#حُبّ
#از_لائبہ_نوید
#آٹھویں_قسطکلاس لینے کے بعد وہ جو اپنا رجسٹر بیگ میں ڈال رہا تھا کہ . . ٹھٹکا . .
" یہ بُک کس کی ہے_ " بیگ سے بُک نکالی . . کھولی . .
" ابریش ذوالفقار "
بُک کے پہلے پیج پر لکھا نام پڑھ کے بے اختیار اسکی آنکھیں چمک اٹھی
" یہ یہاں کیسے آئی_ " بُک بند کرتے سوچا اور بیگ لے کر اٹھ گیا
" کیا مصیبت ہے اب واپس بھی کرنی پڑے گی _ " ایک لمحے كو دِل نے سوچا کے رہنے دیتا ہو اسے یاد آئیگا تو خود لے لیگی ، مگر پِھر پتہ نہیں کیوں اسے اس کی بُک واپس دینے کے لیے نکال گیا
* * * * * * * * * * * * * *
" ہو گیا تمہارا کام ، آنے ہی والی ہوگی تمہاری سواری_ " ابریش سے کہتیں الماس رمشہ دھپ سے چیئر پر بیٹھیں
" بڑا خطرے والا کام تھا لیکن دیکھلو ہم نے کر دکھایا ، مانتی ہو کہ نہیں " چیئر پہ دراز رمشہ نے اپنا فرضی کالر اچکایا
" نہیں ، ابھی نہیں ، جب وہ آئیگا تب مانوگی_ " ابریش كو انکے پلان کے کام کر جانے پر یقین نہیں تھا بھلا وہ اِتنا انا پرست بندہ اتنی سی بات پر کیوں آئیگا خود اس کے پاس
" لعنت ہو تُم پہ ابریش اتنی محنت کی ہے تمھارے لیے ہم نے_ " الماس کا تو سچ میں دِل چاہا کہ کس کے تھپڑ لگائے اسے ایک تو اس کے لیے شیر کے پنجرے میں گھسے اور یہ . . ناشکری کہیں کی
الماس جو ابھی کچھ اور کہتی سامنے سے آتے بندے كو دیکھتی خاموش ہوگئی اور رمشہ كو اشارہ کرتی وہاں سے لے گئی
" کہاں جا رہے ہو دونوں_ " ابریش نے ان دونوں كو ٹیبل سے دُور جاتے دیکھا تو انھیں پکارا مگر اتنے میں ہی اسے اپنے پیچھے زریاب کی آواز سنائی دی
" تمہاری بُک_ " ابریش کی بُک کا کونا اس کے کندھے پر مارتے اسنے بُک اس کے سامنے کی
" آ. . زریاب . . آپ . . ام ۔۔تھینک یو _ " وہ فوراً کرسی سے کھڑی ہوئی ( یہ کیسے اگیا اتنے چھوٹے سے بہانے پر ) وہ سوچ کے ہی رہ گئی
" تمہاری بُک میرے بیگ میں کیسے آئی_ " بُک ٹیبل پر رکھتے اسنے پوچھا
اور اسکی سرد آواز پر بے اختیار ابریش نے تھوک نگھلا
" ام . . پتہ نہیں . . اب کیسے ہیں آپ زریاب_ " اس کے سوال کا جواب نا دے پائی تو بات بَدَل دی" ٹھیک ہی دِکھ رہا ہو_ " لہجہ ابھی بھی سپاٹ تھا مگر آواز میں سرد پن کم تھا
اور ابریش جو اسے بیٹھنے کا کہنے والی تھی اسکی نظر زریاب کے ہاتھ پر بندھی بینڈیج پر گئی جو کہ لال ہورہی تھی شاید خوں بہہ رہا تھا
" اوہ مائی گاڈ . . زریاب . . آپ کا ہاتھ_ " حواس باختہ ہوتے بے اختیار ہی اسنے زریاب کا ہاتھ تھام لیا .
" خیر ہے کچھ نہیں ہوا ہے_ " بیزاری سے کہتے زریاب نے اپنا ہاتھ چھڑا لیا
"زریاب پلیز . . ب . . بلڈ نکل رہا ہے _ " ایک تو پتہ نہیں کیا مصیبت تھی زریاب كو سامنے دیکھتے ہی اسکی زبان کیوں لڑکھڑانے لگ جاتی تھی
YOU ARE READING
*Hubun* (On Pause)
General FictionInstead Of A Man Of Peace And Love . . I Become A Man Of Violence And Revenge...... "HUBUN" (love)