ملے ہوتم ہم کو بڑے نصیبوں سے
سائرہ غفار
قسط نمبر 01
اللہ اللہ کر کے آج میری اور آویزش کی منگنی کا کارخیر بخوبی سرانجام پاگیا۔ الحمداللہ. آویزش اور میں آپس میں کزن ہیں اور ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔اورد اس کے گھر والے میرے گھروالوں کو اور مجھے پسند کرتے تھے اور میرے گھر والے اسے اور اس کے گھر والوں کو پسند کرتے تھے۔شام کو ایک سادہ سی تقریب میں ہم دونوں کو ایک دوسرے کے نام سے منسوب کردیاگیا اور یہ شام میری زندگی کی سب سے خوبصورت شام تھی اس لئے میں نے ڈنر میں آویزش کے لئے ایک سرپرائز پلان کیا تھا۔ منگنی کی رسم کے بعدمیں اور آویزش میرے پلان کے حساب سے ڈنر کے لئے ایک خوبصورت سے ریسٹورنٹ پہنچ گئے وہاں ایک رومانوی سے انداز میں اس کو میں نے منگنی کا گفٹ دیا اور مزیدار سے ڈنر کے بعد اسے واپس گھر چھوڑ کر اب اپنے گھر واپس جارہاتھا۔ میں سرشاری کے عالم میں آویزش کو ہی سوچتا ہوا ڈرائیو کررہاتھا۔اس دن میں بہت خوش تھا۔اس وقت رات کا ایک بج رہاتھا۔ سڑک تقریباً سنسان تھی اکا دکا گاڑیاں سڑک پر دوڑ رہی تھی اور ٹریفک معمول سے بہت کم تھا۔جب میں نے ایک ٹرک کو تیز رفتاری سے اوور ٹیک کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے بروقت اپنی کرولا کو سائیڈ میں کر کے خود کو اور اپنی گاڑی کو بچا لیا لیکن آگے والی لال رنگ کی مہران خود کو نہیں بچا پائی اور ٹر ک تیزی سےلال مہران کو ٹکر مارتا ہوئی آگے نکل گیا۔میں پاؤں ایک دم بریک پر زور سے پڑا اورمیری گاڑی ایک جھٹکا کھاتی رک گئی۔ لال مہرا ن میرے سامنے سنسان سڑک پر کافی دیر تک بھنگڑا ڈانس کرتی کبھی ادھر جاتی کبھی ادھر جاتی پھر بالآخر وہ سگنل سے ٹکر ائی اور سگنل کا کھمبا توڑتی کئی تاروں میں الجھتی رک گئی۔ میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ میں صرف یہ سوچ رہاتھا کہ اگر میں بروقت اپنی گاڑی سائیڈ میں نہ کرتا تو اس وقت لال مہران کی جگہ میری گاڑی بھنگڑا ڈال رہی ہوتی۔ میں کشمکش میں مبتلا تھا کہ اتر کر دیکھوں یا نہ دیکھوں کہ اچانک لال مہران کی ٹوٹی کھڑکی سے ایک نازک سا ہاتھ برآمد ہوا۔خون میں لت پت وہ کوئی لڑکی تھی۔ میں فوراً گاڑی سے اترا اور مہران کی جانب دوڑا۔ اس وقت سڑک پر مہران کے علاوہ صر ف میں اور میری ہی گاڑی موجود تھے۔میں تیزی سے لال مہران تک پہنچا تو دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ لڑکی اسٹیرنگ پربے ہوش پڑی تھی۔ اس کا چہرہ سلکی بالوں سے ڈھکا ہواتھا۔ میں نے مہران کا فرنٹ ڈور کھولنے کی کوشش کی وہ بری طرح سے پچک چکاتھا اور اسے کھولنے کے لئے مجھے بہت زیادہ زور آزمائی کرنی پڑی تب کہیں جا کر میں اسے کھول پایا۔ دروازہ جیسے ہی کھلا ویسے ہی وہ ایک طرف لٹک گیا میں نے اسے تقریباً پھینکا اور لڑکی کو سیدھا کیا۔ ایک لمحے کو تو میں اسے دیکھ کر مبہوت سا ہوگیا۔ وہ بلاکی حسین تھی۔حالانکہ اس وقت مجھے یہ سوچنا نہیں چاہئے تھا لیکن چونکہ انسان اپنی سوچ پر اختیار نہیں رکھتا اس لئے میں بھی اس وقت اس کی خوبصورتی کے متعلق سوچنے سے خود کو روک نہیں پارہا تھا۔میں نے اس کا سیٹ بیلٹ کھولا اس کے پرفیوم کی مہک پوری مہران میں بکھری ہوئی تھی۔میں نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا اوردوڑتا ہوا اپنی گاڑی تک آیا۔ بڑی مشکل سے میں نے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر اسے اندر لٹایا اور جلدی سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔میں بہت تیز رفتاری سے گاڑی چلارہاتھا گاہے بگاہے پچھلی سیٹ ر بے ہوش پڑی لڑکی کو بھی دیکھے جارہاتھا۔میں جلد ہی اسپتال پہنچ گیا اور اسے ایمرجنسی وارڈ میں داخل کروایا۔ اسی لمحے میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔
میں نے دیکھے بغیر موبائل فون کان سے لگالیا۔
"جی......"
