گھر کے سب ہی لوگوں کو ڈھیروں تیاریاں کرنی تھیں۔ خبر ہی کچھ ایسی تھی کہ سب سے پہلے حذیفہ کو جھٹکا لگا
”نہیں ماما بابا آپ لوگوں نے یہ بات کیوں کی ابھی تو میری پڑھاٸی بھی مکمل نہیں ہوٸی اور پھر اتنا آسان نہیں ہے یہ سب اتنی جلدی۔۔۔“
حذیفہ کو یقیناً رخصتی کی بات سے پریشانی ہوٸی تھی اور اب وہ نعمان اور کلثوم کے سامنے گلے شکوے کرنے میں مصروف تھا۔
” بس حذیفہ بہت کرلی ضد بحث! میں نے سمیرہ بھابھی اور ارسلان بھاٸی صاحب سے بات کرلی ہے اور بھابھی اور بھاٸی صاحب (سارہ کے والدین)کو کوٸی مسٸلہ نہیں ہے۔ اور تم بھی تو سارہ کو پسند کرتے ہو!“ بات مکمل کرتے ہوۓ آخر میں سارا ملبہ حذیفہ کے سر پر ڈال دیا۔
”ماما وہ سب ٹھیک ہے لیکن سارہ کی پڑھاٸی کا مسٸلہ ہوگا اور۔۔۔“ حذیفہ ان دونوں کو اپنی بات سمجھانے کی کوشش کررہا تھا کہ نعمان صاحب بول پڑے۔
”حذیفہ! بس بہت ہوا۔ ساری تیاریاں ہوگٸ ہیں اور میں نے تمام چیزوں کے آرڈرز دے دیے ہیں اب تم کچھ نہیں کہوگے آگے۔“
نعمان صاحب حکم صادر کرتے ہوۓ چلے گۓ اور وہ بس انکی پشت دیکھتا رہ گیا کیوں کہ بابا سے زد بحث کرنا اُسے نہیں آتا تھا۔
”ماما۔ آپ بھی۔۔۔“وہ جملہ بھی مکمل نہیں کرسکا
”بیٹا بڑوں کا فیصلہ ہے اور ویسے بھی رخصتی کے بعد سارہ کی اور تمہاری پڑھاٸی میں کوٸی مسٸلہ نہیں ہوگا اور بس اب ایک سال ہی تو رہتا ہے۔ اور ہم کون سا اُس سے گھر کے کام کرواٸیں گے، اب تم اُٹھو اور زکی اور ابراہیم کی ساتھ جاکر ویڈنگ ڈریس تبدیل کروا آٶ۔ سارہ کے ڈریس کا کلر تمہارے ڈریس سے مختلف ہے۔اب جاٶ شاباش اور تیاری کرو ایک دن ہی باقی ہے“ کلثوم پوری تقریر کی اور اُسے بولنے کا موقع بھی مل نہ سکا۔
”اوکے ماما جیسا آپ دونوں چاہیں“ وہ اُٹھا اور ابراہیم کو لینے چلاگیا۔
------------
”تھینک یو زکی۔ تمہاری چواٸس سب سے الگ اور خوبصورت ہے“ مِناہل نے اُس کے بھیجے ہوۓ سوٹ کو بغور دیکھا اور سراہتے ہوۓ کہا
”اوہ ویلکم“ زکریا نے مسکراتے ہوۓ تعریف وصول کی۔ وہ دونوں فون پہ بات کررہے تھے اور زکریا نے اسلم چچا سے کہ کر مِناہل کا سوٹ اُس کے گھر بھجوایا تھا۔ مِناہل نے اپنا اور زکریا کا ایک ہی کلر کا سوٹ لانے کو کہا تھا اور زکریا نے اُس کی بات پر عمل کرتے ہوۓ اپنے اور اُس کے لیے اسِکن کلر کے خوبصورت جوڑے خریدے تھے اور اب وہ اُسی کی تعریف وصول کررہا تھا۔
”اچھا تم مجھے گھر سے پک کروگے ناں؟!“ مناہل نے خوش ہوتے ہوۓ کہا
”نہیں۔ سوری مِناہل حوذی میرے ساتھ ہوگا اس لیے میں اُسے لے کر جاٶں گا۔تم ریڈی ہوکر ہال پہنچ جانا پلیززز پیاری مِناہل“ معذرت کرتے ہوۓ اب وہ اُس سے ریکوٸیسٹ کر رہا تھا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔میں سمجھی ہم دونوں ساتھ جاٸیں گے...!“ مناہل اداس ہوگٸی تھی۔
”پلیز مناہل تم اداس نہیں ہو۔ جب میں پہنچوں گا تو ہال میں تمہارے ساتھ ہی جاٶں گا اوکے؟ خوش؟“
وہ اُس کی بہت فکر کرتا تھا۔۔۔۔
”اوکے“ اُس نے خوش ہوتے ہوۓ کہا تو زکریا نے سکون کی سانس لی اور اللہ حافظ کہتے ہوۓ کال کاٹی اور موباٸل بیڈ پر اچھالا اور خود لیٹ گیا۔
”تو نے اُسے بتایا کیوں نہیں کہ تجھے کل رات سے بخار ہے اور تیرا فلو بھی بڑھ رہا ہے“ ابراہیم نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوۓ کہا۔
وہ زکریا کے کمرے میں موجود تھا اور ان دونوں کی ساری باتیں صوفے پر بیٹھا انتہاٸی غور سے سُن رہا تھا۔ زکریا نے چلے جانے کا اشارہ کیا تو تب بھی وہ ڈھیٹ بن کر اُسی کے کمرے میں بیٹھا رہا اور اپنے کمرے میں نہیں گیا۔اور جب زکریا نے مِناہل کو اپنی طبیعت کا نہ بتایا تو ابراہیم کا پارہ ہاٸی ہوگیا۔
”وہ پریشان ہوجاتی۔“ زکریا نے آنکھیں بند کرتے ہوۓ جواب دیا۔
” بس کر زکی۔ تو بھی ناں۔“ عابی ہار مانتے ہوۓ خاموش ہوگیا اُسے معلوم تھا وہ مناہل کے خلاف چاہے جتنی گواہیاں دے لیکن زکریا اُس کے فیور میں ہی بولے گا۔
”اچھا دواٸی کھالے یار!“ سوچوں سے باہر نکلتے ہی اس نے فکرمندی سے کہا
”ہاں کھا رہا ہوں۔ تُو میری ماں نہ بن“ زکریا نے چڑ کر کہا تو وہ ہنس دیا۔زکریا کو دواٸیاں اچھی نہیں لگتی تھیں۔۔۔
ابراہیم نے پانی کا گلاس زکریا کی طرف بڑھایا اور وہ بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھا پھر دواٸی کھاٸی۔
”اچھا اب میں جارہا ہوں آرام کرو“ کہتے ہوۓ وہ اپنے کمرے کی طرف چل دیا اور زکریا کل آنے والے خاص دن کے بارے میں سوچتا ہوا دواٶں کے زیرِ اثر آکر سوگیا۔
***************