جب واحد نے رابعہ کو ساری بات بتائ تو اسے راحت ملی اسنے ندا اور صالحہ کی طرف سے بھی شکریہ کہا۔ جب ندا اور صالحہ کو علم ہوا تو صالحہ کے آنکھوں سے دوبارہ آنسوؤں بہنے لگے، لیکن اس بار یہ شکر اور صبر کہ تھے۔ صالحہ کے تصور میں بھی یہ بات نہیں ہو سکتی تھی۔
اسنے پورا ہفتہ بس اکرم کی شکرگزاری کس طرح کی جاۓ سوچنے میں لگا دیا تھا۔ آخر وہ ایسا کیا بولے کہ اکرم کو بھی اچھا لگے۔ صالحہ کے علم میں پہلے سے یہ بات تھی کہ اکرم کو اس سے خاصی شکایتیں تھی۔ لیکن خود اسے کبھی نہیں تھی اور اب تو اور بھی نہیں تھی
"شکریہ اکرم"
"تم نے جو کیا وہ سچ میں بہت الگ تھا اسلۓ مجھے تم سے شکریہ کہنا ہے"
وہ آئینہ کے سامنے کھڑی ہوکر سارا سارا دن اسے شکریہ کہنے کی کوشش کرتی اور رات کو اسی کے بارے میں سوچتی ہوئ سو جاتی لیکن ایسا کیوں کرتی اسے اس بات کا نا تو اندازہ ہوا نا فرق پڑا۔
◇◇◇
اگلی روز جب ایک ہفتہ مکمل ہوگیا تو وہ پہلے کی طرح ہی تیار ہوکر ذاکر بھائی کے ساتھ کالج کے لیے نکلی لیکن راستے بھر اکرم اسکے ذہن میں تھا۔ کالج کے گیٹ پر قدم رکھتے ہی اسے خیال آیا کہ الیشا نے اس کے ساتھ کیا کیا تھا۔ آخر وہ بھول کیسے سکتی تھی لیکن اکرم کی مدد اسے ضرور یاد تھی۔ وہ اتنا زیادہ اسے یاد کرنے میں مصروف تھی کہ الیشا کا خیال ہی نہ رہا۔ اندر داخل ہوتے ہی اسکے ذہن میں کئی سوال آنے لگے جیسے کہی سچ میں کسی کو کچھ پتہ تو نہیں چل گیا۔
ماحول بالکل عام سا تھا ایسا معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ ایک ہفتہ یہاں نہیں آئ تھی کچھ بھی نہیں بدلا جیسے کل بھی آئ ہو۔ کلاس میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر ندا اور رابعہ پر گئ جو اسکا انتظار ہی دیکھ رہی تھی۔ اپنی جگہ پر بیٹھنے کے بعد صالحہ کو پہلی بار ایسا محسوس ہوا کہ کسی بھی قسم کا حادثہ کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں لاتا۔ لوگ کسی کے بارے میں زیادہ دیر تک برائ بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ اپنے آس پاس کے لوگوں کو دیکھ کر اسے اچھا محسوس ہورہا تھا۔ یہ دنیا اتنی بھی بڑی نہیں تھی جتنا اسنے پچھلے کچھ دنوں میں سوچا تھا یہ سب بس اسکے ذہن میں تھا حقیقت میں نہیں۔ اپنی سوچ میں مشغول اسکی نظر اچانک دروازے پر گئ جہاں ایک بار پھر روز کی طرح اکرم اور واحد کھڑے تھے۔ آج سر دیر سے آۓ تھے ورنہ وہ لوگ ہمیشہ کی طرح ڈانٹ سنتے۔
پوری کلاس میں صرف پروفیسر جلال کی آواز گونج رہی تھی اور ہر کسی کی نظر بورڈ پر تھی لیکن صالحہ کا ذہن غیر حاضر تھا۔ کلاس ختم ہوتے ہی سب سے پہلے اکرم اور واحد نکلے ندا اور رابعہ کو لائبریری جانا تھا انہوں نے صالحہ کو اگلی کلاس میں ویٹ کرنے کا کہا اور چلی گئی۔ صالحہ نے اپنے بیگ کو کندھے پر رکھا فون ہاتھ میں اٹھایا اور اکرم کو دیکھنے چلی گئ۔ اس وقت وہ لوگ کینٹین میں ہوتے ہے تو وہ وہی گئ۔اکرم اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ برگر کھا رہا تھا اور کافی اسی ٹیبل پر تھی۔ صالحہ کے ذہن میں صرف ایک ہی خیال آیا کہ یہ سب کرنے سے اکرم کیا ہی سوچے گا اسکے فرینڈز کو پتہ لگا تو صالحہ کی کیا ہی عزت رہ جاۓگی اور آخر اسنے اسے لاچار اور مجبور ہی سمجھ کر مدد کی ہوگی ورنہ وہ تو اس سے خار کھاتا ہے۔
