میری ہو جانا مکمل

7.5K 237 58
                                    

میری ہو جانا از قلم مریم اور علیشا

گاڑی پارک کر کے وہ مال کی جانب بڑھی ۔ گلابی کرتے اور نیلی جین میں اس کا گلابی رنگ بہت بھلا معلوم ہو رہا تھا ۔ کرتے کی آستینیں کہنیوں تک فولڈ کیے ,اونچی پونی ٹیل اور ہاتھ میں پہنے کئی بریسلیٹ وہ دیکھنے میں کافی من موجی لگتی تھی ۔ آنکھوں سے چشمہ اتار کر اس نے کرتے کے آگے اٹکایا اور ببل گم چباتی وہ ایک دکان میں داخل ہوئی ۔پرسوں اس کی بہن پاکستان آرہی تھی بہن کا گفٹ اور تو اور روحا کا گفٹ تو ابھی لینے والا تھا اس نے سوچا آج پہلی فرصت میں یہ کام کرے گی ۔اور اس سے کچھ فاصلے پر وہ بھی بےنیازی سے چلتا آرہا تھا ۔اس کے ارد گرد اس کے باڈی گارڈ گن سمبھالے چلتے آرہے تھے اس کے آگے چلتے گارڈ بھی لوگوں کو ہٹاتے راستہ بناتے جا رہے تھے ۔لوگ اس پر ستائشی نظریں ڈالتے آپس میں باتیں کر رہے تھے ۔ کوئی اس کے ساتھ سیلفی بنانا چاہ رہا تھا تو کوئی اس سے آٹوگراف لینا چاہتا تھا ۔مسکراتے ہوے اس نے کسی ،کسی سے مصافحہ بھی کیا کسی کے ساتھ سیلفی بنوائی اور کسی کو آٹوگراف بھی دیا ۔پھر جلد ہی وہ اس سب سے اکتا سا گیا ۔اس نے اپنے پی۔اے کو اشارہ کیا تو وہ فورا اس کے پاس ہوا اس نے بھیڑ ہونے کی وجہ سے قدرے اونچی آواز میں پی ۔اے سے یہ سارا ہنگامہ ختم کرنے کو بولا اور ہوڈی پہنے ایک دکان کی طرف بڑھ گیا ۔اسے اس ہنگامے کی اب تک عادت ہو چکی تھی ۔ پیچھے پی ۔اے کے حکم پر گارڈ اب لوگوں کو ہٹا رہے تھے ۔ وہ ہمیشہ میرب کی خریداری کے لئے خود آیا کرتا تھا اگرچہ فلمی دنیا میں کام بہت ہوتا ہے ایک پل کی بھی فرصت نہیں ہوتی مگر وہ اپنی بیٹی کے لئے ھر قسم کی فرصت نکال لیتا تھا خواہ اسے شوٹنگ ہی کیوں نا کینسل کرنی ہوتی ۔ وہ میر ازلان تھا ۔ بھر پور مردانہ وجاہت کا شاہکار ۔ جسے دنیا مشہورو معروف ایکٹر و ڈائریکٹر کے طور پر جانتی تھی ۔جس کی ایک جھلک صرف ایک جھلک کے لئے لڑکیاں پاگل ہو جاتی تھیں ۔ جس کے ساتھ کام کرنے کے لئے لوگ منتیں کرتے تھے ۔ حال ہی میں وہ ایک نئی فلم بنانے والا تھا اور اس کے لئے جب سے اس نے پریس کانفریس کی تھی اسی وقت سے جب بھی وہ کہیں جاتا لوگ ارد گرد جمع ہونا شروع ہو جاتے وجہ اس کا آنے والا نیا پروجیکٹ تھا اور اس مجمعے میں ایک بڑی تعداد لڑکیوں کی ہوتی تھی مگر وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا ۔پروجیکٹ شروع کرنے سے پہلے ہی ہیرو ،ہیروئن سے لے کر وارڈروب تک وہ چوز کر چکا تھا ۔اسے فلمی دنیا کا بے تاج اور مغرور بادشاہ کہا جاتا تھا تو کچھ غلط نا تھا وہ تھا بھی ایسا ہی اسے کنگ کہا جاتا تھا تو یہ بھی غلط نا تھا ۔ وہ انتیس سال کی عمر میں ہی فلمی دنیا میں اپنا اتنا نام اور مرتبہ بنا چکا تھا کہ اس سے سینئر ایکٹر اور ڈائریکٹر بھی اس کی شہرت کے گن گاتے پائے جاتے کسی کو اس کے ساتھ کام کرنا ہوتا کسی کو اس کی فلم کی وارڈروب ڈیزائن کرنا ہوتی تھی ۔لڑکیاں اس کی پہلی بیوی کی وفات کے بعد سے ہی اس کے آگے پیچھے گھومتی رھتی تھیں ۔ زیادہ پرانی بات نہیں تھی یہی کوئی چار سال پہلے ہی کی بات تھی جب اس نے اس فلمی دنیا میں قدم رکھا تھا اور اپنا پہلا پروجیکٹ شروع کیا تھا ۔شیزا نے اس پروجیکٹ کے لئے اس کی وارڈروب کو ڈیزائن کیا تھا گو کہ وہ بھی اس دنیا میں نئی آئی تھی اور اس کی بھی سٹارٹنگ ہی تھی ۔دونوں نے ایک ہی یونیورسٹی سے پڑھا تھا۔شیزا کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا ۔وہ فیشن اور ماڈلنگ کی دنیا میں آنا چاہتی تھی ۔ ازلان اسے پسند بھی کرتا تھا مگر پسند اور محبت میں فرق ہوتا ہے اس نے ہی میر ازلان کی طرف خود قدم بڑھائے تھے۔ میر ازلان کو وہ ھر لحاظ سے اپنے قابل لگی محبت پر اسے نا کبھی پہلے یقین تھا نا اب تھا اسے صرف ایک لائف پارٹنر چاہیے تھی ۔شیزا بھی خوش تھی تبھی اس نے خود ازلان کو پرپوز کر ڈالا ۔اور ازلان بھی بغیر کسی حجت کے مان گیا تھا اس کا تعلق اپر کلاس فیملی سے تھا جہاں یہ سب معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا ۔۔ شیزا نے اپنے گھر ازلان کے لئے بات بھی کی مگر گھر والوں نے انکار کر دیا ۔ازلان کی محبت میں پاگل شیزا راتوں رات اپنا گھر چھوڑ گئی ۔ شادی کے دو سال بعد شیزا امید سے ہوئی ۔ پیچھے پلٹ کر اس نے نہیں دیکھا تھا کیوں کے دیکھنے کو رہ ہی کیا گیا تھا ؟ ازلان اس کا خیال رکھتا تھا وہ اب بھی اسے پسند کرتا تھا مگر پسند کبھی محبت میں نا بدلی تھی ۔شیزا اس کا ساتھ پا کر خوش اور مطمئن تھی ۔پھر میرب کی پیدائش پر بی پی شوٹ ہو جانے پر وہ دنیا سے چلی گئی ۔ ازلان نے خود کو واپس فلمی دنیا میں مصروف کر لیا تھا ۔بچی سارا دن رفعت بیگم (ازلان کی والدہ) کے ساتھ رھتی تھی اور رات کو وہ ازلان کے ساتھ ہی سوتی تھی ۔ اس کا باپ اسد میر مرنے سے پہلے بہت جائیداد چھوڑ گیا تھا مگر اسے کبھی بزنس کا شوق نہیں رہا جب سے اس نے اس فلمی دنیا میں قدم رکھا تھا تب سے ہی میر اذان( اس کا چھوٹا بھائی) سارا بزنس سمبھالے ہوئے تھا ۔ اب کل میرب کی سالگرہ تھی اور وہ خود اس کے لئے گفٹ خریدنے آیا تھا ۔ساتھ ہی وہ اس موقع پر کافی ساری رقم این ۔جی ۔اوز کو بھی ڈونیٹ کرتا تھا اس کا کہنا تھا کہ کہ یہ رقم شیزا کے ایصال ثواب کے لئے ہے ۔وہ اس کی بیوی تھی اس کی بچی کی ماں ۔
وہ جہاں داخل ہوا تھا وہ ایک ٹوائے شاپ تھی ۔ ہوڈی اتار کر وہ ایک ریگ میں سجے مختلف کھلونوں کی طرف متوجہ ہوا ۔دو گارڈ ابھی بھی اس کے پیچھے تھے۔جس نے پیچھے پڑی ٹرولی میں خوبصورت کھلونے ڈالنے شروع کر دیے پہلے ریگ سے جب وہ ہٹا تو ٹرولی آدھی بھر چکی تھی ۔درمیان والے ریگ کی طرف جاتے ہوے جب وہ مڑنے لگا تو سامنے سے آتی لڑکی سے ٹکرا گیا ۔
"اندھی ہو کیا ؟"
وہ تیوری چڑھائے بولا ۔ عنایا جو اپنے دھیان میں آرہی تھی اس کے سخت لہجے پر بوکھلا گئی اس نے ابھی تک اسے نہیں دیکھا تھا مگر اپنا چکراتا سر سمبھال رہی تھی ۔(اللّه اکبر ۔۔!!!یہ انسان ہے یا پہاڑ ؟)۔پھر جب وہ بولا تو عنایا کو مزید غصہ آیا ۔یعنی حد ہے غلطی بھی اپنی اب بندہ خود بھی تو دیکھ لیتا ہے مگر نہیں ۔۔چل عنایا معافی مانگ اور جاں چھڑوا ۔
آئی ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
مقابل کو دیکھا تو باقی کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے ۔ اپنے اندر دھوڑتا خون اسے سرد پڑتا محسوس ہوا ۔پہلے تو وہ تہیہ کر چکی تھی کہ معافی مانگ کر جان چھڑوا لے گئی مگر اب وہ اسے بخشنے والی نہیں تھی ۔
"چلو میں تو ھوں اندھی تم تو اندھے نہیں تھے نا مسٹر "
وہ چبا چبا کر بولی ۔
"تمہے پتا نہیں ہے تم کس سے مخاطب ہو "
غرور تو میر ازلان کی رگ ، رگ میں بھرا ہوا ہے ۔اس نے نفرت سے سوچا ۔
"میں جاننا بھی نہیں چاہتی دو کوڑی کی اوقات نہیں ہے تمہاری ۔ گندے پیشے میں گوڈے گوڈے ڈوبا شخص مجھے کیا بتاے گا کہ وہ کون ہے ؟ اب ہٹو راستہ دو "
گارڈ آگے بڑھے مگر وہ ہاتھ کے اشارے سے انھے روک چکا تھا ۔ عنایا نے نفرت سے اسے دیکھ کر سر جھٹکا اور ٹرولی کھینچتے کاؤنٹر کی جانب بڑھ گئی ۔وہ ٹرولی کو وہیں چھوڑتا تن فن کرتا باہر نکل گیا اب تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ ایک لمحہ بھی وہاں رکتا ۔عنایا نے نفرت سے اس کی پیٹھ کو گھورا ۔
۔۔★★★★★★★★★★★★

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Mar 20, 2020 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

میری ہو جانا ✔Where stories live. Discover now