"ادھورے لمحے"
"آااااہ" وہ دونوں جیسے ہی نیچے اتر کے اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھے کشل کی بےساختہ چیخ پہ ابتسام نے چونک کے اسے دیکھا اور اس کی کنپٹی کی رگیں ابھر گئیں کیونکہ کشل طفیل کی باہوں میں جھول رہی تھی "تم ٹھیک ہو نہ؟ تمہیں لگی تو نہیں" طفیل نے پریشانی سے اس سے پوچھا اور وہ جو اپنا سر پکڑے کھڑی تھی اچانک ہوش میں آئی اور بدک کے پیچھے ہٹی "ہا..ہاں" اس نے جلدی سے کہا اور سائڈ سے نکل کے کمرے کی طرف بڑھ گئی اور طفیل ایک عجیب سے احساس میں گھرا کھڑا رہ گیا...
وہ جیسے ہی کمرے میں آئی اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں چونکہ بیڈ پہ عفیفہ رانوں سے بھی تھوڑا اوپر تک شورٹ پہنے اور تنی ہوئی چھوٹی سی بِنا آستین کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی بالوں کا ڈھیلا سا جوُڑا بنائے وہ کسی کتاب کے مطالعے میں غرق تھی آہٹ پہ اس نے نظر اٹھا کے اسے دیکھا اور دوبارہ کتاب میں نظریں جما لیں کشل جلدی سے اندر آئی اور دروازہ بند کیا مبادہ کوئی اور ہی نہ دیکھ لے اسے. وہ دروازہ بند کر کے باتھ روم کی طرف بڑھ گئی اور کتّھئی رنگ کی شلوار قمیض کے ساتھ ہم رنگ دوپٹہ پہنے باہر آئی جو اسکی رنگت کو اور بھی نکھار رہا تھا اس نے سنگھار میز کے سامنے کھڑے ہوکے اپنے بالوں کو نرمی سے سلجھایا اس کے بعد سلیقے سے چوٹی باندھ کے وہ اپنی جگہ پہ آکے بیٹھ گئی اور ایک کتاب مطالعے کی غرض سے اٹھا لی "تم یہ پہن کے سو گی؟" اس نے انگریزی میں اس سے پوچھا "ہاں" کشل نے نرمی سے جواب دے دیا "تمہیں گھٹن نہیں ہوتی ایسے کپڑوں میں؟" عفیفہ نے اس بار کتاب بند کر کے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سوال داغا "نہیں تو.. اس میں گھٹن کی کیا بات ہے عفیفہ! یہ تو ہمارے جسم کو ڈھانپتا ہے. ہمیں لوگوں کی نظروں سے محفوظ رکھتا ہے. اور عورت کی اصل خوبصورتی ہی اس میں ہے" کشل نے بےحد نرمی اور پیار سے اسے بےحد مختصر الفاظ میں سمجھایا "لیکن میں جب بھی دوپٹہ لیتی ہوں، ایسے کپڑے پہنتی ہوں تو میرا دم گھٹتا ہے کشل" اس بار عفیفہ نے کچھ بےبسی سے کہا "عفیفہ یہ اِس لیئے کیونکہ تم اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اِس طرح کے لباس میں نہیں دیکھتی. تمہیں ہمیشہ سے ہی اِس طرح کے کپڑوں کی عادت نہیں ہے. تم اگر دوپٹہ لیتی ہو تو صرف فارمیلٹی کے لیئے. تم اگر دل سے دوپٹہ لو، دل سے ایسے کپڑے پہنو تو تمہیں ان کپڑوں میں تحفظ کا احساس ہوگا تم اپنے آپ کو ان کپڑوں میں محفوظ محسوس کرو گی" کشل نے اسی انداز میں اسے مختصر الفاظ میں ایک بار پھر سمجھایا "میرے پاس ایسے کپڑے زیادہ نہیں ہیں کشل کیا تم میری ہیلپ کرو گی؟" عفیفہ نے جھجھکتے ہوئے بنانظریں ملائے اس سے پوچھا "یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے بھلا" کشل نے اسے پیار سے ہلکا سا ڈپٹا اور گلے لگا لیا "ایم سوری کشل" عفیفہ نے اس سے الگ ہوتے ہوئے کہا "کس لیئے؟" کشل نے ناسمجھی سے اسے دیکھا "میں نے تم سے اس وقت بدتمیزی کی تھی لیکن کشل میں بہت غصے میں تھی اس لیئے" اس نے