آنسو

117 7 5
                                    

    وہ میرے سامنے سر جھکائے بیٹهی تهی، فضا میں اس کی آہیں اور سسکیاں گونج رہی تهیں_  یہ وہ لڑکی نہیں تهی جسے میں دس سال قبل جانتا تها_ وہ تو آسمان چهونے کی خواہش رکهنے والی آزاد پنچهی تهی، بلندیوں کو چهونا جس کا جنون تها_ یہ تو کوئی ستم رسیدہ حالات کی ستائی ہوئی لڑکی تهی یہ وہ زرنش حیدر نہیں تهی جو یونیورسٹی میں ملکہ حسن مشہور تهی، جو ایسے تعریفی القابات کو اپنا حق سمجھ کر وصول کرتی تهی_ 
مجهے اس کے بہتے آنسو اور سسکیوں سے کوئی غرض نہ تهی_ دلچسپی تهی تو فقط یہ جاننے میں کہ اس پر کیا گزری؟ ایسا کیا ہوا اس کے ساته جو وہ ان حالوں پہنچی؟
وہ بهیگے لہجے میں گویا ہوئی یہ دس سال قبل کی بات ہے، میں ایم بی اے کے آخری سال میں تهی، میں اپنے ڈیپارٹمنٹ میں خاصی مشہور تهی، مجهے مختلف القابات سے بلایا جاتا کوئی ملکہ حسن کہتا تو کوئی ظالم حسینہ_ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ مجهے خوبصورت لگنے کا فن بهی آتا تها_ میرا تعلق اپر ہائی کلاس سے تها_ جہاں انسان کی خوب صورتی، دولت شہرت ہی اس کی شناخت ہوتی ہے_ میں بهی خوبصورتی کو پوجنے والی تهی_ خوبصورت چیزیں مجھ پر سحر طاری کردیتی تهیں پهر چاہے وہ کوئی انسان ہو یا چیز_ میں یونیورسٹی میں اپنی خوب صورتی کے ساتھ ساتھ اپنی ذہانت کی وجہ سے بهی خاصی مشہور تهی_ 
ہمارا ایم_بی_اے کا لاسٹ سمسٹر چل رہا تها انہی دنوں میں نے محسوس کیا کی کوئی مجھے مسلسل نگاہوں کے حصار میں رکهے ہوئے ہے_ ادھر ادھر دیکهنے پر کسی کو نہ پاکر میں الجھ سی گئی لیکن چند ہی دنوں میں مجهے اندازہ ہوگیا وہ اور کوئی نہیں ہمارا کلاس فیلو زوایار تها_ زاویار سنجیدہ مزاج اور لیے دیے رہنے والا شخص تها_ وہ باتیں بهی گن کر کرتا تھا _ کلاس میں کسی بحث کے موقع پر اس کا جواب چند لفظوں پر مشتمل مختصر اور جامع ہوا کرتا تها_ زاویار کا میری طرف متوجہ ہونا خاصا حیران کن امر تها_
میں چونکہ اس سب کی عادی تهی اس لیے جاننے کے بعد بهی کہ وہ زاویار ہی ہو جو مجهے اپنی نگاہوں کے حصار میں رکها ہوا ہے مجهے کچھ خاص فرق نہ پڑا_ دھیرے دھیرے مجهے اس کی عادت ہوگئی تھی جب اس کی توجہ مجھ سے بهٹک جاتی تو میرے اندر بے چینی سرائیت کر جاتی_ یہ چوری چهپے دیکهنے کا سلسلہ یونہی چلتا رہا_ میں محبت جیسے جذبے کو وقت کا ضیاع سمجهتی تهی_ میرئ زندگی کی پلاننگ میں کہیں بهی محبت کا ذکر تک نہ تها_ لیکن جب رشتہ روح سے روز ازل سے جڑ چکا ہو تو لفظوں کے تکلفات بے معنی رہ جاتے ہیں_ زاویار کی محبت کا پودا بهی میری روح میں اپنی جڑیں مضبوط کرچکا تها_ اس کی خاموش محبت امر بیل کی طرح میرے چاروں اور پهیل چکی تهی_ میں محبت کے حصار میں مکمل طور پر جکڑی جاچکی تهی_ اگرچہ فی الوقت مجهے اس بات کا ادراک نہ ہوا تها_ لیکن یہ دل زاویار کی جانب لپکتا محسوس ہوتا تها_
اینول ڈے پر زاویار نے جب مجھ سے محبت کا اظہار کیا تو مجهے لگا جیسے میرے ارد گرد پرندے چہچہارہے ہوں، ہوائیں محبت کے نغمے گنگنارہی ہوں_ گویا میرے دل کی مراد بر آئی ہو_ میں نے سرشار ہو کر اس کی آنکهوں میں دیکها، شہد رنگ آنکهوں میں محبتوں کا ایک جہاں آباد تها جس کی ملکہ میں تهی_ میں نے زاویار کی محبت کو خراجِ تحسین بخشا اور اسے نامراد نہ لوٹایا_ 
