیشا: سو اینی ادر کوششن
صالحہ: یار الیشا دیکھو تمہیں تو کوئی ضرورت بھی نہیں ہے ان تصویروں کی تم پلیز مجھے واپس کردو۔۔میں کسی سے کچھ بھی نہیں کہونگی
الیشا: مجھے جہاں تک یاد ہے میں نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا
صالحہ: لیکن پھر بھی۔۔اور وہ میری تصویر ہے
الیشا: تصویر تمہاری ہوگی پر کیمرہ میرا تھا تو اب اس پر میرا ہی حق ہے
ندا: اچھا بحث نہ کرکے ہم کوئی سمجھوتہ کر لیتے ہے
الیشا: کیسا سمجھوتہ
ندا: مطلب اگر تمہیں کچھ چاہیے تو ہم سے کہو اور اسکے بدلے میں وہ فوٹوس ہمیں دے دو
الیشا: یار ندا آر یو میڈ۔ دیکھوں میری طرف کیا دوگی مجھے تم لوگ جو چاہیے وہ تو سب ہے میرے پاس
صالحہ: اچھا ٹھیک ہے بحث نہ کرو۔۔ بٹ ٹرائی ٹو انڈرسٹینڈ
الیشا: دیکھوں مجھے اپنی بات دوبارہ نہیں دوہرانی اب جاؤ یہاں سے
الیشا کے اس رویہ سے ندا نے صالحہ کا ہاتھ کھینچا اور چلنے لگی۔
ندا: جتنا بڑا گھر ہے۔۔ دل اتنا ہی چھوٹا۔
نکلتے وقت انکی نظر واپس الیشا کے والد سے ملی۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا صالحہ نے تو سلام کر دیا لیکن ندا کا منہ ویسے کا ویسے ہی بنا ہوا تھا۔
◇◇◇
کالج واپس آنے کے بعد رابعہ نے سوال کیا۔ پوری بات معلوم ہونے کے بعد انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔
ندا: میرے پاس ایک پلان ہے
رابعہ: کیا
ندا: اب کل الیشا کے آنے کے بعد ہی بتاؤں گی
رابعہ: فائنل! تو کل ملتے ہے
صالحہ کا ردعمل ویسا ہی عام سا تھا اسے تو ابھی بس وہ تصویر چاہیے تھا
◇◇◇
اس نے اپنا فون اٹھایا اور دھیرے سے کان پر لگا کر بات کرنے لگی
صالحہ: ہاں بولو۔
ندا: میں نے ہماری ایک کلاسمیٹ سے پتہ کیا ہے آج آنے والی ہے الیشا کچھ کام سے۔ رابعہ سے بات ہو گئ ہے تم بھی تیار ہو کر آجاؤ
اس نے فون بند کیا اور تیار ہو کر کالج چلی گئی۔
○○○
رابعہ: تو اب بتاؤ
ندا: آج الیشا کلاس کرنے نہیں آئ ہے
"تو" رابعہ اور صالحہ نے ایک ساتھ کہا۔ وہ تینوں اس وقت کوریڈور میں کھڑی تھی
ندا: تو آج ہم اسکا فون چورا لیتے ہے اور بس تصویر ڈیلیٹ کر کے واپس رکھ دیں گے ویسے ہی۔۔
صالحہ: لیکن یار یہ تھوڑا ریسکی نہیں ہے
رابعہ: اس کے علاوہ اور کوئی راستہ
ندا: نہیں ایک کام کرو تم دونوں جاکر اس کے پاؤں پکڑ لو شاید ترس کھا کر دے دے
رابعہ: سہی بتاؤں تو اس کو تو دو چار مارنے کا بھی دل ہے میرا
ندا: تو پھر چلو
کالج کے آفس روم میں فون اور بیگ لےکر جانا منع تھا۔ وہ تینوں آفس کی طرف بڑھی الیشا بھی وہی کھڑی انتظار کر رہی تھی اس کے ساتھ رخسانہ بھی تھی۔ اندر جاتے وقت اس نے اپنا بیگ رخسانہ کو پکڑنے دیا اور اندر چلی گئی۔
رابعہ آگے بڑھی اور اسے دیکھ کر کچھ دور سے کہا
رابعہ: رخسانہ۔۔ تم یہاں کیا کر رہی ہو مطلب کچھ کام تھا
رخسانہ: نہیں میرا کام نہیں تھا الیشا کو کچھ پوچھنا تھا
رابعہ: میں نے سنا تھا وہ بیمار ہے اب کیسی ہے
رخسانہ: ہاں وہ ابھی تھوڑی ٹھیک ہے میری ابھی اس سے بات نہیں ہوئی سہی سے
رابعہ: ویسے تمہیں پتہ ہے کینٹین میں نیا کوک آیا ہے۔ نہایت ہی شریف اور شرمیلا قسم کا ہے تھوڑا۔
رخسانہ: اچھا!
