کہاں ہیں ہم؟؟؟

50 2 0
                                    

کیا شامی مہاجرین کی مدد کی جاسکتی ہے؟؟؟
ہم لوگ کتنے اطمینان سے ہیں۔ حیرت ہیکہ شام میں ہورہے  ان حقیقی واقعات کو دیکھنے کے باوجود ہم لوگوں کا دل نہیں پگھلتا۔
نجانے کتنی ماؤں نے ابتک اپنے جگر گوشوں کو اپنے ہاتھوں سے دفنایا ہوگا؟؟؟
کتنی ہی بہنیں بیوہ ہوچکی ہونگی؟؟؟؟
کتنے ہی نوجوان ہونگے جو اب اس زندگی میں کبھی مسکرا نہیں سکیں گے؟؟؟؟
کتنے ہی معصوم ہونگے جنہیں اپنے والدیں کا چہرہ تک یاد نہیں ہوگا!!!!
کیا وہ مصیبت جو ہمارے گھر نہ پہونچی ہو مصیبت نہیں کہلاتی؟؟؟
کیا یہ مائیں ہماری اپنی ماؤں جیسی نہیں ہیں؟؟؟
کیا انہیں کسی سہارے کی کوئی ضرورت نہیں؟؟؟
دو میٹھے بول کہنے کو بھی تو کوئی نہ ہوگا!!!
اور یہ ننھے معصوم سے یتیم بچے!!!
انکی معصومیت جھوٹی ہے یا ہمارے دل ضرورت سے زیادہ سخت ہو گئے ہیں؟؟؟؟
کیوں ہماری نوجوان بہنیں لب سڑک پڑی سسک رہی ہیں؟؟؟
کوئی پوچھنے والا نہیں؟؟؟؟
کوئی انکے درد میں انکا سانجھا کیوں نہیں۔
ایک بار، بس ایک بار دل پہ ہاتھ رکھ کر جواب دیجئے گا۔
کیا ہماری ایمانی غیرت اس حد تک گر چکی ہے؟؟؟
کیا ہمیں کچھ بھی نہیں دکھائی دے رہا؟؟؟
انکے نالے ہمارے کانوں تک پہونچنے سے قاصر کیوں ہیں؟؟؟؟
اب اور کیا قیامت گزریگی ان بیچاروں پر۔
ہماری غیرت کس ذلت کے انتظار میں ہے؟؟؟
ہم جہاد نہیں کرسکتے کہ ہم متحد نہیں ہیں۔
ان ممالک میں نہیں جا سکتے کہ ہم پر دہشت گردی کا الزام ہے۔
ہم دینی تعلیم نہیں حاصل کرسکتے کہ معشیت کمزور پڑ جائیگی۔
ہمارے بچے بچیوں کا ماڈرن کالجز جانا از حد ضروری ہے کہ یہی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
مجھے آپکے سب عذر قبول ہیں۔ ایک بار نہیں سو بار قبول۔
لیکن ان بیچاروں کی مدد نہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟؟؟
اس درجہ کی غفلت کہ کبھی کسی کو کچھ کہتے ہی نہیں سنا۔
ہاں بعض خطباء کو دیکھا کہ اس کا سارا الزام امت کی بے عملی پہ رکھ دیا۔ ٹھیک ہے۔ یہی وجہ ہوگی۔ اصلاح کی ضرورت ہے یہ بھی ٹھیک ہے۔
لیکن !!!!
ہم مدد کیوں نہیں کر رہے؟؟؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ بعض تنظیمیں بلا تفریق مذہب و ملت آگے آچکی ہیں۔
کس چیز نے انہیں مجبور کیا اس بات پر؟؟؟
وہ رب ذوالجلال کو مانتے ہی نہیں اس سے ثواب کی امید کو جانے دیجئے۔
ان بیچاروں سے انکا کوئی رشتہ بھی نہیں۔ صرف انسانیت نامی احساس نے انہیں اس حد تک جانے پہ مجبور کر دیا۔
ہمیں تو ثواب کا وعدہ بھی ہے اور ہماری غیرت کا تقاضہ بھی۔
وہ ہمارے ہم مذہب ہیں، ہماری ذمہ داری ہیں۔
وہ ہماری صفوں میں شامل ہوکر سیسہ پلائی دیوار بن سکتے ہیں۔
انہیں ہمارے کاندھوں کی ضرورت ہے۔
گوگل پر صرف سیریا لکھ کر دیکھئے۔ ایسے دس جواب ملیں گے جو انکی مدد کرنے والی ویب سائٹس کا پتہ دیں گے۔
بس وہاں ہمارا نام نہیں آتا۔
اور اگر بے حسی کا یہی عالم رہا تو شاید کبھی نہ آسکے۔
ایک اکیلے سعودیہ عربیہ کی مدد کردینے سے ہم بری الذمہ تو  نہیں ہو سکتے۔
ہمیں فیصلہ لینا ہوگا۔ ایک قدم آگے بڑھانا ہوگا۔
میری آپ سے صرف یہ گزارش ہیکہ کم از کم اس تعلق سے اپنے ایک دوست سے، یا کسی فیملی ممبر سے، یا امام و مدرس سے اس کا ذکر ضرور کیجئے گا۔
اور یہ گزارش بھی کہ وہ بھی ایسا ضرور کریں۔
میں یہاں کسے ویب سائٹ کا نام نہیں لکھ رہا کہ انکو تلاشنا کوئی مشکل کام نہیں۔ نہ ہی وہ میرا مقصد ہے۔
میرا مقصد ہے  آپکے احساسات کو جگانا۔
اس جمود کو توڑنا جسکی آڑ میں ہم ہر ذمہ داری سے منہ موڑے بیٹھے ہیں۔
شکریہ ۔

لقد وصلت إلى نهاية الفصول المنشورة.

⏰ آخر تحديث: May 08, 2016 ⏰

أضِف هذه القصة لمكتبتك كي يصلك إشعار عن فصولها الجديدة!

شام: ایک اسلامی ملکحيث تعيش القصص. اكتشف الآن