زاویار کا تعلق مڈل کلاا گهرانے سے تها لیکن اس کے باوجود میں اس سے محبت کرنے لگی تهی کیونکہ وہ بلا کا خوب صورت تها_اس کی خوب صورت آنکهوں نے مجهے اس کی جانب پیش قدمی پر اکسایا_ میں اس کے حسن سے مرعوب ہوچکی تهی_ ہمیشہ کی طرح زاویار کی خوبصورتی نے مجهے سحر میں مبتلا کردیا تها_ میں سب کچھ بهلائے بس اسے چاہنے لگی_
              وہ میری اور زاویار کی زندگی کے بہترین دن تهے، ہم بہت جلد ایک دوسرے کے ہمراہی بن گئے_ زاویار کی بے انتہا محبت مجهے کچھ اور سوچنے ہی نہ دیتی_ وہ اکثر میری پلیٹ میں سے کهانا کهاتا اور جب میں روکتی تو کہتا جاناں محبت بڑهتی ہے_ وہ میری ضدیں خوشی خوشی پوری کرتا اور کہتا کہ زری وہ مرد خوش نصیب ہوتا ہے جس سے عورت اپنے لاڈ اٹهواتی ہے_ ایسے کئی فلسفے تهے زوایار کے جو اس نے خود ایجاد کر رکهے تهے_ لڑائی کے بعد ہمیشہ منانے میں پہل کرتا اور کہتا مجهے اچها لگتا ہے ایک مرد کو ایسا ہی ہونا چاہیے_ اس کی خواہش تهی وہ جلد ہی کوئی اچهی جاب تلاش کرکے مجھ سے شادی کرلے گا_
ایسے ہی ایک شام خاموش جهیل میں ایک کنکر آگرا جس نے پانی میں ہلچل مچادی، میں اپنی تعلیم جاری رکهنا چاہتی تهی جس کے لیے میں نے لندن کی ایک یونیورسٹی میں اپلائی کیا ہوا تها، میرا ایڈمیشن اس یونیورسٹی میں ہوچکا تها_ لندن جا کر رہنا میرے لیے کوئی مشکل بات نہ تهی میرے ماموں کی فیملی لندن میں مقیم تهی_ جب مام ڈیڈ کو پتہ چلا تو انہوں نے خوشی خوشی ویزا لگوادیا_ لندن میں ایڈمیشن لینے والی بات سے تا حال زاویار نا واقف تها_ مجهے پاکستان سے ٹهیک پندرہ دن بعد روانہ ہونا تها، زاویار کو کال کی تو اس کا نمبر مصروف جارہا تها_ سوچا کچھ دیر بعد پهر کوشش کروں گی لیکن جانے کی تیاریوں میں اس قدر مصروف ہوئی کہ دوبارہ بات کرنے کا خیال ہی نہ آیا_ نہ ہی یہ سوچنے کا موقع ملا کہ زاویار نے اتنے دن کیوں رابطہ نہ کیا_ بالآخر وہ دن بهی آگیا جس دن مجهے یہاں سے لندن کے لیے روانہ ہونا تها_ 
میں زاویار کو بناء بتائے، بناء کسی آس دلائے لندن فلائی کرگئی_ میں اپنے خواب کی تکمیل کی خوشی میں اپنی محبت کو فراموش کر آئی_ ایک بار بهی پلٹ کر یہ نا سوچا کہ اس شخص کو کوئی آس کا جگنو تهمائے بغیر میں اس سے اتنی دور آگئی ہوں_ لندن پہنچ کر ماموں کی فیملی سے پانچ سال بعد مل کر ایک خوشگوار احساس ہوا_ ماموں مامی انکی بیٹی علینہ اور انکے بیٹے سجاد اور فہد سب لوگ مجھ سے بہت اپنائیت سے ملے_ 
ایک ہفتے بعد زاویار کا شکوے شکایت سے بهرا فون موصول ہوا_ وہ مجھ سے ناراض تها کہ میں نے کیوں پچهلے ایک مہینے سے اس سے رابطہ نہیں کیا_ زاویار کے منہ سے ایک ماہ سن کر میں ساکت رہ گئی گویا ایک ماہ سے ہم کسی رابطے میں نہیں تهے_ کہاں چند لمحے کاٹے نہ کٹتے تهے_ میں نے حسبِ عادت الٹا اس سے شکوہ کیا کہ اس نے مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کی تو اس نے بتایا کہ اس کا ایکسڈنٹ ہوگیا تها اور وہ کل ہی ہاسپٹل سے گهر شفٹ ہوا ہے_ اس کے ایکسڈنٹ کا سن کر میرے دل کو کچھ ہوا لیکن میں نے حال چال پوچھ کر فون بند کردیا مجھ میں ہمت نہ تهی کہ میں اسے بتاپاتی کہ میں اس سے اتنا دور آگئی ہوں_ دو سال کی تو بات ہے پهر واپس چلی جاؤں گی یہ سوچ کر خود کو مطمئن کرلیا_ تقدیر کے فیصلوں سے ناواقف انسان وقت کے ہاتهوں مات کها جاتا ہے_
