کچھ دیر بعد ہاتھ میں فرسٹ ایڈ باکس پکڑے وہ پھر کمرے میں داخل ہوا۔ میرال کا ہاتھ پکڑ کر اسے صوفے پر بٹھایا اور خود گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
تمہیں میرے ساتھ جو مرضی کرنا ہے کر لو۔ لڑنا ہے تو لڑ لو مارنا ہے تو بے شک مار بھی لو لیکن پلیز خود کو کوئی تکلیف مت دو۔ میں سب کچھ برداشت کر سکتا ہوں لیکن تمہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔ وہ روئی سے اس کا خون صاف کرتے ہوئے نرم لہجے میں کہہ رہا تھا۔
تمہیں میرے درد پر اتنی تکلیف کیوں ہورہی ہے ہاں؟ چھوڑ دو مجھے میرے حال پر۔وہ غصے سے بولی
میرال مجھے ہمیشہ سے ہی تمہارے درد پر تکلیف ہوتی ہے اور میں ہمیشہ سے ہی تمہارے زخموں پر مرہم بھی رکھتا آیا ہوں یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ وہ آہستہ سے بولا
پہلے کی بات اور تھی اب مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ اسکا لہجہ ہنوز سرد تھا
پہلے میں اور اب میں کوئی فرق نہیں ہے میرال۔ میں اب بھی وہی ہمدان ہوں جو تمہارا بہترین دوست تھا۔ میں وہی ہمدان ہوں جس کے بغیر تمہارا ایک لمحہ نہیں گزرتا تھا۔
وہ اس کا ہاتھ تھامے بول رہا تھا۔ اب کی بار وہ جواب میں کچھ نہیں بولی بس اس کی آنکھوں سے بے اختیار ہی آنسو بہنے لگے۔
میرال کچھ عرصے کو تم اس نئے رشتے کو بھلا کر پہلے کی طرح بی ہیو نہیں کرسکتی کیا؟ ابھی اس بات کو فراموش کردو کہ ہمارے درمیان کوئی اور بھی رشتہ ہے۔ صرف اس بات کو یاد رکھو کہ میں وہی پہلے والا ہمدان ہی ہوں۔وہ رسان سے کہہ رہا تھا جبکہ وہ خاموشی سے سن رہی تھی۔
اپنا خیال رکھو۔ میں تمہارے معاملے میں کوئی بھی بے احتیاطی برداشت نہیں کروں گا۔ اب اگر تم نے دوبارہ خود کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کی تو مجھ سے برا اور کوئی نہیں ہوگا۔
اسے ہنوز خاموش دیکھ کر وہ محبت سے بولا اور کمرے سے باہر چلا گیا جبکہ وہ وہیں سوچوں میں ڈوبی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوچکا تھا اور ہمدان اور میرال کی ملاقات صرف سحری یا افطاری پر ہی ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ سارا دن وہ کمرے میں بند رہتی جبکہ وہ سارا وقت آفس میں گزارتا تھا۔ اتنے دونوں بعد بھی ان دونوں کے درمیان کچھ بھی نارمل نہیں ہوا تھا۔ وہ جب جب میرال سے بات کرنے کی کوشش کرتا وہ فوراََ وہاں سے نکل جاتی۔ ہمدان کی سمجھ سے باہر تھا کہ وہ کس طرح اس سے بات کرے۔ کس طرح اس کا کھویا ہوا اعتماد بحال کرے۔
آج موسم صبح سے ہی کافی خوشگوار تھا۔ ہلکی ہلکی بارش وقفے وقفے سے جاری تھی۔ آج وہ رات دیر سے گھر واپس آیا تھا روزہ آفس میں ہی کھول کر آیا تھا۔ آج صبح سے اس کے سر میں شدید درد تھا ۔ اپنے اور میرال کے رشتے کے بارے میں سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھٹے جارہا تھا۔ اس کا خیال زہن سے جھٹکنے کے لیے وہ دیر تک آفس میں کام کرتا رہا اور جب گھر آیا تو سب سوئے ہوئے تھے۔ وہ خاموشی سے جاکر لیونگ میں بیٹھ گیا اور آنکھوں پر بازو رکھ کر صوفے پر لیٹ گیا۔