رابعہ: کئ لڑکیاں تو صرف اسے دیکھنے کے لئے بھی کینٹین جا رہی ہے
رخسانہ: تب تو اچھا ہے کم سے کم کالج آنے میں مزہ تو آۓ گا اب
وہ دونوں ہنسنے لگی
رابعہ: سہی بات ہے۔۔ ویسے تم بھی دیکھ لینا اسی وقت رہتا ہے بس۔
رخسانہ: او! اچھا ٹھیک ہے۔ چلو پھر بعد میں ملتے
رابعہ واپس ندا کے پاس چلی گئی
صالحہ: تمہیں یقین ہے نا وہ جاۓگی تو
رابعہ: ارے صبر تو کرو
کچھ دیر میں الیشا واپس آئ کچھ کاغذات لینے
الیشا: میرا تھوڑا وقت لگے گا تم میرا یہی پر انتظار کرنا
رخسانہ: اوکے۔۔۔
ابھی الیشا کو واپس جاتے ایک منٹ بھی سہی سے نہیں ہوا تھا کہ رخسانہ اسکا بیگ وہی کی ایک کرسی پر رکھ کر چلی گئی۔ یہ دیکھ کر رابعہ آگے آئ اور جلدی سے الیشا کا فون نکال کر لے آئ۔ وہ تینوں سیڑھیوں کے پاس جاکر اسے چیک کرنے لگے
صالحہ: اللہ کا شکر ہے کہ پاسورڈ نہیں ہے
اپنی تصویر دیکھ کر حیران تو ہوئ لیکن قابو پایا اور ایک ویڈیو ڈیلیٹ کی پھر ایک تصویر۔ ابھی صالحہ کے ہاتھ کانپ ہی رہے تھے کہ بس آخری تصویر ہے کہ کسی نے جھٹک کر فون چھین لیا۔ نظریں اٹھی تو الیشا سامنے کھڑی تھی
الیشا: تم لوگوں کے ساتھ کچھ کیا نہیں اس لئے اتنا آگے بڑھ گئ نا اب دیکھو۔۔
رابعہ: تمہاری تصویر نہیں ہے یہ
صالحہ: لاؤ فون ادھر دو
الیشا: دیکھوں اب کیسے میں کیا کرتی ہوں
الیشا کی اونچی آواز سے صالحہ کا دماغ خراب ہو گیا اور اسنے ایک بیک اسے ایک تھپڑ جڑ دیا۔ الیشا نے منہ اٹھایا تو ناک کے نیچے سے خون کو اپنی انگلیوں پر محسوس کیا اسنے بھی مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا تھا لیکن اس سے پہلے ندا نے اسکے بال کھینچ ڈالے۔
اچانک شوروغل مچی کئی طالب علم اکٹھے ہوۓ اور تماشا دیکھنے لگے۔
الیشا کی کلائ رابعہ کے ہاتھ میں تھی اسنے مظبوطی سے اسکی دونوں نازک کلائ کو پکڑا ہوا تھا اور الیشا کے بال صالحہ کے ہاتھوں میں تھے۔ الیشا کبھی اپنی ٹانگ سے انہیں مارتی کبھی یہ گرتی اور پھر اٹھ کر لڑائی شروع کر دیتی۔ وہی دوسری طرف ندا نے رخسانہ کے بالوں کو اس طرح پکڑا ہوا تھا جیسے مچھلی دیکھ کر مچھوارے جال کو پکڑے رکھتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی بہت پرانی دشمنی ہو۔
ابھی یہ سب چل ہی رہا تھا کے پروفیسرعافیہ آئ۔ انہیں دیکھ کر سب الگ الگ ہو گئے۔ وہ انہیں پرنسپل کے پاس لے گئ۔
پروفیسر عافیہ: سر جب میں گئ تو اتنی بری طریقے سے یہ لوگ لڑ رہی تھی جیسے جنگلی جانور ہو۔
پرنسپل: پورا واقعہ جاننے کے بعد میں پروفیسر عافیہ کو ابھی تم سب کے گارجین کو بلانے کی اجازت دیتا ہوں۔ اس کے علاوہ تم سب ایک ہفتے کے لیے سسپینڈ ہوتی ہو۔
