”اچھا ہوا تم لوگ جلدی آگۓ ابھی ویسے ہی اتنی تیاریاں باقی ہیں۔“ زَہرہ نے کرسی سے اٹھتے ہوۓ کہا۔
”ہاں یار اتنی ضد کی ہے بھاٸ سے تب لے کر آۓ ہیں۔“ انابیہ نے بےچارگی سے کہا۔
”زوہی تم سب چھوڑو، آٸسکریم لے کر آجاٶ۔“صالحہ نے بیڈ پر پاٶں پھیلاتے ہوۓ بہت پرسکون انداز میں کہا وہ کمرے سے جانے لگی۔
”میں بھی آتی ہوں۔“ عنزہ نے بیڈ سے اترتے ہوۓ دروازے کی طرف دوڑ لگاٸ۔اور اسکے برابر پہنچی۔ زَہرہ نے اسکارف باندھا ہوا تھا۔ باقی ان دونوں ٹوٸنز پر شاید مغربی اثر تھا کہ سرد موسم میں بھی جینز شرٹ پہنے گلے میں مفلر ڈالے ہوۓ تھیں۔
”صالحہ اور یوسف کی لڑاٸ ہوٸ ہے۔“ عنزہ نے ٹرے میں چمچ رکھتے ہوۓ کہا تو زَہرہ ہنسی۔
”ان دونوں میں لڑاٸ کب نہی ہوتی؟“اس نے سوچتے ہوۓ کہا پھر دونوں ساتھ ہنس دیں۔ زَہرہ نے فریزر سے آٸسکریم کا بڑا سا باٶل نکال کر ٹرے میں رکھا۔اور ٹرے پکڑی۔
”ویسے زوہی آج یہ انزو زیادہ جلدی نہیں سوگٸ!“ عنزہ نے اسکے پیچھے چلتے چلتے بےزاری سے کہا۔
”ارے نہیں۔ وہ جاگ رہی ہے۔ نماز پڑھ کر لیٹ گٸ تھی میں بلا کر لاتی ہوں۔“ زَہرہ نے اسے تسلی دی پھر ٹرے اسے تھماٸ۔ ان سب کی جتنی اچھی دوستی ہوچکی تھی اب کوٸ ایک بھی کم ہوتا تو بڑی شدت سے اسکی کمی محسوس ہوتی۔ زَہرہ کچن کے دروازے پہ ہی تھی کہ اذان آتا دکھاٸ دیا وہ وہیں رک گٸ۔ عنزہ کچن میں ہی تھی۔ اسکا ان دونوں کی طرف دھیان نہیں تھا۔
”کچھ چاہیے تھا آپکو؟“ اس نے فوراً پوچھا۔
”ایک کپ کوفی بھجوادیں اور۔۔۔“ کہتے ہوۓ اسکا جملہ ادھورا رہ گیا، کسی نے اسکی بات میں مداخلت کی تھی۔
”زوہی میں آٸسکریم لے کر جارہی ہوں تم۔۔۔“ عنزہ تیزی سے چلتی اس تک پہنچی تھی کہ کہتے کہتے ٹہر سی گٸ۔اذان نے اسے سرسری سا دیکھا لیکن کوٸ تاثر نہیں دیا۔
”اوہ! یہ صالحہ کی کزن ہے ہم سب کی گہری دوستی ہے۔ عنزہ یہ اذان ہیں۔“ زَہرہ نے دونوں کو خاموش دیکھ کر تعارف کروانا ضروری سمجھا۔
”اسلام و علیکم۔“ اذان نے سلام کیا اور عنزہ نے جواب دیا لیکن اسکے بعد اذان نے حال احوال پوچھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ وہ زَہرہ کی طرف متوجہ تھا۔
”کوفی بھجوادیں آپ جلدی سے۔“ وہ دھیمے نرم لہجے میں اپنی بات کہہ کر مسکرا کر دیکھتا چلاگیا۔
زہرہ دوبارہ کچن میں آگٸ۔
”زوہی۔۔۔یہ؟۔۔۔“ عنزہ نے ہچکچاتے ہوۓ پوچھا۔
”یہ بابا کے بیسٹ فرینڈ کے بیٹے ہیں اور انکی دادی بھی ساتھ ہی ہیں۔ یہاں ملنے آۓ تھے تو بابا جان نے انسسٹ کرکے انزو کی شادی تک رکا لیا۔ انزو کی شادی کے بعد اپنے گھر چلے جاٸیں گے۔“ وہ کوفی تیار کرتے ہوۓ جلدی جلدی بتانے لگی۔ عنزہ نے کوٸ جواب نہ دیا۔
”عنزہ؟“ زَہرہ نے اسے پکارا تو وہ چونکی۔
”تم آٸسکریم تو لے جاٶ پگھل رہی ہے یہ۔“ اس نے یاد دلایا تو وہ بغیر جواب دیے خاموشی سے چلی گٸ۔ زَہرہ کو اس کا انداز الگ محسوس ہوا لیکن وہ اپنا وہم سمجھ کر کوفی بنانے لگی۔
---------------”محترمہ مزاج ہی نہیں مل رہے ہم اتنی دُور سے تم سے ملنے آۓ ہیں اور یہ بس بستر میں گھسی سو رہی ہیں مزے سے۔“ انزلنا کے کمرے میں قدم رکھتے ہی انابیہ کی تقریر شروع ہوچکی تھی۔انبیہ خفگی سے کہہ رہی تھی انزلنا پھیکا سا مسکرا کر سنگل صوفہ پر ڈھ جانے والے انداز میں بیٹھ گٸ۔
”تم ناراض نہیں ہو۔تھوڑی تھکاوٹ تھی اسلیے لیٹ گٸ تھی۔“ انزلنا نے اسکی خفگی مٹانے کے لیے کہا۔ زَہرہ صالحہ عنزہ آٸسکریم کھانے میں مصروف ہوچکی تھیں اور ان دونوں کا ڈرامہ دیکھ کر لطف اندوز ہورہی تھیں۔
”نہیں۔ میں ناراض ہوں تم سے۔“ انابیہ نے غصے سے کہا۔
