وہ دونوں کچن میں موجود کرسیوں پر بیٹھیں سامنے رکھے کیک کو کھارہی تھیں ہر طرف خاموشی تھی اور پورے بنگلے میں صرف لان کی لاٸٹیں جل رہی تھیں، اور کچن میں ایک بلب ان کے سر پر جل رہا تھا۔ وہ دونوں باتوں کررہی تھیں کہ زَہرہ نے بات شروع کی۔
---------------
"حذیفہ ہم دونوں آرہے ہیں۔ ٹریٹ تیری طرف سے اور گفٹ ہماری طرف سے" وہ تینوں یونیورسٹی کی کینٹین میں بیٹھے باتیں کررہے تھے جب ابراہیم نے مدعے کی بات کی۔
"ڈھیٹ نکما کہیں کا، پتا نہیں یہ میرا برتھ ڈے بھولتا کیوں نہیں ہے" حذیفہ نے ابراہیم کی تعریف میں چند الفاظ بیان کرتے ہوۓ افسردہ نظروں سے زکریا کو دیکھا تو وہ ہنس دیا۔
"ہاں ہاں ٹھیک ہے، میری تعریف بعد میں کرلینا۔آج ہم دونوں آرہے ہیں" ابراہیم ڈھٹاٸی سے کہتا ہوا کھڑا ہوگیا اور زکریا بھی اُسکے ساتھ جانے لگا۔
"تم کہاں جارہے ہو زکی؟" حذیفہ نے سوال کیا۔
"ظاہر سی بات ہے گھر جارہا ہوں اِس کے ساتھ شام کی تیاری کرنے کے لیے" زکریا نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
"جی نہیں۔ اس نے دواٸی نہیں لی اور فِلُو بہت ہورہا ہے اور بخار بھی۔ گھر لے کر جارہا ہوں۔پھر دواٸی لینے جاٸینگے ہسپتال"
"اچھا ٹھیک ہی آرام کرلینا اور سات بجے دونوں پہنچ جانا۔"
"چاکلیٹ آٸس کیک ہونا چاہیے ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔" زکریا فرماٸش کرتے ہوۓ چلاگیا اور حذیفہ نے ہنستے ہوۓ ہامی بھر لی۔
آج حذیفہ کی سالگرہ تھی۔ یہ اُن سب کی یونیورسٹی کا دوسرا سال تھا۔
ابراہیم کے والد احمد صاحب کی رہاٸش اسلام آباد میں تھی۔ اور وہ کراچی بہت کم آیا کرتے تھے۔جب سات سال کی عمر میں اُس کی ماما عنایہ احمد کا انتقال ہوا تو احمد صاحب نے اُسے اپنے بڑے بھاٸی معیز صاحب کے گھر بھیج دیا۔ اب دونوں زکریا اور ابراہیم نہ صرف کزن رہے تھے بلکہ اُن دونوں کا رشتہ بالکل سگے بھاٸیوں کا تھا۔ زکریا بھی اکلوتا تھا تو ابراہیم کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اکیلا پن بھی دُور ہوگیا۔
--------------------
پچھلے تین گھنٹے کی محنت رنگ لے آٸی تھی۔صالحہ نے فریج میں رکھے آٸس چاکلیٹ کیک کو دیکھا۔ابھی اُس نے خاموشی سے کیک کی ٹرے باہر نکالی ہی تھی کہ کچن میں داخل ہوتی زَہرہ نے دیکھ لیا
"خبردار صالحہ اگر تم نے اپنی بھوکی نظریں اس کیک پر رکھیں۔" زَہرہ نے بغیر تاخیر کیے کیک اپنے ہاتھ میں لیا
"زوہی یار پلیز ، بس تھوڑا سا چکھنے دو پھر نہیں نکالوں گی" صالحہ نے شریفانہ صورت بناۓ کہا
"تم پچھلے آدھے گھنٹے سے کیک کو تین دفعہ نکال چکی ہو۔اگر حذیفہ کا برتھ ڈے کیک نہ ہوتا تو میں تمہیں یہ کیک کھانے دیتی۔" زہَرہ نے اسے سمجھانا چاہا
"زوہی یار بھوک لگ رہی ہے اور ابھی دو گھنٹے ہیں دعوت شروع ہونے میں" صالحہ نے چہرے پر معصومیت برقرار رکھی جبکہ زَہرہ اُس کے ناٹک کو اچھی طرح سمجھتی تھی۔
"صالحہ میری محنت پر پانی پِھر جاۓ گا بہت مشکل سے تیار ہوا ہے یہ آٸس کیک۔" زَہرہ ابھی اسے سمجھا ہی رہی تھی کہ صالحہ کیک کی ٹرے پکڑنے کے لیے خاموشی سے آگے بڑھی اور جیسے ہی زَہرہ نے صالحہ کو ایک کی طرف آتے دیکھا وہ کچن سے باہر بھاگی
"صالحہ پلیز۔ اگر کیک کی سجاوٹ خراب ہوگٸ تو حذیفہ ناراض ہوجاۓ گا اور ویسے بھی آج تو اُس کے دوست آرہے ہیں دعوت پہ۔"
"کم آن زوہی دو دوست ہی تو ہیں بس اور ابھی تو تاٸی جان بھی نہیں پہنچیں،بس تھوڑا سا چکھنے دو کون سا اس کیک کی خوبصورتی میں کمی آجاۓ گی۔"صالحہ لاٶنچ میں موجود گول داٸرے کی صورت میں رکھے صوفوں کے اُس پار کھڑی تھی جبکہ زَہرہ داخلی دروازے کے نزدیک تھی۔
اب کی دفعہ صالحہ باتیں کرتے کرتے آگے بڑھ رہی تھی جبکہ زوہی سنجیدگی سے کھڑی اس کی باتیں سُن رہی تھی اور ہاتھ میں پکڑی اس آٸس چاکلیٹ کیک کی ٹرے کو دیکھ رہی تھی۔ داخلی دروازے پر دستک ہوٸی تھی لیکن دونوں اپنے ہی مسٸلے کو حل کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔ زَہرہ ٹرے ہاتھ میں لیے واپس کچن کی جانب مڑی ہی تھی کہ صالحہ کو اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ بھاگی۔ صالحہ نے بھاگتے ہوۓ زَہرہ کا ہاتھ پکڑ کے روکا، اور جلدی جلدی میں زَہرہ سے وزن برقرار رکھنا محال ہوا تو ہاتھ میں پکڑی کیک کی ٹرے ہاتھ سے چُھٹ گٸی اور جیسے ہی کیک زَہرہ کے ہاتھ سے چُھوٹا تو داخلی دروازے سے آتے موصوف کے چہرے پر جاکے لگا اور اُس شخص کو سنبھلنے کا موقع تک نہ مل سکا۔ اور اب آٸس چاکلیٹ کیک کی ساری چاکلیٹ زکریا کے چہرے پر سجی تھی اور وہ اپنی نیلی آنکھوں میں حیرت لیے زَہرہ کو دیکھ رہا تھا۔جبکہ زہرہ بس اپنے کیک کو دیکھنے میں مگن تھی
اُس کے لیے کسی صدمے سے کم نہ تھا کہ جو کیک تیار کرنے میں اُس نے تین گھنٹے لگاۓ تھے وہ سیکنڈوں میں زمین بوس ہوچکا تھا۔زہرہ کی آنکھوں میں آنسو اُبھرنے لگے۔ اور اس سے چند قدم کے فاصلے پر صالحہ کا ہنس ہنس کے بُرا حال تھا۔ اس کی ہنسی سن کر زوہی کو مزید غصہ آنے لگا۔ اپنا غصہ صالحہ پر نکالنے کے تحت اُس نے نظریں اوپر اُٹھاٸی ہی تھیں کہ زکریا کی نظریں پہلے ہی خود پر مرکوز پاکر وہ گڑبڑاگٸی۔زکریا کے چہرے پر چاکلیٹ ہی چاکلیٹ تھی صرف اس کی نیلی آنکھیں ہی واضح دکھاٸی دے رہی تھیں۔ اس کے اتنی دیر دیکھنے پر زَہرہ شرم سے پانی پانی ہوگٸ۔
"اب یہ کون موصوف ہیں؟ صالحہ کی غلطی کی سزا مجھے بھگتنی پڑے گی۔
اللہ پلیز مجھے اس شخص کے غصے سے بچالینا۔" دل ہی دل میں وہ خود سے باتیں کررہی تھی کہ اب زکریا کتنا غصہ کریگا؟ اور یہ سوچ کر اس کا اپنا غصہ زاٸل ہوگیا تھا۔
آج چونکہ وہ اور صالحہ ہی گھر پر تھیں اور حذیفہ اپنے کمرے میں سورہا تھا۔پانچ بج چکے تھے۔ کلثوم اور نعمان کام سے بازار گۓ ہوۓ تھے کیوں کہ سمیرہ تاٸی جان اور ارسلان تایا کے ساتھ اس کے کزنس بھی آنے والے تھے۔ زَہرہ نے اسکارف درست کیا جوکہ پہلے سے ہی ٹھیک تھا، خود کو نارمل ثابت کرنے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنساۓ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ معذرت کرے بھی تو کیسے؟ صالحہ اس کے برابر میں آکر کھڑی ہوگٸ۔زکریا پچھلے ایک منٹ سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔زَہرہ کے چہرے پر پریشانی اور اُلجھن دیکھ کر اس کا دل چاہا کہ وہ مسکرادے۔
"صالحہ۔ تمہارے گھر پر مہمانوں کا استقبال ایسے کیا جاتا ہے؟" زکریا نے اس سے نظریں ہٹاٸیں اب وہ صالحہ کی جانب متوجہ ہوا تھا۔وہ سنجیدہ تھا زَہرہ بھی اس کی بات سننے لگی۔
"سوری زکی۔ لیکن یہ سب زوہی کا کیا دَھرا ہے" اپنی غلطی کا سارا کا سارا مالبہ اس نے زَہرہ پر ڈال دیا اور دونوں ہاتھوں سے اُس کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ وہ ڈھٹاٸی سے ہنس دی۔ زَہرہ نے ابھی بمشکل خود کو کمپوز کیا تھا کہ صالحہ کی بات پر اس نے صالحہ کو غصہ بھری نظروں سے گُھورا۔ زکریا اب سینے پر ہاتھ باندھے زہرہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔
"آٸ ایم ریٸلی سوری۔ صالحہ نے میرا ہاتھ کھینچا تھا تو ٹرے میرے ہاتھ سے چُھوٹ گٸ مجھے نہیں معلوم تھا کہ سامنے سے آپ آرہے ہیں۔آٸ ایم سوری فار دیٹ۔"
زَہرہ ادھر اُدھر دیکھ کر وضاحت دے گٸ اور وہ مسکرا دیا۔
"اوکے۔کوٸ بات نہیں لیکن کیا مجھے ٹشو پیپر مل سکتا ہے؟ اس چاکلیٹ ماسک کو ہٹانے کے لیے۔" زکریا نے نرمی مگر ہنستے ہوۓ کہا۔ اس کے نرمی سے کہنے پر زہرہ نے حیرت سے اُسے دیکھا اُسے لگا تھا کہ زکریا کا ریٸکشن اچھا نہیں ہوگا لیکن اس کا خیال غلط تھا۔ صالحہ نے ٹیبل سے ٹشو بکس اُٹھا کر زَہرہ کی طرف بڑھایا اور آنکھ کا کونا دبایا اور اُس کی یہ حرکت دیکھ کر زَہرہ کا خون مزید جل گیا۔ناچاہتے ہوۓ بھی اُسے زکریا کے سامنے کھڑا ہونا پڑ رہا تھا۔ اب وہ ٹشو بکس ہاتھ میں لیے کھڑی تھی اور زکریا تھوڑی تھوڑی دیر میں دو تین ٹشو نکال کر چہرہ صاف کررہا تھا۔ اور وہ چپ چاپ کھڑی دیکھ رہی تھی۔زکریا منہ دھونے چلاگیا اور اور صالحہ پانی کا گلاس لے کر اس کے ساتھ آکھڑی ہوٸ
"زوہی میڈم۔ کنفیوژ کیوں ہو؟ زکریا بھی ہماری طرح انسان ہے"صالحہ اُسے زچ کرنے لگی۔
"اپنی زہریلی مسکراہٹ اپنے پاس رکھو اور یہ جو کیک خراب ہوا ہے ناں! اب حذیفہ کو تم ہی جواب دوگی کیوں کہ جب اس کے دوست آٸینگے اور کیک نہیں ملے گا تو حذیفہ مجھے تو کچھ نہیں کہے گا۔ ہاں البتہ تمہاری ڈانٹ ضرور لگے گی۔" زَہرہ اپنا غصہ نکال چکی تھی اور اس کی بات سن کر صالحہ کو پر کوٸ فرق نہیں پڑا تھا۔
"تمہیں معلوم ہے زَہرہ! بھاٸ کو کس نے کہا تھا آٸس چاکلیٹ کیک کے لیے؟" صالحہ کی بات پر زَہرہ نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا
"یہ فرماٸش زکریا معیز کی تھی۔اُسے بہت پسند ہے یہ کیک اور اب تم نے وہ ہی کیک اُس کے چہرے پر سجادیا ہے۔ اب تو۔۔۔" صالحہ نے بات ادھوری چھروڑ دی
"اوہ اللہ!!!صالحہ۔ یہ ہے زکریا معیز تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا،اب اگر اس نے یہ بات حذیفہ کو بتادی کہ کیک کھلانے کے بجاۓ اس کے چہرے پر مل دیا گیا تھا۔تو کیا ہوگا؟" زَہرہ نے افسردگی سے کہا
"مجھے نہیں معلوم زوہی غلطی تمہاری ہے میں نے کہا بھی تھا کہ تھوڑا سا چکھنے دو کیک لیکن تم نے میری ایک نہیں سنی اور اب دیکھو کیک کسی کے کھانے کے لاٸق نہیں رہا۔وہ تو بس زکریا نے ہی چکھا ہوگا کیوں کہ اُس کے چہرے پر جاکے لگا تھا۔
صالحہ اس کی پریشانی کو کم کرنے کے بجاۓ مزید بڑھا رہی تھی اس کے ڈھٹاٸی سے کہنے پر وہ خاموش کھڑی رہی
"کیا ہوا؟ اتنی خاموش کیوں کھڑی ہیں دونوں؟" زکریا نے ایک نظر اس پر ڈال کر اب صالحہ سے پوچھا تو اُس نے سب سچ سچ بتادیا۔زَہرہ اس کی صاف گوٸی پر حیران تھی جب کہ زکریا صوفے سے ٹیک لگاۓ کھڑا مسلسل ہنس رہا تھا۔ اب زَہرہ اُس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
بلیک جینز کے ساتھ واٸٹ شرٹ میں وہ تھکا تھکا لگ رہا تھا، شاید نیند نہ پوری ہونے کی وجہ سے آنکھیں بھی لال ہونا شروع ہوگٸ تھیں۔ اُس کی ہنسی زَہرہ کی توجہ کا مرکز تھی۔چونکہ وہ صالحہ کی جانب متوجہ تھا اور اس کی نیلی آنکھیں جو بلاشبہ بہت خوبصورت تھیں،وہ ایک لمحے کے لیے وہ تھم سی گٸی۔ تھوڑی دیر میں وہ صالحہ کے بالکل برابر کھڑی ہوگٸ اور ہلکی آواز میں سرگوشی کی
"صالحہ! اس کی آنکھیں بہت خوبصورت ہیں۔ لینس ہیں کیا؟" زَہرہ سرگوشی کرتے ہوۓ چھوٹی سی اُلجھن کا شکار تھی، صالحہ دھیما سا ہنس دی لیکن زَہرہ کو معلوم نہیں ہوسکا کو وہ اب خاموش ہوچکا تھا اور اس کی سرگوشی بھی سُن لی تھی۔
"نہیں۔ یہ قدرتی آنکھیں ہیں۔" اس نے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاۓ کہا۔ اُس کا جواب سن کر زہرہ کچھ نہ کہہ سکی۔ اُسے لگا تھا کہ زکریا اُس کی بات نہیں سن پاۓ گا لیکن اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ اس وقت وہ اس کی بات ہی سن رہا تھا۔
ملازمہ نے فرش صاف کردیا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں حذیفہ سیڑھیاں اترتا نیچے آگیا
"تم کب آۓ؟" اس نے زکریا سے گلے ملتے ہوۓ سوال کیا۔
"مجھے آۓ ہوۓ بیس منٹ گزر چکے ہیں تم نے ہی اتنی دیر کی ہے اُٹھنے میں۔" زکریا نے تھوڑی خفگی سے کہا۔
"ہاں تاٸی جان بھی بس پہنچ ہی چکی ہیں ایٸر پورٹ پر ہم بھی چلتے ہیں۔ عابی نہیں آیا؟" اس نے گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوۓ پوچھا۔
"نہیں یار۔ ہسپتال سے آکر وہ میرے کمرے میں ہی سوگیا تھا اور ابھی بھی نیند کے مزے لے رہا ہے۔" زکریا نے بھی اس کے کھڑا ہوگیا۔
"اوہ اچھا۔ تمہاری طبیعت کیسی ہے اب؟ بخار ہے؟" اس نے پریشان ہوتے ہوۓ پوچھا۔
"بخار تھوڑا ہی ہے لیکن فلو نے اتنی جلدی پیچھا نہیں چھوڑنا۔" اس نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
"تم دونوں بھی چلو ہمارے ساتھ" حذیفہ نے باہر جاتے ہوۓ ان دونوں کو حکم دیا تو وہ بھی خاموشی سے ساتھ ساتھ چل دیں کیوں کہ ابھی حذیفہ کو کیک کی تباہی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔
"زکریا" وہ ابھی گاڑی کا لاک کھول ہی رہا تھا کہ حذیفہ کی آواز پہ مُڑا۔
"صالحہ اور زوہی تمہارے ساتھ جاٸیں گی اور اور عنزہ عنابیہ بھی تمہاری گاڑی میں بیٹھیں گی باقی تایا،تاٸ،سارہ اور یوسف میری گاڑی میں بیٹھیں گے۔" ساری پلاننگ بتاتا ہوا وہ گاڑی میں بیٹھ گیا۔ زکریا نے بھی گاڑی اسٹارٹ کی تو زَہرہ اور صالحہ پچھلی سیٹ پر براجمان ہوگٸیں۔
------------
"زکریا کیا تم ایک ہیلپ کروگے؟" صالحہ نے جھجھکتے ہوۓ پوچھا۔
"ہاں بولو" اس نے بیک ویو مِرَر میں دیکھ کر پوچھا۔
"تم بیکری پر گاڑی روک دینا اور کیک لے آنا پلیز۔ ورنہ بھاٸی مجھے بہت ڈانٹیں گے،کیوں کہ زوہی نے اتنی محنت سے تین گھنٹوں میں کیک تیار کیا تھا۔" صالحہ نے وضاحت دی
"اوکے" اس نے ہامی بھرلی
دس منٹ بعد وہ ایک بیکری کے باہر موجود تھے۔زکریا گاڑی سے اُترا۔
"صالحہ میں کیسے لاٶں گا کیک۔ ساتھ چلو اور خود دیکھ لو۔" زکریا نے کہا تو صالحہ زَہرہ کو گھورنے لگی جس کا مطلب یہ تھا پھندا اب زَہرہ کے گلے میں ڈلنے والا ہے۔
"زوہی کو لے جاٶ اسے کیک کے بارے میں بہت معلومات ہے۔ میں یہیں بیٹھی ہوں۔" صالحہ نے کہا اور سیٹ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گٸ اس کے انداز پر زکریا ہنس دیا۔
"چلیں؟" اس نےسنجیدگی مگر نرمی سے زَہرہ سے کہا۔
زَہرہ نے التجا بھری نظروں سے اسے دیکھا کہ وہ ساتھ چلے لیکن صالحہ بھی اپنے نام کی ایک ہی تھی اس کی التجاٸ نظروں کو خاطر میں نہ لاتے ہوۓ کہا
"اب جاٶ بھی زوہی ورنہ ہمیں دیر ہوجاۓ گی ایٸر پورٹ پہنچنے میں اور بھاٸی ڈانٹیں گے مجھے۔ جلدی جاٶ۔" اس نے کہا تو زَہرہ اُسے گھورتی ہوٸی مرے مرے قدموں سے چلتی اس کے ساتھ چلی گٸ۔
-----
جب تک زَہرہ نے کیک پسند نہیں کیا وہ دور کھڑا اِدھر اُدھر کا جاٸزہ لینے لگا۔ اور جیسے ہی اس کی نظر بل کے پیسے ادا کرتی ہوٸ زَہرہ پر پڑی وہ بغیر تاخیر کے وہاں جاکے کھڑا ہوگیا جہاں کاٶنٹر پہ کھڑی لڑکی اس کا کارڈ پیسے لینے کے لیے لے رہی تھی۔ زکریا نے اپنا کارڈ نکال کر اس لڑکی کی طرف بڑھاتے ہوۓ زَہرہ کو دیکھا۔
"یہ غلط بات ہے!" اس نے ناراضگی سے زَہرہ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔
"میں نے کیا کیا؟" اس نے حیرت بھری نظروں سے اُسے دیکھ کر کہا۔
"زوہی آپ ابھی میرے ساتھ ہیں اور پیسے بھی میں ہی دوں گا۔" اُس نے نرمی سے سمجھایا۔ زکریا نے اس کا نام لیا تھا لیکن وہ بھی نِک نیم سے۔ اس کی بات پہ وہ مسکرادی۔
"یہ میں نے خریدا ہے تو پیسے بھی میں ہی دوں گی۔" زَہرہ نے اسے سمجھایا۔ اور اپنا کارڈ اس لڑکی کو دینے لگی اور زکریا کا کارڈ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوۓ کہا۔
"زوہی پیسے میں ہی دوں گا آخر میرے دوست کا برتھ ڈے ہے" زکریا نے کارڈ آگے بڑھایا۔
"پلیز یہ کیک میری طرف سے ہے اور پیسے بھی میں ہی دوں گی۔" اب کی دفعہ زَہرہ نے بھی ضد کی تو وہ حیرت سے اُسے دیکھنے لگا۔
"میم۔ پہلے آپ اپنے ہزبینڈ سے ڈسکس کر لیجیٸے۔"کاٶنٹر پر کھڑی اُس لڑکی نے مسکراتے ہوۓ کہا لیکن اب اُن دونوں کی مسکراہٹیں غاٸب ہوگٸ تھیں۔دونوں کے کارڈز ان کے ہاتھ میں رہ گۓ۔
"ی یہ میرے۔۔۔" زہرہ کے پاس لفظ ہی نہیں تھے۔اور زکریا بھی حیرت سے کھڑا اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔
"MA'AM...you Both are looking sweet with each other."
کاٶنٹر پہ کھڑی لڑکی نے کمپلیمینٹ دیا اور زَہرہ کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔
"یہ لیجیٸے کارڈ" زکریا نے فوراَ بات کا رُخ بدل دیا تھا۔ایک لمحے کو تو اسے بھی اپنے کانوں پر بھروسہ نہ ہوا کہ جو اس نے سنا ہے کیا وہ ہی کہا گیا تھا؟!
اس کمپلیمینٹ کی توقع اُسے ہرگز نہ تھی اور وہ بھی تب! جب زوہی اُس کے برابر میں کھڑی تھی۔ وہ تو ویسے بھی اُس سے بات کرتے ہوۓ احتیاط برتتی تھی۔اور اب ناجانے بات کرے گی بھی یا نہیں۔
"تھینک یو فار شاپنگ۔" اس لڑکی نے خوش لہجے میں کہا۔
"موسٹ ویلکم" زکریا نے کہتے ہوۓ فوراً سامان اُٹھایا۔
"چلیں۔" اُس نے زَہرہ کو بغیر دیکھے پوچھا۔وہ خاموشی سے اسکے پیچھے بیکری سے نکلی تھا۔
---------------------
سب گھر آچکے تھے، سات بجنے میں کچھ ہی دیر تھی۔ سب اپنے اپنے کمروں میں فریش ہونے گۓ تھے۔حدیفہ بھی تیار ہوچکا تھا اور زکریا بھی ان سب کو ڈراپ کرکے ہاپس گھر چلاگیا تھا اور اب ابراہیم کے ساتھ آیا تھا۔ دونوں نے بِلو جینز کے ساتھ واٸٹ شرٹ پہنی تھی اور چونکہ موسمِ سرما کا آغاز ہوچکا تھا تو دونوں نے شرٹ پر بلیک اَپر بھی پہنا تھا۔ ابراہیم بہت فریش تھا لیکن زکریا کی طبیعت ابھی ناساز تھی۔
جب سب نے کھانا کھالیا تو کیک کی باری آٸی۔حذیفہ نے کیک کاٹا تو سب نے تحاٸف دیے۔ صالحہ نے سب کو کیک دیا اور جب زکریا کی باری آٸ تو اس نے اُسے خاموش رہنے کا کہا تو اس نے سر کو جنبش دی۔
"حذیفہ کیک تو بہت مزیدار ہے۔ کس نے بنایا؟" ابراہیم نے تعریف کرتے ہوۓ پوچھا۔حذیفہ نے بتایا تھا کہ گھر کا کوٸ فرد بناۓ گا لیکن زوہی کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔
اب ابراہیم نے بات شروع کی تو سب کی توجہ اسکی طرف ہوگٸ۔
"یہ زوہی نے بنایا ہے۔" اس نے خوش ہوتے ہوۓ کہا
"زوہی اٹس سو یمیی۔" عنزہ نے تعریف کی تو وہ بس مسکرادی۔ بھلا ان تین لوگوں کے علاوہ کسے معلوم تھا کہ کیک بیکری سے آیا ہے، زَہرہ کا بنایا ہوا کیک تو کھانے کے قابل ہی نہیں رہا تھا۔۔۔۔۔صالحہ محترمہ کی بدولت۔!
