"میں تھک گٸی آج تو" صالحہ نے اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ دُہاٸی دی۔
"او اچھا میں تو بلکل فریش ہوں۔ تھکاوٹ کا تو نام و نشان بھی نہیں ہے"
اب کی دفعہ انزلنا نے گفتگو میں حصّہ لیا اور کسی چیز کی پرواہ کیے بغیر صالحہ کے نرم وملاٸم بستر پر لیٹ گٸی اور اب وہ صالحہ کو طنز کرتے ہوۓ مخاطب ہوٸی تھی
" اچھا ! فریش ہو تو اُٹھو اور میرے لیے کھانا لے کر آٶ۔" صالحہ بھی اُسی کے مقابلے کی تھی۔
" توبہ توبہ صالحہ! شرم نہیں آتی تمہیں۔ گھر آۓ مہمان کو ایسے کہتی ہو" انزلنا نے افسردہ چہرہ بناتے ہوۓ کہا۔
" تم مہمان نہیں ہو۔ آٸی سمجھ۔" صالحہ نےتنبیہ کی۔
" اچھا یار صالحہ کچھ کھانے کے لیے لے آٶ بہت تیز بھوک لگ رہی ہے۔" انزلنا نے ہار مان لی تھی کیوں کہ اُس میں بحث کرنے کی ہمت نہیں تھی۔
" زَہرہ نماز پڑھ لے پھر کھاٸیں گے جب تک تم جو چاہے کرلو" کہتے ہوۓ وہ کپڑے الماری میں رکھنے لگی۔
"ٹھیک ہے میں لیٹ رہی ہوں جب کچھ کھانےکے لیے لے آٶ تو مجھے اُٹھا دینا" انزلنا بات مکمل کرتے ہی بیڈ پر دراز ہوگٸی اور کچھ دیر بعد وہ نیند کی وادیوں میں تھی۔
صالحہ بھی نماز پڑھنے کھڑی ہوگٸی جب کہ زَہرہ نماز پڑھ چکی تھی اور دعا مانگ رہی تھی۔ ان لوگوں کو گھر پہنچتے پہنچتے عشا۶ کا وقت ہوگیا تھا۔
-------------------------
"اسلام علیکم بھابھی" کلثوم صاحبہ نے کال ریسیو کرتے ہی سلام کیا
"وعلیکم اسلام۔ اور بھٸی بتاٶ تیاریاں کیسی چل رہی ہیں؟" سلام دعا کے بعد اب باتوں کا آغاز ہوا تھا
"بہت اچھی جا رہی ہیں تیاریاں۔ بھابھی ایک بات کرنی تھی۔" کلثوم صاحبہ تھوڑی پریشان تھیں۔
"ہاں کہو کہو کلثوم کیا بات کرنی ہے؟ پریشان کیوں ہو؟" دوسری طرف سمیرہ ( سارہ کی امّی) بات کر رہی تھیں۔"میں نے اور نعمان نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم سارہ کو اپنی بیٹی بنا کر گھر لے آٸیں اگر بھاٸی صاحب کو کوٸی اعتراض نہیں ہو تو؟" کلثوم نے ہچکچاتے ہوۓ بات مکمل کردی۔
"اوہو کلثوم تم نے تو ڈرا ہی دیا۔مجھے بہت خوشی ہوگی اگر ایسا ہو۔ جب ہم نے نکاح کی بات کی تھی تب ہی ارسلان نے کہا تھا کہ رخصتی کی بات کردی جاۓ لیکن ہمیں لگا کہ نعمان بھاٸی کہیں انکار نہیں کردیں حوذیفہ کی پڑھاٸی کی وجہ سے۔" سمیرہ صاحبہ نے سکون کا سانس لیتے ہوۓ پوری وضاحت دے دی جسے سُن کر کلثوم صاحبہ کی خوشی کا کوٸی ٹھکانہ نہ تھا