           بہت جلد میں ماموں کی فیملی سے گهل مل گئی، علینہ سے بہت اچهی دوستی ہوچکی تهی_ سجاد اور حیدر بهی میرا خیال رکهتے مجهے گهر اور گهر والوں کی کمی محسوس نہ ہونے دیتے_ اس عرصے میں میری ایک یا دو بار ہی زاویار سے بات ہوپائی تهی البتہ گهر تقریباً روز بات ہوجایا کرتی تهی_ اس عرصے میں مجهے زاویار کی کمی بری طرح محسوس ہوئی لیکن چاہ کر بهی میں اسے کال نہ کر پائی کیونکہ میں نہیں جانتی تهی کہ میں اسے کیسے آگاہ کروں اپنے لندن آنے کے بارے میں_ لیکن بعض اوقات خاموشی مسائل ختم کرنے کے بجائے بڑهانے کا سبب بنتی ہے_ 
           میں یونیورسٹی سے ابهی آئی ہی تهی کہ موبائل پر بیل ہوئی دیکها تو زاویار کی کال تهی_ ایک گہرا سانس اندر اتار کر فیصلہ کیا کہ زاویار کو آگاہ کردوں گی_ اس کے متوقع رد عمل کو سوچ سوچ کر میں ڈپریشن کا شکار ہورہی تهی_ شاید یہی محبت ہوتی ہے_ کہاں کهوگئیں زری زاویار کی آواز میرے کانوں میں گونجی نہیں کہیں نہیں یہیں ہوں ماتهے پر پسینے کو خشک کرتے ہوئے جواب دیا_ تمہاری طبیعت ٹهیک ہے ناں زری تم مجهے ٹهیک نہیں لگ رہیں_ زاویار کا تشویش بهرا لہجہ مجهے پشیمانی میں مبتلا کر رہا تها_ ہاں وہ زاوی میرے سر میں درد ہے میں بعد میں بات کرتی ہوں یہ کہہ کر میں نے کال کاٹ دی_ کال کاٹنے کے بعد میں نے فون آف کردیا مبادا دوبارہ کال نہ آجائے_ میں لائٹ آف کر کے سونے کی نیت سے لیٹ گئی_ 
         ابهی تهوڑی ہی دیر ہوئی تهی کہ میرے کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی میں نے ہاتھ بڑها کر لائٹ آن کی تو دروازے پر سجاد بھائی کهڑے تهے_ ہائے زی میں باہر جا رہا ہوں چلو فٹافٹ تیاع ہوکر باہر آجاؤ اچهی سی کافی پی کر آتے ہیں_ مجهے بهی کافی کی شدید طلب محسوس ہورہی تهی_ اس لیے فوراً چینج کر کے باہر آگئی_ گاڑی میں بیٹهتے ہی سجاد بهائی نے میوزک پلئیر آن کردیا_ میوزک کی آواز کانوں میں جاتے ہی طبیعت کا بوجهل پن کچھ کم ہوا_ میں نے باہر آتی جاتی گاڑیوں کو دیکهنا شروع کردیا_ سجاد نے قریب ہی کے ایک کافی شاپ کے باہر گاڑی پارک کی_ گاڑی سے باہر نکلتے ہی کپکپی طاری ہوگئی، دونوں ہاتهوں کو مسلتے ہوئے میں اندر داخل ہوئی_ سجاد بھائی نے مجهے ایک ٹیبل کی طرف اشارہ کرکے بیٹهنے کو کہا_ میں وہاں بیٹھ کر اطراف کا جائزہ لینے میں مصروف تهی کہ اچانک کسی نے میری ٹیبل پر ہاتھ  رکها میں نے ناگواری سے اس اجنبی شخص کو دیکها جو بے تکلفی سے کرسی گهسیٹ کر بیٹھ چکاتها_ ہائے بیوٹیفل دس از سیم_ میرے چہرے پر بے زاری دیکهنے کے باوجود وہ مجهے اپنا تعارف ایسے پیش کر رہا تها جیسے میں خصوصی طور پر بیٹھ کر اس کا ہی انتظار کر رہی تهی_ ابهی میں محترم کے ہوش ٹهکانے لگانے کا سوچ ہی رہی تهی کہ سجاد بهائی عین وقت پر آگئے لیکن یہ کیا وہ اس اجنبی سے بڑی محبت سے گلے مل تہے تهے_ ارے سیم تم زی سے ملے سجاد بهائی نے میری طرف دیکهتے ہوئے اس اجنبی سے پوچها_ زی یہ میرا بیسٹ فرینڈ سمیر احمد عرف سیم اور سیم یہ میری کزن زرنش حیدر جسے ہم پیار سے زی کہتے ہیں_ 
         میں اپنی کافی پینے میں مگن تهی جب میں نے محسوس کیا کہ سیم کی نگاہیں میرا احاطہ کیے ہوئے ہیں_ یہ سیم سے میرا رسمی تعارف تها_ ایک خاص بات تهی سیم میں جو مجهے یاد رہ گئی اس کی آنکهوں کا رنگ بالکل زاویار کی آنکهوں جیسا تها_ دیارِ غیر میں جانے کیوں سیم کو دیکھ کر اپنے پن کا احساس جاگا_ رات کو تنہائی ملتے ہی زاویار کی یادوں نے ایک بار دل و دماغ پر حملہ کردیا_ دل تها کہ کسی پل چین لینے کو آمادہ نہ تها_ 