صالحہ کو پہلی بار عجیب سی شرمندگی محسوس ہوئی اور اسنے اپنے قدم واپس لے لیے۔ وہ اسی کلاس میں جاکر سب سے پیچھے بینچ میں بیٹھ گئ جہاں ابھی کلاس ہونے والی تھی۔ اس وقت کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ اسکے ذہن میں صرف اکرم کا خیال تھا کہ وہ اس وقت اس کے بارے میں کیا سوچ رہا ہوگا اور پھر پتہ نہیں سوچ بھی رہا ہوگا یا نہیں۔
دھیرے دھیرے سب لوگ کلاس میں آنے لگے اکرم اور واحد آج آگے والی بینچ پر بیٹھے جو کہ صالحہ کی بینچ سے کافی دور تھی۔ کلاس میں داخل ہونے پر چار بینچ کی لائن شروع ہوتی تھی۔ پہلی لائن کے سب سے آخری والے بینچ پر صالحہ تھی اور دوسری لائن کے سب سے پہلے بینچ پر اکرم تھا۔ وہ وہاں سے اسے اچھی طرح دیکھ سکتی تھی۔ سر کسی ٹاپک کے اوپر لیکچر دے رہے تھے۔
صالحہ نے پہلی بار اکرم کو اتنے غور سے دیکھا تھا۔ اس نے ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ پہنی تھی جسکا آستین اسنے اپنی کہنی تک موڑ رکھا تھا، کلائ پر واچ انگلیوں میں پین نظرے بورڈ کی طرف تھی۔ ذرا لمبے بال جو گردن کو ڈھکے ہوۓ تھے لیکن کندھے سے بہت دور تھے، سائڈ سے دِکھنے والی ہلکی داڑھی اور پھر کان۔ کندھے چوڑے سے اٹھے ہوۓ تھے جو کہ اسکے قد لمبے ہونے کی وضاحت کر رہے تھے۔ وہ کبھی بورڈ کی طرف دیکھتا تو کبھی اپنی کاپی کی طرف۔ کئ بار واحد اسے اپنی طرف مخاطب کرتا اور اس کے کانوں میں کچھ کہتا جس کی وجہ کر وہ یک بیک مسکراتا۔ اس کی نظریں اِدھر اُدھر نہیں دیکھتی صرف بورڈ اور کاپی۔
کچھ لمحے کہ بعد اسے احساس ہوا کہ ندا اور رابعہ چلنے کا کہہ رہی تھی ہوش میں آنے پر دیکھا تو کلاس ختم ہو چکی تھی۔ ان لوگوں کے ساتھ وہ اٹھ کر مسکراتے ہوۓ چلنے لگی لیکن خواہش تھی کہ اور ذرا دیر کلاس ہوتی تو اچھا ہوتا۔
◇◇◇
گھر پر بھی اب اسے یہ سب احساس ہوتا اور ہر بار بس کالج جانے کی جلدی لیکن اکرم کو دیکھتے ہی اسے واپس سے شرمندگی کا احساس ہونے لگتا۔ حالانکہ وہ اسے دیکھتا تک نہیں تھا لیکن پھر بھی۔
ایک دن دو دن تین دن اب اسی طرح کی صورتحال اسے سہنی ہوتی۔
◇◇◇
کلاس ختم ہونے پر جلال سر نے سوالات شروع کۓ
پروفیسر جلال: تم لوگ اتنے کمزور کیسے ہو سکتے ہو پڑھائی میں۔ تم لوگ دھیان کیوں نہیں دیتے۔ میرا خیال ہے کہ ابھی وقت ہے تو میں اور دو گھنٹے کلاس لے لیتا ہوں کیونکہ۔۔۔
صالحہ: ہاں ٹھیک ہے!
اس نے زور سے کہا۔ اپنے اس الفاظ کے بعد صالحہ کو احساس ہوا کہ کلاس میں صرف اسی نے یہ کہا ہے اور ابھی تو سر کی بات مکمل بھی نہیں ہوئ تھی۔ اپنے آس پاس دیکھا تو سب اسے ہی گھور رہے تھے سر بھی۔
پروفیسر جلال: صالحہ آر یو اوکے؟
صالحہ: جی سر۔۔ میں تو بس کلاس کا ہی کہہ رہی تھی۔
سر کو صالحہ کی یہ ایکٹیونیس اچھی لگی کیونکہ کسی اور کا دل نہیں تھا کلاس کرنے کا ہر کوئی صالحہ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
کلاس ختم ہونے کے بعد آج وہ لائبریری گئ تھی۔ کچھ کتابیں پڑھنے کے بعد اسے رکھتے وقت کسی کے ہونے کا احساس ہوا مڑ کر دیکھا تو اکرم دوسری طرف مڑا ہوا کسی شیلف سے کتاب نکال رہا تھا۔ کچھ دیر صالحہ نے اپنی کتاب دیکھی پھر یک دم خاموشی توڑنے کا خیال کیا
صالحہ: اکرم!