"بھابھی آپ نے میری مشکل آسان کردی ہے۔ شادی کے بعد سارہ اپنی پڑھاٸی مکمل کرسکتی ہے ہماری طرف سے کوٸی پابندی نہیں ہوگی۔" کلثوم صاحبہ کی خوشی بھی صحیح تھی کہ سارہ جیسی لڑکی ان کے بیٹے کی زندگی کا حصّہ بننے جارہی تھی۔
"لیکن حُذیفہ سے بھی پوچھ لے گا کہ وہ راضی ہے یا نہیں کیوں کہ بھاٸی صاحب کا مجھے معلوم ہے کہ اب وہ انکار نہیں کریں گے آخر سارہ ان کی لاڈلی بھتیجی ہے۔" سمیرہ نے خوش ہوتے ہوۓ کہا۔
"ٹھیک ہے انشا۶اللہ جلد ہی ملاقات ہوگی۔اللہ حافظ"
کلثوم نے فون بند کردیا اور اب یہ خوشخبری اپنے بیٹے کو سنانی تھی۔
-------------
" حذیفہ ایک کپ کافی ملے گی یار؟" زکریا نے سر دباتے ہوۓ پوچھا۔
"ہاں ہاں کیوں نہیں۔ میں ابھی لے کر آتا ہوں۔" حذیفہ نے مسکراتے ہوۓ کہا اور چلا گیا
"زکریا تو نے موڈی سے بات کی؟" اس کے جاتے ہی ابراہیم نے سوال کیا۔
"ہاں یار! اُسی کی پسند کا سوٹ خریدا ہے اور میں نے اُس کے لیے بھی شاپنگ کر لی ہے میری طرف سے گفٹ ہوگا اُسے یہ سوٹ" زکریا نے سر دباتے ہوۓ پُرسوچ انداز میں کہا۔ اور ابراہیم کا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔
"ہیں؟ کب کی شاپنگ؟ میں تو نہیں دیکھا تمہیں اُس کی لیے شاپنگ کرتے ہوۓ" ابراہیم نے پریشان ہوتے ہوۓ پوچھا۔
"شاپنگ تو میں نے تب کی تھی جب تم کچھ کھانے پینے گۓ تھے۔ زکریا نے مشکوک نگاہوں سے اُسے دیکھا۔
"ایسے کیوں دیکھ رہا ہے بھاٸی؟"
ابراہیم نے الجھتے ہوۓ سوال کیا
"اب شرافت سے بتاٶ کون ہے وہ؟ میں بے اُس کا چہرہ تو نہیں دیکھا لیکن تمہیں اُس کے سامنے بتیسی نکال کر ہنستے ہوۓ دیکھ لیا تھا۔" زکریا نے مدعے کی بات کی
"کون؟" ابراہیم انجان بنا۔
"میں تمہیں دیکھ چکا ہوں عابی! اب شرافت سے بتاٶ کون ہے وہ؟ ورنہ مار کھاٶگے۔"
زکریا نے لفظوں کو چبا چبا کر کہا۔
"کس کی بات کر رہے ہو تم؟" ابراہیم مزے لینے کے موڈ میں تھا۔
"عابی! تم مجھے بتا رہے ہو یا میں چاچو کو کال کرکے تمہارے بارے میں اطلاع دوں!؟" زکریا نے بھی چال چلی اُسے معلوم تھا کو اگر وہ یہ کہے گا تو ابراہیم ضرور بتاۓ گا۔
"نام تو نہیں پتا مجھے لیکن وہ بہت خوبصورت،بہت ڈرامٹک، بہت عقلمند ہے۔۔۔ لیکن بس ایک بات اچھی نہیں ہے!" اب ابراہیم اپنے خیالوں میں گُم اُس کی خوبیاں زکی کو گِنوا رہا تھا اور اب وہ تھوڑا الجھا تھا
" بس ایک بات اچھی نہیں ہے! وہ اپنے آگے کسی کی نہیں سُنتی۔۔۔" ابراہیم کو جیسے بہت دُکھ ہوا پہنچا تھا اور ابھی وہ آگے بھی کچھ اور کہتا کہ اُس پر اچانک حملہ ہوا تو وہ ایک دم صوفے پہ گرگیا۔