”دفع ہو۔ اب کیا میں تمہیں مناتی ہی رہوں گی۔“ انزلنا نے بھی جان چھڑانے والے انداز میں کہا تو وہ تینوں مسکرادیں جبکہ انابیہ نے خفگی سے اسے دیکھا۔انزلنا نے بھی آٸسکریم سے بھرا چمچہ منہ میں ڈالا۔
”اچھا اچھا تم تو الٹا مجھ سے ہی ناراض ہوگٸیں۔دلہن صاحبہ سننے میں آیا ہے آپکے ہونے والے ہزبینڈ کا غصہ بہت خطرناک ہے اور جب کسی سے ناراض ہوجاٸیں تو منانے کے لیے سو جتن کرنے پڑتے ہیں۔“
انابیہ نے اسے مزید تپانے کے لیے یہ ٹاپک چھیڑا تھا۔پھر آٸسکریم کھانے لگی۔انزلنا نے اسے گھورا۔اُسے ابراہیم کا معلوم نہیں تھا اور سب ہی لوگ اس بات کا آخری حد تک فاٸدہ اٹھارہے تھے۔
انزلنا نے جوابی کارواٸ نہ کی تو وہ چاروں آٸسکریم سے ہاتھ روک کر اسے دیکھنے لگیں۔ وہ الگ سنگل صوفے پہ بیٹھی تھی اور کچھ سوچتے ہوۓ ان چاروں کو گُھور رہی تھی۔ انابیہ کو جواب نہیں ملا تو اسکی شرارتی رگ پھڑپھڑا اٹھی۔ پھر آصری پتہ پھینکنا چاہا۔
”ویسے انزو۔ سننے میں یہ بھی آیا ہے تمہارے ہونے والے ہزبینڈ بہت ہینڈسم ہیں۔“ انبیہ نے سرسری سا کہا اور آٸسکریم سے بھرا چمچہ منہ میں ڈالا۔ اب کی دفعہ پھر چاروں آٸسکریم کھاتے ہوۓ اسے دیکھنے لگیں۔
انابیہ کا منہ ابھی ابھی آٸسکریم سے بھرا تھا کہ ایک زوردار کشن سیدھا اسکے چہرے پر بڑا اور وہیں اسکے بال بکھرے۔ بالوں کا بم پھٹا دیکھ کر زَہرہ عنزہ صالحہ کے لیے ہنسی قابو کرنا امتحان بن گیا۔ انابیہ کے ڈاۓ کیے ہوۓ سلیقے سے سیٹ بالوں کی حالت پہ وہ غصہ قابو کرتی رہی۔
”وہ میرے ہونے والے ہزبینڈ ہیں تو تم اتنی خبریں رکھ کر کیوں گھوم رہی ہو۔“ انزلنا نے ناک پر سے مکھی اڑانے والے انداز میں کہا اور اگلے لمحے وہ چاروں ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوگٸیں۔
---------------
(ایک ہفتے بعد)
پورا ایک ہفتہ ہوچکا تھا۔جب سے عنزہ اور انابیہ آٸ تھیں شاپنگ میں آسانی ہوگٸ تھی۔پورا ہفتہ بازار کے چکر لگتے رہے۔ زَہرہ اور صالحہ۔مومنہ،کلثوم اور حنا صاحبہ کے ساتھ ساتھ تھیں۔ باقی سارہ کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے انابیہ اسکے پاس اور عنزہ انزلنا کے پاس گھر میں رک جاتی تھی۔آج فاٸنل شاپنگ تھی۔ پورا مہینہ اور یہ ہفتہ بہت زیادہ مصروف رہا تھا۔ کل جمعرات تھا اور اس سے اگلے دن جمعہ کو نکاح کی تقریب تھی۔
” یار میرے تو پیر ٹوٹنے لگے ہیں۔“ صالحہ تقریباً رونے کو تھی۔ مال میں کتنی ہی دیر لگ چکی تھی اور اب وہ چلتے چلتے تھک گٸ تھی۔ زَہرہ نے مسکراتے ہوۓ اسے دیکھا اور شاپنگ بیگز اٹھاۓ آگے بڑھ گٸ۔
”واہ! یہ اپنے حصے کے سارے بیگز ہمیں پکڑواکر خود مزے سے چل رہی ہو اور اںپر سے باتیں سنو اس کی۔“ ابراہیم نے جل کر کہا۔ساتھ چلتے ثاقب اور اذان ہنس دیے۔
”تو تم ہونے والے دولہا ہو۔ اب کچھ تو محبت کرلو۔ ایک دن کی بات ہے پھر تو تم نے کسی کام کو غلطی سے بھی ہاتھ نہیں لگانا۔“ صالحہ نے اسے جتاتے ہوۓ کہا اور منہ بسورا۔
”چڑیل کہیں کی۔“ ابراہیم نے بھی حساب برابر کیا تو وہ ڈھٹاٸ سے ہنس دی۔
”تمہاری بہن ہوں۔“ صالحہ نے چڑاتے ہوۓ کہا اور وہ جل کر رہ گیا۔
”میں امی جان اور آنٹی کو دیکھتا ہوں کتنی شاپنگ باقی ہے پھر گھر چلتے ہیں۔“ ثاقب نے کہا اور آگے فدم بڑھاتا ہوا اس بوتیک میں چلاگیا جہاں مومنہ حنا اور کلثوم تھوڑی دیر پہلے گٸ تھیں۔
صالحہ اور ابراہیم کی باتونی جنگ ابھی بھی جاری تھی۔ زَہرہ دونوں ہاتھوں میں کتنے ہی شپنگ بیگز پکڑے اپنی سوچ میں گم چل رہی تھی۔اذان کی نظر اس پر پڑی تو ابراہیم سے پانی کی بوتل لے کر آگے بڑھ گیا۔ پھر اسکے قدم بہ قدم چلتے ہوۓ بھی وہ بہت فصلے پر تھا۔ وہ اپنی سوچوں میں مگن تھی تو دھیان نہ دیا۔ ثاقب ہوگا یہی سوچ کر وہ سرجھکاۓ بہت کچھ سوچ رہی تھی۔
”پانی؟“ اذان نے دھیمے لہجے میں کہتے ہوۓ بوتل اسکی طرف بڑھاٸ۔
”نہیں، گھر جاکر آرام سے پی لوں گی۔“ اسے بقاب ہٹانا برا لگا تو اس نے کہہ دیا۔ اذان نے سمجھتے ہوۓ سر ہلادیا۔
”لاٸیں یہ بیگز میں پکڑ لوں۔“ کچھ لمحے خاموشی کے بعد اذان نے کہا۔وہ رکا تھا لیکن اپنی جگہ ہی کھڑا رہا۔
”نہیں ایسی کوٸ پرابلم نہیں ہے۔ آٸ ایم آل فاٸن“ زَہرہ نے اسکے کہنے پر گڑبڑاتے ہوۓ تسلی دینا چاہی۔
”یہ ادھر دیں مجھے۔“ اذان نے تھوڑا رعب سے کہا اور بیگز پکڑنے لگا دوسری طرف سے اس نے انگلیں کو بھاری وزن کی قید سے آزاد کیا تو انگلیاں ہلکی ہلکی سرخ ہوچکی تھیں۔ اذان کی نظر لمحے بھر کے لیے اسکے ہاتھ پر پڑی پھر وہ سارے شاپنگ بیگز پکڑے آگے بڑھ گیا اور کسی دکان میں داخل ہوگیا تو زَہرہ اپنا ہاتھ سہلاتے ہوۓ رُکی اور پیچھے مڑ کر دیکھا کہ وہ دونوں بھی ساتھ چل رہے ہیں یا نہیں۔
”اہیم اہیم!“ صالحہ نے فوراً کھانسنے کی اداکاری کی۔ابراہیم بھی ساتھ تھا۔زَہرہ سمجھ گٸ اب وہ کیا کہے گی اور وہ ابراہیم کے سامنے ایسا مزاق برداست نہیں کرتی۔
”بکواس بند رکھو تم اپنی۔ ورنہ دانت توڑ دوں گی تمہارے۔“ زَہر نے دھیمی مگر غصے سے بھری آواز سے کہا اور صالحہ ابراہیم بتّیسی دکھاتے ہوۓ ہنس دیے اور اسکا دل چاہا ان دونوں کا سر پھاڑ دے لیکن وہ غصہ ضبط کرتی آگے بڑھ گٸ۔ اور وہ دونوں اسکے انداز پر ہنستے رہے۔
-----------
کھانا لگ رہا ہے۔ تم سب بچوں کھانا کھا کے جانا۔“ حنا بیگم نے ان سب کو یاد دھانی کرواٸ تو ڈاٸننگ ٹیبل بھی مزیدار لوازمات سے سجادیا گیا۔
حنا سامان کو کمرے میں رکھوانے لگیں پھر سب ڈاٸننگ ٹیبل پہ بیٹھے۔
انزلنا اور عنزہ بھی کمرے سے نکل کر نیچے ؒٸیں اور اپنی اپنی نشست سنبھالی۔
انزلنا کو دیکھتے ہی سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گٸ۔ اس نے سب کو سلام کیا تو بالکل سامنے بیٹھے ابراہیم پر نظر پڑی۔ وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگی۔باقی سب بھی کھانا کھانے میں مصروف ہوگۓ۔ سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ابراہیم اسکے سمانے ہی بیٹھا تھا اور اسکے حلق سے لقمہ نہیں اتر رہا تھا۔ اسے رونا آنے لگا۔
گھر والے اسکی مرضی کے بغیر شادی کررہی تھے۔ بلکہ مرضی نہیں پسند کے بغیر۔۔۔ بہرحال وہ اب کچھ نہیں کرسکتی تھی اور یہی سوچ کر وہ اس پورے مہینے بہت روٸ تھی۔
وہ کھا کم اور سوچ زیادہ رہی تھی۔پھر کسی کی نظروں کو صود پر محسوس کیا تو جھکا سر اٹھایا تو ابراہیم اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اور اسکے دیکھنے پر بھی وہ بہت فراغت سے اسے گھورتا ہوا کھانا کھا رہا تھا۔وہ دھیما سا مسکراٸ شاید اسکی ناراضگی ختم ہوچکی ہو! اور انزلنا نے مسکرا کر دیکھتے ہی وہ بغیر تاثر دیے نظروں کا رخ بدل گیا اور وہاں انزلنا جل بھن کر رہ گٸ کہ اس نے مسکرانا تو دُور کی بات بےزاری سے نظرانداز کردیا۔۔۔
وہ بھی خاموشی سے کھانا کھانے لگی۔بہت سارے چہرے ان دونوں کو یوں دیکھ کر مسکرا اٹھے تھے۔ وھیں ایک چہرہ آنکھوں میں ڈھیروں آنسو سمیٹے بیٹھا تھا۔
اور اس چہرے پر زَہرہ کے علاوہ کسی نے دھیان نہیں دیا تھا۔
---------------
کھانے اور چاۓ کوفی سے فراغت کے بعد اب ساڑھے بارہ بجے کا ٹاٸم ہوچکا تھا۔ سب الوداعی کلمات کہنے مین گیٹ تک آۓ تھے۔
سب باتوں میں مگن تھے۔انزلنا کی مومنہ سے بھی بہت اچھی رہی۔وہ انکے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیلیکن وہ اسکے بارے میں سب جانتی تھیں۔ مزمل صاحب حنا بیگم، مومنہ صاحبہ سے باتوں میں مصروف تھے۔
”اب تو میری شادی ہورہی ہے مجھے مبارکباد بھی نہیں دوگے ابراہیم۔“ انزلنا نے تیوری دکھا کر پوچھا، وہ بھی اتنی آسانی سے میدان کہاں چھوڑنے والی تھی۔ جو اس سے تھوڑا فاصلے پہ کھڑا تھا اس کی بات پہ چونکا۔
”مبارک باد میں نکاح والے دن ہی دوں گا۔“ابراہیم نے اسکے کان کے قریب سرگوشی کی اور آگے بڑھ گیا۔وہ دل ہی دل میں مسرور ہوا تھا اور وہ اسے غم و غصے کے ملے جلے تاثرات سے دیکھ رہی تھی۔
”عنزہ۔“ زَہرہ نے اسکے ساتھ کھڑے ہوۓ ذرا اونچی آواز میں کہا تو وہ چونکی۔
”ہاں۔“ اس نے پوچھا
”کیا ہوا ہے؟ اس دن کے بعد سے چپ چپ لگ رہی ہو کوٸ پریشانی ہے تو بتاٶ مجھے؟“ زَہرہ نے فکرمند انداز میں پوچھا تو وہ مسکرادی۔
”نہیں ایسی کوٸ بات نہیں ہے زوہی۔“ عنزہ نے اسے تسلی دینے والے انداز میں کہا پھر جاکر گاڑی میں بیٹھ گٸ۔ سب چلے گۓ تو وہ لوگ بھی اندر چلے آۓ۔انزلنا اپنے کمرے میں چلی گٸ۔وہ بھی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔
”زوہی بیٹا۔“ حنا بیگم نے اسے پکارا تو وہ دوبارہ سیڑھیاں اترتے نیچے آگٸ اور دونوں لاٶنج میں آکر بیٹھ گٸ
”بیٹا ایک بات کرنی تھی۔“ وہ کہہ کر خاموش ہوگٸیں
”بولیں امی جان۔“ وہ الجھے ہوۓ انداز میں انھیں دیکھنے لگی۔
”وہ چار دن پہلے میری آپکے بابا اور دادو سے بات ہوٸ تھی ۔“ حنا نے تھوڑا جھجھک کر کہا۔
”جی۔اور۔۔۔؟“ وہ انتظار کرنے لگی۔
”تو دادو نے اذان کے لیے آپکو مانگا ہے۔“ وہ کہہ کر خاموش ہوٸیں اور اسے دیکھا تاکہ بھانپ سکیں۔ وہ ویسے کی ویسے ہی بیٹھی تھی۔ حیرت،خوشی یا دکھ کوٸ تاثر نہیں دیا۔
”تو آپ دونوں نے کیا جواب دیا؟“ اس نے اتنا ہی پوچھا۔
”ہم نے ہامی بھرلی ہے، تمہیں کوٸ اعتراض تو نہیں؟“ انھوں نے بتاکر پوچھا۔ وہ ابھی بھی بغیر کسی تاثر کے بیٹھی تھی۔
”نہیں مجھے کوٸ اعتراض نہیں!“ اس نے فوراً جواب دیا کو کہیں حنا اداس نہ ہوجاٸیں۔ لیکن حنا الجھیں۔
” ت خوش ہو اس سب سے؟۔۔۔“ انھوں نے فکرمندی سے پوچھا۔
”امی جان! انسان کو جو پسند ہو اسے حاصل کرلینا چاہیے یا
جو حاصل ہو اسے پسند کرلینا چاہیے۔ زندگی گزارنے کے اصول۔۔۔“ پھر کچھ لمحے وہ خاموش رہی۔حنا اسکا چہرہ دیکھ رہی تھیں۔
”مجھے جو حاصل ہے اب میں نے اسے پسند کرلیا ہے۔
اب پیچھے ہٹ جانے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔اب جو جیسا ہے مجھے ویسے ہی قبول ہے۔ نہ مچھے کسی کی کوٸ خواہش ہے نہ مجھے کسی سے کوٸ شکایت ہے۔“ وہ بہت دھیمے لہجے میں ٹہر ٹہر کر بات مکمل کرکے وہاں سے اٹھ کر جانے لگی۔ حنا کی آنکھیں آنسوٶں سے بھر چکی تھیں۔
(بعض اوقات تکلیف اتنی بڑھ جاتی ہے کہ انسان کو اُس تکلیف کا تکلیف ہونا محسوس ہی نہیں ہوتا۔)
وہ سوچتے سوچتے رکی تھی پھر دھیرے دھیرے چلتے وہ دوبارہ حنا کے کے ساتھ لگ کر بیٹھ گٸ۔
”امّی جان! دل جس چیز کے لیے بضد ہوتا ہے اللہ بندے کو اُسی چیز پہ آزماتا ہے۔“ وہ کہہ کر حنا کے گلے لگ گٸ۔آج وہ روٸ نہیں تھی تھی۔وہ بس خاموش تھی۔۔۔بہت زیادہ خاموش۔
آج دو ہفتے پورے ہوچکے تھے اور وہ تھک چکی تھی کہ وہ وضاحت نہیں دے سکی۔
بہت دیر تک وہ خاموشی سے حنا کے گلے لگی رہی اور معلوم بھی نہ ہوسکا کب آنکھ لگ گٸ۔حنا نے اسے جگایا لیکن اتنی زیادہ تھکاوٹ تھی کہ اسے معلوم بھی نہ ہوسکا ورنہ وہ ایک آواز میں اٹھ جاتی تھی۔پھر حنا نے کمرے سے بلینکٹ لا کر اسے اوڑھا دیا اور خود بھی سونے چلی گٸیں۔
