باب-۱۳

1 1 0
                                    

وہ گھر پہنچ کر بھی ان دونوں کی باتوں کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔
واحد: ارے بھائی کیا سوچ رہے ہو اتنی دیر سے؟
اکرم: ہی کہ ندا اور صالحہ اتنی باتیں کیسے کرسکتی ہے۔۔ کہاں سے آتے ہیں ان کے پاس ٹوپک
اس نے کچھ مسکرا کر جواب دیا
واحد: ہاں وہ تو ہے، میں بھی یہی سوچتا ہوں
اکرم: وہسے تم دونوں کیا باتیں کرتے رہتے ہو
اکرم نے اسے چھیڑنے کے انداز میں پوچھا تھا اور وہ شرما رہا تھا۔
واحد: بس ایسے ہی۔۔ یہاں وہاں کی فضول باتیں
وہ دونوں رات کا کھانا کھانے بیٹھے تھے، اور اسی طرح ہنسی مزاق کرتے ہوۓ وہ بھی اب سونے کیلئے بستر پر لیٹ گۓ تھے۔ واحد نے اجازت لیتے ہوۓ ندا کو فون لگایا، جبکہ اکرم نے اپنی وہی کتاب نکالی۔رات اسی طرح گزری۔ ہر رات وہ کچھ بھی تھوڑا سا پڑھ کر سوتا تھا، وہ اسے سکون بخشتی تھی۔
◇◇◇
آج صالحہ کے گھر کا ماحول گزشتہ دنوں سے مختلف تھا۔ روز کی طرح سب کھانے کی ٹیبل پر نہیں آۓ تھے بلکہ آج وہ اور عبداللہ ہی ساتھ کھانا کھا رہے تھے، جنہیں گھر میں ہونے والے کسی بات کی خبر نہیں تھی۔ آج بھابھی اپنے کمرے سے باہر بھی نہیں آئ تھی اس کی امی ہی گھر کا سرا کام کر رہی تھی، کچھ دن سے ذاکر بھائ بھی عجیب سا برتاؤ کررہے تھے، ابا کا تو جیسے کوئ اتہ پتہ ہی نہیں چلتا وہ بس اپنے کمرے میں آتے اور گھر سے باہر جاتے وقت نظر آتے۔
یہ ماحول صالحہ کیلئے نیا اور ڈراؤنا تھا۔ اس نے آج خود بھابھی سے جاکر بات کرنا مناسب سمجھا۔
"بھابھی" کمرے میں داخل ہونے پر اس نے آواز لگائ دروازہ اندر سے کھُلا تھا تو وہ داخل ہوگئ۔
بھابھی: ہاں اندر آؤ۔۔ بولو
ان کا چہرہ سرخ سا ہورہا تھا اور کمرے کی حالت بھی کافی عجیب تھی، جیسے کئ دن سے صاف نا کیا ہو۔
صالحہ: آپ کی طبیعت کیسی ہے اب۔۔ عبداللہ نے بتایا تھا کہ آج آپ ڈاکٹر کے پاس گئ تھی؟
اس نے انہی کے قریب بستر پر بیٹھتے ہوۓ پوچھا
بھابھی: ہاں ابھی پہلے سے بہتر ہے۔
ذرا سی بات چیت کے بعد ہی صالحہ کو سب سہی لگا تو اس نے واپس اپنے کمرے میں جانا مناسب سمجھا۔ جب وہ باہر آئ تو اس کی ماں نے دیکھا
امی: صالحہ، کیا کر رہی تھی۔۔ کیا تم بھی اپنے بھائ کی طرح۔۔
صالحہ: ہوا کیا ہے؟ بتایں تو
امی: مجھے لگا تمہیں پتہ ہوگا! مجھے تو سب سہی لگ رہا ہے پتہ نہیں کیا پریشانی ہے اسے۔
صالحہ: اسے کسے؟
امی: تمہارے بھائ کو۔۔ ارے تمہاری بھابھی ماں بن نے والی ہے اور تم پھوپھی۔۔ اب تو تھوڑی بڑی ہوجاؤ ورنا بچہ پر تمہارا کیا اثر ہوگا۔
امی کی بات سُن کر تو وہ دنگ رہ گئ تھی۔ اسے تو اندازہ بھی نہیں ہوا تھا کہ بھابھی کی شکل ایسی کیوں ہو رہی تھی۔ وہ دوڑتی ہوئ واپس بھابھی کے کمرے میں گئ اور لاکھو مبارکباد دیا۔ اپنی خوشی تو اس کے قابو میں نہیں تھی لیکن بھابھی کا چہرہ کچھ اور کہانی بیان کر رہا تھا۔
صالحہ: اچھا وہ سب چھوڑیں آپ پہلے یہ بتائیں کہ بھائ کہ ساتھ کیا مسئلہ ہے؟
