#حُبّ
#از_لائبہ_نوید
#سولہویں_قسطتینوں بیڈ پہ بیٹھی کبھی لڑتی کبھی ہنستی تو کبھی اُداس ہو جاتیں تھیں
" کیا سوچ رہی ہو_ " رمشہ نے کسی غیر مرئی نکتے کو دیکھتی کہیں کھوئی ہوئی سی ابریش سے پوچھا تو وہ چونکی
" کچھ خاص نہیں . . بس یہی کہ جذبات میں آکر کہیں کوئی غلط فیصلہ تو نہیں کر لیا میں نے_ " وہ اپنے ہاتھ کے ناخنوں کو دیکھتی ان پر انگلی پھیرنے لگی
" تمہیں لگتا ہے تم واقعی زریاب سے محبت کرتی ہو ؟ _ " الماس کو اس کی سوچ پر افسوس ہوا تھا
" ہاں _ " اسنے مختصر سا جواب دیا
" اور شہریار سے ؟ _ " الماس نے پِھر پوچھا
" پتا نہیں . . . ماما پاپا نے فورس کیا ہے اسلئے میں نے ہاں کردی شادی کے لیے ، ورنہ . . . . _ " اسنے جان بوجھ کے بات ادھوری چھوڑدی اور سَر جھکا لیا
رمشہ الماس چُپ چاپ اس کا چہرہ دیکھنے لگیں ، کمرے میں اچانک خاموشی چھا گئی تھی . . .
ہم انسان بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں . . .
ہم کتنے بے رحم ہوجاتے ہیں ان کے لیے جو ہم سے محبت کرتے ہیں
اور
کتنے کشادہ دِل ہوجاتے ہیں ان کے لیے جو ہمیں اچھے لگتے ہیں . . . .
چاہے وہ ہمیں جتنی تکلیف دیں . . . ہم ان سے ملے سارے دردوں کی ایک قبر بنا کر ، اس میں انکا دیا ہر غم ہر دَرد دفن کردیتے ہیں
پِھر نئے سرے سے ان پر یقین کرتے ان کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں
اور وہی سب پِھر سے دھرایا جاتا ہے
مگر پِھر بھی ہم انسان اپنی عزت نفس کو پس پشت ڈال کر چھلنی روح کے ساتھ وہی کھڑے رہتے ہیں
خود تو ہنس کر دَرْد سہتے ہیں
مگر
ایک اوٹ میں ہوکر آپ کو دیکھتے ان سایوں کو آپ خون کے آنسوں رلاتے ہیں جو آپ سے محبت کرتے ہیں ، جن کے لیے آپ بے رحم ہوتے ہیں
ہم انسان بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں۔۔۔۔
کافی دیر کی خاموشی کو رمشہ کی آواز نے توڑا
" چلو ایک گیم کھیلتے ہیں ابریش_ " وہ سیدھی ہو کر بیٹھتی بولی تو الماس اور ابریش اسے نا سمجھی سے دیکھنے لگیں
" کیسا گیم؟ _ " دونوں نے یک زبان ہوکر پوچھا" * Rapid Fire *
"میں تم سے کچھ سوال کروگی اور تم نے بنا سوچے سمجھے فوراً ان سوالوں کا جواب دینا ہوگا ، ٹھیک ہے ؟ _ "
" ٹھیک ہے ، مگر انسانوں والے سوال کرنا _ " اسنے رمشہ کو گھورا
" مجھے نہیں کھیلاو گئی ؟ _ "
" نہیں_ " رمشہ نے الماس کے سوال کا یک لفظی جواب دیا تو اس نے منہ بنایا
" دفع ہو ، موٹی _ "
" خود ہوگی موٹی _ " رمشہ نے اسے کہنی ماری
" اُف تم دونوں پِھر شروع مت ہوجانا ، سوال پوچھو رمشہ_ " ابریش نے دونوں کے بازوؤں پہ تھپڑ لگایا پِھر رمشہ سے گویہ ہوئی
" چلیں پہلا سوال پوچھنے جا رہے ہیں ہم آپ سے ابریش ذوالفقار _ " وہ گلا کھنکار کر ڈرامائی اندازِ میں بولی تو ابریش نے اسے گھورا " بكو بھی "
" کوئی ڈرامے مت کرنا جو پوچھے فوراً جواب دینا اس کا_ " رمشہ نے تنبیہہ کی
" پوچھنا ہے تو پوچھو ورنہ میں سو رہی ہو_ " ابریش نے اسے آنکھیں دکھائیں اور بستر پر دراز ہونے لگی
" اچھا اچھا ، تو بتاؤ ابریش ذوالفقار ، زریاب کی آنکھوں کا رنگ کیا ہے_ " وہ جلدی سے بولی
اس کے سوال پر پہلے تو ابریش چونکی پِھر سیدھی بیٹھتی گود میں رکھے کشن پر ہاتھ پھیرتے سوچتے ہوئے کہنے لگی