---------------
”بہت بتّیسی نکل رہی ہے آج تو۔“ حذیفہ نے ہانک لگاٸ تو ابراہیم ہنسا جبکہ زکریا مسکرادیا۔حذیفہ زکریا کے ہاتھ پہ آٸنٹمینٹ لگا کر پٹی باندھ رہا تھا کچھ دیر پہلے پاٶں پہ بھی بینڈج پوری کردی تھی۔زخمبہتر تھے لیکن ٹھیک ہونے میں ابھی بھی وقت تھا۔
”یار اُسے تپانے میں جو مزہ ہے ناں۔سچ میں! وہ خوشی مجھے کہیں اور مل ہی نہیں سکتی!“ ابراہیم نے ڈاٸننگ ٹیبل والا واقعہ یاد کرتے ہوۓ مسکرا کر کہا۔
”بہت ہوگیا یہ سیر و تفریح، اب بابا نے کہہ دیا ہے کہ تم نکاح کے بعد ہی وہاں جاٶگے۔“زکریا نے معیز صاحب کا حکم سنایا تو ابراہیم کی مسکراہٹ سمٹی۔
”ک ککیا۔“ وہ تقریباً چلایا۔
”آہستہ بولو بہرے نہیں ہیں ہم۔اور اب شرافت سے بیٹھو وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں“ حذیفہ بینڈج پوری کرکے اٹھا تو اسے وارن کیا۔
”یہ غلط بات ہے میں اتنے کام بھی تو کرواتا ہوں۔“ ابراہیم نے عذر پیش کیا۔
”تو اب زکریا بھی ٹھیک ہے ماشا۶اللہ سے۔ یہ آخری بینڈج ہے پھر تو یہ چل سکتا ہے۔اب ہم دونوں ہی کام کرواٸیں گے تم چپ کرکے بیٹھو۔“ حذیفہ نے اسے جھاڑ پلاٸ تو اس نے منہ بسورا۔زکریا اور حذیفہ ہنس دیے۔
”تم نے اذان سے بات کی۔“حذیفہ نے پوچھا تو وہ سنجیدہ ہوا۔
”میرا اس سے کوٸ تعلق نہیں۔“ زکریا نے بےزاری سے کہا تو ان دونوں نے اسے گُھورا۔
”وہ دوست ہے تمہارا۔“ ابراہیم نے جتایا۔
”وہ دوست تھا!“ زکریا نے برہمی سے کہا۔
”دوست دوست ہوتا ہے زکی۔اور تمہیں ایک اچھا دوست ہونے کے ناطے اسے وضاحت کا ایک موقع ضرور دینا چاہیے۔“ حذیفہ نے دکھ سے کہا۔
”اسے میرے بھروسے کی قدر کرنا چاہیے تھی۔“ زکریا کا غصہ کم ہوا۔
”دنیا کی سب سے زیادہ رنگینیاں آنکھیں دیکھتی ہیں اور ان نظروں سے بڑھ کر بھی دھوکہ باز کوٸ نہیں ہوتا۔بعض اوقات جو ہمیں دکھ رہا ہوتا ہے کچھ بھی ویسا نہیں ہوتا۔اور جو اصل ہوتا ہے وہ ہماری نظروں سے چھپا ہوتا ہے۔حقیفت ہماری نظروں سے کوسوں دُور ہوتی ہے۔اپنی نظروں کی وجہ سے دل کو دھوکہ میں مت ڑالو زکی! اور کیا معلوم وہ اپنی جگہ درست ہو۔ دوست کو کھو دینا کسی زخم کی تکلیف سے کم نہیں ہوتا۔ہر سوچ ہر وقت یہ زخم ہمیں اندر ہی اندر تکلیف دیتا رہتا ہے۔تم بدگمانیوں کو اپنے اندر پناہ نہیں دو۔وہ دوست ہے تمہارا اسے سمجھنے کی کوشش کرو۔وضاحت دینے دو اسے۔“ حذیفہ نے زکریا کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بہت دھیمے لہجے میں سمجھایا۔
ابراہیم نے سر اثبات میں ہلایا۔
”وہ بچپن سے ہمارا دوست ہے زکی۔ وہ کسی اور کو تو چھوڑ سکتا ہے لیکن کبھی اپنے مفاد کے لیے ہماری دوستی کو استعمال نہیں کرسکتا۔“ ابراہیم نے بھی کوشش کی۔
”تمہیں مجھسے زیادہ اس سے ہمدردی ہورہی ہے!“زکریا نے طنزیہ مسکراتے ہوۓ کہا۔وہ دونوں چپ رہے۔
”وہ دوست ہے اور دوست پر اتنا بھروسہ تو ہونا چاہیے کہ اسے وضاحت دینے کا ایک موقع ملے۔“ابراہیم نے کندھے اچکاتے ہوۓ بات ختم کرنا چاہی۔
”اُسے دوستی عزیز ہوگی تو وہ بات کرنے دوبارہ ضرور آۓ گا۔“زکریا کہہ کر خاموشی سے آنکھیں بند کرکے لیٹ گیا۔حذیفہ مسکرایا۔البتہ ابراہیم کسی سوچ میں گم تھا۔
-----------------
رات کے کسی پہر اسکے آنکھ کھلی تو اٹھ کر اپنے کمرے میں گٸ۔وضو کرکے تہجد ادا کی پھر قرآن کی تلاوت کرکے بہت دیر خاموشی سے جاۓنماز کو دیکھتی رہی۔
”مجھے تجھ پہ یقین ہے اللہ! مجھے وہ ہی ملے گا جو میرے لیے بہترین ہے۔“ فقط ایک جملہ کہہ کر وہ خاموشی سے آنسو بہاتی رہی۔
اور اللہ کو الفاظوں کی ضرورت نہیں
وہ تو خاموشیاں سننے والا ہے!