ستاروں سے آگے جہاں اور بهی ہیں
ابهی عشق کے امتحاں اور بهی ہیں_
           اگلے دن یونیورسٹی سے آکر بهی  میں زاویار اور سمیر کی آنکھوں کی مشابہت کے بارے میں سوچتی رہی_ میں نے زاویار کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا کہ میں لندن میں ہوں اور زاویار کو کال ملائی جو اس نے دوسری تیسری بیل پر اٹهالی_ زاویار کی مصروف سی آواز ائیر پیس پر ابهری_ میں نے گفتگو کا آغاز کیا اور زاویار سے کال نہ کرنے کا شکوہ کیا جسے زاویار نے ہمیشہ کی طرح قبول کرلیا اور اپنی مصروفیات بتانے لگا اور ساتھ ہی مجھ  سے کہا، زری ناجانے کیوں مجهے لگ رہا ہے ہم دونوں کے درمیان فاصلے حائل ہوگئے ہیں_ مجهے لگتا ہے میں تو یہیں ہوں، میری روح کوئی نکال لے گیا ہے_                زاویار وہ میں لندن میں ہوں اپنے ماموں کے پاس، میں نے یہاں یونیورسٹی میں اپلائی کردیا تها پیپرز کے فورا بعد میں دو سال کے لیے  میں نے ابهی اپنی بات مکمل بهی نہ کی تهی کہ زاویار نے کال کاٹ دی_ زاویار کے اس عمل نے مجهے تکلیف سے دو چار کیا _ میں محبت میں کسی زبردستی اور پابندیوں کی قائل نہ تهی_میرے نزدیک کے محبت میں پابندیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی_ محبت غلامی نہیں ہوتی_ میں اپنا موبائل آف کرکے باہر علینہ کے پاس آگئی_ میرا موڈ آف ہوچکا تها_ 
          ادهر زاویار نے جب زرنش سے سنا کہ وہ لندن جاچکی ہے اسے بنا بتائے تو غصے نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا_ وہ زرنش کی ہر بات، ہر ضد کو نظر انداز کرسکتا تها لیکن اتنی بڑی بات زرنش نے اس سے چهپائی یہ بات زاویار چاہ کر بهی نظر انداز نہیں کرسکتا تها_ اس کی نظر میں محبت اعتماد اور بهروسے کا نام ہے_ چاہے وہ ساری عمر مجھ سے انتظار کروالیتی لیکن کم ازکم جانے سے پہلے ایک بار بتادیتی میں اسے جی بهر کر دیکھ تو لیتا، مجهے بنا بتائے مجھ سے اتنا دور چلے گئی_ زاویار کا ملال کسی طور کم نہیں ہورہا تها_ 
         شام کو سجاد بهائی اور علینہ نے مجهے اپنے ساتھ آئسکریم کهانے چلنے کے لیے پیشکش کی تو میں بنا کسی تردد کے مان گئی اپنی لامتناہی سوچوں سے چھٹکارا پانے کے لیے مجهے فی الحال یہی راستہ نظر آیا میں تیار ہوکر ان کے ساتھ چل دی_ راستے بهر میں علینہ سے باتیں کرتی ہوئی آئی_ علینہ کو آرٹ میں کافی دلچسپی تهی کئی بار وہ مجهے بهی اپنے ساتھ آرٹس ایگزیبیشن میں چلنے کا کہہ چکی تهی لیکن میں چاہ کر بهی وقت نہ نکال پا رہی تهی_  آئسکریم پارلر پہنچ کر سب نے اپنے پسندیدہ فلیورز آرڈر کیے_ میں نے اپنا فیورٹ اسٹرابیری فلیور کہنے ہی لگی تهی کہ منہ سے انجانے میں چاکلیٹ چپ نکل گیا_ میں حیران تهی کہ چاکلیٹ فلیور تو زاویار کا فیورٹ فلیور تها_ میں نے کیسے یہ آرڈر کردیا لیکن کبهی کبهی کچھ باتوں کی توجیحات نہیں ہوا کرتیں_
            میں کهانے کے ساتھ ساتھ اطراف کے مناظر سے بهی لطف اندوز ہورہی تهی کہ اچانک کسی نے میرے ہاتھ سے آئسکیم کا کپ اچک لیا_میں نے گڑبڑا کر مڑ کر دیکها تو سیم مزے سے اس کی آئسکریم. کهانے میں مصروف تها اور جلدی جلدی کهانے کے چکر میں آئسکریم اس کی ٹی شرٹ پر بهی نقش و نگار بناگئی تهی جسے دیکھ کر زرنش کے لبوں کو مسکان چهو گئی_ زرنش کو مسکراتا دیکھ اس نے اس کی نظروں کے زاویے میں دیکها تو اپنی وائٹ اینڈ میرون ٹی شرٹ پر آئسکریم کے داغ نظر آئے_ اصل میں یہ میرا فیورٹ فلیور ہے اور اسے کهانا میں اپنا حق سمجهتا ہوں اس لیے جہاں نظر آئے وہیں سے اڑا لیتا ہوں لیکن میں تو کہیں اور ہی پہنچی ہوئی تهی_ آج پهر سیم کی باتوں نے مجهے کسی کی یاد دلا دی تهی_ 
