"باتیں کچھ ان کہی"
کالی سیاہ چادر پہ ننھے ننھے سے ستارے ٹمٹماتے ہوئے کچھ فاصلے پہ ٹھاٹھ سے براجمان اس سفید سے گول دائرے کو دیکھ رہے تھے جو ملامتی نظروں سے زمین کی جانب اس حصے کو دیکھ رہا تھا جہاں وہ شخص کھڑا مسکرا رہا تھا..
ہاہ!!!
چاند نے ایک سرد آہ بھر کے تاسف سے اپنے ارد گرد پھیلے ستاروں کو دیکھا جو مرجھائے ہوئے سے اس لڑکی کی کھڑکی کی جانب دیکھ رہے تھے جواندھیر کمرے میں گھٹنوں میں منہ دیئے سسک رہی تھی..
جو اپنے ہی کمرے میں کھل کے سانس نہیں لے پا رہی تھی..
جو گھٹ رہی تھی اندر سے..
جو اپنے پاک صاف دامن کو میلا ہوتے بےبسی سے دیکھ رہی تھی..
جو اس ستمگر کے ستم پہ آنسو بہا رہی تھی..
چاند نے افسوس سے اس لڑکی کی کھڑکی کی جانب دیکھا اور اپنی تمام تر روشنی و مسکراہٹ اس پاک باز لڑکی کے کمرے کی جانب کردی..."ابھی اگر کشل ہوتی تو اس زبردست سے موسم کو پوری طرح انجوائے کرتی اور سب کو بھی کرواتی" زارا نے آئسکریم کھاتے ہوئے سہانے موسم کو دیکھ کے اچانک کہا تو اس کے لہجے میں پیار اور کشل کی یاد واضح تھی "اچھا، وہ کیسے؟" عفیفہ نے مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا "وہ ہم سب کو سی ویو لے کے جاتی" زارا کی جگہ جواب ابتسام نے دیا تھا "ہاں اور وہاں لے جا کے خوب مزے کرتی اور ہمیں بھی کرواتی" تعدیل نے جوش اور محبت سے کہا "تو پھر وہ آئی کیوں نہیں" اس بار سوال کرنے والا طفیل تھا جسے دیکھ کے ابتسام نے اپنی مٹھیاں بھینچ لی تھیں "اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہو رہی تھی" فائقہ نے فکرمندی سے جواب دیا "خیریت؟ اچانک کیا ہوگیا؟" طفیل نے ذومعنی انداز میں ابتسام کو دیکھتے ہوئے فائقہ سے دریافت کیا "پتا نہیں...بس کہہ رہی تھی دل عجیب ہورہا ہے" زرمینہ نے مگن سے انداز میں آئسکریم کھاتے ہوئے جواب دیا "چلو" فائز اچانک کھڑے ہوتے ہوئے بولا "کہاں" مشترکہ سوال کیا گیا "سی ویو!" وہ ایک لفظی جواب دے کے باہر نکل گیا تھا اور پیچھے سب کے چہروں پہ مسکان چھوڑ گیا تھا...
نیم روشن کمرے میں کسی کی سسکیوں کی آواز وقفے وقفے سے گونج رہی تھی. بستر سے نیچے ٹیک لگائے ملگجے سے لباس میں الجھے الجھے بالوں سمیت گھٹنوں میں منہ دیئے ایک وجود ہلکے ہلکے ہلکورے لے رہا تھا. کھڑکی سے آتی چاند کی چاندنی سیدھا اس کی سیدھی مانگ پہ پڑ رہی تھی اس نے آہستہ سے چہرہ اٹھایا تو چاندنی نے دیکھا اس کی جھیل سی گہری خوبصورت آنکھیں سوجھ رہی تھیں. اس کے گلاب کے پنکھڑی سے لب آہستہ آہستہ لرز رہے تھے. اس کی کھڑی ستواں ناک لال ہو چکی تھی اور مکھن جیسے سفید گالوں میں بھی سرخی مل چکی تھی. الجھی الجھی لٹیں اس کے چہرے کے اردگرد جھول رہی تھیں اور وہ اس سب سے بےنیاز اپنے قیمتی آنسو اس ستمگر کی ستم ظریفی پہ بہانے میں مگن تھی..
"کیا اس بےخبری کی اتنی بڑی سزا ملے گی مجھے؟ کیا اس وحشی درندے کو خود سے دور دھکیلنے کی اتنی بڑا سزا ملے گی مجھے؟ کیا اپنی عزت کی حفاظت کرنے کی اتنی بڑی سزا ملے گی مجھے؟ اس میں......اس میں غلط تھا ہی کیا؟ اپنی عزت کو بچایا تو کیا غلط کیا میں نے؟ اس کے گندے وجود کو خود سے دور دھکیلا تو کیا غلط کیا میں نے؟ یہ سب وہ کیوں نہیں سمجھتااا......... کیوں میرے پاک دامن کو شکن آلود کر رہا ہے....... کیوں میری عزت نفس کو اپنے پیروں تلے روند رہا ہے...... کیوں کر رہا ہے وہ ایسا...کیوں........کیوں!
اور............اور ابتسام! وہ.......وہ تو مجھے جانتا ہے پھر بھی مجھ پہ یقین نہیں کر رہا! یقین تو دور کی بات وہ مجھے میری بات کہنے کا موقع بھی نہیں دے رہا!" وہ روتے ہوئے خود سے سوال کر رہی تھی، چیخ رہی تھی، چلّا رہی تھی، اپنا درد اس نیم روشن کمرے میں خود سے کہہ رہی تھی
ہاہ!!!
اس نے بےساختہ سرد آہ بھری اور سختی سے اپنے آنسو پونچھے
"ایسا ہے تو ایسا ہی سہی! کبھی نہ کبھی تو ابتسام کو میری باتوں پہ یقین آئےگا، کبھی تو وہ میرا بھروسہ کرے گا....میں انتظار کروں گی اس دن کا، اس وقت کا، اس لمحے کا! جب وہ مجھ سے اپنے کیئے کی معافی مانگے گا.. کیا ہوا اگر ابھی وہ میرے آنسوؤں کی وجہ بنا ہے تو...میں انتظار کروں گی اس وقت کا جب وہ ہی میرے مسکرانے کی وجہ بنے گا! میں نے...........تمہیں.......معاف کیا ابتسام احمد!" کشل نے بےحد ازیتناک لہجے میں کہا اور یکدم زمین پہ گرتی چلی گئی اور کمرے میں یکدم جامد خاموشی چھا گئی..!
ESTÁS LEYENDO
المراسیم (تقدیر)
Ficción Generalیہ کہانی ہے بھروسے کی یہ کہانی ہے مان کی یہ کہانی ہے اعتماد کی یہ کہانی ہے کچھ اپنوں کے ٹھکرانے کی یہ کہانی ہے ساتھ نبھانے کی یہ کہانی ہے تقدیر کی...