بھابھی: اب کیا ہی بولوں۔۔ دراصل ابھی ہم لوگوں نے بچہ کا پلان نہیں کیا تھا۔ اور ابھی گھر کا خرچہ وغیرہ بھی۔۔ انہوں نے مجھ سے بات تک نہیں کی ہے کل سے۔
صالحہ: وہ سارے مسائل حل ہوجانے ہے آپ بس اپنی صحت کا خیال رکھا کریں اور میں نے ڈراموں میں دیکھا ہے ہوجاتا ہے۔۔ گھریلو معاملات ہے ٹھیک ہوجاۓگا آپ پریشان نا ہوۓ۔
اس نے اپنی بات رفتاری سے کہی، اب بھابھی کے چہرہ پر بھی سکون آگیا تھا۔ کچھ ہی پل میں یہ خبر عبداللہ کو بھی دے دی۔
◇◇◇
اس کا دن اسی طرح خوشی خوشی گزرا۔ آج ندا کا جنم دن تھا اور صبح سے اسے مبارکباد پیش کی جارہی تھی، آج وہ لوگ اس کا برتھڈے منانے وہی میدان جانے والے تھے۔
اکرم: تمہارے پاس اور کوئ جگہ نہیں ہے کیا۔۔
اس طنزیہ سوال پر صالحہ نے اسے غصہ سے دیکھا، لیکن دن اچھا تھا تو اس نے کچھ بھی نہیں کہا۔
پارک میں ایک بینچ پر وہ دونوں بیٹھی۔
ندا: اوو۔۔ تھینکیو سومچ گائز! میں بہت خوش ہوں۔
جلدبازی میں وہ لوگ کیک لانا ہی بھول گۓ تھے۔ بہرحال واحد اور اکرم گۓ۔اتنی حسین شام تھی کہ انہیں بس یوں ہی بیٹھنے میں خوشی ہو رہی تھی۔ درخت کی لمبائ کی وجہ سے اس کے پتے آسمان پر پھیلے چاند کو کبھی نظر نا آنے دیتے کبھی واپس جگہ پر آجاتے۔ ٹھنڈی ہوائیں ہر پتے کو چھو رہی تھی اور خالی جگہ ہونے کی وجہ سے وہاں کافی سکون تھا۔
صالحہ: یہ دونوں کیک لانے گۓ ہیں یا بنانے۔۔
وہ دونوں کافی دیر سے انتظار کررہی تھی۔ اچانک ہی اکرم اور واحد نظر آۓ، ان کے ہاتھ میں ایک ڈبہ بھی تھا۔
بینچ میں بیٹھنے کے بجاۓ انہوں نے زمین پر بیٹھنا مناسب سمجھا۔ قریب وہ چاروں زمین پر بیٹھے، کیوں کہ کچھ انتظام نہیں تھا۔
کیک سفید رنگ کا تھا جس پر سفید کریم سے ڈیزائن کی گئ تھی اور سیاہ کریم سے ہیپی برتھڈے لکھا تھا، اسی کے قریب ایک سیاہ رنگ کی موم بتی بھی تھی جس کی وجہ سے یہ پورا ماحول چمکدار اور خوبصورت لگ رہا تھا۔
ندا نے ایک ٹکڑا جب کاٹا تو سب سے پہلے صالحہ کو کھلایا اور پھر واحد کو، ابھی کیک پورا ویسے ہی تھا صرف کچھ ہی حصہ کاٹ کر کھایا تھا انہوں نے اور تصویر لینے میں مشغول ہوگۓ۔ کھانے پینے کی اور بھی اشیاء تھی تو انہوں نے اسے پہلے کھایا۔
صالحہ: ویسے میرا آج کا دن تو بہت ہی بہترین گزرا۔
ندا: ہاں اور میرا تم سبھی نے بنادیا۔۔
واحد: لیکن تمہارا نوٹس۔۔ وہ بھی آج کے دن بن رہا تھا
سبھی کہ قہقہوں کی آواز سے رستہ گونج رہا تھا۔
واحد: بھائ تم بھی کچھ بولو۔
صالحہ: اسے خاموش ہی رہنے دیں۔۔ بولتا ہے تو بُرا ہی کہتا ہے۔
اکرم: تم کہنا کیا چاہ رہی ہو؟
ماحول کو بدلتے دیکھ ندا نے ٹاپک ہی بدل دیا
ندا: ویسے وہ سب ہٹاؤ۔۔ تم بتاؤ اس رات صالحہ کے گھر تم کیا کرنے گۓ تھے۔
اچانک یہ بات آنے والی تھی اسے اندازہ نہیں تھا۔
اکرم: ا۔۔وہ تو بس ایسے ہی۔۔ مجھے واحد نے بتایا تھا کہ صالحہ میری وجہ سے کالج نہیں آرہی تھی۔
واھد: اور مجھے ندا نے بتایا تھا۔