          ایسے ہی ایک دن  زاویار کی ٹی شرٹ بهی آئسکریم سے ایسے ہی خراب ہوگئی تهی_ وہ منظرمیری یادداشت میں ایک بار پهر تازہ ہوگیا_ زاویار کی یاد آتے ہی میری آنکهیں نم ہوگئیں_ میں نے غیر محسوسانہ انداز میں آنکھ کا گوشہ صاف کیا جہاں پر آنسو کا قطرہ چمک رہا تها_ سیم اتنا بهی مگن نہ تها آئسکریم کهانے میں جتنا وہ سمجھ رہی تهی_ وہ رات کے اندهیرے میں بهی میری یہ حرکت نوٹ کرچکا تها_ وہ میری طرف حیرت سے دیکھ  رہا تها لڑکی تم کیا چیز ہو ایک لمحے قبل تم مسکرا رہی تهیں اب تم رورہی ہو_ نہیں وہ بس کچھ یاد آگیا تها میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور مڑ کر علینہ اور سجاد بهائی کو تلاش کرنے لگی_ 
         وہ دونوں مجهے وہیں دور کهڑے کسی سے بات کرتے نظر آگئے ابهی میں ان کی جانب جانے کا سوچ ہی رہی تهی کہ سیم نے ایک بار پهر مجهے مخاطب کیا. زی کیا ہم دوست بن سکتے ہیں؟ میرا دل چاہا خاموشی سے چلی جاؤں لیکن نہ جانے کیوں میں ایک قدم بهی آگے نہ بڑها سکی_ یہ سیم سے میری دوسری مختصر ملاقات تهی_ پهر ایسا اکثر ہونے لگا جہاں بهی میں اکیلی جاتی یا سجاد بهائی کے ساتھ، سیم وہاں موجود ہوتا_ شروعات میں مجهے تجسس ہوا کہ کون سیم کو میری موجودگی کی خبر دے دیتا ہے لیکن میں نے اس بات پر زیادہ توجہ نا دی_ مجهے بهی آہستہ آہستہ سیم کی کمپنی اچهی لگنے لگی تهی_ علینہ کی اپنی مصروفیات تهیں تو وہ بهی مصروف رہتی تهی ایسے میں مجهے ایک دوست کی کمی محسوس ہوتی تهی_ اور اس کمی کو سیم نے بخوبی پورا کیا اب وہ اکثر مجهے یونیورسٹی سے پک کرلیتا یا گهر لینے کے لیے آجاتا_ میرے ماموں کی فیملی میں ان باتوں کا قطعی برا نہ منایا جاتا تها_
       ہمیں یہ زعم رہا اب کہ وہ پکاریں گے
     انہیں یہ ضد تهی کہ ہر بار ہم صدا دیتے 
            محبت اور انا جب آمنے سامنے آجائیں تو یا تو جیت محبت کی ہوتی ہے یا انا کی_ اور اگر ہر بار انا محبت پر سبقت لے جائے تو محبت چپکے سے راستہ بدل لیتی ہے_ زاویار اور مجھ میں بهی انا اور محبت کی جنگ کا آغاز ہوچکا تها_ میں ہمیشہ کی طرح اس ضد پر قائم تهی کہ زاویار کو منانے میں پہل کرنی چاہیے لیکن اس بار میں نے ایک مرد کی انا کو ٹهیس پہنچائی تهی اور اگر مرد کی انا کو ٹهیس پہنچے تو وہ سارے لحاظ بالائے طاق رکھ دیا کرتا ہے_ 
          زاویار کی دوری نے مجهے سیم کے قریب کردیا_ سیم کی عادتیں زاویار سے مشابہت رکهتی تهیں یا پهر شاید میری نظریں ہر جگہ زاویار کو تلاش کرنے کی عادی ہوچکی تهیں_ میں نے سیم میں ایک اچها دوست پالیا_ وہ میرے ساتھ میری خوشی میں ہنستا تها تو میرے غم میں بهی مجهے ہنسانے کے نت نئے طریقے ڈهونڈا کرتا_ مجهے اس کے ساتھ وقت گزارنا اچها لگنے لگا تها_ جب وہ آس پاس نہ ہوتا تو اس کی کمی محسوس ہوتی_ سیم میرے لیے ایک دوست کی حیثیت سے بہت خاص ہوچکا تها_  
