#حُبّ
#از_لائبہ_نوید
#ساتویں_قسطاس شخص بازو سے ہوتے ہوئے اسکی نظر اس کے چہرے پہ گئی تو اس کا چہرہ بھی خون سے بھرا ہوا تھا غور کرنے پر جو چہرہ اسے دکھا اسے دیکھتے اُسے لگا جیسے وہ اب کبھی سانس نہیں لے سکے گی
"ز...زریاب_" ابریش کے حلق سے بے ساختہ دبی دبی چیخ نکلی
" آئی ایم . . . آئی ایم سُو سوری زریاب_ " وہ رُو دینے کو تھی
اسکی آواز پر زریاب نے اسے دیکھا اسکی آنکھیں ایسی تھیں جیسی اُن میں سے شعلے نکل رہے ہو ، وہ اسے گھور رہا تھا
ایک سرد لہر ابریش کی ریڑھ کی ہڈی سے گزری" ز . . زریاب_ " ایک بار پِھر اسکی زبان لڑکھڑائی مگر اِس بار خوف سے ۔۔۔
" ( غلطی میری ہی ہے انکا غصہ کرنا جائز ہے ) _ " ایک بار پِھر دِل نے مجبور کیا
" آپ ہوسپٹل چلیں آپ کے . . . . _ "
" ہاتھ چھوڑو میرا اور دفع ہو جاؤ یہاں سے "
وہ اس کے ہاتھ کو چھوتی کہنی لگی تھی کہ تبھی اسنے بے دردی سے اسکا ہاتھ جھٹکا
( وہ سن ہوگئی ، اسنے اس سے اِس طرح بات کی ہی کب تھی کبھی )
" زریاب پلیز_ "اس کے آنسوں بہنے کو بے تاب تھے
وہ تو بہت انا پرست تھی پِھر ناجانے آج کیوں اس شَخْص کو دیکھتے اپنی ساری انا کہیں بہا آئی تھی" کیا زریاب زریاب زریاب لگا رکھی ہے ہاں ؟ اِس کے علاوہ کچھ کہنا نہیں آتا کیا تمہیں ؟ _ " اب ہٹو گیٹ کے پاس سے ورنہ تمہیں بھی کچل دونگا_ " وہ گاڑی اسٹارٹ کرتا بولا لیکن پِھر ابریش نا ہٹی تو گاڑی آگے بڑھاتا لے گیا . . . یہ بھی نا فکر کی کہ گاڑی کا ٹائر ابریش کے پاؤں پہ چڑھتا ہوا گزرا ہے
دَرد سے وہ کراہ گئی دَرد شَدِید تھا لیکن اس دَرد سے زیادہ نہیں جو اس وقت دِل میں ہوا تھا . . . کچھ ٹوٹا تھا اندر . . .
وہ با مشکل چلتی ہوئی کار تک آئی . . . بیٹھی . . . . پانی کی بوتل اٹھائی . . . اور پینے لگی
" وہ دَرد میں تھا شاید اسلئے غصے ہو گیا . . . وہ ایسا نہیں ہے . . . . میں نے بھی تو کتنا نقصان کر دیا اس کا . . . . . " دِل ایک بار پِھر اسکی صفائیاں دینے لگا تھا . . . پانی پیتی وہ سوچنے لگی . . . . گانا تو کب کا ختم ہو چکا تھا
" میں اتنی پاگل کیوں ہوں؟ پہلے اسکی سفید گاڑی کو بلیک انک میں رنگ دیا اور اب اس کی شکل بھی بگاڑ دی_ " نا چاہتے ہوئے بھی وہ اپنے اِس جملے پر ہنس پڑی
پِھر اسٹرینگ ویل پر سَر رکھتی وہ پھر سے سوچنے لگی
" یہ اچھا نہیں ہوا . . . میں نے کیا کر دیا یہ . . . . ابھی تو میں اسے منا بھی نہیں پائی تھی کہ ناراض کر دیا . . . . ابھی تو اس کے خواب دیکھنا شروع بھی نہیں کیے تھے میں نے کہ . . . . اگلے لمحے ہی وہ چونکی یہ میں کیا کہہ رہی ہو . . . .
کونسا انکشاف کہاں ہو رہا تھااپنی سوچوں سے گھبراتے اپنے سر کو جھٹکتی وہ گاڑی اسٹارٹ کرنے لگی ویسے بھی رات کے اِس وَقت اس کا روڈ پہ اکیلے رہنا خطرناک تھا
" آئی ایم سوری زریاب _ " گاڑی کے گیئر بدلتی وہ خود سے بولی
************
" اسلام و علیکم پاپا "
YOU ARE READING
*Hubun* (On Pause)
General FictionInstead Of A Man Of Peace And Love . . I Become A Man Of Violence And Revenge...... "HUBUN" (love)