غزل ١٤

31 2 0
                                    

سمجھ جب دنیا کی لگی
خود کو تیری محبت میں گرفتار پایا
ازل سے تجھی کو تو چاہا ہے
تیرا ہی نام حرف آخر قرار پایا

ذد کی تو بس تیری ہی کی
تیرے ہی خیال کو سر پر سوار پایا
اک تجھے ہی دل میں بسنے کی اجازت ہے
اور کسی نے، نا یہ مقام پایا

تجھ سے تیری ہی شکایت کی
پھر جود ہی کو تیری وکالت کرتا پایا
خود کو تیرے ہی لیے تڑپایا ہے
تیرا ہی ذکر ہے سکونِ ہستی قرار پایا

تیرے ہی گرد میری دنیا گھومی
تجھے ہی لازم و ملزوم پایا
آنکھ تو دل کا آئینہ ہے
اس دل میں کوئی اور نہ جھانک پایا

دنیا ساری میرے خلاف بولی
پر خدا کو اپنا گواہ پایا
یہ صوفی کے عشق کی حد ہی تو ہے
نہ کوئی مدِمقابل آیا نہ کوئی تجھے سوچ پایا

ع ش قTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang