عشق میرا لازوال
قسط : 1
"ایمان،ایمان" ساجدہ بی بی اونچی آوازیں دے دے کر تھک چکی تھیں۔
"آ رہی ہوں" تیسری مرتبہ کہ کر سیڑھیوں سے نیچے اتری۔
"جی دادو باس تھوڑے سے کپڑے رہ گئے ہیں" ایمان نے جلدی جلدی کہا۔
"رہنے دو ، بس کرو ، کر لیتی ہے صائمہ" ایمان نے سکھ کا سانس لیا اور آرام سے صوفے پر بیٹھ گئی۔
" آپ کیا کہہ رہی تھیں دادو" ایمان نے اپنا پسینہ ڈوپٹے سے صاف کر کے کہا۔
"بیٹا، زید آ رہا ہے" ایمان جونکی۔
"کون؟"
"زید علی" ساجدہ نے مسکرا کر کہا۔
"واقعی؟" ایمان کو خوش نما حیرت ہوئی۔
"ہاں، اور جو اسکا روم ٹھیک کرو" ایمان ہنسنے ہوۓ اوپر کی طرف بھاگی۔ہنستے مسکراتے کمرے کی چھاڑ پونجھ کرنے لگی۔زید کی بری سی تصویر کو اتار کر اسے چوما پھر بیڈ پر رکھ کر اچھی طرح صف کیا۔پھر دوبارہ لٹکا کر اسے دیکھنے لگی۔ اور پھر دیکھے گئی۔
"بیٹا" ساجدہ کی آواز سے ایک دم چونکی۔
"جی دادو"
"بیٹا صرف تصویر نہیں پورا کمرہ صاف کرنا ہے"ساجدہ سے مسکراہٹ دبا کر کہا۔
"جی دادو" اسنے سر جھکا لیا۔**********************
"ہاۓ میں مر گئی" عنایہ صوفے پر بیگ گرا کر خود بھی صوفے پر گر گئی۔
"ایمان پانی پلا دو یار"
"لا رہی ہوں" کچن سے آواز آئی۔
"یہ لو" عنایہ پانی کا گلاس پکڑ کر سیدھی ہوئی اور گٹاگٹ پی گئی۔
"ہاۓ سکون آ گیا تھوڑا سا" اور یہ کہتے ساتھ ہی صوفے پر گر گئی۔
"بریکنگ نیوز" ایمان نے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئی کہا۔
"کونسی" عنایہ نے لا پرواہی سے موبائل آن کیا۔
"تمہارا بھائی آ رہا ہے" عنایہ ایک دم سے سیدھی ہوئی۔
"کیا بھائی،زید بھائی؟" عنایہ چونکی۔
"ہاں" ایمان نے اثبات میں سر ہلایا۔
"مطلب تمھیں ابھی ہی سری گالیاں نکل دوں"عنایہ نے سیدھا بیٹھ کر کہا۔
"مطلب"ایمان نے نہ سمجھی سے عنایہ کو دیکھا۔
"مطلب بھیا نے تو مجھے مار ہی ڈالنا ہے اگر انہوں نے سن لیا کہ میں نے تمہیں گلی دی ہے۔ یعنی میرا دی اینڈ" عنایہ کہ کہنے پر ایمان ہنسی۔
"پاگل"
"تم بھی پاگل،تم چڑیل،تم کمینی،تم اُلو،تم سارا کچھ" عنایہ نے کہا تو ایمان گھورنے لگی۔
"یار کیا ہے ابھی نکل دیں ہیں۔ اب جب تک بھائی نہیں جایئں گے تب تک تم اس گالیوں کو مس کرتی رہو گی" عنایہ نے ہنس کر کہا۔
"تم پوری پاگل ہو" ایمان نے گھورنا بینڈ کیا۔
"ابھی تو نہیں مگر پڑھائی کرتے کرتے ہو جاؤ گی۔تم تو آرام سے پڑھائی ختم کر کے شاعرہ بن گئی ہو۔میں ابھی وہی کی وہی"عنایہ نے دکھ سے کہا۔
"تو آخری سال ہے اس کے بعد تم بھی فارغ"
"ہاں جلدی جلدی گزرے"عنایہ نے بے بسی سے کہا۔*****************
"آہم ، آہم" زید کی آواز سے اسکے لکھتے ہوۓ ہاتھ رکے۔
"تم آگئے" ایمان ایک دم سے اٹھی۔
"نہیں اُدھر ہی ہوں" زید کمرے می ایمان کے مقابل کھڑا ہوگیا۔
"کیسی ہو؟"
"میں ٹھیک اور تم؟"
"میں ابھی ابھی ٹھیک ہوا ہوں" زید نے مسکرا کر کہا تو ایمان بھی مسکرا دی۔
"آج ملو گی نہیں؟" زید نے کان کے پاس سرگوشی کی۔
ایمان کچھ بھی کہے بگیر مسکرا کر اسکے گلے لگ گئی۔
زید نے اسکے بالوں میں بوسہ دے کر اسکو بازؤں کے حصار میں کیا۔
"وقت کیسا گزرا؟ "زید اسکے گلے لگاۓ پوچھا۔
"ایسا لگ رہا ہے کہ اندھیرے سے روشنی میں آئی ہوں ، جیسے قبر سے دوبارہ دنیا میں" ایمان کی آواز بھر آئی۔
"یار اب رو تو نہ میں آ گیا ہوں ، بس اب رونا نہیں" زید نے اسکے آنسوں صاف کیے۔
"چلو اب نیچے کھانے چلے" زید اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔*****************
"یہ کونسا شخص ہے؟" عنایہ نے کھانے کے وقت انٹری ماری۔
"تمہارا بھائی" زید نے مسکرا کر اسے گلے لگایا۔
"اچھا وہ ولا بھائی ، اچھا" اسنے اچھا کو خاصا لمبا کیا تو زید نے اسکے سر پر چپت لگائی۔
"کیسے ہیں؟"
"اللّه کا شکر"
"چلو اچھا ہے اب اور بھی اچھے ہو گئے ہو گے" عنایہ نے زید کے سامنے والی کرسی پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
"ہاں ہو گیا ہوں" زید نے مسکرا کر ساتھ بیٹھی ایمان کو دیکھا۔ ایمان مسکرا دی۔
"دادو آج یونی میں حماد بھائی آۓ تھے" عنایہ نے سالن نکلتے ہوۓ بتایا۔ ساجدہ چونکی۔
"حماد ، کیوں؟"
"دادو ایمان کا پوچھ رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ اسے کہو ابو رشتے لے کر آۓ گے انکار مت کرے۔ یونی تھی اسی لیے کچھ نہیں بولی۔ نہیں تو ان کی ماں بہن ایک کر کے آتی" عنایہ نے بولتے بولتے زبر کو دانتوں میں پیوست کیا اور آنکھیں زور سے بینڈ کر لیں۔ پھر ہلکی سی کھول کر زید کو دیکھا جو اسے گھور رہا تھا۔
"تم گلیاں نکالنا بند نہیں کر سکتی؟" زید نے رعب دار آواز میں پوچھا۔
"بھائی گالی تو نہیں نکالی" عنایہ نے سر جھکا کر معصومیت سے کہا۔
"ہاں اسکی ماں بہن ایک کر دو۔ کچھ نہیں ہوتا" زید نے جھاڑنے والے انداز میں کہا۔
"سوری اب نہیں نکالوں گی" عنایہ ہر گئی۔
"سنوں نہ اب" زید کہ کر کھانے لگا۔
"حماد کیوں آیا تھا ہے لڑکا بہت پریشان کرتا ہے ، کچھ کرنا پڑے گا"