"بہت اچھا بنایا ہے زوہی بیٹا۔" سمیرہ تاٸ نے بھی داد دی اور پھر باقی سب نے بھی تعریف کے۔ صالحہ نے تو انتہا ہی کردی۔
"آخری میری بہنا میری دوست ہے زوہی۔ کچھ تو اثر ہوگا ناں۔میں نے ہی بتاٸ تھی ترکیب" صالحہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔ زَہرہ نے حیرت سے اُسے دیکھا۔
"اوہ اچھا صالحہ۔ کیا کیا چیزیں استعمال کی ہیں اس کیک کو وجود میں لانے کے لیے؟" یوسف نے دلچسپی کے ساتھ ہنستے ہوۓ کہا۔ کیوں کو سب جانتے تھے کہ اسے کوکنگ کا "ک" بھی نہیں آتا۔
"یہ تو لڑکیوں کے کام ہے تم کیا کروگے پوچھ کر؟" بڑے مزے سے بات گھماتی ہوٸ وہ زَہرہ کے برابر ٹیک لگا کر بیٹھ گٸ۔ اور سب ہنس دیے۔
گھر کے سب بڑے الگ کمرے میں جاکر باتیں کرنے لگے اور اب لاٶنچ میں وہ سارے بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔
"حوذی مجھے دواٸ کھانی ہے میں پانی لے کر آتا ہوں۔" وہ اٹھ کر جانے لگا
"لاٶ میں لا کر دوں۔" حذیفہ کہتے ہوۓ اٹھنے لگا
"کوٸ بات نہیں۔ مجھے تیرے گھر کے سارے راستے معلوم ہیں۔" وہ کہہ کر ہنستا ہوا چلاگیا اور حذیفہ بھی مسکراتا ہوا واپس بیٹھ گیا۔
-------------------
وہ کچن میں پہنچا تو صالحہ کام کرتی نظر آٸ وہ صرف بھگونے میں چمچ چلا رہی تھی اور چہرہ ایسا بنایا ہوا تھا جیسےآج وہ بریانی بنارہی ہو۔
وہ کچن میں آکر کھڑا ہوا صالحہ سے باتیں کرنے لگا۔ بوتل میں سے گلاس میں پانی ڈال کر ہاتھ میں پکڑے اس نے کہا۔
"صالحہ میڈم آپ نے کیک بنانے کے لیے کن کن چیزوں کا استعمال کیا؟" اس نے یوسف کی نقل کرتے ہوۓ کہا۔ وہ انتہاٸ فاصلے پہ کھڑا کچن کے سلیب کے ساتھ ٹیک لگاۓ کھڑا تھا۔ زَہرہ اندر کرسی پر ایک کونے میں خاموش بیٹھی تھی لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ زَہرہ بھی وہاں موجود ہے۔
"اچھا بے وقوف بنایا ناں!" صالحہ نے ہنستے ہوۓ کہا تو وہ مسکرا دیا۔
"مجھے بول دیتے بھٸی میں لا دیتی پانی۔" اس نے زکی کے ہاتھ میں گلاس دیکھ کر کہا
"کیا ہوگیا تم بہن بھاٸ کو ایسے لگ رہا ہے جیسے آج پہلی دفعہ گھر آیا ہوں۔"اس نے آنکھوں کو حیرت سے بڑا کرتے ہوۓ کہا۔
"اچھا۔کیا ہوا تمہیں؟ طبیعت کیسی ہے؟" صالحہ نے پوچھا۔
"فلو ہے اور تھوڑا بخار بھی ہے" وہ اب پانی کا گلاس لیے ٹیبل کی طرف بیٹھنے آیا تو زَہرہ پر نظر پڑی اُسے بے ساختہ آج شام والی بات یاد آنے لگی۔
وہ بس دھیما سا مسکرادیا۔اب زَہرہ صالحہ برابر کھڑی ہوگٸ۔
"ہمارے ساتھ کافی (coffee) پیوگے؟"صالحہ نے آفر دیتے ہوۓ کہا
"نہیں مجھے کوفی نہیں پسند۔" زکریا نے انکار کرتے ہوۓ کہا
"کیا؟؟ آپ کو کوفی نہیں پسند!"اس کے انکشاف پر زَہرہ نے تقریباً حیرت سے چلّاتے ہوۓ کہا تھا۔ اس کے تیز آواز میں کہنے پر صالحہ اور زکریا اسے دیکھنے لگے، وہ شرمندہ ہوگٸ۔
"ہاں کیوں؟" اس نے حیرت سے پوچھا۔
"وہ میرا مطلب ہے کہ کوفی تو اتنی مزیدار اتنی لذیذ ہوتی ہے اور سردیوں میں تو کوفی کا الگ ہی مزہ ہوتا ہے۔" اس نے وضاحت پیش کی۔
" اچھا زکی۔ تم زوہی کے ہاتھ کی بنی ہوٸ کافی پیو، یقیناً تمہیں پسند آۓ گی۔" صالحہ نے کہا
"اوکے، آج زوہی کے ہاتھ کی بنی ہوٸ کافی بھی چکھ لیتے ہیں۔" اس نے گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوۓ مسکرا کر زَہرہ کو دیکھا اور کہا۔ اور پھر باہر ابراہیم اور حذیفہ کے ساتھ جاکے بیٹھ گیا۔
"(اس کی آنکھیں۔۔۔۔)" زَہرہ سوچتے ہوۓ سر جھٹک کر رہ گٸ۔
-------------------------
عنزہ اور عنابیہ اپنے کمرے میں جاچکی تھیں۔ یوسف کے پاس بھی کسی کی کال آٸ تھی تو وہ بھی اُٹھ کر چلاگیا۔