بات گھوم رہی تھی ان کے درمیان۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد واپس ندا نے ٹاپک بدل دی۔
ندا: اچھا وہ سب رہنے دو یہ بتاؤ کہ کیسا گزرا تھا سبھی کا دن۔۔ مطلب جس دن ہم سب گھومنے گۓ تھے تو وہاں سے آنے کے بعد۔
واحد: مجھے تو بہت مزہ آیا تھا اور بہت خوشی بھی ہورہی تھی۔
صالحہ: ہاں مجھے بھی۔۔ میرا وہ دن آج تک کا سب سے اچھا اور سب سے حسین دن گزرا ہے۔
ندا: پر میرا تو آج کا دن۔
واحد: اور تمہیں کیسا لگا بتا بھی دو۔۔
اکرم: مجھے بھی سب ٹھیک لگا۔
صالحہ: اس سے تو کوئ سوال ہی مت کرو وہی بہتر ہوگا
صالحہ نے اپنی بات اکرم کی طرف سے منہ پھیرتے ہوئ کہی تھی۔
اکرم: میں تو کہتا ہوں تم سے ہی کسی کو بات نہیں کرنی چاہئے۔۔ جب بھی کہتی ہو تو عجیب بات۔
صالحہ: عجیب۔۔ اس بات کا کیا مطلب ہے؟
اکرم: کتنی ایم میچیور ہو تم۔
ان دونوں کے بحث و مباحث میں ندا اور واحد انہیں خاموش کروا رہے تھے۔ اکرم کا غصہ بڑھ رہا تھا جسے وہ کنٹرول کرنے میں مصروف تھا، وہی دوسری طرف صالحہ اپنی ہر بات کو مکمل کر رہی تھی اور واضح طور پہ سبھی کو سمجھا رہی تھی۔
اکرم: تم سے تو بات کرنا ہی بیکار ہے۔
صالحہ: تم بھی کوئ خاص نہیں ہو جس سے میں بات کروں۔۔
ندا: ٹھیک ہے نا جانے دو
واحد: بھائ سُن تو
صالحہ: ارے نہیں ایسے کیسے کہہ سکتا ہے۔۔ اُس دن بھی ایسے ہی کہہ رہا تھا نا جانے کیا کیا بول رہا تھا۔
ندا: لیکن تمہیں ضرورت کیا تھی اس سے۔۔
اکرم: صالحہ!
صالحہ: نہیں پوچھو نا اس سے بولو ابھی بولیں جو اس دن کہہ رہا تھا۔
اکرم: تم بھی کچھ کم نہیں ہو۔۔ جب دیکھو تب بس بولتی ہی رہتی ہو۔۔
صالحہ: پتہ ہے اس دن واحد بھائ کی چغلی کررہا تھا۔۔ کہہ رہا تھا تم دونوں جو اس طرح کپل ہو وہ غلط ہے۔۔ ایسا نہیں رینا چاہیے تھا تمہیں۔
اس کے منہ سے نکلی ہوئ بات کا کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ اکرم کے سامنے ہی ہاتھوں کے قریب کیک رکھا تھا، اس نے غصہ میں زمین پر ہی ایک مکّہ مارا۔ سفید رنگ کی کریم جب اس کے ہاتھوں پر لگی اس وقت سبھی کو معلوم ہوا کہ اکرم نے کیک پر مکّہ مارا تھا۔ ندا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور واحد بس خاموشی سے یہ دیکھتا رہا، صالحہ کا منہ کھُلا رہ گیا۔ اکرم کو اپنی اس حرکت پر نہایت افسوس تھا لیکن اب۔۔ اب تو بہت دیر ہوگئی تھی واحد وہاں سے بغیر کچھ کہے اُٹھ کر چلا گیا، کچھ ہی دیر میں ندا نے بھی اپنے آنسوؤں کو پوچھا اور صالحہ کہ منانے کے باوجود بھی اُٹھ کر چلی گئ۔
پارک جو کچھ دیر پہلے ان کے قہقہوں سے حسین لگ رہا تھا اب وہاں خاموشی ہوگئ تھی، فضا، درخت، پتے سبھی ویسے کہ ویسے رہے بس وہ دونوں خاموش ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
اکرم کے آنکھوں کا غصہ صالحہ کی آنکھوں کا آنسو دیکھ کر چلاگیا تھا۔ وہ روئ نہیں تھی پر اشک آنکھوں میں تھا۔ اکرم کی بھوۓ نرم ہوگئ تھی اور نظریں نیچے، کچھ ہی دیر میں وہ بھی اُٹھ کر گھر چلی گئ۔ اکرم وہی اکیلا بیٹھا رہا۔
◇◇◇