بہت دیر بعد جب فجر کی اذانوں کی آواز اسکے کان میں پڑی تو فجر کی نماز پڑھ کر وہ سوگٸ۔
----------------
صبح اسکی آنکھ جلد ہی کھل گٸ۔ ابھی وہ فریش ہوکر کچن سے گرم گرم بھاپ اڑاتی کوفی کا مگ لیے باہر نکلی تھی کہ سامنے س سکینہ آپا دکھاٸ دیں۔
”زَہرہ بیٹی دادو نے آپکو بلایا ہے۔“ آپا نے بتایا تو وہ سر ہلاکر دادو کے کمرے میں چلی گٸ۔
”اسلام و علیکم دادو۔آپ نے بلایا۔“ دروازہکھٹکھٹا کر وہ اندر داخل ہوٸ تو دادو تسبیح پڑھ رہی تھیں اسے دیک کر مسکرا اٹھیں اور سر کو اثبات میں ہلایا۔
وہ خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گٸ۔دادو دعا مانگ کر اٹھیں اور اسکے سامنے بیڈ پر بیٹھیں۔
”وعلیکم اسلام۔۔۔۔تم خوش ہو اس رشتے سے؟“ اھنوں نے تھوڑا ٹہر کر نرمی سے اسکا گال تھتھپاتے ہوۓ پوچھا۔
”جی دادو۔“ اس نے مختصر کہا۔دادو مسکرا کر اٹھیں اور دراز میں سے کوٸ چیز نکالنے لگیں۔وہ لاکر انھوں نے اسکا ہاتھ تھام کر اسکی ہتھیلی پر رکھی۔وہ سیاہ رنگ کی مخملی ڈبیہ تھی۔زَہرہ نے سوالیہ نظروں سے پہلے اس چھوٹی سے ڈبیہ کو دیکھا پھر دادو کو۔
”یہ؟“ اس نے سوالیہ نظروں سے مخملی ڈبیہ کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
”یو اذان تمہارے لیے لایا ہے۔“ دادو کے بتانے پر یکدم اسکی آنکھوں میں حیرت ابھری۔
”امی جان کو بتایا آپ نے؟“ اس نے فورا سوال کیا۔
”ہاں حنا نے کہا میں تمہیں خود دے دوں۔اذان نے تو پہلے ہی منع کردیا تھا اسلیے۔“ دادو نے بتایا
”منگنی کا تو ابھی کچھ معلوم نہیں اسلیے اس نے یہ مجھے تھمادی۔“ دادو نے مسکراتے ہوۓ بتایا تو اس نے خموشی سے وہ ڈبیہ لے لی اوڑ کچھ کہے بغیر وہ چلی گٸ،دادو پرسکون انداز میں مسکرادیں۔
---------------
”صالحہ!“ زہرہ نے نے پریشان لہجے میں اسے پکارا تو فون کے دوسری جانب اسکی آواز ابھری۔
”ہممم اتنی صبح صبح کیوں کی ہے کال؟“ اس نے نیند خمار آواز سے پوچھا۔کچھ لمحے زَہرہ چپ رہی۔
”و وہ امی اور بابا جان نے اذان سے میرا رستہ طے کردیا ہے۔“ اس نے ایک ہی سانس میں جلدی سے کہا۔
”کیا کہا تم نے۔“ صالحہ نے تیز آواز میں کہا۔اسکی آنکھیں یکدم پوری کھل گٸیں اسے لگا اسکی سماعتوں نے غلط سنا ہے۔
”آہستو بولو“ زَہرہ نے بےزاریت سے کہا۔
”تم گھر آجاٶ پلیز۔“زَہرہ نے منت بھرے لہجے میں کہا۔
”ہاں آرہی ہوں۔“ کہہ کر صالحہ نے کال کاٹ دی۔زَہرہ بیڈ پر خاموشی سے بیٹھے سامنے رکھی سیاہ مخملی ڈبیہ کو گھورتی رہی۔
---------------
”او ماۓ اللہ جی۔ زَہرہ! زَہرہ! یہ دغا کرنے کی تمہاری جرات کیسے ہوٸ؟“ کمرے میں اسے پاس پہنچتے ہی صالحہ نے ایک مکہ اسکے بازو میں جڑا تو زَہرہ نے اسے گُھورا۔
صالحہ اور اسکے ڈرامے!
