"امید" (قسط نمبر 25)

190 14 10
                                    

ہر طرف جیسے خوشی کا سماں تھا۔آج انزلنا اور ابراہیم کا نکاح تھا۔سب لوگ تقریباً تیار ہوچکے تھے۔نکاح جمعہ کی نماز کے بعد تھا مرد حضرات بھی نماز ادا کرکے آچکے تھے اور خواتین بھی نماز ادا کرکے تیار ہوچکی تھیں البتہ لڑکیوں کی تیاریاں کچھ نامکمل تھیں۔
”جلدی تیار ہوجاٶ سب۔اور انزلنا تم کیوں اتنا پرسکون بیٹھی ہو؟انابیہ اسکا دوپٹہ سیٹ کرو جلدی۔اور صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں تم نے۔“ زَہرہ نے انزلنا کو بےفکری سے موباٸل چلاتے دیکھ کر غصے سے کہا پھر فروٹ پلیٹ میں رکھ کر انزلنا کو تھماۓ خود باہر آگٸ۔
                             لاٸٹ براٶن کلر کی فل میکسی کے ساتھ ہم رنگ اسکارف میں نقاب کیے وہ بہت صوبر سی لگ رہی تھی۔
مومنہ صاحبہ اور معیز صاحب ابھی ابھی پہنچے تھے تو وہ نیچے لاٶنج میں ان سے ملنے چلی گٸ۔ آج صبح ہی ارسلان ار سمیرا کینیڈا سے پاکستان پہنچے تھے۔
-------------
نکاح کا وقت ہوا تو انزلنا کو لاٶنج میں لا کر بٹھایا گیا۔
”انزلنا بنت مزمل آپ کا نکاح ابراہیم ابن احمد سے سکہ رجل وقت دس لاکھ روپے آپ کے نکاح میں دیا جاتا ہے۔ کیا آپ نے قبول کیا؟۔“
اور انزلنا کو لگا کسی نے پورا پہاڑ اسکے سر پر پھینک دیا ہو۔اسکا تصور اسکا فہم و گمان  بھی نہ تھا۔صبح سے جو آنکھیں پتھر ہوچکی تھی اب وہی آنکھیں تیزی سے آنسو بہارہی تھیں۔وہ بری طرح کپکپانے لگی۔زَہرہ،صالحہ، عنزہ،انابیہ،حنا بیگم ہر فرد اسکے انداز پہ محظوظ ہوا تھا۔بہت دھیمی سی آواز میں اس نے قبول ہے کہا تو سب مسکرادیے۔آنسو متواتر بہہ رہے تھے۔دستخط کرتے وقت وہ جیسے ٹرانس میں تھی۔وہ اللہ سے کا کہتی اسے الفاظ ہی نہیں مل رہے تھے۔مرد حضرات باہر گۓ تو یکدم لاٶنج میں ملی جلی آوازیں گونجیں۔
”سرپراٸز مسز ابراہیم احمد“ سب کی آواز پر چونک کر اس نے سر اٹھایا اور اگلے لمحے  زَہرہ صالحہ سارہ عنزہ انابیہ اسکے گلے لگ گٸیں۔اسکے آنسوٶں میں مزیدروانی آگٸ۔
اگلے دس منٹ یہی سب جاری رہا
”بس کرو لڑکی ابھی دولہے صاحب پہنچنے والے ہوں گے اور یہ ڈراٶنی صورت لے کر جاٶگی سامنے؟“ صالحہ نے بتیسی دکھاتے ہوۓ جملہ کسا اور فضا میں سب کی ہنسی شامل ہوٸ۔ رونے کے باعث آنکھوں کا کاجل بری طرح خراب ہوا تھا اور بہت دیر سے رونے کے باعث چہرہ ہلکا ہلکا سرخ ہوگیا تھا۔
”اچھ اچھا اب بس بھی کرو باقی سب سے تو مل لو۔۔۔اور ہاں اپنی ساس سے نہیں ملیں تم بدتمیز لڑکی۔انابیہ نے مسکرا کر آخری جملہ سرگوشی میں کہا تو وہ سب ہںس دیں۔ پھر وہ آنسو صاف کرکے ود اٹ کر مومنہ سے گلے ملی اور وہ بھی بہت پیار سے اس سے ملیں اسے دوبارہ رونا آنے لگا تھا۔