سب نے یس سر کہا اور واپس خاموشی سے پروفیسر کی طرف دیکھا اس نے انہیں آفس میں بیٹھا یا۔ کچھ دیر کے بعد رابعہ کی امی، ندا کی بڑی بہن، رخسانہ کی امی، الیشا کے والد اور صالحہ کا بھائ سب لوگ آۓ۔ اس بار پرنسپل سیکرٹری اور پروفیسر عافیہ کے ساتھ انکی میٹنگ ہوئی۔ پانچو لڑکیاں اپنی برائ سنتی اور ایک دوسرے کو یوں دیکھتی جیسے ابھی کچا چبا جاۓگی۔
پروفیسر: دیکھیں ابھی تو انہیں ایک ہفتے کے لیے سسپینڈ کیا گیا ہے لیکن دوبارہ ایسا نہ ہو
الیشا کے والد: جی میں خیال رکھونگا
رابعہ کی امی: دوبارہ ایسا نہ ہو میں بھی خیال رکھونگی
رخسانہ کی امی: میں رخسانہ کو سمجھا دونگی کہ پھر ایسا نہ ہو
صالحہ کا بھائ خاموش تھا لیکن اسنے بھی سب کی ہاں میں ہاں ملایا۔ سب کے گھر والوں نے روانہ ہوتے وقت ایک دوسرے سے معافی مانگی اور آگے بڑھے۔
پورے راستے الیشا کے والد اسے سمجھاتے ہوۓ گھر لاۓ۔ رابعہ، ندا اور رخسانہ کو بھی ڈانٹ پڑی۔ صالحہ کے بھائ نے آتے وقت تو کچھ نہیں کہا لیکن گھر پہنچنے کے بعد اسے تھوڑا سمجھایا کہ ایسا نہیں کرتے آرام سے بات کرنے پر بھئ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
گھر میں داخل ہوتے ہی صالحہ کا چہرہ دیکھ کر عبداللہ کی تھوڑی ہنسی نکل گئ پر کنٹرول کیا۔ صالحہ کا بال کھینچا ہوا سا تھا اور نظریں تو جیسے ابھی ابھی رو کر آئ ہو، کندھے کا بیگ اس کے پنجوں میں تھا جو زمین کو چھو رہا تھا۔
امی: کالج میں پڑھتے ہیں یا جنگ کرنا سیکھاتے ہیں
آج اس کے والد بھی گھر پر ہی تھے جو کہ اخباروں میں تازہ ترین خبروں کو پڑھنے میں مشغول تھے۔ ملک کی عوام کے لئے کیا کیا قانون پاس ہوۓ اور کس ملک میں جمہوریت کے لیے عوام لڑ رہی ہے جیسی خبریں سنانے ذاکر کے پاس آئے تھے۔ صالحہ کی حالت کو دیکھا تو ان کے منہ سے ہلکی آواز نکلی
ابو: میں تو دوسرے ملک کی جنگ کا حال بتانے آیا تھا یہاں تو اپنے ہی گھر کا ماحول الگ لگ رہا ہے۔
ان کی یہ بات سن کر صالحہ نے انہیں غصہ بھرے انداز میں دیکھا
بھابھی: اچھا تم پہلے بیٹھ جاؤ اور پھر آرام سے بتانا کیا ہوا
صالحہ سامنے کرسی پر بیٹھ گئ عبداللہ نے پانی کا گلاس پکڑایا۔ سب کوئ اسے اور ذاکر کو سوالوں بھرے نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
ذاکر: لڑ کر آئ ہے۔ آج کالج میں کچھ مسئلہ ہو گیا تھا
امی: میں تو کہتی ہوں ٹھیک ہوا اس کے ساتھ ایسے ہی مار پڑنا چاہیے تھا
صالحہ نے امی کو بھی غصہ سے دیکھا جو کہ اس وقت کچن سے چل کر اسی کی طرف آرہی تھی۔
ذاکر: ارے مار اسے تھوڑی پڑی ہے
امی: تو!