”چوری چھپے اتنا سب کچھ ہوگیا اور مجھے پتہ بھی نہیں لگنے دیا۔“صالحہ نے اپنا رونا سنانے کا تہیہ کیا تھا۔
”کیا تم اپنی بکواس بند کرسکتی ہو تھوڑی دیر؟ اور آپکی معلومات میو اضافہ کرنے کے لیے میں عرض کرنا چاہوں گی کہ مجھے بھی کل رات کو ہی اس بات کا علم ہوا ہے۔“ زَہرہ نے خاصی جھاڑ پلاتے ہوۓ کہا اتو صالحہ کسی شریف صورت بچے کی طر ح اسے دیکھنے لگی۔ زَہرہ نے افسوس سے سر ہلایا۔
کچھ نہیں ہوسکتا اس لڑکی کا!
”کھیے محترمہ کیا پریشانی ہے آپکو۔“ صالحہ آلتی پالتی مار کر بیٹھی۔
”کیا کروں اس کا؟“ اس نے ڈبیہ اسکے سامنے رکھتے ہوۓ پوچھا۔صالحہ نے اسے کھولا تو وہ ایک صوبصورت انگہٹھی تھی جس پر ننھا سا ڈاٸمنڈ چمک رہا تھا۔بہت لوبر سی انگوٹھی۔زَہرہ نے حیرت سے دیکھا۔
”پہن لو اسے۔“ صالحہ نے حل تجویز کیا۔
”مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔“ زَہرہ نے بہت دھیمے لہجے میں کہا اور اسکے سامنے بیٹھ گٸ۔وہ صوبر سے انگوٹھی ان دونوں کے درمیان رکھی تھی۔
”کیوں زوہی؟“ صالحہ نے بہت اپناٸیت سے پوچھا تو اس نے محض صالحہ کو دیکھا۔
”دیکھو زَہرہ اگر وہ تمہارے لیے ہے! تو پھر کوٸ اور نہیں اور اب جو جیسا ہورہا ہے ویسے ہی ہونے دو۔ تین سالوں میں تم بہت سہہ چکی ہو۔اب مزید اس بارے میں نہیں سوچو ٹھیک ہے۔“ صالحہ نے اسکا ہاتھ پکڑے پیار سے سمجھایا تو وہ خاموشی سے سر ہلا کر رہ گٸ۔
صالحہ نے مخملی ڈبیہ اٹھا کر اسکے سامنے کی تو اس نے خاموشی سے وہ ڈاٸمنڈ رنگ پہن لی۔صالحہ نے مسکرا کر اسے دیکھا زَہرہ مسکراٸ نہیں تو صالحہ نے اسے فوراً گلے لگالیا۔
کبھی کبھی انسان کے پاس کہنے کو الفاظ نہیں بچتے۔۔۔اور اُسے کسی اپنے کی طرف سے ڈھیر سارا حوصلہ چاہیے ہوتا ہے۔۔
صالحہ بھی یہی کررہی تھی۔
”کل نکاح ہے انزلنا اور ابراہیم کا تم یہیں رک جاٶ۔“ بہت دیر بعد جب وہ صالحہ سے الگ ہوٸ تو کسی چھوٹے بچے کی طرح فرماٸش کی صالحہ مسکراٸ۔ اور اس کا گال تھپتھپایا۔
”عنزہ اور انابیہ وغیرہ ہیں گھر پر اور ابھی کوٸ“ بھی سو کر نہیں اٹھا۔بابا جاگ رہے تھے تو انھیں بتاکر آگٸ۔وقت ملا تو انشا۶اللہ رات میں آٶنگی ٹھیک ہے؟“ صالحہ نے تفصیل سے بتایا اور پھر پوچھا تو زَہرہ مسکرادی۔پھر صالحہ بھی گھر چلی گٸ۔
ناشتہ تیار کرواکر وہ کچن سے باہر نکلی تو انزلنا نکے کمرے میں گٸ۔
”اَنزُو۔“ اس نے دروازہ کھولتے ہوۓ آواز دی۔
”ہاں آجاٶ۔“ اس نے کہا تو زَہرہ اندر داخل ہوٸ
”جلدی اٹھ گٸیں آج۔“ زَہرہ نے مسکراتے ہوۓ کہا۔کہاں انزلنا لاکھ آوازوں پر بھی نہیں اٹھتی تھی۔
”ہاں بس یونہی۔“ کہہ کر وہ بال باندھنے لگی، ایک سرسری سی نگاہ زَہرہ کے الٹے ہاتھ پہ پڑی وہ رِنگ پہنی ہوٸ تھی۔
زَہرہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے سامنے کرسی پر بٹھایا تو وہ ضبط کھو کر رونے لگی۔
”زوہی۔اللہ مجھے ایسے کیوں آزما رہا ہے؟ مجھ میں اتنی برداشت نہیں ہے۔“ وہ رونے کے درمیان اٹک اٹک کر کہنے لگی۔
”کیوں کہ اللہ جانتا ہے تم اس آزماٸش میں کامیاب ہوجاٶ گی اس لیے!۔“ زَہرہ نے مسکراتے ہوۓ کہا۔تھوڑی دیر انزلنا اسکے گلے لگے روتی رہی اور وہ اسے تھتھپاتی رہی
”تم نے اس سے بات کی۔“ انزلنا نے آنسو پونچھتے ہوۓ پوچھا۔
”آجاٶ ساتھ ناشتہ کرلو ویسے بھی کل تو بہت مصروفیت ہوگی۔“زَہرہ نے مسکراتے ہوۓ کہا۔ اور جانے لگی۔
”من چاہے انسان کا ساتھ کسے اچھا نہیں لگتا؟“ انزلنا نے اسے روک کر پوچھا۔ زَہرہ نے ایک ٹھنڈی سانس اندر کو اتاری۔