          چار دن بعد زاویار کی کال آئی، اس دن میں نے محسوس کیا کہ وہ ضرورت سے زیادہ خاموش ہے_ میں اس کی خاموشی کی وجہ جانتی تهی لیکن میں گئے وقت کو لوٹانے پر قادر نہ تهی_  ہم نے چند منٹ ہی بات کی تهی کہ سیم گهر پر آگیا وہ میرے ساتھ ڈنر کے لیے جانا چاہتا تها_ یہ بات زاویار نے بهی سن لی اور خاموشی سے کال کاٹ دی_ میں ابهی اسی بات پر حیران تهی کہ زاویار کو کیا ہوا کہ اتنے میں اس کا میسج موصول ہوا_ "زری پہلے مجهے ڈر تها کہ تم مجھ سے کچھ عرصے کے لیے دور ہوگئی ہو تمہاری یاد مجهے بے چین کیے ہوئے تهی لیکن اب نہ جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ میں تمہیں کهودوں گا اور میں تمہیں کهونے سے زیادہ کسی چیز سے نہیں ڈرتا_ زری لوٹ آؤ اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے_"
         میں زاویار کو جوابی میسج کرتی اس سے قبل ہی سیم نے موبائل میرے ہاتھ سے لے لیا وہ اس سے پہلے زاویار کا میسج پڑهتا میں نے اسے غصے سے دیکهتے ہوئے اس سے موبائل چهین لیا_ میں سیم کے ساتھ ڈنر پر تو چلی گئی لیکن میرا ذہن زاویار کے میسج میں ہی الجها رہا کہ زاویار نے ایسا کیوں کہا کہ وہ مجهے کهو دے گا_ اس دن کے بعد سے زاویار نے جیسے ضد پکڑلی تهی کہ وہ مجهے واپس بلا کر ہی دم لے گا_ وہ ہر دفعہ بات کرنے پر یہی کہتا کہ زری لوٹ آؤ لیکن میں کیسے جاسکتی تهی واپس_ میرے ہر بار انکار کرنے پر یہی بحث ہمارے درمیان بڑهتی گئی اور ہمارے رابطے گهٹتے گئے_ 
         سیم کے ساتھ میری دوستی گہری ہوتی گئی میں اکثر اسے کہتی کہ پردیس میں تم میرے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہو اور وہ آگے سے ہنس دیتا_ پهر ایک دن شام کو سیم نے مجهے یونیورسٹی سے پک کیا اور ہم لنچ کے لیے ایک ریسٹورنٹ آگئے_ لنچ کے بعد سیم نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھ سے کوئی خاص بات کرنا چاہتا ہے_ مجھ سے اجازت ملتے ہی اس  نے مجهے پروپوز کیا وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا تها_ سیم کے منہ سے اتنی اچانک یہ بات سن کر میں گنگ رہ گئی میرے وہم و گمان میں بهی نہ تها کہ سیم کی خاص بات یہ ہوسکتی ہے مجهے لگا وہ عادتا مذاق کر رہا ہے_ لیکن میں تم سے شادی کیسے کرسکتی ہوں؟ سیم نے ہمیشہ کی طرح میری بات کو ہنسی میں اڑا دیا_ کیا کمی ہے مجھ میں ہینڈسم ہوں، اچهی فیملی سے تعلق رکهتا ہوں_ فیملی بزنس ہے اور کیا چاہیے ہوتا یے ایک لڑکے میں_  لڑکی شکر کرو میں خود چل کر آیا ہوں پردیس میں اتنا اچها لڑکا ہر کسی کو نہیں ملتا_ میں نے سیم کو دیکها اور پهر میں خاموشی سے گهر چلی آئی سیم نے مجهے ایک بار بهی روکنے کی کوشش نہ کی شاید اسے مجھ  سے ایسے ہی رد عمل کی توقع تهی_
      گهر آکر بهی میرے اندر ایک جنگ چهڑی ہوئی تهی میں فیصلہ نہیں کر پا رہی تهی کہ کیا کروں کس کو چنوں یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ میں کچھ سوچ ہی نہ پائی_ سیم واقعی مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے ایک طرف محبت تهی وہ محبت جس نے مجهے محبت کرنا سکهایا تها محبت سے روشناس کروایا تها_ اور ایک طرف سمیر جو نہ صرف میرا بہترین دوست تها بلکہ کچھ ہی عرصے میں میرے بہت قریب آچکا تها_ میں اسی تگ و دو میں تهی کہ علینہ ماموں ممانی کے ساتھ میرے کمرے میں چلی آئی_ ماموں نے آگے بڑھ کر میرا ماتها چوما_ میں حیران پریشان سب کے بیچ کهڑی تهی کہ علینہ نے بتایا کہ تمہارے لیے سمیر کا پروپوزل آیا ہے اور ڈیڈ نے تو پھپھو اور انکل کو بهی فون کردیا ہے وہ دو دن بعد یہاں آرہے ہیں پهر باقاعدہ شادی کی تاریخ رکهی جائیگی کیونکہ سمیر (سیم) چاہتا ہے کہ جلد از شادی کردی جائے_ علینہ کی باتیں سن کر مجهے لگا کہ مین اپنے قدموں پر کهڑی نہیں رہ پاؤں گی_ ابهی جس بات کو لے کر میں کشمکش کا شکار ہوں وہ بات مام ڈیڈ تک بهی پہنچ گئی_ افف میرے خدا یہ کیسی آزمائش ہے_ میں نہیں جانتی تهی کہ محبت ازل سے آزمائی جاتی ہے اور وہی محبت میں امر ہوتا ہے جو اس کی آزمائش پر پورا اترتا ہے_ 