”کیا آپ بھی اس پلان میں شامل تھیں؟“  منمنہ کے برابر بیٹھے ہوۓ اس نے پہلی دفعہ کوٸ بات کی سب اسکے سوال پہ مسکرا دیے۔
”ہاں میرا بچہ! کیوں تمہیں پسند نہیں آیا سرپراٸز؟“ مومنہ نے بھی اسکے تاثرات دیکھتے ہوۓ تھوڑا پریشان لہجے میں پوچھا تو وہ سرجھکا گٸ۔ سب اس سے مل کر دعاٸیں دیتے رہے۔
”زَہرہ  صالحہ، انزلنا کو کمرے میں لے جاٶ فریش ہوجاۓ یہ۔“ حنا نے کہا تو وہ دونوں فرمانبرداری سے اٹھ کر اس ساتھ لے گٸیں۔
-------------------
”سچ سچ بتاٶ مجھے کون کون شامل تھا اس سرپراٸز پلان میں۔“کمرے کا دروازہ بند کرتے ہی اس نے دوپٹہ ایک جگہ پٹخا  اور ان دونوں کو وارن کرنے والی نظروں سے دکھ کر پوچھا۔ وہ دونوں  بہت زیادہ ہنسیں۔۔
”اولڈ انزلنا از بیک!“ صالحہ نے ہنسی کے درمیان کہا۔ انزلنا نے اسے گھورا۔
ّیہ لگ رہی ہے کہیں سے کہ ابھی اس کا نکاح ہوا ہے۔“ صالحہ نے اسکے انداز دیکھتے ہوۓ سر جھٹک کر افسوس سے کہا اور بیڈ پر بیٹھ گٸ۔انزلنا نے اسے گھورا
”دیکھو انزو میں نے کہا تھا ناں تمہیں وہ ملنے جارہا ہے جس کی تم نے چاہ کی تھی تمہارا امتحان اتنا ہی تھا۔دیکھو تم نے دعا کی اور اللہ نے قبول کرلی۔۔۔آج تم ابراہیم کے بنکاح میں ہو! بہت بہت مبارک ہو“ زَہرہ بہت دھمیے لہجے میں کہتی اسے سب یاد دلارہی تھی لیکن اسے اسکے بعد والی بات بھی بہت اچھی طرح یاد تھی۔زَہہ گرم جوشی سے اسکے گلے لگی تو وہ بھی مسکرادی۔پھر کچھ دیر بعد وہ تینوں گول داٸرے کی صورت میں بیٹھ گٸیں۔
ح””ابراہیم کاتھا یہ پلان ۔اس نے ہی کہا سب کو منع کیا تھا۔اور پورے ایک مہینے تمہاری جو حالت تھی ناں اس سے ہم سب نے بہت مزے لیے۔“ صالحہ نے ہنستے ہوۓ بتاکر ایک تھپڑ اسکے گال پہ جمادیا۔ابھی وہ کچھ ردعمل کرتی لیکن عنزہ بھی کمرے میں آگٸ۔
”ہاۓ انزو! تمہاری تو شکل دیکھنے والی تھی۔ نکاح کے وقت ابراہیم کا نام سن کر جو تمہاری حالت تھی اسے دیکھ کر ہم سب کے لیے ہنسی قابو کرنا مشکل ہورہا تھا۔“ عنزہ نے بھی خوب مزچیں لگا کر کہا تو زَہر اور صالحہ ہنسیں اور انزلنا نے اسے بےزاری سے دیکھا۔
”میں نے تو ویڈیو بھی بناٸ ہے ساتھ مل کر دیکھیں گے اپنے نکاح میں کیسے رورہی تھی یہ۔“ صالحہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا ار تینوں ساتھ ہنس دیں۔
”اچھا اب جاٶ باقی بکواس بعد میں کرلینا ابھی جاٶ میں تھوڑا فریش  ہوجاٶں۔“ انزلنا نے کھڑے ہوتے ہوۓ جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔لیکن پھر دیر ہوجانے کے ڈر سے عنزہ صالحہ باہر چلی گٸیں۔