ابو: واضح طور پر بتاؤ کیا ہوا تھا؟
ذاکر: میں شوروم میں تھا اسکی پروفیسر کا کال آیا اسنے بتایا کہ لڑائی کی ہے آج صالحہ نے۔ کالج بولایا تھا۔ جانے کے بعد پتہ چلا یہ اور اسکے ساتھ دو اسی کی سہیلیاں۔۔ تینوں نے مل کر مارا ہے دو لڑکیوں کو۔
امی: بیچاری بچیوں کو کچھ ہوا تو نہیں
ابو: ٹھیک تو ہے نا وہ دونوں
صالحہ: (چلا کر) کوئی بیچاری ویچاری نہیں ہے وہ دونوں۔ اور وہ بھی تو مار رہی تھی وہ بتاؤ
ذاکر: ارے صالحہ باقی بچوں نے خود گواہی دی تھی تم نے اس لڑکی۔۔ کیا نام تھا اسکا۔۔۔۔۔ الیشا۔۔۔ ہاں۔۔ الیشا کو مارا تھا اور تمہاری ایک دوست اسکو پکڑ کر تھی۔ جب کہ تمہیں پتہ تھا وہ بیمار ہے اور وہ۔۔ تمہاری دوسری دوست۔۔ندا
وہ اب کرسی سے اٹھ کر کھڑی ہوگئ تھی اور اپنا بیگ وہی زمین پر رکھا تھا۔
امی: اسی سے ملاقات ہوئی تھی نا تمہاری جب تم شاعری سنے گئی تھی اور ہم لوگوں نے بھی تو دیکھا ہے اسکی تصویر تمہارے فون پر۔
ذاکر: ہاں۔۔ اسنے تو وہ پانچویں لڑکی کا بال ہی لے لیا تھا جیسے
عبداللہ: پھر کیا ہوا!
ذاکر: پھر کیا اتنے تھپڑ مارے اسے کے ناک سے اور ہونٹوں کے کنارے سے خون آگیا تھا اسکے
ابو: دیکھوں ذرا بھی انسانیت نہیں ہے اس میں
ذاکر: اس کے علاوہ ایک ہفتے کے لیے نکال بھی دیا ہے کالج سے
امی: اور لو۔۔ اور بولو بچی ہے بچی ہے تم دونوں باپ بیٹے نے مل کر اس لڑکی کو اتنا سر پر چڑھا لیا ہے
صالحہ اپنے روم میں غصہ سے چلی گئی۔ وہ اپنے کمرے میں جاکر رونے لگی باہر سب لوگ اسکی برائ ہی کر رہے تھے۔
امی: بچپن سے ہی ایسی ہے
ابو: اچھا جانے دو میں سمجھادوںگا بچی ہے سمجھ جاۓگی
امی: ہاں یہی کہوں آپ بس۔۔ یاد ہے چھٹی کلاس میں اس لڑکے کا دانت توڑ دیا تھا اور پھر آٹھویں جماعت میں تو ایسا مارا تھا اس لڑکی کو جیسے انسان نہیں جانور ہو۔
VOUS LISEZ
خواب گاہ
Roman d'amourمحبت ایسے ہی تھوڑی ہوجاتی ہے کبھی بھی انسان خود کر لیتا ہے اور کبھی بول بول کر کروا دی جاتی ہے۔ قدرت اس وقت تک کسی شخص کو کسی سے ٹکراتی رہتی ہے جب تک اسے وہ پسند نا آجاۓ۔ Mohobat aise hi thori ho jati hai kbhi insaan khud kr leta hai or kabhi bol b...