اکرم: ہمم۔۔ بولوں
اتنی جلدی اسے اسکے ردعمل کا امکان نہیں تھا
صالحہ: جو بھی کیا اس کے لیے شکریہ
اکرم: ا۔۔ اٹس اوکے۔۔ آئ مین یہ تو میرا فرض تھا۔
"فرض" کم از کم صالحہ کو یہ جملہ کی امید نہیں تھی۔
صالحہ: خیر۔۔ پھر بھی مدد کے لیے شکریہ۔۔ باۓ۔
اسنے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے قدم بڑھا لیے۔ آگے بڑھتے ہی لائبریری کے باہر اس کی نگاہ اچانک کسی لڑکی پر گئ جو کہ اسی طرف سے گزر رہی تھی۔ یہ الیشا تھی۔ ان دونوں کی نظریں ملی اور صالحہ کو سارا واقعہ پھر یاد آنے لگا وہی سوال اسکے ذہن میں دہرانے لگے لیکن اس بار الیشا نے اپنی نظریں ہٹالی اور اپنے راستے پر چل گئ۔
ایسا دیکھ اسنے سب سے پہلے ندا اور رابعہ کو بتایا وہ بھی حیران تھی خاص بات یہ تھی کہ اب وہ سکون محسوس کر رہی تھی۔
◇◇◇
صالحہ: نہیں اب ہوگیا خواہ مخواہ ہی میں کچھ بھی سوچ رہی تھی
وہ اس وقت اپنے بیڈ پر لیٹے ہوۓ اکرم کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی کہ آئندہ وہ اسے پریشان نہیں کرےگی اور نا ہی کبھی اس پر توجہ دے گی۔ ایسا ہی ہوا صالحہ دوبارہ اپنے کاموں میں مصروف رہتی لیکن اکرم کا خیال تو آتا ہی تھا۔
◇◇◇
کالج میں کلاس شروع ہونے سے قبل وہ اپنی کتاب پر نظر دوڑا رہی تھی کہ اسے کچھ الفاظ اکرم سے متعلق سنائی دیۓ۔ وہ اسکی کلاس فیلو تھی جو کہ اپنے گروپ کو بتا رہی تھی کہ کس طرح الیشا کے ساتھ اکرم باتیں کر رہا تھا وہ اسے اپنے دوستوں سے ملوا رہی تھی حتٰی کہ اپنے والد سے بھی بات کروائ۔ انکا کچھ چل رہا ہے یا نہیں۔۔ یہ ساری باتیں سن کر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اکرم بھی اسکے ساتھ ہو۔۔ پر ایسا نہیں تھا
صالحہ: اس بات سے کیا ہوتا ہے اب اس کی زندگی ہے جو کرے
اسے بڑبڑاتا دیکھ ندا نے سوال کیا تو اسنے بات ٹال دی۔ اس وقت تو بات ٹل گئ لیکن صالحہ اب سچ میں اکرم سے ذرا دور رہتی اسے اچھا نہیں لگتا کہ وہ اب اسے بار بار پریشان کرے یا اسکی جاسوسی کرے۔
○○○
صالحہ کینٹین میں کچھ کھا رہی تھی کہ اسکے سامنے سے اکرم گزرا۔ وہ جاکر دوسری جانب بیٹھ گیا۔ صالحہ نے دیکھا پر نظر انداز کردیا۔ جبکہ اسکی نظر صالحہ پر ہی ٹکی رہی۔ وہ کھانا ختم کرکے کلاس کے لیے چلی گئ۔
اکرم اور واحد ہمیشہ کی طرح ہی سب سے پیچھے بینچ میں بیٹھے۔ ایک نظر دو نظر پھر بار بار اکرم صالحہ کی طرف دیکھتا۔ آہستہ آہستہ ہر دن ہر کلاس میں اکرم صالحہ سے بہت دور کسی بینچ میں بیٹھتا اور وہی سے اسے بس ایک ٹک دیکھتا وہ کبھی مڑ کر نہیں دیکھتی۔ کینٹین، لائبریری کہی نہ کہی انکی نظریں ٹکراتی لیکن اس بات کا علم نہیں تھا کہ دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھنا چاہتے تھے۔
◇◇◇
"یار دیکھنے میں تو بہت اچھی ہے __اگر بات ہوجاتی تو مزہ آجاتا" یہ جملہ پر کسی نے انہیں پیچھے سے سر پر تھپڑ مارا وہ اور کوئ نہیں اکرم تھا جو کہ اب سینئر بن چکا تھا اور وہ تینوں جونیئرس تھے جنہیں آۓ بس تین ماہ ہوۓ تھے۔ وہ لوگ سامنے کھڑی لڑکیوں میں سے صالحہ کی بات کر رہے تھے۔
اکرم: دوبارہ اگر ایسا کرتے دیکھا تو تم سب اس کالج میں نہیں دیکھوگے۔۔سمجھے
جونیئر: سوری!