وہ باہر لان میں موجود فون پر باتوں میں مصروف تھا۔
"تمہارے لیے کوفی۔" صالحہ نے آہستہ سے کہتے ہوۓ ٹرے اس میز پر رکھی جہاں گول داٸرے کی صورت میں کرسیاں رکھی تھیں۔ صالحہ ایک کرسی پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگی۔پندرہ منٹ گزرگۓ اور تب بھی یوسف کی باتیں ختم نہ ہوٸیں تو اسے بولنا پڑا۔
"یوسف۔ کوفی ٹھنڈی ہوجاۓ گی۔"صالحہ نے اسے یاد دلایا۔
"ہاں آرہا ہوں۔" اس نے دور سے ہی سر کو جنبش دیتے ہوۓ کہا۔
"آخر کون ہے جس کی خاطر ہمیں نظرانداز کیا جارہا ہے!" صالحہ نے سرگوشی کی۔اب وہ بھی کرسی پر آکے بیٹھ گیا لیکن ابھی بھی مصروف سے انداز میں بات کررہا تھا۔
"یوسف اب بس بھی کرو۔ کون ہے جس سے باتیں ہی ختم نہیں ہورہی ہیں۔"ابھی اس نے کہا ہی تھا کہ یوسف نے اسے انگلی کے اشارے سے خاموش ہونے کا کہہ دیا۔صالحہ کے غصے میں اضافہ ہوگیا لیکن وہ ضبط کیے بیٹھی رہی۔وہ کسی آفس ورکنگ پارٹنر سے بات کررہا تھا در حقیقت وہ اپنے بہترین دوست سے کچھ آفس کے کام کے سلسلے میں بات کررہا تھا کیوں کہ وہ سب ایک ہفتے کے لیے کراچی آۓ تھے۔ تو کام بہت زیادہ تھا اب وہ اپنے دوست کو کام کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کررہا تھا تاکہ وہ چھوٹا موٹا کام سنبھال لے جب تک وہ کینیڈا واپس نہیں چلاجاتا۔لیکن شاید صالحہ اس کے نرم لہجے کی وجہ سے کچھ اور ہی سمجھ بیٹھی تھی۔باقی کی تمام باتوں کا اختتام کرتے ہوۓ اس نے خوش لہجے میں باۓ کہا اور فون بند کیا تو وہ غصے سے اُسے ہی گھور رہی تھی۔
"کس سے باتیں کررہے تھے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں تھیں۔" صالحہ نے تڑخ کر سوال کیا۔ یوسف کا دل چاہا وہ قہقہہ لگا کر ہنسے لیکن وہ اسی انداز میں بیٹھا رہا، بالکل سنجیدہ۔
"گرل فرینڈ تھی میری، یو نو اِٹ اِز ویری کومن۔"اس نے پرسکون لہجے میں کہتے ہوۓ موباٸل میز پہ رکھا اور کوفی کی سِپ لینے لگا۔
"میں تاٸی جان کو بتاٶں گی تمہاری حرکتیں۔" اس نے خبردار کرتے ہوۓ کہا تو وہ اب کی دفعہ ہنسا۔
"بتادو۔ ویسے بھی اُنھیں معلوم ہے میں جسے پسند کرتا ہوں!" اس نے ایک نظر صالحہ کے چہرے کو دیکھا جہاں غم و غصہ کے رنگ واضح تھے، اور پھر بات جاری رکھی۔
"اور سوچ رہا ہوں اُس سے جلد شادی بھی کرلوں۔ وہ ہے بھی اتنی خوبصورت کہیں کوٸ اور نہ پسند کر لے اُسے۔ تمہارا کیا خیال ہے صالحہ؟" اب کی دفعہ کوفی کی سپ لیتے ہوۓ اس نے بات مکمل کرکے اس سے پوچھا جو خاموش بیٹھی اس کا چہرہ تَک رہی تھی۔
"اتنی جلدی بھی کیوں بتادیا یوسف.... شادی کرنے کے بعد بتاتے ناں مجھے۔" اس نے اس کے موباٸل پر نظریں جماۓ کہا، یا شاید طنز کیا تھا۔ آنکھوں میں آنسو آنے لگے تھے، صالحہ کا دل چاہا وہ اس کا موباٸل توڑ کر پھینک دے۔
"ہاں تو اب بتادیا ہے ناں! نارض کیوں ہو رہی ہو؟۔" اس نے سنجیدگی سے صالحہ کو دیکھ کر کہا جو اب جانے کے لیے کھڑی ہوگٸ تھی۔
"ناراض نہیں ہوں۔" کہتے ہوۓ وہ مڑی اور آنسوٶں کو آستین کے کونے سے صاف کیا اور پھر دوبارہ پلٹی اور گویا ہوٸ۔
"آٸندہ مجھ سے بات نہیں کرنا۔ اب جب تمہاری بیوی تمہارے ساتھ کھڑی ہوگی اسی دن بات کروں گی تم سے!۔"صالحہ نے اسے خبردار کرتے ہوۓ کہا اور یوسف اُسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں مزید آنسو آنے لگے تھے وہ رکی نہیں اور لاٶنچ میں چلی گٸی جہاں زَہرہ صوفوں کے درمیان میز پر کوفی کے کپ سے بھری ٹرے رکھ رہی تھی۔
"جذباتی کہیں کی۔ماۓ ڈیٸر واٸف ٹو بی، بات تو آپ کو مجھ سے کرنی ہی پڑے گی۔"اس نے مسکرا کر سوچتے ہوۓ کوفی کی آخری سپ لی اور موباٸل اٹھایا۔