نظریں جھکائے ہی کہا "کس چیز کا غصہ" کشل نے اس کی معافی کو نظرانداز کر کے پوچھا "دراصل میرا کوئی ارادہ نہیں تھا آنے کا اور پھر ہم کبھی ملے بھی نہیں لیکن ڈیڈ کی ضد تھی کہ سب ساتھ جائیں گے تو مجھے مجبوراً آنا پڑا لیکن یہاں آکے مجھے وہاں سے زیادہ اچھا فیل ہو رہا ہے" وہ بولتے بولتے آخر میں مسکرائی تو کشل بھی مسکرا دی "تم دیکھنا ابھی تو تمہیں اور بھی مزہ آنے والا ہے" کشل نے اپنے اصلی روپ میں آتے ہوئے ہاتھ پہ ہاتھ مار کے چمکتی ہوئے آنکھوں سے کہا "اچھا؟ وہ کیسے؟" عفیفہ نے بھی دلچسپی سے پوچھا "دیکھتی جاؤ" کشل کے انداز پہ عفیفہ کھلکھلا کے ہنس پڑی اور کشل بھی مسکرا کے اسے دیکھنے لگی "تو کیا کہتی ہو آج سے ہی شروع کیا جائے؟" اس نے اچانک ہنستی ہوئی عفیفہ سے سوال کیا "کیا؟" عفیفہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا "آؤ بتاتی ہوں" کشل اس کا ہاتھ تھام کے بیڈ سے اتری اور الماری کی طرف آئی الماری میں سے اس نے ایک کاسنی رنگ کا سوٹ نکالا اور عفیفہ کی جانب بڑھایا جسے اس نے ناسمجھی کے عالم میں تھام لیا اور کشل نے اسے باتھ روم میں دھکیل دیا. کچھ دیر بعد عفیفہ باہر آئی تو کشل خوشی سے پھولے نہ سمائی اور جھٹ سے اسے سنگھار میز کے سامنے بٹھا دیا اور اس کے ڈھیلے سے جوڑے میں بندھے بالوں کو کھول کے نرمی سے سلجھايا اور کس کے چوٹی بنا دی لیکن اس کسی ہوئی چوٹی میں سے بھی کچھ لٹیں شرارت کرتی ہوئی بار بار عفیفہ کے چہرے کو چھو رہی تھیں "بہت پیاری لگ رہی ہو" کشل نے بہت پیار سے اس سے کہا "تمہارے جیسی لگ رہی ہوں" عفیفہ نے شرارت سے کہا اور واقعی وہ کشل سے بےحد مل رہی تھی.دونوں مسکراتی ہوئی بیڈ پہ اپنی اپنی جگہ لیٹ گئیں اور نیند کی وادیوں میں کھو گئیں..
عفیفہ سوتے میں کچھ کسمسائی لیکن پھر دوبارہ گہری نیند میں چلی گئی. ایک دو بار اس کی آنکھ بھی کھلی اس نے کچھ دیکھا بھی لیکن وہ پھر سے گہری نیند میں چلی گئی تھی..
"اٹھ جاؤ مہارانی" زارا نے کمرے کا دروازہ دھڑام سے کھولتے ہوئے کہا جس پہ کشل تو ڈھیٹ بنی پڑی رہی لیکن عفیفہ ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھی تھی جسے دیکھ کے زارا کے قدم دہلیز پہ ہی جم گئے تھے "ک...کیا ہوا" عفیفہ نے ہڑابڑاتے ہوئے پوچھا "کچھ نہیں وہ..." ابھی زارا اپنی بات پوری کرتی جب کشل کی آواز دونوں کی سماعتوں سے ٹکرائی "کچھ نہیں ہوا یہ مجھے جگانے آئی تھی.. سوجاؤ تم بھی" اور یہ کہہ کے کشل کروٹ بدل کے پھر سے سو گئی جس پہ عفیفہ مسکرا کے رہ گئی "یہ اٹھتی ہی نہیں ہے" زارا نے عفیفہ کے پاس بیٹھتے ہوئے کشل کو گھورتے ہوئے کہا "سونے دو بیچاری کو" عفیفہ نے سادگی سے کہا اور زارا 'بےچاری' سن کے غش کھاتے کھاتے بچی "کہاں سے بےچاری ہے یہ؟ دوسروں کو بےچارہ بنا دیتی ہے" زارا تنک کے کہتے کہتے آخر میں کچھ سوچ کہ روہانسی سی ہوگئی تھی "سو جاؤ عفیفہ یہ پاگل بولتی رہے گی" تکیئے میں سے کشل کی آواز ابھری
"پاگل کس کو بولا" زارا نے جھٹکے سے کھڑے ہوتے ہوئے لڑاکا عورتوں کے سے انداز میں کمر پہ ہاتھ جما کے پوچھا
"تمہیں!" نیند میں بوجھل آواز مگر پر سکون لہجہ.