وہ لوگ اپنے کلاس کی طرف چلے جبکہ اکرم وہی کھڑا صالحہ کو دیکھتا رہا۔ خود کو بس تھوڑی دیر اور تھوڑی دیر اور کی تسلی دے رہا تھا اور یہ سب کرتے اسے واحد بڑے قریب سے دیکھ رہا تھا جو اسکے بالکل پاس کھڑا رہا پر اکرم کو اسکی موجودگی کا احساس تک نہ ہوا۔ تھوڑی دیر بعد اسنے خود ہی اسے تھپڑ مار دیا
واحد: ارے چل نا ہوا تو
اکرم: مارا کیوں؟
اس نے غصہ سے کہا۔ اب وہ وہاں سے تھوڑی دوری پر آگۓ تھے
واحد: دیکھ رہا ہوں کب سے تجھے۔۔۔ دیکھے جا رہا ہے دیکھے جا رہا ہے۔ ارے اب بس کر دے میرے بھائ اگر اچھی لگ رہی ہے تو جاکر بول نا بات کر
اکرم: نہیں میں بس ان جونیئرس کو سمجھانے گیا تھا
واحد: ہاں تو میں بھی تیرے ساتھ ہی تھا ہم دونوں ساتھ ہی گۓ تھے انہیں بھگا کر میں تو آگے آگیا لیکن پیچھے دیکھا تو۔۔ تو تھا ہی نہیں میرے ساتھ
اکرم: بس میں آ ہی رہا تھا
واحد: کب جب میں کلاس میں چلا جاتا تب
دونوں اسی طرح کچھ لڑتے جھگڑتے چلے گئے۔
◇◇◇
"تم کر کیا رہی ہو؟"
صالحہ نے جب یہ سوال کیا اس وقت رابعہ فون میں دیکھتے ہوۓ مسکرا رہی تھی اور ندا غصہ والا منہ بنا کر تھی جو اس وقت فون میں کوئی ڈراما دیکھ رہی تھی۔
ندا: اب پتہ چلا ہیروئین روتی کیوں رہتی ہے اپنی صفائی پیش کرتے وقت
صالحہ: کیوں
ندا: کیونکہ ایک تو بیچاری سارا کام بھی کر رہی ہے پھر اسکی بات بھی کوئی نہیں سن رہا اور تو اور سب کی ڈانٹ بھی وہی جھیل رہی ہے اور کوئ اسکا یقین بھی نہیں کر رہا
صالحہ: بات تو سہی ہے رونا کیسے نہیں آۓ گا۔۔ اور تمہیں ہنسی کیوں آرہی ہے؟
رابعہ: بس کچھ میسیجیس (Messages) چیک کر رہی ہوں
صالحہ: تو یہ کون سے میسیجیس ہیں جس کی وجہ سے اتنی مسکراہٹ آرہی ہے
رابعہ: ارے مطلب۔۔ کوئ تو ہے بہت اچھی طرح فلرٹ کرلیتا ہے
ندا: لیکن تمہارا تو رشتہ لگا ہے نا
رابعہ: ارے یار اب نہیں کریں گے تو اور کب کریں گے ویسے بھی یہ مجھے شادی کا وعدہ دے رہا ہے
صالحہ: ارے لیکن یہ تو دھوکا ہی ہے ایک طرح کا اور۔۔
رابعہ: ارے تم مجھے چھوڑو اپنا بتاؤ۔۔ تمہارا کیا چل رہا ہے اکرم کے ساتھ
رابعہ کے جملے نے اسے حیران کر دیا تھا
صالحہ: میرا۔۔مطلب۔۔ میرا کچھ ایسا نہیں چل رہا ہے
ندا: ارے یار نہیں چل رہا ہے تو چلاؤ نا
صالحہ: کیسے۔۔ اور مجھے تھوڑی ہی کوئ بات کرنی ہے۔ آئ مین اسے اگر کچھ کہنا ہوگا تو کہہ سکتا ہے۔
YOU ARE READING
خواب گاہ
Romanceمحبت ایسے ہی تھوڑی ہوجاتی ہے کبھی بھی انسان خود کر لیتا ہے اور کبھی بول بول کر کروا دی جاتی ہے۔ قدرت اس وقت تک کسی شخص کو کسی سے ٹکراتی رہتی ہے جب تک اسے وہ پسند نا آجاۓ۔ Mohobat aise hi thori ho jati hai kbhi insaan khud kr leta hai or kabhi bol b...