" زریاب کی ؟ ، اُممم شاید گرے ہیں . . . آئس گرے . . . یا شاید حیزل گرے اسنے نام بتایا تھا لیکن پتہ نہیں کیسے میں بھول گئی _ " وہ بیچارگی سے سوچتے ہوئے بولی تو الماس رمشہ نے ایک دوسرے کو دبی دبی مسکراہٹ سے دیکھا
الماس اب رمشہ کا مقصد بھانپ چکی تھی
" میں نے سوچنے کو منع کیا تھا لیکن خیر . . . دوسرا سوال ، شہریار کی آنکھوں کا رنگ کیا ہے ؟ _ " رمشہ نے پِھر پوچھا
" یہ کیسا سوال ہے ، اب کوئی دوسرا سوال پوچھو نا _ " وہ بدمزہ ہوئی تھی
" اے لڑکی منع کیا تھا نا ڈرامے مت کرنا جو پوچھا ہے فوراً جواب دو اسکا_ " رمشہ نے اسے لتاڑا
" اچھا بھئی _ " اسنے منہ بنایا پِھر بولنا شروع ہوئی
" شہریار کی آنکھیں۔۔۔ اممم۔۔شہریار کی آنکھیں بہت خوبصورت نیلے رنگ کی ہیں ، جیسے سمندر کا رنگ ہوتا ہے کبھی انکی آنکھوں کا رنگ تیز نیلا لگنے لگتا ہے تو کبھی ہلک نیلا_ " وہ خیالوں میں شہریار کی آنکھیں دیکھتی تفصیل سے بتانے لگی
"تبھی تو جب میں نے انہیں پہلی بار پارک میں دیکھا تھا تو مجھے انکی آنکھوں کا رنگ ہلکا نیلا لگا تھا اور پھر دوسری بار ملنے پر تیز نیلا۔۔"
وہ بولتی جا رہی تھی رمشہ الماس میں سے کسی نے اسے نہیں ٹوکہ کیوں کہ ابریش نہیں جانتی تھی کہ وہ مسکرا رہی ہے . . .
جی بلکل ابریش ذوالفقار شہریار حسن کو سوچتی مسکرا رہی تھی . . .
رمشہ اور الماس کو انکا جواب مل گیا تھا . . . وہ لاکھ انکار کرے مگر یہی سچ تھا کہ وہ آج بھی صرف شہریار کو ہی پسند کرتی ہے
" ٹھیک ہے تیسرا سوال ، شہریار کا فیوریٹ کلر کونسا ہے ؟ _ "
" رائیل بلو_ " وہ بے ساختہ بولی
" اور زریاب کا ؟ _ " اسے دلچسپی سے دیکھتی الماس نے فوراً پوچھا تو اِس بار پِھر ابریش سوچ میں ڈوب گئی . . . .
" پتہ نہیں یار . . . کبھی اِس بارے میں بات ہی نہیں ہوئی . . . _ " وہ سوچتی ہوئی بولی
" ٹھیک ہے پانچواں سوال ، شہریار تمہیں ہمیشہ سے کیا کہہ کر مخاطب کرتا ہے _ "
رمشہ کے اِس سوال پر وہ اِس بار ہلکا سا ہنسی
" باؤلی ، "بنی" اور کبھی کبھی پاگل ویسی باولی زیادہ بولتا ہے ہمیشہ سے " وہ مسکرائی
" اور زریاب کیا کہتا ہے ؟ _ " رمشہ مسکراتی ہوئی اسے دیکھتی پوچھنے لگی
اِس سوال پر اسکی مسکراہٹ سمٹی اور سوچوں میں گم اسکی آواز آئی
" کچھ بھی نہیں . . . " پِھر ایک دم بولی " اس سے ملے وقت ہی کتنا ہوا ہے یار مجھے کہ وہ مجھے کوئی نام دے . . . شہریار کے ساتھ تو بچپن گزرا ہے میرا_ " وہ زریاب کے لیے صفائیاں دینے لگی
" اچھا ٹھیک ہے، ایک اور سوال_ " رمشہ کہنے لگی تو ابریش نے اسے ٹوکا
" نہیں بس اب اور کوئی سوال نہیں . . میں نہیں کھیل رہی ، اپنی باتیں کرتے ہیں _ " دِل کو کہاں منظور تھی زریاب کی ہار تب ہی اسنے کھیلنے سے منع کر دیا
" بس یہ آخری سوال . . . اس کے بعد نہیں پوچھوں گی _ " رمشہ نے زور دیا
" نہیں یار رمشہ . . . کیا ہم ان دونوں کو کچھ دیر کے لیے بھول نہیں سکتے ؟ تم دونوں میرے گھر رکنے آئی ہو ہم اپنی باتیں کرتے ہے نہ _ " وہ خفا ہوئی ، جانتی تھی اِس بار بھی جواب شہریار کے حق میں ہی ہوگا . . . اور اسکی محبت کا کچھ تو بھرم رہ جائے اِس ہی لیے وہ جواب نہیں دینا چاہتی تھی
" اچھا ٹھیک ہے ناراض مت ہو کوئی اور بات کر لیتے ہیں _ " رمشہ نے ہتھیار ڈال دیئے . . .
ESTÁS LEYENDO
*Hubun* (On Pause)
Ficción GeneralInstead Of A Man Of Peace And Love . . I Become A Man Of Violence And Revenge...... "HUBUN" (love)