        میں نے غصے کے عالم میں سمیر کو کال کی وہ تو جیسے انتظار میں ہی بیٹھا تها_ سیم یہ کیا حرکت ہے میرے جواب دینے سے پہلے ہی تم نے ماموں سے کیوں بات کی_ تاکہ تم انکار نہ کرسکو میں نے جتنے غصے میں سوال کیا تها اتنے ہی اطمینان سے جواب موصول ہوا_ اصل میں زی میں چاہتا ہوں کہ تمہیں قید کرلوں جیسے کہانیوں میں دیو پری کو قید کرلیتا ہے_ مجهے سیم کی ذہنی حالت پر شبہ ہوتا اس سے قبل میرے کانوں میں اس کا قہقہہ گونجا مذاق کر رہا ہوں یار_ اصل میں زی تم بے حد حسین ہو اور میں تمہارے حسن کو مزید تراشنا چاہتا ہوں_ سیم مجهے اس وقت تمہاری اس فضول گوئی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے_ تمہیں یہ اچانک سے ہو کیا گیا ہے ہم تو اچهے دوست تهے ناں پهر یہ شادی کہاں سے آگئی ہمارے بیچ_ شادی آئی نہیں ہے میں لایا ہوں کیونکہ میں تمہں کهو نہیں سکتا_ کیا دوست شادی نہیں کرسکتے؟ میں ایک اچهی دوست کو نہیں کهونا چاہتا بس_ مجهے کہیں دور سے آواز آئی میں تمہیں کهو نہیں سکتا زری لوٹ آؤ اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے.... لوٹ آؤ زری... میرے ہاتھ سے موبائل گرکر آف ہوچکا تها_ 
        میں زمین پر سر پکڑ کر بیٹهی ہوئی تهی جب علینہ میرے کمرے میں آئی_ اس نے مجهے یوں بیٹهے دیکها تو پریشانی کے عالم میں میرے قریب چلی آئی_ زی کیا ہوا ایسے کیوں بیٹهی ہو سب خیریت ہے ناں اس نے دونوں ہاتهوں سے تهام کر میرا چہرہ اوپر اٹهایا تو آنسوؤں سے بهیگا چہرہ دیکھ کر وہ مزید پریشان ہوگئی_ میں اس کے کندهے پر سر رکھ کر پهوٹ پهوٹ کر رودی_ مجهے شاید کسی غمگسار کی تلاش تهی جس سے میں اپنے دل کا حال کہہ سکوں میں نے روتے روتے ساری کہانی زاویار کی محبت سے لے کر سیم کے پروپوزل تک علینہ کے گوش گزار کردی_ علینہ نے ساری بات سننے کے بعد مجهے پانی پلایا میرے آنسو صاف کیے_ میں کہیں سے بهی وہ بولڈ زرنش نہیں لگ رہی تهی جو یونیورسٹی میں حاضر جواب مشہور تهی_ مجهے محبت نے کمزور کردیا تها_ 
         دیکهو زی تم اس وقت فقط جذباتی ہورہی ہو_ انسان کو کبهی نہ کبهی محبت اور آسائشات میں سے کسی ایک کو چننا پڑتا ہے_ محبت سے بهوک نہیں مٹتی، محبوب کو نہارنے سے پیٹ نہیں بهرا کرتا_ خود سوچو کیا زاویار تمہیں یہ لائف اسٹائل یہ سب کچھ دے سکتا ہے جو سیم تمہیں مہیا کرسکتا ہے_ جن آسائشات کی تم عادی ہو کیا وہ زاویار افورڈ کرسکتا ہے_ دیکهو زی زندگی کا ایک پہلو مت دیکهو جب تم جانتی ہو کہ تم کسی مڈل کلاس لڑکی کی طرح سسک سسک کر زندگی نہیں گزار سکتیں تو اس کا انتخاب کرو جو تمہارے لیے بہترین ہے_ میں صرف تمہیں تمہارے بهلے کے لیے سمجها ہی سکتی ہوں فیصلہ لینے کا اختیار بہرحال تمہیں ہی ہے_ میں اگر تمہاری جگہ ہوتی تو میرا نگاہ انتخاب بلاشبہ سیم ہی ٹهہرتا_
وہ جو تمہیں ہم دیکهتے تهے
وہ جو تمہیں ہم چاہتے تهے
وہ جو تم سے ہوتے تهے روبرو
وہ جو تمہیں مانگتے تھے ہر سو
وہ پل اب کہیں نہیں....