"ساجدہ کی سوئی اُدھر اٹکی تھی۔
"کیا کر سکتے ہے" عنایہ نے روٹی توڑی۔
"سب کو بتا دیتے ہیں کہ ہم نہیں کر سکتے حماد کی شادی ایمان سے"
"دادو ہم تو یہ بتا دے مگر وجہ نہیں بتا سکتے" زید بولا۔
"ہم ہم ہم ۔۔۔۔ مگر بات کرنی پڑے گی" ساجدہ نے کھانا چھوڑ دیا۔ ایمان سارے ممعاملے میں چپ رہی۔
"چلیں کھانا کھائیں کچھ کرتے ہیں" زید نے سوچتے ہوۓ کہا۔******************
"مصنفہ شاعرہ صاحب کیا لکھ رہی ہیں؟" عنایہ اور زید نے ایمان کے کمرے مے انٹری ماری۔
"میں مصنفہ شاعرہ کہاں؟"ایمان نے پن بند کر کے مسکراتے ہوۓ کہا۔
"بھائی اسکو دیکھے کہتی مصنفہ شاعرہ کہاں۔ ہاں بے شک دو تحریریں ، سٹوریز لکھی ہیں اور وہ مشہور ہیں۔ مشہور نہیں بلکے بہت مشہور" زید کے ساتھ ایمان کی کرسی کے سامنے بیڈ پر براجمان ہو گئی۔
"تحریریں نہیں خط لکھ رہی تھی" ایمان نے مسکرا کر کہا۔
"رابعہ کو؟" عنایہ ایمان کی یونی فیلو کا نام لیا۔
"نہیں ما ئرہ کو فلحال لکھ رہی ہوں"
"مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ تم اس لوگوں کو خط کیوں لکھتی ہو۔مطلب یونی کی دو ہی فرنڈز تھیں۔ایک کی شادی پشاور ہو گئی اور دوسری کی کراچی۔خط لکھنے کی کیا بات ہے۔ موبائل ہے نا پھر یہ خط کیوں؟" عنایہ نے اپنک با ئیں ہاتھ کی ہتھیلی پر دائیں ہاتھ کی پشت ماری۔
"موبائل پر بھی بات کر لیتے ہیں مگر خط کی الگ بت ہے۔ دو سالوں سے خطوط کے ہی تبادلے ہو رہے ہیں ہمارے درمیان۔ اچھا ہے میرے لیے بھی زیادہ اچھا لکھناآۓ گا" ایمان نے عاجزی سے کام لیا۔
"ہم ہم ۔۔۔۔۔ گڈ" عنایہ نے سر ہلاتے ہوے کہا۔
"اچھا کہیں باہر چلیں؟" عنایہ نے کام کی بات کی۔
"ابھی؟" ایمان کھڑی دکھی جہاں رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔
"ہاں کچھ نہیں ہوتا ایمان ، زید بھائی تو ساتھ ہی ہو گے" ایمان نے کافی دائر سوچنے کے بعد حامی بھر لی۔گاڑی کے ہارن کی آواز آئی تو ایمان نے جلدی جلدی نقاب کر کے پرس پکڑا اور نیچے بھاگی۔
"یار کہاں رہ گئی تھی؟" گاڑی کی پچھلی سیٹ پر عنایہ منہ بنے بیٹھی تھی۔
"ادھر ہی تھی" ایمان مڑی۔
"چلیں" زید نے پوچھا۔
"نہیں رہنے دیں" عنایہ نے جل کر کہا۔
زید اور ایمان مسکرا دیے۔ زید نے گاڑی سٹارٹ کر کے اگی بڑھائی۔
گاڑی مزرو سے اوجھل ہوئی تو جھاڑیوں میں چھپا شخص باہر نکلا۔
"تم صرف حماد اشرف کی ہو۔ صرف میری ایمان۔ تم اس زید سے کچھ حاصل نہیں کر سکو گی" حماد نے زہریلی مسکراہٹ سے کہا۔***********