رابعہ کی باتوں کی وجہ سے نورزہرا اسکو پچھلے تین دن سے نظرانداز کررہی تھی۔رابعہ کو اس کا یہ رویہ بے چین کر رہا تھا۔اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ نورزہرا کو کچھ نہیں کہے گی عباس کے حوالے سے کیوں کہ اس کو اپنی دوستی زیادہ عزیز تھی۔
رابعہ بالکونی میں کھڑی یہ سب سوچ رہی تھی کے امی کی آواز پر چونکی"جی امی ؟" رابعہ سنبھل کر بولی
"بیٹا تم نورےزہرا کی کی طرف جارہی تھیں نہ! " امی نے پوچھا
"جی امی پر ابھی وہ یونیورسٹی سے آکر سو گئی ہوگی اس لیے شام میں جاونگی۔" رابعہ نے کہا
"اچھا صحیح ہے۔" ملیحہ بیگم نے مطمئین ہوکر کہا
"آجاو کھانا لگارہی ہوں۔ یونیورسٹی نہیں گئی تو آج سب کے ساتھ کھالو۔" ملیحہ بیگم نے رابعہ کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا
"جی آپ چلیں میں آئی۔" رابعہ نے مسکرا کر کہا
___________*____________*_________"ہوگئی باپ بیٹے کی میٹنگ ؟" ہاشم نے تنزیہ کہا
"ابے تجھے پتا تو ہے پاپا سارا بزنس میرے حوالے کررہے ہیں۔تو بس اس ہی چکر میں میٹنگز پر میٹنگز کرہے ہیں۔ بس جلدی پاپا آفس آنا بند کریں پھر تم دیکھنا میں اس آفس کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہوں۔"
عباس بہت ہی پر امید نظر آرہا تھا"اچھا بس بس اب چل لنچ کے لئے باہر۔" ہاشم کہتا ہوا باہر چلاگیا عباس نے گاڑی کی چابیاں اٹھائی اور ساتھ ہی باہر کی جانب چل دیا
"تجھے بھی بس یہیں جگہ ملی تھی لنچ کے لیے؟ ایک لڑکی نہیں آئی ہوئی ادھر۔" ہاشم نے عباس کے کندھے پر ہاتھ مارا
"بیٹا ٹھیک سے دیکھ۔ سامنے دو درخت نہیں بیٹھیے ہوئے !" عباس منہ بناتے ہوئے بولا
"یہ لڑکیاں ہیں؟ " ہاشم نے پوچھا
"تو پھر اور کون ہیں؟ عباس نے دائیں آئیبرو اٹھا کر کہا
"شکلیں دیکھو انکی بیوہ لگرہی ہیں۔اتنا اوڑھ پہن کر آنے والی لڑکیاں میرے لیے کسی بیوہ سے کم نہیں۔" ہاشم نے قہقہہ لگایا
"عجیب لڑکیاں ہیں پاکستان کی۔" عباس نے ہاشم کی باتوں سے متفق ہوتے ہوئے کہا
"میرے اس ملک سے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔" عباس نے اپنے مستقبل کل منصوبہ بتایا
"تو چلا گیا تو تیرے بزنس کا کیا ہوگا؟" ہاشم حیران ہوا کیونکہ عباس نے اس سے پہلے دوبارہ باہر جانے کی بات نہیں کی تھی
"سارا مسئلہ بزنس کا ہی تو ہے۔میرے پاس صرف تین سے چار مہینے ہیں۔اور ان مہینوں میں مجھے سارا آفس باہر شفٹ کرنا ہے۔"عباس نے کولڈرنک کا سپ لیا
"ہاہاہا بلی کے خواب میں چھیچھڑے۔" ہاشم نے عباس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا
"زیادہ ہنسنے کی ضرورت نہیں ہے۔" عباس ناسمجھی کے انداز میں ہاشم کو دیکھ رہا تھا
"یہ منصوبے جو تو بنا رہا ہے ان کو پوری کرنے کی اپنے باپ سے اجازت لی ہے؟" عباس سمجھ گیا کہ ہاشم پھر سے اس کو طعنہ دینا چاھ رہا ہے (mummy daddy) ہونے کا
"دیکھ اب میں وہ عباس نہیں رہا جو ایک فائل بھی ابو کی مرضی سے دیتا تھا جو کہ میری مجبوری تھی۔ اب میں عباس علی ہوں اور اس بزنس کا پہلا اور آخری بوس۔ تو اب جو میں کہوں گا پاپا کو نہ چاہتے ہوئے بھی ماننا پڑے گا۔ اس لئے تو اب مجھے ممی ڈیڈی ہونے کے طعنے دینا بند کر۔ "ایک مغرور مسکراہٹ کے ساتھ عباس نے اپنی بات ختم کی اور بقیہ کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا
"ہاشم کو تھوڑی سی بھی جلن محسوس نہیں ہوئی جبکہ اب عباس کا بزنس کافی مضبوط ہوگیا تھا۔لیکن وہ جانتا تھا کہ عباس اس سارے بزنس کو بہت اچھے طریقے سے ڈوبائگا کیونکہ عباس اپنے مستقبل کے لئے سوچتا ہی نہیں وہ بس اپنے ہال کی عیاشی کا ہی سوچتا تھا ہے۔" اس لئے ہاشم مطمئین تھا
"عباس اور ہاشم کی دوستی صرف ایک سال پرانی تھی۔ایک بزنس میٹنگ میں انکی ملاقات ہوئی تھی اور وہ ملاقات اب بہت اچھی دوستی میں تبدیل ہوگئی تھی۔ہاشم بہت امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔عباس کے مقابل ہاشم بہت چلاک اور ہر کام سوچ سمجھ کر کرنے والا شخص تھا۔ہاشم کے صرف اونچے اسٹینڈرڈ کے لوگوں سے تعلقات قائم تھے۔ یا پھر ان سے جو اس کے کام آسکتے۔چونکہ ہاشم کے پاس پیسے کی کمی نہ تھی تو وہ ہر غلط کام کا عادی تھا۔ بہت غلط کام کرنے کے باوجود بھی جیل جانے کی نوبت نہ آتی اچھے تعلقات کی وجہ سے۔ہاشم ہر اس شخص سے جیلس ہوتا جو اس سے ہر لحاظ سے بہتر ہوتا۔ یہی وجہ تھی کے ہاشم عباس سے جیلس نہ ہوتا کیونکہ وہ جانتا تھا کے عباس کبھی بھی اس پوسٹ پر آ نہیں سکتا جس پر آج ہاشم بیھٹا ہے۔عباس ہاشم کی ہر چیز سے امپریس ہوتا اور اس کو اپنانے کی کوشش کرتا اور کامیاب ہوجاتا۔"
انسان برائی کو جلدی اپنا لیتا ہے اچھائی کے مقابلے میں ۔
___________*____________*__________گاڑی میں اتنی تیز آواز چلتے ہوئے گانوں کی نہیں تھی جتنی ان دونوں کی بےسری آوازوں کی تھی۔
چلتے ہوئے انگریزی گانے کے ساتھ ساتھ وہ دونوں گانا گا رہے تھے۔شکر کے گاڑی کے شیشے بند تھے ورنہ آس پاس کی گاڑیاں پریشان ہوجاتیں۔
گاڑی وحاج نے ایک ہوٹل کے سامنے روکی اور پارکنگ کے لئے دیدی۔
وہ دونوں اتر کر ہوٹل کے اندر داخل ہوئے۔
مناسب سی دو لوگوں والی ٹیبل پر دونوں بیٹھے اور مینیو کارڈ دیکھنے لگے۔"وحاج نے آڈر دینے کے لئے مینیو کارڈ سے نظریں اٹھائی اور جس شخص پر اسکی نظر پڑی وہ شخص کیشیئر سے بات چیت میں مصروف تھا۔ وحاج اس چہرے کو اچھے سے پہنچانتا تھا۔ وہ گم سم انداز میں اسے دیکھے جارہا تھا۔عبداللہ کی نظر وحاج پر پڑی جو کسی کو دیکھتے ہوئے کھویا ہوا تھا۔عبداللہ نے وحاج کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو وہ اس شخص کو پہنچان گیا جو اب ہوٹل سے باہر نکل رہا تھا۔عبداللہ سمجھ گیا کے وحاج اس طرح کیوں کھویا ہوا ہے۔ عبداللہ نے وحاج کو ہلکے سے تھپکا اور کچھ کہنا چاہا. وحاج کچھ کہے سنے بغیر ہی ہوٹل سے باہر چلاگیا۔عبداللہ اسکے پیچھے تقریباً بھاگا۔
"تو کب تک حقیقت سے بھا گے گا ؟" عبداللہ نے راستے کی خاموشی توڑی
وحاج نے عبداللہ کو نظرانداز کیا۔وحاج ہر بار یہی کرتا جب عبداللہ کوشش کرتا کے بات کرنے کے اسکے دکھ
"وحاج گاڑی روک ! " عبداللہ نے گاڑی سے اتر جانے کے لئے دروازے کے لوک کی طرف ہاتھ بڑھایا
___________*____________*__________'جاری ہے'
4th part is done.
Hope you're liking the characters .
And if you , so please leave a comment and vote here .
I'll be thankful.
~fan girl Muntaha Warsi 💕
أنت تقرأ
محبت کیجئے پر ذرا خیال کیجئے
غموض / إثارةThis is a story of a teenage girl. I wrote it specially for the teenage girls and boys . In this story I've discussed very important part of our life . We all fall in love with someone once and there is nothing bad in it . But the point I've noticed...