امی آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں؟ آپ چاہتی ہیں کہ میں ہمدان سے شادی کرلوں تاکہ لوگوں کہ مجھ پر لگائے گئے جھوٹے الزامات سچ ثابت ہوجائیں۔
ان کی بات سنتے ہی وہ ہتھے سے اکھڑ گئی۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اسے اس دن کا سامنہ بھی کرنا پڑے گا۔
بیٹا ہمدان تمہارے لیے بہترین انتخاب ہے۔ آج نہیں تو کل تمہاری شادی تو ہونی ہی ہے نا کسی نا کسی سے بھی۔ تو پھر ہمدان سے کیوں نہیں؟
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں
امی میں کسی سے بھی شادی کرلوں گی لیکن ہمدان سے نہیں۔وہ غصے سے بولی
کیا برائی ہے آخر ہمدان میں؟انہوں نے تنگ آکر پوچھا
ہمدان میں یہ برائی ہے امی کہ اس کی وجہ سے میں رسوا ہوئی ہوں۔ اس کی وجہ سے دنیا والوں کے سامنے میرا کردار سوالیہ نشان بنا ہے۔
وہ نفرت سے بولی
ایسی بات نہیں ہے بچے۔ اس میں ہمدان کا کوئی قصور نہیں تھا۔وہ رسان سے بولیں
میرا بھی تو کوئی قصور نہیں تھا؟وہ بھی دکھ سے بولی
دیکھو میرال خدا کے لیے اس رشتے سے ہاں کردو۔میں تمہیں اپنے سے دور نہیں کرنا چاہتی۔ یہاں کم سے کم مجھے یہ اطمینان تو ہوگا نا کہ تم اسی گھر میں ہو میرے پاس ہو۔
وہ اس کے ہاتھ تھامے آس سے بولیں
میرال کو مجبوراً ہاں کرنی ہی پڑی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرال نے ہاں تو کردی تھی لیکن وہ ہر گز اس رشتے کو نبھانے کے حق میں نہیں تھی۔ لیکن وہ کچھ دنوں سے نوٹ کررہی تھی کہ ان کا رشتہ طے ہوجانے کے بعد ہمدان کافی خوش دکھائی دے رہا تھا اور میرال اس کی اس خوشی کو زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھنا چاہتی تھی۔
سب بڑے خاندان میں کسی شادی پر گئے ہوئے تھے۔ جبکہ صرف میرال اور ہمدان ہی گھر پر تھے۔ میرال اسے ڈھونڈتی ہوئی ٹی وی لاؤنج میں آئی جہاں وہ اطمینان سے بیٹھا کوئی کرکٹ میچ دیکھ رہا تھا۔ میرال نے آگے بڑھ کر ٹی وی آف کیا اور اس کے سامنے آ کر غصے سے اسے گھورتے ہوئے بولی
تم نے یہ رشتہ جوڑ تو لیا ہے ہمدان لیکن یاد رکھنا میں ساری زندگی اس رشتے کو نہیں نبھاؤں گی۔
لہجہ بے حد سرد تھا۔
کوئی بات نہیں مجھے کم از کم یہ اطمینان تو ہوگا نا کہ تم میرے پاس ہو۔ تمہارے نام کے ساتھ میرا نام جڑا ہے۔وہ اطمینان سے بولا
نام تو جڑ جائے گا لیکن دل کبھی نہیں جڑیں گے یہ بات یاد رکھنا تم۔ وہ اس کا اطمینان دیکھ کر مزید بھڑکی
جب نام جڑ جائے گا تو دل بھی جڑ جائے گے۔
وہ نرم مسکراہٹ کے ساتھ بولا لیک۔ میرال کو اس کی یہ مسکراہٹ بہت ناگوار گزری۔ وک غصے سے وہاں سے چلی گئی جبکہ وہ وہیں بالوں میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرال کے لاکھ انکار کے باوجود وہ دن آ ہی گیا جب اسے ہمیشہ کے لیے ہمدان کے نام ہوجانا تھا۔
نکاح کا انتظام خاصے دھوم دھام سے کیا گیا تھا چونکہ یہ گھر کی پہلی اور دونوں لاڈلوں کی شادی تھی۔
لیچ اور سٹیل گرے کپڑوں میں بے زار سی میرال بہت خوبصورت لگ رہی تھی جبکہ وائٹ شلوار قمیض پر گرے واس کوٹ پہنے ہمدان بھی بے حد وجیہہ لگ رہا تھا۔ میرال کے بر عکس ہمدان کے چہرے پر بڑی خوبصورت مسکراہٹ سجی تھی۔
ان دونوں کو نکاح کے بعد ایک ساتھ لاکر بٹھا دیا گیا تھا۔ ہمدان کی نظریں ہر تھوڑی دیر بعد میرال کے چہرے کا طواف کرتیں جو کہ نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔
بہت پیاری لگ رہی ہو۔ ہمدان نے آہستہ سے اس کی طرف جھک کر سرگوشی کی تو میرال کا چہرہ لال ہوا۔ ہمدان یہ جاننے سے کاثر تھا کہ یہ چہرہ شرم سے لال ہوا تھا یا غصے سے۔
کچھ دیر بعد فنکشن ختم ہوا تو میرال اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور ہمدان کا دل جیسے خالی سا ہوگیا۔ نجانے کیوں اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ یونہی بیٹھی رہے اور وہ اسے یونہی دیکھتا رہے۔
پہلے ہمدان کے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ وہ خود بھی اپنے دل کی اس بدلتی ہوئی حالت پر حیران تھا۔ میرال ہمیشہ سے ہی اس کے پاس رہی تھی لیکن اس نے کبھی بھی اس کے بارے میں ایسا نہیں سوچا تھا۔ وہ ہمیشہ اسے اپنی دوست ہی سمجھتا اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ بے شک وہ اسے ہمیشہ سے بہت عزیز تھی لیکن پھر بھی اسے ہمسفر بنانے کا خیال ہمدان میں کبھی پیدا نہیں ہوا تھا۔
جب عمیر اور میرال کے رشتے کی بات چلی وہ تب بھی بہت خوش تھا لیکن اس ایک حادثے نے اس کے سارے خیالات بدل دیے۔ جب عمیر نے منگنی توڑی تب سے ہمدان نے میرال کے بارے میں سوچنا شروع کیا لیکن وہ صرف ہمدردی اور ندامت کا اثر تھا۔ لیکن جب دوسری دفع اس کے رشتے کی بات چلی تو اس پل ہمدان پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ میرال کو کسی اور کا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اسے کسی اور کا نہیں ہونے دے گا۔ اس رات پہلی بار اس کے دل میں میرال کے لیے خواہش جاگی تھی اور اس نے بغیر انتظار کیے چچا جان سے بات کرلی۔ وہ اب میرال کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ محبت ہے یا کیا لیکن وہ بس اتنا جانتا تھا کہ میرال اس کی تھی صرف اس کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں آ کر اس نے غصے سے ساری چوڑیاں اتاری اور اس عمل کے دوران کئی چوڑیاں اس کے ہاتھ میں کھب بھی گئیں لیکن اسے زرا بھی احساس نہیں ہوا۔ جو تکلیف وہ اپنے دل میں محسوس کررہی تھی اس کے سامنے یہ درد تو بہت معمولی سا تھا۔ وہ ابھی تک بے یقین تھی کہ وہ کیسے اپنی ساری زندگی ہمدان کے نام کر آئی۔ اس نے تو اسے ایک دوست ایک کزن سے بڑھ کر کچھ نہیں سوچا تھا تو پھر وہ کیسے اس سے اتنا اہم ترین رشتہ بنا آئی؟
وہ اپنی سوچوں میں گم غصے سے چوڑیاں اتار رہی تھی کہ دروازے پر ہونے والی دستک سے چونکی۔
آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو سامنے ہی ہمدان کھڑا تھا۔
تم یہاں کیا کررہے ہو؟اسے دیکھتے ہی میرال نے غصے سے پوچھا
اندر تو آنے دو۔وہ اندر آکر اپنے پیچھے دروازہ بند کرتا ہوا بولا
چلے جاؤ یہاں سے ہمدان مجھے اس وقت اکیلا چھوڑ دو۔وہ بمشکل اپنے آنسو روکتی ہوئی بولی
چھوڑنے کے لیے تو نہیں اپنایا تھا تمہیں۔
وہ محبت سے بولا اور ساتھ ہی اس کا ہاتھ بھی پکڑا ۔ وہ اپنا ہاتھ چھڑوانے لگی کہ یکدم ہی اس کی گرفت سخت ہوئی۔ ہمدان کی نظر اس کی کلائی سے نکلتے خون پر پڑی۔
یہ کیا بے وقوفی ہے میرال؟اس نے پریشانی سے سوال کیا
تمہیں میرے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے جاؤ یہاں سےوہ اس کی گرفت سے اپنا ہاتھ آزاد کرواتے ہوئے بولی
تم ہو ہی پاگل۔ غصے سے کہتا اس کا ہاتھ چھوڑ کر وہ کمرے سے باہر چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