"بدتمیز انسان۔۔۔" زکریا کی نیلی آنکھیں حیرت سے بڑی ہوگٸیں۔ اور پھر غصہ بھی آیا اور اُس نے قریب رکھے تینوں کشن ابراہیم کے منہ پر دے مارے۔
"یار اب کیا مسٸلہ ہے تجھے زکریا! سب تو بتادیا" ابراہیم نے چڑتے ہوۓ کہا کیوں کہ وہ اُس انسان کی تعریفوں کے پُل باندھ رہا تھا اور زکریا کے اچانک حملے پر اُسے غصہ آرہا تھا۔
"پہلے کیوں نہیں بتایا؟ بہت ہی بدتمیز انسان ہے عابی" زکریا نے ناراض ہوتے ہوۓ کہا۔
"ہاں تو اب بتادیا ہے ناں!" ابراہی نے بھی مصنوعی ناراضگی سے کہا۔
"نام نہیں معلوم!" زکی کو جیسے صدمہ لگا۔
"اُسے بتایا کہ تجھے اُسے پسند کرنے لگا ہے" انتہاٸی معصوم صورت بناتے ہوۓ وہ سوال کر رہا تھا ۔
"نہیں یار ابھی کہاں" ابراہیم اور اداس ہوگیا۔
"کب بتاۓ گا؟ جب وہ کسی اور کی دلہن بن جاۓ گی؟" زکریا نے اُس کی حالت دیکھ کر فاٸدہ اُٹھایا۔
"استغفراللہ ! ابھی بھابھی کہہ رہا تھا اور اب اپنے ہی بھاٸی کو بددعا دے رہا ہے" اب کی دفعہ عابی نے شریفانہ صورت بناتے ہوۓ اُسے دیکھ کے کہا۔
"ہاہاہا۔ تجھے ڈر ہے کیا کہ اُس کی شادی کہیں اور نہ ہوجاۓ؟" زکریا آج ہار ماننے والا نہیں تھا۔
"تیری کالی زبان۔۔۔" ابراہیم نے پوری طاقت کے ساتھ زکریا کے چہرے پر کشن رسید کیا۔۔
"بس کردے یار! میں رو جاٶں گا۔" ابراہیم نے ہاتھ جوڑنے والے انداز میں کہا تو زکریا کے لیے ہنسی قابو کرنا مشکل ہوگیا تھا۔
"کیا ہوا تم نمونوں کو؟ اور یہ ابراہیم منہ لٹکاۓ کیوں بیٹھا ہے؟" حذیفہ کھانے سے سجی ٹرالی کھینچتا ہوا اندر داخل ہوا تو سوال کیا۔
"بریکنگ نیوز ہے یار" زکریا نے چپس کی پلیٹ اٹھاتے ہوۓ کہا
"او اچھا کیا خبر ہے؟" حذیفہ نے حیرت سے پوچھا
"ابراہیم کو کوٸی لڑکی پسند آٸی ہے۔" زکریا نے چپس منہ میں ڈالتے ہوۓ یہ بات خوب مزے سے کہی۔
"ارے واہ بھٸی! کون ہے وہ خوش نصیب جسے اس ڈرامے کی چلتی پِھرتی دکان کو برداشت کرنا پڑے گا" حذیفہ نے کافی کا مگ اُٹھاتے ہوۓ ابراہیم کو دیکھ کر بات کی جس پر زکریا اور حذیفہ دونوں ہنس دیے۔
"مجھے نام نہیں معلوم اس کا" ابراہیم نے دوبارہ دُہاٸی دی
"کیا؟" حذیفہ کو شاک لگا۔
"ہاہاہا رہنے دے پھر کبھی بات کریں گے" زکریا نے ہنستے ہوۓ حذیفہ کو دیکھ کر کہا۔
"چلو کوٸی بات نہیں آج تمہیں بخش دیا۔" حذیفہ کو ابراہیم پر ترس آگیا اور پھر زکریا اور حذیفہ نے تالی مارتے ہوۓ بات کی اور ابراہیم بس دونوں کو نظروں سے ہی کوستا رہ گیا جب کہ وہ دونوں ڈھٹاٸی سے ہنستے رہے۔
*************