وہ سب ہی لمحے خاک ہوئے....
          علینہ کی باتوں نے مجهے منجدھار میں لاکهڑا کیا_ اس نے مجهے کہانی کا دوسرا رخ دکھایا جو تلخ ضرور تها لیکن بے بنیاد نہ تها_ میرا تعلق جس سوسائٹی سے تها وہاں وہاں محبت، اقدار، جذبات سے زیادہ اہمیت دولت، شہرت، ہائی بینک بیلنس کی ہوتی ہے_ اور شاید حقیقت بهی یہی ہے کہ یہ سب کتابی باتیں ہوتی ہیں اور کتابوں میں ہی اچهی لگتی ہیں_ میرا ذہن اس وقت علینہ کی باتوں کے تابع تها_ میں اسی طرز پر سوچنے لگی تهی اور یہ حقیقت تهی کہ میں جن آسائشات کی عادی تهی وہ زاویار مجهے فراہم نہ کرسکتا تها_ میں سسک سسک کر زندگی نہیں گزارسکتی تهی_
تو کیا سیم ہی وہ شخص ہے جس سے مجهے شادی کرنی چاہیے؟ میں نے خود سے سوال کیا لیکن جواب نہ ملا_ میرے اندر مکمل طور پر خاموشی کا راج تها کسی طوفان کے آنے سے پہلے کی خاموشی_ میں زاویار کی محبت کو بهی نظر انداز نہیں کرسکتی تهی_ کیسے کرتی جو شخص قطرہ قطرہ مجھ میں اتر چکا تها میں اسے یکمشت کیسے بهلا دیتی_ کیسے اس شخص کی یادوں کو پل بهر میں دل سے نکال دیتی_
         اسی کشمکش میں دو دن گزر گئے_ ان دو دنوں میں میں نے گهر میں کسی سے بهی بات نہ کی نہ ہی سیم کی کالز اور میسیجز کا جواب دیا_ میری خود سے جنگ جاری تهی زاویار اور سمیر میں سے کسی ایک کا انتخاب میرے لیے نہایت کٹهن مرحلہ تها_ اسی لمحے علینہ میرے کمرے کا دروازہ کهول کر اندر آئی_ کهڑکی سے پردے ہٹا کر تازہ ہوا کو اندر آنے کا راستہ دیا_ اٹھ جاؤ زی شام تک پهپهو اور انکل آرہے ہیں اور مجهے امید ہے تم اپنا فیصلہ اب تک لے چکی ہوں گی اس نے میری جانب دیکها اور میں نے نفی میں سر ہلادیا_ زی تم ابهی تک اسی سوچ بچار میں ہو وہ جیسے اکتا گئی تهی_ پهپهو آرہی ہیں اور انہیں ہر حال میں تمہارا جواب چاہیے ہوگا تمہیں اتنی سی بات سمجھ نہیں آرہی کہ تم جس انسان سے محبت کی دعویدار ہو دراصل تم نے اس سے کبهی محبت کی ہی نہیں ہے کیونکہ اگر تمہیں اس سے محبت ہوتی تو یہ کشمکش نہ ہوتی_ محبت میں شرک کی گنجائش نہیں ہوتی_ زاویار تمہاری محبت ہوتا تو تم اسی لمحے سمیر کو انکار کردیتیں کیونکہ محبت یا تو ہوتی ہے یا پهر نہیں ہوتی_ اور تمہیں محبت نہیں ہے زاویار سے یہ کشمکش اس بات کا ثبوت ہے_ حقیقت کو تسلیم کرلو زی اسی میں بهلائی ہے_
         نکل آؤ اس کشمکش سے اور قبول کرلو اس بات کو کہ تم نے کبهی زاویار سے محبت کی ہی نہیں تهی تمہیں صرف اس کا اپنی طرف متوجہ ہونا اس کی خوبصورتی اسکی انفرادیت بهاگئی تهی_ اٹھ جاؤ اور تیار ہوجاؤ_ بس کرو اب یہ سوچنا رات کے لیے کوئی اچها سا ڈریس نکال لو مام نے سمیر کی فیملی کو ڈنر پر انوائیٹ کیا ہے_ یہ کہہ کر علینہ تو چلی گئی لیکن مجھ پر سوچوں کے در وا کر گئی_ علینہ کی باتیں مجهے درست لگ رہی تهیں لیکن زاویار وہ تو مجھ سے محبت کرتا ہے_ میں نے اس کی آنکهوں میں دیکهی ہے اپنے لیے بے پناہ محبت کیا میں اسے دھوکہ دے دوں_

Du hast das Ende der veröffentlichten Teile erreicht.

⏰ Letzte Aktualisierung: Oct 10, 2019 ⏰

Füge diese Geschichte zu deiner Bibliothek hinzu, um über neue Kapitel informiert zu werden!

آنسوWo Geschichten leben. Entdecke jetzt