پھر اندر لاٶنچ میں سب کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگا۔
زَہرہ نے کافی کے کپ سے بھری ٹرے میز پہ رکھی۔ اور سب نے اپنے اپنے کپ اٹھالیے۔
”یہ ٹیبلیٹس کس کے لیے ہیں زوہی؟“ حذیفہ نے بھنویں سکیڑتے ہوۓ سوال کیا۔
”وہ یہ ٹیبلیٹس۔۔۔“ وہ بتانے لگی تھی کہ یہ صالحہ نے رکھی ہیں اور اسے کچھ نہیں معلوم۔ لیکن صالحہ بول پڑی
”یہ ٹیبلیٹس زوہی نے رکھی ہیں۔ زکی کی طبیعت زیادہ خراب تھی تو ان ڈاکٹر صاحبہ نے ٹیبلیٹ رکھ دی۔“اس نے مسکرا کر کہا تو حذیفہ،ابراہیم، یوسف اور زکریا حیرت سے زَہرہ کو دیکھنے لگے۔
”ہاں یار زوہی اچھا کیا تم نے۔ ویسے بھی اس کی طبیعت سنبھل نہیں رہی تھی۔ گُڈ ورک بہنا۔“ حذیفہ نے خوش لہجے میں کہا۔ اور شاباشی دی جبکہ وہ بس جبراً مسکرا کر رہ گٸ
”ہاں بھاٸ میں نے بھی کہا تھا زکریا ٹھیک ہوجاۓ گا لیکن زوہی نے کہا کہ دواٸی کھالے گا تو جلدی ٹھیک ہوجاۓ گا۔“ صالحہ نے کوفی کی پیتے ہوۓ اپنی طرف سے کہانی بناکر کہا۔ زَہرہ خاموشی سے کوفی پینے لگی اسے معلوم تھا کہ صالحہ کی بکواس بند نہیں ہوگی۔
زکریا بھی خاموشی سے بیٹھا کافی پی رہا تھا کیوں کو ابراہیم کے دماغ کی چابی بھر چکی تھی اور زکریا کو معلوم تھا کہ وہ اتنی جلدی پیچھا نہیں چُھڑوا سکتا ابراہیم سے۔
”تو زوہی بھابھ۔۔۔۔۔۔آٸی مین زوہی بہنا۔۔۔۔“ابراہیم کے منہ سے لفظ مکمل ہونے ہی والا تھا کہ زکریا کو پھندا لگا۔ ایک لمحے کے لیے سب اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔ ابراہیم نے اپنی جان بُوجھ کر کی گٸ غلطی کو درست کیا، اور ایک معنی خیز مسکراہٹ سے زکریا کو دیکھا جو کہ پانی کے گھونٹ بھرتے ہوۓ ابراہیم کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
زَہرہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ایک کُشن صالحہ اور ایک ابراہیم کو دے مارے لیکن وہ ضبط کرگٸ۔ ان دونوں نے ہی آج زکریا اور اسے غصہ دلانے کی ٹھان لی تھی۔
”زوہی تم نے coffee بہت اچھی بناٸ ہے۔
love it۔ Thankyou For this sympathy ”
زکریا نے خالی کپ ٹیبل پر رکھتے ہوۓ مسکرا کر کہا۔ اور زہرہ نے بھی مسکرا کر تعریف وصول کرلی۔
ٹیبلیٹ اُٹھا کر وہ اب جانے لگا، اب زَہرہ اور صالحہ کی پشت اس کی طرف تھی جب کہ ابراہیم اور حذیفہ اسے با آسانی دیکھ سکتے تھے۔
زکریا نے شہادت کی انگلی کو گردن پر پھیرتے ہوۓ چھری سے تشبیہ دی تھی اور ابراہیم کو دیکھ کر گُھورتا ہوا چلاگیا تو وہ دونوں ہنس دیے۔تھوڑی دیر بعد یوسف حذیفہ اور ابراہیم بھی اُٹھ کر چلے گۓ۔
”تمہیں تو اللہ پوچھے گا۔“ فروٹ پلیٹ میں سے چھری اٹھا کر صالحہ کی گردن کے قریب لے جاکر اس نے کہا۔
”اچھا۔ تو میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔“ ڈھٹاٸی سے کہتی ہوٸ وہ ہنس دی۔
”صالحہ اچھی طرح سمجھتی ہوں میں تمہاری حرکتوں کو۔ پٹو گی تم مجھ سے!“ چھری رکھ کر کہتے ہوۓ وہ اٹھ کر جانے لگی
”اب سدھرنا ناممکن سا ہے۔“ اس نے بھرپور اداکاری کرتے ہوۓ کہا تو زَہرہ ہنس دی۔
”زوہی محنت قبول ہوگٸ۔ تھینک یہ فار دی سیمپاتھی۔“ اس نے زکریا کے الفاظ دہراتے ہوۓ ہنس کر کہا۔ زَہرہ نے صوفے پر رکھے دونوں کشن اسے دے مارے اور چلی گٸ۔
”دوست ہوں تمہاری رحم کرو لڑکی۔“ زَہرہ نے پیچھے سے کہتی ہوٸ صالحہ کی آواز سُنی۔ وہ مسکرادی۔
-------------------
ابھی کیک ختم ہوا ہی تھا کہ کچن میں ہر طرف اچانک سے روشنی بڑھ گٸ۔ وہ دونوں ماضی سے حال میں واپس آگٸیں۔ صبح کے ساڑھے پانچ بج رہے تھے۔
دونوں کی نظر سامنے پڑی اور وہ گڑبڑاگٸیں۔
***************