"تم خود پاگل ہو ارے تمہاری تو دوست بھی پاگل ہے اور تو اور تمہارا بھا.." زارا بولتے بولتے اچانک رکی کشل ایک جھٹکے سے بستر سے اتر کے اس کے سامنے کھڑی ہوئی "کیا کہا" اس کا لہجہ ہر طرح کے جزبات سے عاری تھا. مگر آنکھوں میں شرارت کا عکس واضح ظاہر ہورہا تھا.
"ک..کچھ نہیں" زارا نے جلدی سے کمفرٹر اٹھایا اور تہ کرنے لگی "میں نے پوچھا تم نے کیا کہا" ایک بار پھر سے وہی جذبات سے عاری لہجہ مگر شرارت سے بھرپور آنکھیں.
"میں نے کہا نہ کچھ نہیں" ڈھٹائی کی انتہاء
"میرے بھائی کو کیا کہا" وہ ہی سخت لہجہ اور وہی چمکتی ہوئی شرارتی آنکھیں.
"یہی کہ.." زارا اچانک بولتے بولتے رکی
"کہ..؟" کشل نے ایک آئبرو اچکا کے پوچھا
"کہ.. وہ بھی.." زارا کی پیشانی سے پسینا پھوٹ پڑا تھا
"وہ بھی کیا؟" کشل نے اس بار ذرا سختی سے پوچھا تھا مگر لہجے میں شرارت کا عنصر واضح تھا.
"وہ بھی پپ...پا......پاگل ہیں" اس کی پیشانی اور ہتھیلیوں سے پسینا پھوٹا جا رہا تھا
"تم نے بھائی کو پاگل کہا" کشل نے آنکھیں نکال کے دونوں ہاتھ منہ پہ جما کے حیرت کا اظہار کیا لیکن آنکھوں کی چمک...
"ہا...ہاں" زارا نے انگلیاں مروڑتے ہوئے نظریں چرا کے کہا
"کشل میری بلیک شرٹ کدھر ہے ڈھونڈھ دو" اچانک فائز کی سنجیدہ آواز کمرے میں گونجی اور وہ دونوں ہی اچھل کے رہ گئیں جبکہ عفیفہ بیٹھی حیرانی سے ان کی متغیر ہوتی رنگت دیکھ رہی تھی "ج...جی بھائی آتی ہوں" کشل نے بغیر مڑے بس اتنا ہی کہا اور وہ جن کی طرح غائب ہوگیا.
"اور بولو پاگل بھائی کو" کشل زارا پہ چڑھائی کے موڈ میں تھی لیکن جیسے ہی اس نے زارا کی آنکھوں میں تیرتے ننھے ننھے قطرے دیکھے اس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا "جلدی جاؤ کشل ورنہ وہ پریشان ہونگے" زارانے نظریں چرا کے کہا جس پہ کشل دل مسوس کہ رہ گئی اور بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی..