کچھ دیر بعد آہٹ پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو میرال کچن کی طرف جارہی تھی۔ ٹی پنک کلر کک شرٹ اور بلیک کھلا ٹراؤزر پہنے وہ سیدھا اس کے دل میں اتر رہی تھی۔
میرال۔وہ بے اختیار ہی اسے پکار بیٹھا۔
اس کے پکارنے پر میرال نے حیرت سے اسے دیکھا لیکن بولی کچھ نہیں۔
ایک کپ چائے بنا دو پلیز۔ اس کے چہرے سے نظریں ہٹا کر بولا۔ پہلے تو میرال کا دل چاہا انکار کردے لیکن پھر ہمدان کی حالت دیکھ کر چائے بنانے چلی گئی جبکہ ہمدان کو پہلے کا وقت یاد آیا جب کتنی منت سماجت کرنے کے بعد وہ اسے چائے بنا کر دیا کرتی تھی۔ آج کیسے خاموشی سے چلی گئی بغیر کوئی بحث و تکرار کیے۔ اس کا شدت سے دل چاہا کہ وہ پہلے کی طرح ہی اس سے بات بات پر بحث کریں لیکن شاید اب یہ ممکن نہیں تھا۔
وہ اپنے خیالوں میں گم تھا کہ میرال کے آنے پر اس کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ چائے رکھ کر جانے لگی تھی کہ ہمدان نے اس کی کلائی پکڑ لی۔
کب تک مجھ سے بھاگتی رہو گی؟
اس نے بوجھل لہجے میں سوال کیا
ہاتھ چھوڑو میرا۔ وہ اپنا ہاتھ چڑھاتے ہوئے بولی
میرال پلیز کچھ دیر بیٹھ کر میری بات تو سن لو۔
وہ تھکن سے پر لہجے میں بولا
اگر تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ میں تمہارے اور اپنے مابین رشتے کو بھلا کر پہلے کی طرح ہوجاؤں تو میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتی ۔وہ غصے سے بولی
تو میں کب چاہتا ہوں کہ تم اپنے اور میرے مابین رشتے کو بھلا دو؟ میں بھی تو یہی چاہتا ہوں نا کہ تم اس رشتے کو تسلیم کرلو۔ پورے دل سے جس طرح سے میں نے کر لیا ہے۔ میں بالکل نہیں چاہتا کہ تم اس رشتے کو بھلا دو بلکہ میں تو چاہتا ہوں تم اس رشتے کو ہمیشہ یاد رکھو۔ میرے اور اپنے مابین تعلق کو کبھی فراموش نہ کرو۔ وہ جذب سے بولا تو میرال نے حیرت سے اسے دیکھا
دیکھو میرال اب بس کردو۔ میں اب بہت تھک گیا ہوں اکیلا سفر کرتے کرتے اب تم بھی میرا ساتھ دو اس مسافت میں ۔ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تم نہیں جانتی تم سے بات کیے بغیر میرا ایک ایک لمحہ کتنا دشوار ہے۔ پلیز میرال ایسا نہ کرو میرے ساتھ۔ بھول جاؤ جو کچھ بھی ہوا اور نئی زندگی کی شروعات کرتے ہیں۔ وہ اپنا ہاتھ چڑھوا کر جانے لگی تو ہمدان نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی تھام لیا اور اپنی گرفت مضبوط کرلی۔
تمہارے لیے سب کچھ بھولنا اتنا آسان ہوگا میرے لیے نہیں ہے ہمدان۔ تمہارے ساتھ رشتہ استوار کرنے کا مطلب ہے کہ میں اپنے اوپر لگے سارے الزامات درست ثابت کردوں؟ ابھی وہ مزید بھی کچھ بولتی لیکن اس کے آنسوؤں نے اسے ایسا کرنے نہیں دیا۔ وہ اپنا ہاتھ چھڑواتی کمرے میں چلی آئی اور دروازہ بند کرتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
وہ کب ہمدان سے اتنی دوریاں چاہتی تھی۔ اس نے کب چاہا تھا کہ ان کے درمیان کبھی ایسے بھی حالات پیدا ہوں۔ اس کا کب ہمدان کے بغیر دل لگتا تھا۔ اسے کہاں اس سے بات کیے بغیر سکون نہیں ملتا تھا۔ وہ بھی تو چاہتی تھی کہ ان دونوں کے درمیان سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے لیکن نجانے کیوں سب کچھ درست نہیں ہورہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