﷽
”میرے سامنے تو بڑی نمازن پاکباز بنی پھرتی ہو گوری چمڑی دیکھتے ہی سارا ایمان ختم ہوگیا “
زین نے چھوٹتے ہی پوچھا۔جب وہ آدمی کمرے سے گیا تو پاکیزہ نے فوراً ہی پاس پڑا اسکا کوٹ اٹھا کر پہن لیا جو وہ وہیں بھول گیا تھا اس وقت وہ خود کو بہت ہی عرعیاں محسوس کر رہی تھی جلد از جلد وہ خود کو ڈھاپنا چاہتی تھی بغیر یہ سوچے کہ وہ کپڑا کس کا ہے اور کہاں سے آیا ہے۔
اس وقت وہ ڈر کے علاوہ بہت خوشی بھی محسوس کر رہی تھی اپنی ابرو کے بچ جانے سے پاکیزہ کے لیے عزت کا چلا جانا مر جانےسے بدتر تھا۔
وہ خوش تھی کہ رب تعلٰی نے اسکی دعاٸیں قبول کر لیں تھیں اس انسان نے پاکیزہ کو چھوڑ یا تھا ۔
وہ خوش تھی کہ اب کچھ عرصہ تک وہ محفوظ تھی کیونکہ زین کو ( اسکی سوتیلی ماں کا بھاٸی) کچھ عرصہ لگے گا نیا گاہک ڈھونڈنے کے لیے لیکن اسکی یہ خوشی ناپاٸیدار نکلے گی یہ تو خود اسکو بھی پتہ تھا کہ آج نہیں تو کل زین کوٸی اور گاہک ڈھونڈ ہی نکالے گا اور بازار حسن کا ہر گاہک ایک جیسا نہیں ہوتا جو لڑکی کی حالت دیکھ کر اس کو چھوڑ دے اس انسان کے اندر تو کچھ انسانیت باقی تھی کہ اس نے پاکیزہ کو چھوڑ دیا ورنہ زین تو اس کو ہر وقت بس یہی کہتا تھا کہ اب تک اس کے بچنے کی وجہ صرف اسکا کنوارہ ہونا ہے اور زین پاکیزہ کے کنوارے پن کے زیادہ پیسے ملیں گے ورنہ تو وہ خود ہی اب تک۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے آگے تو پاکیزہ سوچ تک نہ پاٸی تھی اسکے پورے جسم میں ہی ایک ڈر کی لہر دوڑ گٸی تھی محض اس سوچ سے ہی ۔
لیکن اب وہ جانتی تھی کہ آگے اس کے ساتھ کیا ہوگا وہ انسان جو اس کو چھوڑ کر گیا ہے لازم ہی ان لوگوں سے کہے گا کہ اسکا کام نہیں ہوا اور پھر وہ سوچ سکتی تھی اسکے ساتھ کس قسم کاسلوک کیا جاۓ گا مگر وہ ہرطرح کےسلوک کے لیے تیار تھی اس کے لیے بس اتنا ہی کافی تھا کہ وہ بچ گٸی ہے اب چاہے زین اور اسکی ماں اس کو جتنی بھی اذیت دیں وہ سہہ لےگی ۔
اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا اور پاکیزہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا آنے والی اذیت کے خیال سے لیکن اس کو حیرانی تب ہوٸی جب اس نے زین کودیکھا اس کے چہرے پر پریشانی کی جگہ مسکراہٹ تھی وہ مسکراہٹ جو پاکیزہ کو ہمیشہ سے زہر لگتی تھی حلانکہ اس چیز کو مد نظر رکھ رکھتے کہ جو اس نے اپنے خریدار کے ساتھ کیا ہے زین کو غصے میں ہونا چاہیے تھا لیکن وہ غصے میں نہیں ہے تو پاکیزہ کو خوش ہونا چاہیے تھا مگر زین کی مسکراہٹ قطعاً بھی ایسی نہیں تھی کہ جس کو وہ کسی صحٕیح چیز سےتعبیر کرسکتی وہ خبیث انسان کہاں مسکرتا تھا کسی اچھی بات پر اور اس مسکراہٹ میں چھلکتی نری خباثت نے پاکیزہ کو مزید پریشان کر دیا۔