"گھر پہنچ گئے آپ؟"آویزش کی دلکش آواز مجھے حقیقت کی دنیا میں کھینچ لائی۔میں ایک گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔
"نہیں ......ابھی نہیں پہنچا......"
"کیوں؟خیریت؟"آویزش کے لہجے کی فکرمندی میں محسوس کررہاتھا۔
"آویزے......میں اسپتال میں ہوں ......"
"یااللہ خیر......کیا ہوا ہے آپ کو؟کون سے ہاسپٹل میں ہیں؟ہم لوگ ابھی آتے ہیں ......"مجھے ایسا لگا جیسے آویزش نے پیروں میں جوتے پہن لئے اور کمرے سے باہر نکل آئی ہو۔میں اسے روکنا چاہتا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں میرے منہ سے اسپتال کا نام نکل گیا۔
تھوڑی دیر بعد میرے پاپا اور مما(وقار انصاری اور ماہتاب وقار انصاری)آویزش اور اس کے ڈیڈ اور امی(مجتبیٰ انصاری اور کائنات مجتبیٰ انصاری) تیزی سے آتے دکھائی دئیے۔ میرے خون میں لت پت کپڑے دیکھ کر سب لوگ ایک دم سے پریشان ہوگئے۔ لیکن جب میں نے ان سب کو تفصیل سے آگاہ کیا تو ان سب کی جان میں جان آئی۔اور اس سب کے دوران جو سب سے اہم بات میرے ذہن میں ایک بار بھی نہیں آئی وہ سوال پاپا نے مجھ سے پوچھا۔
"بیٹا یہ لڑکی ہے کون؟"
میں نے حیرت سے پاپا کو دیکھا پھر سوچ میں پڑ گیا اور پھر کندھے اچکا دئیے:"مجھے معلوم نہیں ......"
"کیا اس کے پاس کوئی بیگ یا موبائل فون وغیرہ نہیں تھا؟"یہ آویزش کے ڈیڈ مجتبیٰ انصاری کا سوال تھا۔
"میں نے اسے گاڑی سے نکالا تھا شاید گاڑی میں ہوگا سارا سامان......میں نے توجہ ہی نہیں دی......"مجھے اپنی بے وقوفی کا اندازہ ہوا۔
"جوان جہان بچی ہے اس کے گھر والوں کو کیسے بتائیں گے؟"میری مما نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا تو میں بھی اس بارے میں سوچنے لگا۔
"کیوں نہ ہم ایکسیڈنٹ والی جگہ جائیں اور اس کی گاڑی میں سے اس کا کوئی سراغ ڈھونڈ نکالیں؟"آویزش نے بہت سمجھداری کی بات کی۔ میری آنکھوں میں بھی چمک لوٹ آئی۔
میں مجتبیٰ انکل اور آویزش کے ساتھ ایکسیڈنٹ والی جگہ پہنچا۔وہاں پہنچ کر مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کیونکہ وہاں گاڑی نہیں تھی۔ٹریفک لائٹس کا کھمبا ٹوٹا پڑا تھا۔ تاریں سڑک پہ اس جگہ بکھری ہوئی تھیں۔کچھ چھینٹے خون کے تھے۔ شیشے بکھرے ہوئے تھے لیکن کوئی لمبا ہاتھ مار گیاتھا اور گاڑی بمعہ ساز وسامان لے اڑا تھا۔ہماری رہی سہی امید ختم ہو گئی۔
اسی وقت مجتبیٰ انکل کا موبائل فون بجا اور انہوں نے ہوں ہاں میں بات کر کے ہم دونوں کو فوراً گاڑی میں بیٹھنے کو کہا۔ہم سمجھ گئے کہ کوئی گڑبڑ ہے۔ہم فوراً اسپتال واپس پہنچے تو میرے سر پر کیسے کسی نے بم پھاڑ دیاتھا۔وہ لڑکی کومہ میں چلی گئی تھی اور ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ اس کے کومہ سے باہر آنے کے متعلق کوئی حتمی بات کہی نہیں جاسکتی۔ میں اپنا سر پکڑتا بیٹھتا چلاگیا۔
YOU ARE READING
Milay Ho tum hum ko Baray Naseebon ko By Saira Ghaffar
RomanceMilay Ho tum hum ko Baray Naseebon ko By Saira Ghaffar Complete Online Urdu Novel A romantic novel Love story