”ہر کسی کو اپنے من چاہے انسان کا ساتھ نہیں ملا کرتا انزلنا!“ زَہرہ نے چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ کہا۔
”جب تم یہ سمجھ سکتی ہو تو یہ بھی جانتی ہوگی میں اتنا کس لیے روچکی ہوں۔“انزلنا نے دُکھی مسکراہٹ سے کہا۔زَہرہ کو جیسے چپ لگ گٸ۔
”کسی چیز کسی شخص کے نہ ملنے کو جان کا روگ نہیں بنالینا چاہیے۔اللہ پہ بھروسہ کرکے اپنے لیے آسانی مانگنی چاہیے۔جو سجدوں میں گڑگڑانے سے بھی نہ ملے اس کا نہ ملنا ہی بہتر ہوتا ہے۔یقیناً اللہ نے تمہارے لیے کچھ بہترین ہی سوچا ہوگا۔“ زَہہ نے اسکے بالوں میں سہلاتے ہوۓ پیار سے سمجھایا۔انزلنا بغور اسکا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”تمہیں بھی تو کسی سے محبت ہوٸ زَہرہ۔کیا تمہیں اسکے نہ ملنے پر تکلیف نہیں ہوٸ؟۔“ انزلنا نے الفاظ نہیں تیر پھینکے تھے جو سیدھا اسکے دل پہ لگے تھے۔وہ مسکرادی۔۔۔دکھ والی مسکراہٹ کے ساتھ۔
”کم آن انزو تم سے کس نے کہا تمہاری بہن کو محبت وہبت جیسی کوٸ بیماری لگی ہے۔“ زَہرہ نے ہنستے ہوۓ مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔انزلنا کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر کچھ لمحے کے توقف کے بعد گویا ہوٸ۔
”تم زکریا سے محبت کرتی ہو اور تم اس بات کا اقرار نہیں کرنا چاہتیں!۔“ انزلنا نے پرسون انداز میو ساری بات کہہ ڈالی اور وہ اپنی جگہ منجمد ہوگٸ۔
”ت تم سے کس نے کہا یہ سب؟“ شاک کے عالم میں اس نے محض اتنا ہی کہا۔
”کسی نے نہیں کہا زوہی۔میں بھی تمہاری بہن ہوں۔ضروری تو نہیں تم مجھے جو بات بتاٶ میںصرف وہی جانتی ہوں۔“ انزلنا نے جتانے والے انداز میں کہا۔اُسے دکھ تھا زَہرہ نے اسے کچھ نہیں بتایا تھا۔
”ایسا کچھ نہیں ہے اور تم ان باتوں کو سوچو نہیں۔“ زَہرہ نے تھوڑی برہمی سے کہا۔
””زوہی۔۔۔“ انزلنا نے کچھ کہنا چاہا۔
”پلیز انزلنا! میری لاٸف ڈسکس مت کرو۔ اور رہی بات اس کی۔۔۔وہ اپنے فیصلے خود لینے کا عادی ہے۔وہ جو کرے اس کی مرضی۔“ زَہرہ نے جھنجھلاتے ہوۓ کہہ کر بات ختم کرنا چاہی۔
”تو پھر تمہیں اسکی ناراضگی کی اتنی پرواہ کیوں ہے؟“ انزلنا نے تیوری چڑھاۓ کہا تو زَہرہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
”انزلنا آٸندہ ایسی بات نہیں کرنا پلیز۔ اور امی جان اور بابا جان نے میرا رشتہ اذان سے کردیا ہے۔“اس نے حتی الامکان اپنا غصہ قابو کرتے ہوۓ کہا۔
”جانتی ہوں۔مبارک ہو! اب تم مسز اذان بن جاٶگی۔“ انزلنا نے مسکراتے ہوۓ کہا تو زَہرہ نے کوٸ تاثر نہیں دیا۔
”تم بہت خوشنصیب ہو انزلنا۔ تمہیں وہ ملنے جارہا ہے جسکی تم نے چاہ کی۔میرے لیے کچھ بھی اتنا آسان نہیں ہے۔میری آزماٸش ختم نہیں ہورہی۔۔۔تمہارا امتحان تو مکمل بھی ہونے والا ہے۔اللہ سے راضی ہوجاٶ اُس پہ جو اُس نے تمہیں دیا ہے پھر وہ تمہیں وہ دے گا جس سے تم خوش ہوجاٶگی۔“ زَہرہ نے سمجھانے والے انداز میں کہا اور مسکراہٹ سجاۓ جیسے آٸ تھی ویسے ہی واپس چلی گٸ۔انزلنا کو جیسے دکھ پہنچا تھا
*******************Assalam o Alykum
My lovely Readers💛
so episode:24 completed here😇
And i wanna say Speciall JazakAllah💛 to Each and Every Person who Voted and comented on epi:23
Much Love for y'all😍💛
Now Now!
Next epsiode come up with aaalot happiness joy and also alot of Drama😉 so don't forget to Vote and Coments on this Episode.💛
I'm waiting for your Reviews💛
See y'll next time😇.