وہ بھاگتی ہوئی فائز کے کمرے کی طرف جا رہی تھی جب اس کی نظر ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں ملبوس اس شخص پہ پڑی جس نے ابھی تک اسے دیکھا نہیں تھا اس نے جلدی سے اپنے شانوں پہ دوپٹہ درست کرنا چاہا لیکن دوپٹہ ندارد. اس نے جلدی سے طفیل کی جانب دیکھا جو اس کو دیکھ کے بھرپور انداز میں مسکرا رہا تھا وہ الٹے پیر کمرے کی جانب دوڑتی جب فائز نے کمرے سے باہر نکل کے اسے آواز دی وہ پلٹی اور بولی "بھائی دوپٹہ لے کے ابھی آئی" اور سر پٹ کمرے کی جانب دوڑی لیکن ہائے رے یہ قسمت کیا زوردار طریقے سے اسے گرایا کہ ہڈیاں ٹوٹتے بچیں وہ بھی اس وجہہ سے کہزمین پہ کھڑے اس ہٹے کٹے شخص نے بچا لیا تھا جو اسے اپنے باہوں میں لیئے کھڑا تھا "لگی تو نہیں" اس نے بہت نرمی اور اپنائیت سے پوچھا تھا نہ جانے کیسے وہ ادھر پہنچ گیا تھا "اپنے آپ کو دیکھو اور پھر خود ہی بتاؤ کیا مجھے نہیں لگی ہو گی" کشل نے بنا لہجے, آواز اور شکل پہ غور کیئے بول دیا جس پہ وہ شخص بھرپور انداز میں مسکرایا اور اس کے کان کے نزدیک جا کے بولا "معذرت چاہتا ہوں ڈارلنگ" کشل کے حواس یک دم لوٹے اور وہ اس کی گرفت سے ایک جھٹکے سے نکلی "یہ کیا بدتمیزی ہے" کشل نے سخت لہجے میں اس سے پوچھا "میں نے کیا کیا" طفیل نے مسکراتے ہوئے انجان بننے کی اداکاری کی "مجھے لگا تم ابتسام ہو اس لیئے میں نے...." ابھی کشل اپنی بات پوری کرتی جب بیچ میں طفیل نے اس کی بات کاٹی اور بولا "اگر ابتسام ہوتا تو اس کی باہوں سے نکلنے کا دل نہیں کرتا کیا" اس نے بےشرمی سے پوچھا "کیا بکواس کر رہے ہو" کشل نے اونچی آواز میں سختی سے کہا "رلیکس یار.. مزاق تھا" طفیل نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کے ہلکے پھلکے لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا "ہٹو میرے راستے سے" کشل کے لہجے کی سختی اب بھی برقرار تھی "اوکے" اس نے کہا اور وہ چلتا چلا گیا. کشل جلدی سے کمرے کی طرف بھاگی مگر پیچھے کوئی ان کی گفتگو کا ایک ایک لفظ بہت غور سے سن چکا تھا..
*******************************************
"آؤ جلدی ڈرامہ شروع ہونے والا ہے" انزلہ نے تہذیب کا ہاتھ تھام کے بےصبری سے کہا اور اسے لے کے صوفے پہ بیٹھ گئی اور ٹی وی چلا کے مطلوبہ چینل تلاشنے لگی. دراصل وہ سب ہی یہ ڈرامہ بہت شوق سے دیکھتی تھیں مگر آج باقی لڑکیاں عفیفہ کے ساتھ باتوں میں مصروف تھیں تو وہ دونوں ہی دیکھنے چلی آئی تھیں.
"کیا ہو رہا ہے ادھر" فون پہ کچھ ٹائپ کرتا ہوا فائز ذرا رک کے پوچھنے لگا "ڈرامے کا انتظار" انزلہ نے چمکتی ہوئی آنکھوں سے کہا جس پہ فائز نے آگے بڑھ کے اس کے بال بگاڑے اور دوبارہ کچھ ٹائپ کرتا ہوا آگے بڑھ گیا اور وہ پیچھے اپنے اپ کو بچاتی ہی رہ گئی.
وہ سب نیچے بیٹھے تھے اور باتوں میں مصروف تھے کشل کو بار بار کسی کی نظروں کی تپش اپنے چہرے پہ محسوس ہو رہی تھیں مگر وہ نظرانداز کرے زارا اور عفیفہ سے باتوں میں لگی رہی. اچانک اوپر سے انزلہ اور تہذیب کے چیخنے کی آواز آئی وہ سب پہلے تو چونکے مگر ہڑبڑا کے ایک دم بھاگے. وہ لوگ جیسے ہی کمرے میں پہنچے تہذیب اور انزلہ دوڑ کے ان کے پاس پہنچیں اور زور زور سے اچھل اچھل کے چیخنے لگیں "دادی مر گئیں، دادی مر گئیں" ان سب کے تو سینوں پہ ہاتھ پڑے تھے مگر ان دونوں کی آنکھوں کی چمک. افف الامان
"اچھا ہوا خبیث بڑھیا مر گئی" انزلہ نے کہا
"ہاں اور نہیں تو کیا..جینا حرام کیا ہوا تھا بڈھی نے" تہذیب نے بھی اپنی ہانکی جبکہ وہ سب کھلے منہ اور پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہے تھے اچانک کشل دادو کے کمرے کی جانب دوڑی اس کے پیچھے وہ سب بھی بھاگیں جبکہ تہذیب اور انزلہ ناسمجھی کے عالم میں ایک دوسرے کو تکنے لگیں.