”زَہرہ میں جب تک نفل ادا کرلوں تم یہیں بیٹھ جاٶ۔“ انزلنا نے کہا تو وہ سر اثبات میں ہلاکر واپس بیٹھ گٸ۔
وہ وضو کرکے آٸ شکرانے کے نفل ادا کیے۔پھر وہیں بیٹھی رہی۔شکر ادا کرنے کے لیے الفاظ ہی نہیں تھے اسکے پاس۔اللہ نے اُسے ہمیشہ بہترین ہی نوازا تھا تو اب کیسے مایوس کردیتا۔
بہت دیر تک وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ روتی رہی۔زَہرہ بغور اسے دیکھتی رہی۔وہ انزلنا کے لیے بہت زیادہ خوش تھی اور اس ایک مہینے کے عرصے میں انزلنا بھی بہت بدل گٸ تھی۔وہ جاۓنماز طے کرکے اٹھی تو زَہرہ نے نرم مسکراہٹ سے اسے دیکھا پھر اسکا دوپٹہ سیٹ کرکے تیار کرکے دوبارہ نیچے لاٶنج میں لے آٸ۔مرد حضرات بھی واپس آچکے تھے۔دونوں طرف سے ایک نۓ رشتے کی مضبوط ڈور بندھ گٸ تھی۔انزلنا اب بہت پرسکون محسوس کررہی تھی۔زَہرہ نے نقاب کو ایک دفعہ پھر سیٹ کیا اور باقی لڑکیوں کے پاس چلی گٸ۔انزلنا مومنہ اور حنا کے ساتھ بیٹھی تھی۔احمد صاحب نے انزلنا سر پر شففت سے ہاتھ پھیرا اور ڈھیروں دعاٸیں دیں۔اس نے آج احمد صاحب کو پہلی دفعہ دیکھا تھا اور اسے یقین آگیا تھا ابراہیم اپنے والد سے بہت مختلف تھا لیکن صورت میں دونوں ملتے جلتے تھے۔
کچھ وقت گزرا اور ابراہیم بھی وہاں پہنچا تو مبارک باد کا ایک طویل دورہ شروع ہوا۔اسے انزلنا کے ہمراہ بٹھایا گیا تو اسکی ایک بیٹ مس ہوٸ تھی اور انزلنا کا دل ویسے ہی اتھل پتھل ہونے لگا تھا۔وہ چاہ ک بھی اپنی کپکپاہٹ قابو نہیں کرپارہی تھی۔سب نے ان دونوں کو ڈھیروں دعاٸیں دیں۔ابراہیم آج بےحد خوش تھا اسکی خوشی کا کوٸ ٹھکانہ نہیں تھا۔انزلنا اب اسکے نکاح میں تھی وہ جیت چکا تھا۔اب وہ انزلنا ابراہیم احمد تھی۔
حذیفہ بھی سب سے مل کر سارہ کے ساتھ بیٹھ گیا جس پر وہ مسکرای۔زَہرہ جو کچھ دیر پہلے مرد حضرات کے آجانے کی وجہ سے مومنہ کے برابر میں بیٹھ گٸ تھی۔سب ہی گھر کے لوگ تھے لیکن وہ کچھ خاموش تھی اپنی سوچ میں گم تھی۔
”اسلام و علیکم بیوٹیفل لیڈیز!“ زکریا نے ایک دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ سب کو سلام کیا اور زَہرہ نے نظریں اٹھا کر اسکی جانب دیکھا۔
ڈارک براٶن کلر کے کُرتا شلوار  میں وہ بےحد وجیہہ لگ رہا تھا۔۔۔بےحد وبصورت۔۔۔اُسے حق ہوتا تو وہ اپنی نظریں محض زکریا پہ ہی ٹہراۓ رکھتی۔۔۔ لیکن پھر یکدم وہ نظریں چراگٸ۔وہ اُسکی نظریں خود پر محسوس کرچکا تھا لیکن سب کی طرف دھیان دیتے ہوۓ اُس نے ظاہر کیا تھا جیسے وہ اس سے لاتعلق ہے۔۔۔جیسے وہ وہاں موجود ہی نہیں۔اسکے اس انداز نے زَہرہ کو تکلیف ضرور دی تھی لیکن اب تو وہ عادی ہوچکی تھی۔
وہ مومنہ کے دوسری طرف جم کے بیٹھ گیا۔اور سامنے بیٹھے احمد صاحب اپنے چاچو سے باتوں میں مگن ہوگیا۔زکریا نے اسے دیکھا تک نہیں تھا۔
وہ اٹھ کر جانے لگی تو مومنہ نے اسے ہاتھ پکڑ کر روکا۔
”بیٹھ جاٶ بیٹا یہ تمہیں کھا نہیں جاۓ گا۔“ مومنہ نے ہنستے ہوۓ کہا۔وہ اسکی آنکھوں سے الجھن بھانپ چکی تھیں۔ان کی بات پر زَہرہ نے فوراً پریشان ہوتے ہوۓ اسکی جانب دیکھا تو وہ بھی اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔وہ بمشکل مسکراتے ہوۓ اسے نظرانداز کرکے بیٹھ گٸ۔پھر دھیان بٹانے کے لیے سارہ اور حذیفہ سے باتیں کرنے لگی۔
-------------------
سہہ پہر کا وفت قریب تھا جب سب کو کھانے کے لیے بلایا گیا۔ باہر لان میں آجکے کھانے کا اہتمام ہوا تھا۔سرد موسم اور ہلکی ہلکی دھوپ میں سب خوش گپیوں میں مصروف کھانا کھانے لگے۔
وہ مزمل صاحب کے داٸیں جانب اور انزلنا باٸیں جانب بیٹھی تھی اور انزلنا کے بابر میں ابراہیم تھا۔اذان سب سے آخر میں ٹیبل پر پہنچا تو  اسے اتفاقاً زَہرہ کے سامنے والی نشست ملی سب اپنی اپنی باتوں میں مصروف تھے۔اسکی نظر اچانک زَہر کے ہاتھ پر ٹہری۔مسکراہٹ نے اسکے ہونٹوں کا احاطہ کیا۔زَہرہ نے اسکی گفٹ کی ہوٸ رِنگ پہنی تھی۔وہ مسرور ہوا تھا۔پھر وہ مسکراہٹ دباۓ  کھا کم رہا تھا اور خوش زیادہ تھا۔ ثاقب اسامہ اور زکریا ساتھ بیٹھے تھے اور اب ثاقب اور اسامہ دنیا جہاں کی باتیں کرکر کے اسکا دماغ خراب کررہے تھے اور وہ بےچارگی سے چپ چپ سر ہلاتا کھانا کھاتے ہوۓ سب کچھ سن کر ہاں ہوں میں سر ہلارہا تھا۔زَہرہ نے مسکرا کر سر جھٹکتے ہوۓ کھانے پر توجہ دی۔اس نے اذان کو نہیں دیکھا تھا اور اسکے برابر میں عنزہ اور صالحہ بیٹھی تھیں۔
” کیا کھاٶگی؟“ ابراہیم نے مسکراتے ہوۓ  اسے دیکھ کر پوچھا۔
”تمہارا سر !“انزلنا نے دماغ میں گرم ہوتے لاوے کو روکنے کی کوشش کرتے ہوۓ اتنا ہی کہا۔
ابراہیم نے اسکے جواب بپر ہونٹ بھینچے وہ اپنی ہنسی قابو نہیں کرپارہا تھا۔
”یہ اپنی فیورٹ ڈش پھر کبھی کھالینا ابھی  انسانوں والی ڈش بتاٶ۔“ ابراہیم نے مسکراتے ہوۓ اسکے کان کے قریب سرگوشی کی تو وہ تپ اٹھی۔
”لیکن مجھے تو آپکا سر کھانا ہے ماۓ ڈیٸر ہزبینڈ۔“ انزلنا نے آنکھیں پٹپٹاتے بڑی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھ کر کہا۔اب کی دفعہ وہ اسکے جملے اور بڑی بڑی آنکھوں کو دیکھ کر اپنی ہنسی قابو نہیں کرسکا او سر جھٹک کر ہنس دیا۔انزلنا نے اسکے انداز  پر امڈ آنے والی مسکراہٹ کو بشکل روکا۔