آج پورے دو دن ہوگۓ تھے کسی نے ایک دوسرے سے بات تک نہیں کی تھی۔ عجیب سی خاموشی آگئ تھی ان کے درمیان، رات کے وقت جس طرح تاریکی جیسے آجاتی ہے ویسے ہی ان کے درمیان بھی تاریکی چھاگئ تھی، الفاظ کا اب کسی پر کوئ اختیار نہیں تھا۔
اختلاف کا یہ سلسلہ جاری رہا، دو دن، تین دن، اور پھر مناتے مناتے پورا ہفتہ گزرگیا لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔
صالحہ: آج تو کچھ کرنا ہی ہوگا۔
اس نے اکرم کو کلاس شروع ہونے سے پہلے کہا تھا۔ ندا اور واحد ابھی تک نہیں آۓ تھے۔
اکرم: غور سے سنو۔ میں جیسا جیسا کہتا ہوں وہسا ہی کرنا اگر اپنی دوست کو منانا ہے تو۔
صالحہ: تم کتنے بےشرم ہو۔۔ ایک تو تمہاری وجہ سے ہوا ہے سب کچھ اور اب مجھ سے سودےبازی کر رہے ہو۔
اکرم: صرف میری غلطی نہیں تھی تمہیں بھی نہیں کہنا تھا وہ سب۔
دونوں کو اپنی غلطیوں کا احساس تھا۔ اکرم نے جیسا کہا صالحہ نے سب ویسا ہی کیا۔
○○○
کلاس کے بعد جب ندا کینٹین میں آئ تو اچانک سبھی نے اس کا استقبال کیا اور اس کے ہاتھوں میں ہر کسی نے ایک ایک پھول پکڑایا وہاں کے دوسرے اسٹاف بھی شامل تھے۔ اکرم اسی درمیان واحد کو بھی لے کر آیا۔ ندا اور واحد ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے، وہ روبرو تھے اور سائڈ سے کچھ لوگوں نے ایک ایک کر کے اپنے ہاتھوں میں پکڑے کارڈبورڈ کو اُٹھایا۔ ہر ایک بورڈ پر ایک حرف لکھا تھا، کل ملا کر سات کارڈبورڈ تھے۔
M A R R Y M E
ندا یہ دیکھ کر حیران تھی اور واحد کو بھی اندازہ نہیں ہوا کہ اکرم نے اس کے ہاتھوں میں ایک رِنگ کا ڈبہ دیا۔
اکرم: یار معاف کردو میں نے اس طرح سے اس بات کو نہیں کیا تھا جس طرح سے اس صالحہ نے پیش کیا
صالحہ: سوری یار، بالکل دل سے کہہ رہی ہوں سب کچھ اکرم کی غلطی تھی میں نے تو بس پوچھنے پر بتادیا تھا میرا مقصد تمہیں تکلیف دینا نہیں تھا۔
ان دونوں نے آہستہ سے ایک دوسرے کے کانوں میں کہا اور وہی سب کے سامنے واحد نے اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ندا کو پروپوس کیا اپنے سامنے گھٹنے پر بیٹھے انسان کو جب اس نے غور سے دیکھا تو اسے یہ احساس ہوا کہ کوئ اس کے صرف ایک الفاظ ہاں کا انتظار کر رہا ہے۔ یہ دیکھ کر خود وہ بھی حیران تھی کہ یہ خاص لمحہ اس کی زندگی میں آیا تھا۔ اور پھر کچھ ہی سیکنڈز میں ندا نے ہاں کہہ دیا۔ اب ان چاروں کی بات یہاں سے واپس شروع ہوگئ تھی۔

وہ گھر پہنچ کر بھی ان دونوں کی باتوں کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔واحد: ارے بھائی کیا سوچ رہے ہو اتنی دیر سے؟ اکرم: ہی کہ ندا اور صالحہ اتنی باتیں کیسے کرسکتی ہے۔۔ کہاں سے آتے ہیں ان کے پاس ٹوپک اس نے کچھ مسکرا کر جواب دیا واحد: ہاں وہ تو ہے، میں بھ...

¡Ay! Esta imagen no sigue nuestras pautas de contenido. Para continuar la publicación, intente quitarla o subir otra.
خواب گاہ Donde viven las historias. Descúbrelo ahora