وہ دادو کے کمرے میں گئی تو دادو جائےنماز بچھائے نماز پڑھ رہی تھیں اس کے سینے سے بےساختہ سکون کی سانس خارج ہوئی تھی. ان سب نے بھی دادو کو دیکھا اور خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے ان دو لڑکیوں پہ چرھائی کے لیئے دوڑے "یہ کیا بکواس کر رہی تھیں تم دونوں" زرمینہ نے غصے سے سرخ ہوتے میک اپ سے بھرے چہرے کے ساتھ کہا "ہاں اور کیا کہہ رہی تھیں تم؟ اچھا ہوا خبیث مر گئی.. یا اللہ میری توبہ" تعدیل نے کانوں کو چھو کے کہا "اور یہ اچھل اچھل کے کتنی خوشی سے کہہ رہی تھیں دونوں 'دادی مر گئیں، دادی مر گئیں' اللہ نہ کرے" فائقہ نے بھی غصے میں ان کی نقل اتارتے ہوئے کہا اور آخر میں دہہل کے سینے پہ ہاتھ رکھ لیا "ہاں تو غلط کیا کہا س میں ہم نے..اچھا ہوا نا مر گئی خبیث" انزلہ نے کندھے اچکا کے عام سے انداز میں کہا جس پہ سب دہہل کے رہ گئیں "یا اللہ..انزلہ پاگل ہوگئی ہو کیا بول رہی ہو اندازہ بھی ہے" کشل نے بےیقینی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا "آپی کیا ہو گیا ہے سب کو. ڈرامے میں دادی مری ہیں" انزلہ کو جیسے ہی بات کی سمجھ آئی اس نے فوراً سے صفائی دے ڈالی تو سب کے سانس میں جیسے سانس آئی "اللہ اللہ ہم تو ڈر ہی گئے تھے" زارا نے سکون کی سانس خارج کرتے ہوئے کہا اور اچانک دیہان آنے پہ بولی "واقعی مر گئی وہ بڈھی؟ واہ.." اس کے چہرے پہ لمحوں میں چمک آئی تھی اور ساتھ ساتھ ساری لڑکیاں بھی خوش ہو گئیں "آؤ آگے کا ڈرامہ دیکھیں" تعدیل نے جلدی سے کہا اور صوفے پہ جا کے بیٹھ گئی اس کے پیچھے ہی ساری لڑکیاں بھی باری باری صوفے پہ براجمان ہو گئیں اور ڈرامے سے لطف اندوز ہونے لگیں..
