وہ عبداللہ کو گھر چھوڑنے کے بعد سیدھا گھر آیا تھا۔موڈ اسکا بے حد خراب تھا۔کھانا اس نے ریسٹورنٹ میں نہیں کھایا تھا اور نہ ہی گھر میں۔کپڑے تبدیل کر کے نماز پڑھنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔آنکھوں میں نمی تھی۔
"اے اللہ مجھ سے ہمیشہ راضی رہنا۔ جانے ناجانے میں مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو مجھے معاف فرمادے میرے خدا۔اور مجھے مزید صبر کرنے کی توفیق عطا کردے ورنہ مجھے وہ دیدے جس کے لئے میں نے گزری ہوئی تمام زندگی میں صبر کیا ہے۔ آمین۔"
آخری جملہ کہتے ہوئے وحاج کی آواز میں لرزش تھی۔ وہ ہر نماز میں اس ہی طرح حق سے اپنے صبر کا اجر مانگا کرتا تھا۔اسے اجر ملنے کی امید کم ہوتی ہوئی محسوس ہوتی تو وہ مزید دعا کرتا کیونکہ کے امید کا کم ہونا اس کے لئے زندگی کے ختم ہونے کی مانند تھا۔ جائے نماز کو تہہ کر کے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھا پھر اپنے بجتے ہوئے فون کی طرف بڑھا۔اسکرین پر عبداللہ کا نمبر روشن ہورہا تھا۔موڈ بہتر نہیں تھا لیکن فون وحاج کا تھا تو اٹھالیا۔"ہاں بول؟" وحاج نے پہل کرتے ہوئے وقت دیکھا۔دس بج کر پندرہ منٹ ہورہے تھے۔
"کیا حال ہیں؟" عبداللہ نے بہت سادے انداز میں پوچھا۔
"میں۔۔ٹھیک!" بہت حیرت سے
"کھانا کھایا؟" عبداللہ کی آواز میں شرارت تھی۔
وحاج بے اختیار ہنس پڑا۔"تو یہ سوال سارہ سے پوچھا کر یار !! ورنہ مسئلہ ہوجائے گا۔" وحاج ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا
"اسے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔" پر سکون انداز میں کہا
"کیوں کیا سارہ جانتی ہے کے تو مجھ میں انٹرسٹڈ ہے؟" اب وحاج اس کو تنگ کرہا تھا
"استغفراللہ وحاج تم تو میری دوستی کا غلط استعما ۔۔۔ "
"ناجائز فائدا اٹھا رہا ہوں۔" عبداللہ کی بات وحاج نے شرارت سے مکمل کی
"بلکل ! بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے۔" عبداللہ نے مصنوعی ناراضگی سے کہا
"ہاں تو کس نے کہا ہے روز رات کو میری بیوی بننے کو؟"
"اب جب 23 سال کے ہونے کے باوجود تم سنگل زندگی گزار رہے ہو تو میں نے سوچا رات کے اس وقت تمہیں تھوڑا اچھا محسوس کر وادوں۔" عبداللہ نے جیسے اپنا کیا ہوا احسان جتایا
"ہا ہا ہا ہا۔ زیادہ فری مت ہو اب سونے دو!" وحاج اب اچھا محسوس کرہا تھا
"یار تمہیں سوچنا چاہیے اس بارے میں۔" عبداللہ نے سنجیدگی سے کہا
"یار پلیز معاف کردے۔ مجھے کل آفس جلدی جانا ہے سونے دے۔" وحاج نے سادے لہجے میں کہہ"ٹھیک ہے ہم اس پر کل یونیورسٹی میں بات کرینگیں۔"
وحاج نے جواب میں صرف الوداعی کلمات کہے۔ وہ ہر بار عبداللہ کی اس طرح کی باتوں کا جواب نہیں دیتا تھا۔ عبداللہ پھر بھی یہی باتیں کرتا کیونکہ کے اصل وجہ تو واحاج کے علاوہ کسی کو معلوم ہی نہیں تھی۔
____________*____________*___________
"صاحب آپ کی جاوید صاحب کے ساتھ جو میٹنگ تھی وہ 15 منٹ میں شروع ہونے والی ہے۔آپ جلد از جلد وہاں پہنچ جائیں۔" اتیق صاحب عباس کے آفس کا دروازہ کھولتے ہی اس سے کہنے لگے
DU LIEST GERADE
محبت کیجئے پر ذرا خیال کیجئے
Mystery / ThrillerThis is a story of a teenage girl. I wrote it specially for the teenage girls and boys . In this story I've discussed very important part of our life . We all fall in love with someone once and there is nothing bad in it . But the point I've noticed...