اور سونے پہ سہاگا اس کے الفاظ جو پاکیزہ کے سر کے اوپر سے ہی نکل گٸے۔
”سچ سچ بتا کون سی ادٸیں دکھاٸیں اس امیر زادے کو کہ ایک ہی ملاقات میں تیرا عاشق ہی بن بیٹھا ہے بنتی تو تو بڑی ملوانی تھی لوگ سچ ہی کہتے ہیں آج کل مولویوں سے بے ایمان اور کوٸی نہیں ہا۔ہا۔“
اپنے جملےکے اختتام پر وہ زور سے اپنے مکروہ انداز میں ہنس دیا لیکن پاکیزہ اب بھی اس کی بات نہیں سمجھ پاٸی اس نے تو اس آدمی کو نا مراد لوٹایا تھا پھر یہ کس کی اور کا بات کر رہا تھا۔
”میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا “
”ہاۓٕ رے معصومیت اسی پر ہی تو مر مٹا ہوگا پر مجھے ساری زندگی اس بات کا افسوس رہےگا کہ مجھے تمھارے ساتھ وقت گزارنے کا موقع نہیں ملا خیر ابھی تو اس نے تجھے خرید لیا ہے اس لیے اب تم یہاں سے سیدھی وہیں جاٶ گی“
خرید لیا ہے؟
مطلب؟
وہ انسان تھی کوٸی چیز نہیں کہ کوٸی بیچے اور کوٸی خریدے مگر اس وقت وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔
اب اسکا واسطہ جن لوگوں سے پڑا تھا وہ لوگ انسان کو بیچ بھی سکتے تھے اور خرید بھی سکتے تھے ۔
”اورایک اور بات یاد رکھنا تم نے اس گورے کو ہر حالت میں خوش رکھنا ہے ہرحالت میں سمجھی وہ جو جیسا کہے کرنا ہے ورنہ ۔۔“
پاکیزہ زین کو حیرانی سے دیکھ رہی تھی اور اسکی بات سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی مگر اسکی بکواس پاکیزہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کیونکہ جس طرح کی بکواس وہ کر رہا تھا وہاں تک تو پاکیزہ کے پاک دماغ کی سوچ بھی نہیں جاتی تھی۔
”چلو اب کوٸی نخرہ نہ کرنا“
پاکیزہ خاموشی سے اسکے پیچھے چل دی۔
پاکیزہ کو اور تو کچھ پتا نہیں تھا سواۓ اسکے کہ زین سے وہ اجنبی شخص کم از کم بہتر ہے اس اجنبی کے دل میں خوف خدا نہ سہی انسانیت ضرور ہے ۔وہ زین کے پیچھے چلتی ہوٸی نیچے پہنچی جہاں اسکی سوتیلی ماں ایک ہاتھ میں ایک سوٹ کیس لیےکھڑی تھیں ۔
پاکیزہ کو قریب آتا دیکھ کہ وہ خود پاکیزہ کے قریب آگٸی اور بولی ۔
”اگرمجھے تمھاری کوٸی شکایت ملی تو جان لو ابھی جو تم نے جو بھی دیکھا ہے وہ کچھ بھی نہیں ہے میں تمھاری کسی بے وقوفی کی وجہ سے اس شخص کو ایک روپیہ بھی واپس نہیں کرنے والی سمجھی تم“
انھوں نے بھی زین کی نصیحت دھراٸی اور پاکیزہ کو گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا جس میں وہ اجنبی موجود تھا پاکیزہ چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گٸ ۔
!!!!!!!!
آپ کی دعاوں کی طلب گار
امید دعا