************************************************
"چلو کھڑی ہو جلدی سے سب" فائز اور ابتسام نے لڑکیوں کے کمرے میں اندر آتے ہوئے کہا "کیوں بھئی؟ کیوں کھڑے ہو جائیں؟" کشل نے بےساختہ کہا "باہر ڈنر کرنے" فائز نے کشل کے پاس بیٹھ کے اس کے گرد بازو حمائل کرکے پیار سے اسے دیکھتے ہوئے کہا "ٹھیک ہے بھائی ہم تیار ہو کے آتے ہیں" کشل نے مسکرا کے اسے دیکھتے ہوئے کہا وہ بھی مسکرا کے اس کے بال بگاڑتا ہوا باہر چلا گیا جبکہ ابتسام وہیں کھڑا رہا "ہممم؟" کشل نے بھنویں اچکا کے پوچھا
"ہنہہ" آنکھیں چڑا کے کہا
"ہنہہہ؟؟" حیرانی سے پوچھا
"ہنہہ!" اتنی ہی سختی سے جواب آیا
"پاگل ہو؟" کشل نے بےساختہ پوچھا
"تم ہو!" اسی کہ انداز میں جواب آیا
"دماغ تو ٹھیک ہے؟" اب کہ تھوڑا چڑا ہوا انداز تھا
"میرا ہاں. تمہارا نہیں" ہاتھ سینے پہ باندھتے ہوئے سکون سے کہا
"اففف...تیار ہونے دو باہر جاؤ" کشل نے زچ ہوتے ہوئے کہا
"تم کیوں تیار ہو رہی ہو" ایک بھنو اچکا کے پوچھا
"باہر جانے کے لیئے" ناک سکوڑ کے کہا
"ایسے ہی ٹھیک ہو" اوپر سے نیچے تک دیکھ کے کہا
"سچ میں؟" حیرانی سے آنکھیں نکال کے کہا
"ہاں...تاکہ سب کو پتا لگے کہ ہمارے ساتھ ہماری ماسی بھی آئی ہے" اور یہ کہتے ہی وہ دروازہ کھول کے بھاگ گیا اور وہ ناسمجھی کے عالم میں کھڑی رہی اور جب سمجھ آیا پہلے تو چہرہ سرخ ہوا پھر آنکھوں میں غصہ آیا اور پھر وہ بھی دروازا کھول کے باہر بھاگی لیکن.......لیکن...............دھڑام سے کسی سے ٹکرائی اور زمین بوس ہو گئی "ہائے اللہ" کشل نے زمین پہ گرے گرے ہی دہائی دی "ہائے میری کمر" کمر پہ ہاتھ رکھ کے دہائی دی "تمہیں تو میں چھوڑوں گی نہیں ابتسام" کشل نے غصے سے کہا اور جیسے ہی نظریں اٹھائیں......یخ یخ...تھو.......کشل کا حلق تکا کڑوا ہو گیا کیونکہ سامنے طفیل کھڑا مسکرا کے اسے دیکھ رہا تھا کشل جلدی سے اٹھی اور دوپٹہ درست کرتے ہوئے کمرے کی جانب بڑھنے لگی جب اچانک اسے اپنی کلائی پہ کسی کی گرفت محسوس ہوئی اور ایک جھٹکے سے طفیل نے کشل کو اپنی جانب کھینچا تو کشل کی پشت طفیل کے سینے سے ٹکرانے لگی وہ اس کے کان کے نزدیک جھکا اور سرگوشی نما انداز میں بولا "میں ابتسام نہیں ہوں. میں طفیل ہوں ڈارلنگ" اس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا جس سے کشل کی ریڑھ کی ہڈی تک میں سنسناہٹ دوڑ گئی تھی وہ ایک جھٹکے سے طفیل سے دور ہوئی اور ایک آواز آئی تھی....بس ایک آواز......چٹاخ! اور کشل کی انگلیوں کے نشان طفیل کے چہرے پہ نقش ہوگئے تھے "آئیندہ مجھے ہاتھ بھی لگانے کی کوشش کی تو تمہارا وہ حشر کرونگی کہ تمہاری سات نسلیں یاد رکھیں گی" کشل نے سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے انگلی اٹھا کے سخت لہجے میں اس سے کہا جب اچانک پیچھے سے آواز آئی "نسلیں آگے بڑھنے ہی کیوں دیں؟" ایک ایک قدم (مضبوط قدم) چلتا ہوا وہ اس تک پہنچا اور بات دوبارہ وہیں سے شروع کی جہاں سے چھوڑی تھی "آئندہ تم ایسا کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں رہو گے مسٹر...طفیل رضوان! مارک مائی ورڈز!" (!mark my words)
اس نے کشل کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما اور ایک نگاہ غلط طفیل پہ ڈال کے مضبوط قدم اٹھاتا سامنے کی طرف دیکھتا ہوا آگے بڑھتا گیا اور وہ اس کی سنگت میں اس کے ہم قدم اس کے ساتھ ساتھ آگے چلتی جا رہی تھی
کیونکہ اب تو ساتھ لکھا جا چکا تھا....
ہاتھ پکڑا جا چکا تھا....
سفر شروع ہو چکا تھا....
منزل چنی جا چکی تھی....
راستہ کٹھن تھا مگر ملن کی شام تو آنی ہی تھی....
اندھیرا تھا مگر روشنی کی کرنیں تو چھانی ہی تھیں....
اب کون جانے کب، كيسے، کہاں...
کون جانے اِس جہاں یا اُس جہاں....
کون جانے ملن کی شام کب آنی تھی....
