ماما آپ کو پتہ ہے آج پہلی بار بابا نے مجھ پر یعنی اپنی لاڈلی پر ہاتھ اٹھایا۔وہ لاڈلی جس کی ہر خواہش پوری کرنا وہ اپنا اولین فرض سمجھتے تھے۔ماما آپ مجھے چھوڑ کرکیوں چلی گئیں؟میں تو آپ کی جان تھی نہ،پھر آپ مجھ سے اتنا دُور کیوں ہو گئیں؟آپ نے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ آپ کے جانے کے بعد آپ کی بیٹی کتنی تنہا ہو جائے گی۔
میں آپ کو بہت مس کرتی ہوں ماما!
آپ کا میری پرواہ کرنا،بیمار ہونے پر مجھے زبردستی دوا کھلانا،رات سونے سے پہلے دودھ کا گلاس پلانا،میری نت نئی فرمائشیں پوری کرنا۔۔۔۔
ماما آج میں خود کو بہت تنہا محسوس کر رہی ہوں۔بیٹیاں تو رحمت ہوتی ہے نا۔۔۔۔۔۔
پھر بابا کیوں مجھے زحمت سمجھنے لگے ہیں؟؟؟
ڈائری کا یہ صفحہ پڑھ کر نواز حسن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"ماما آج میں ناشتے میں آملیٹ کھاؤں گی۔مجھے یہ دلیہ نہیں کھانا۔دو دن سے یہ دلیہ کھا کھا کر میرے منہ کا ذائقہ عجیب ہو رہا ہے۔"حور نے منمناتے ہوئے کہا۔"میری گڑیا بیمار تھی تو اس لیے یہ کھلانا پڑا۔ابھی یہ کھا لو۔اسکول سے واپس آؤ گی تو تمہارا پسندیدہ کھانا بنا ہو گا۔"اُس کی ماما نے پیار سے کہا۔You mean Sandwiches and Fried Rice???
"Yeah,my little doll."Hoor's mama said.حور جب اسکول سے گھر آتی تھی تو سب سے پہلے اپنی ماما کو پیار کرتی تھی۔اور اگر وہ اُسے نظر نہ آتی تو پورا گھر سر پر اٹھا لیتی تھی۔
آج معمول کے مطابق وہ گھر آئی۔بیگ روم میں رکھا اور آوازیں دینے لگی۔ماما ماما کہاں ہیں آپ؟؟لیکن جواب ندارد۔۔۔اتنے میں اُسے سعدیہ بُوا نظر آئیں جو ڈرائنگ روم کی ڈسٹنگ میں مصروف تھیں۔"سعدیہ بُوا ماما کہاں ہے؟"حور نے پوچھا۔بیٹا وہ تو گھر پر نہیں ہیں۔گھر پر نہیں ہے تو کہاں ہیں وہ؟آپ کے نانا جان کی اچانک طبیعت خراب ہو گئی تھی تو اُنھیں ہسپتال لے کر گئی ہیں۔
"اوہ نو۔۔۔۔۔ اس کا مطلب مجھے پھر سے دلیہ کھانا پڑے گا۔"حور نے بُرا منہ بناتے ہوئے کہا۔ارے نہیں بیٹا!بیگم صاحبہ آپ کے لیے کھانا بنا کر گئی ہیں۔
That's great!بُوا آپ کھانا لگائیں میں فریش ہو کر آتی ہوں۔یہ کہہ کر وہ اپنے روم میں چلی گئی۔فریش ہونے کے بعد اُس نے کھانا کھایا اور ٹی وی پر اپنا فیورٹ شو دیکھنے لگی۔جیسے ہی شو ختم ہوا تو سونے کے لیے چلی گئی۔دوپہر میں سونا اُس کی عادت تھی۔
"ماما اُس طرف چلیں نا۔مجھے وہ پھول دیکھنے ہیں اور وہاں پیارے سے پوز بھی بنوانے ہیں۔پلیز ماما وہاں چلیں۔۔۔حور ضد کرنے لگی۔میری پری یہی اچھی سی تصویریں بنوا لیں۔وہاں آگے گہری کھائی ہے۔"نہیں مجھے نہیں پتہ۔۔۔مجھے وہی جانا ہے ورنہ میں آپ سے بات نہیں کروں گی۔"یہ کہہ کر اُس نے رخ موڑ لیا۔"اچھا!ناراض مت ہو۔چلو وہاں چلیں۔"اُس کی ماما نے اپنی پیاری بیٹی کو مناتے ہوئے کہا۔
عالیہ حور کی تصویر بنا رہی تھی کہ اچانک اُن کا پاؤں پھسلا اور ایک دلدوز چیخ کے ساتھ حور کی آنکھ کھل گئی۔اس نے خود کو اپنے کمرے میں پایا تو شکر کے کلمات اس کے منہ سے نکلے۔
"یا اللہ!تیرا شکر ہے یہ ایک خواب تھا!"
حقیقت میں وہ ایسا کچھ تصوّر بھی نہیں کر سکتی تھی کیونکہ اپنی ماما سے وہ بہت پیار کرتی تھی۔اُن کے بغیر رہنے کا خیال ہی اس کا دل دہلانے کے لیے کافی تھا۔
جلد یا بدیر انسان کو اِس دنیا سے رخصت ہونا ہی ہوتا ہے۔لیکن اُس کی ماما اتنی جلدی اُسے چھوڑ کر جانے والی تھی یہ اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
بہت جلد اُس کا یہ خواب سچ ہونے والا تھا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
سنڈے کے دن سب ساتھ ناشتہ کرتے تھے۔کیونکہ حور کے بابا سنڈے کو اپنی پیاری بیٹی اور بیوی کو ٹائم دیتے تھے۔اس وقت بھی وہ دونوں ناشتے کی ٹیبل پر اپنی شہزادی کا انتظار کر رہے تھے کہ اتنے میں حور صاحبہ کی آمد ہوئی۔
اسلام و علیکم ماما بابا!
"وعلیکم السلام!" دونوں نے یک زبان ہو کر کہا۔
کیسے ہیں آپ دونوں؟ہم تو ٹھیک ہیں۔ ہماری بیٹی کیسی ہے؟
"میں تو ٹھیک ہوں بابا۔لیکن آج آپ کو ہمارے ساتھ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے۔ورنہ آپ اتنے ورک ہولک ہو گئے ہیں کہ میرے اور ماما کے لیے آپ کے پاس ٹائم نہیں ہوتا۔"حور نے خفگی کا اظہار کیا۔
نواز صاحب مسکرائے اور بولے،"لگتا ہے آج بہت ساری شکایتیں سننی پڑیں گی۔"جی بابا میں آپ سے ناراض ہوں۔آپ کافی دیر سے ہمیں گھمانے بھی نہیں لے کر گئے۔اچھا ہماری بیٹی ناراض نہ ہو۔آج شام آپ دونوں تیار رہنا۔پہلے شاپنگ کریں گے پھر اچھی سی جگہ سے ڈنر کریں گے۔
YOU ARE READING
سرپرائز
Short Storyیہ کہانی ہے ایک بچی کی۔۔جس کی ضد سے کافی کچھ بدل گیا تھا۔پھر سب کیسے صحیح ہوا؟کیا سرپرائز ملا؟جاننے کے لیے کہانی پڑھیں۔