کون جانے اندھیری کی صبح کب ہونی تھی....
کون جانے...
مگر کون جانے....
اس نے کمرے میں لا کے اسے ایک جھٹکے سے چھوڑا تھا وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکتے ہوئے زمین بوس ہوئی تھی مگر باہر اسے سہارا دینے والا، اس کے لیئے ڈٹ کے کھڑے رہنے والا شخص آگے نہ بڑھا تھا. اس شخص نے آگےبڑھ کے اسے تھاما نہیں تھا. اسے گرنے سے بچایا نہیں تھا. اس کی لڑکھڑاہٹ اس سے پوشیدہ نہ تھی مگر وہ آگے نہ بڑھا تھا. شاید یہ ہی تقدیر تھی...
"آنکھیں ہیں یا بٹن؟ اگر سہی سے نظر نہیں آتا تو بتا دو چشمہ بنوا دیتے ہیں لیکن یہ جو اندھوں کی طرح چلنے کی عادت ہے وہ ختم کردو ورنہ...." ایک ایک لفظ سختی سے کہتے ہوئے اس نے دانستہ بات چھوڑ دی تھی اور زمین پہ گری کشل خاموشی سے اپنی جھیل سی گہری آنکھوں میں آنسو بھرے اسے دیکھ رہی تھی "اب تم کہیں نہیں جا رہیں! چپ چاپ کمرے میں بیٹھو اور کوئی پوچھے تو کہہ دینا جو مرضی آئے مگر کمرے سے ایک قدم بھی باہر نکالا تو دیکھنا" لال انگارہ آنکھوں سے گھورتے ہوئےسختی سے فیصلہ سنا کے وہ جا چکا تھا اور ہوا بھی وہ ہی جو اس نے کہا تھا اور وہ بس پتھر کی بت بنی بےسدھ بیٹھی خلا میں گھور رہی تھی...
*****************************************
"اس کی نظریں...اس کی نظروں میں ایسا کیا تھا. شاید.......شاید...غصہ! نہیں وہ غصہ نہیں تھا. یا پھر شاید شرمندگی.. لیکن شرمندگی کیوں ہو گی؟ یا.......شاید.......... بےاعتباری!" اور یہیں آکے اس کی ہمت جواب دے رہی تھی. جو وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی وہی وجہ سامنے آ کھڑی ہوئی تھی "کیا وہ اس کی بےاعتباری برداشت کر سکتی تھی؟ کیا اس نے ایسا کچھ کیا تھا جس کی بناء پہ وہ اس سے بدگمان ہو رہا تھا؟ کیا وہ کبھی کسی کا اعتبار توڑ سکتی تھی؟ اس کی اتنی سی غلطی نے اسے اس کے سب سے محبوب شخص کی نظروں میں بےاعتبار کردیا تھا بس اتنی سی غلطی!" ہوتا ہے نہ کبھی جب ہماری نظروں میں وہ بہت معمولی بات ہوتی ہے مگر دراصل وہ اتنی بھی معمولی بات نہیں ہوتی.. جس بات کی وجہ سے آپ کسی کی نظروں میں بےاعتبار ہو جائیں وہ بات معمولی کیسے ہو سکتی ہے؟ کبھی کبھی ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری کوئی غلطی نہیں تھی مگر وہاں ہماری بھی اتنی ہی غلطی ہوتی ہے جتنی سامنے والے کی.....کیونکہ..........تالی ایک ہاتھ سے کب بجتی ہے؟
************************************************
Assalam u alaikum to all!
Hope you all are fine!
So here is the 6th episode of Almarasim (Taqdeer)❤
Sorry for late post or episode b zyada lamba nh hy q k m ny bht mushkilon sy yeh likha hy... Agr is mai koi b ghalti ho ya kch sahi nh ho tw plz mjhy bta dijye ga comments mai ya phr imstagram py...
Meri instagram i'd hy (zoha.kamran.khan___)
Jazakillah khair!❤
YOU ARE READING
المراسیم (تقدیر)
General Fictionیہ کہانی ہے بھروسے کی یہ کہانی ہے مان کی یہ کہانی ہے اعتماد کی یہ کہانی ہے کچھ اپنوں کے ٹھکرانے کی یہ کہانی ہے ساتھ نبھانے کی یہ کہانی ہے تقدیر کی...