”افف انزلنا! اتنے پیار سے تو نہیں کہو۔ویسے ہی اتنی حسین لگ رہی ہو۔“ ابراہیم نے ہنستے ہوۓمحبت نچھاور لہجے میں کہا تو و سرجھکا گٸ۔وہ ایسا بھی تھا وہ اسکا یہ والا ساٸیڈ جانتی نہیں تھی۔
”زیادہ مکھن لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔کھانا کھاٶ۔“ انزلنا نے اسے تپانے کے لیے کہا۔
”دیکھ لیں گے کون کس کو آزماتا ہے۔“ ابراہیم نے گہری نظروں سے اسے جتا کر کہا تو انزلنا نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا۔
”اچھا اب بس کرو بعد میں جی بھر کے دیکھ لینا اوکے مسز ابراہیم۔“ ابراہیم نے اسکا گال کھینچتے ہوۓ کہا تو انزلنا نےشرم سے سر جھکاتے ہوۓ اسے کہُنی ماری وہ اسکی حرکت پہ مسکرادیا۔
صرف ہاتھ تھام لینا کافی نہیں ہوتا
محبت کے دو بول کہہ دینا کافی نہیں ہوتا
جو وعدے کیے ہوں،نبھانا ہوتا ہے انھیں
صرف زبان سے کہہ دینا کافی نہیں ہوتا
جس سے ہو محبت،اسے رکھ لو سفرِ حیات میں
بس اقرار کردینا کافی نہیں ہوتا
جن سے ہو محبت رہتی ہے لبوں پہ انکے لیے دعا
صرف دیکھ لینا کافی نہیں ہوتا
جو دعوے کریں زندگی بھر ساتھ چلنے کے
انکے بغیر قدم اٹھانا بھی آسان نہیں ہوتا
جو توڑے بھروسہ کوٸ جان سے بھی پیارا
صرف معافی مانگ لینا کافی نہیں ہوتا
صرف ہاتھ تھام لینا کافی نہیں ہوتا
---------------
کھانا کھانےکے بعد سب لوگ اپنی اپنی باتوں میں مگن تھے۔کچھ دیر کے بعد واپسی کا ارادہ ہوا تو سب لوگ بخوشی خدا حافظ کرکے گۓ۔سکینہ آپا اور باقی بوکر چاکر دعوت کے عد کا پھیلاوا سمیٹنے لگے۔زَہرہ بھی تھوڑا کام سمٹواکر عصر ک نماز ادا کرنے اپنے کمرے میں چلی گٸ۔
وہ نماز ادا کرکے کمرے سے باہر آٸ تو سکینہ آپا نے مزمل صاحب کے بلاوے کا پیغام پہنچایا تو وہ اسکارف دوبارہ باندھ کر نیچے لان میں چلی گٸ۔
دادو، باباجان امی جان، انزلنا اور اسامہ وہاں بیٹھے باتیں کررہے تھے۔وہ بھی مزمل صاحب اور دادو کے درمیان والی کرسی پر بیٹھ گٸ۔
”تو بچہ کیسا لگا تمہیں سرپراٸز؟“ مزمل صاحب نے مسکراتے ہوۓ پوچھا تو انزلنا مسکراتے ہوۓ انکے گلے لگ گٸ باقی سب بھی مسکرادیے۔
”بابا جان۔یہ محترمہ تو یہ بھی بھول گٸ تھیں کہ ان کی ساس بھی وہاں موجود ہیں وہ تو ہم سب نے یاد دلایا تو یاد آیا۔“ زَہرہ نے کچھ گھنٹے پہلے کا واقعہ بتایا اور کہتے وقت ہنسی اس کے لبوں پہ رینگ رہی تھی۔سب ہنس دیے تو انزلنا نے اسے گھورا۔
”ویسے انزلنا تمہارے لیے سب نے بہت اچھی اداکاری کی ہے۔“ اسامہ نے مسکراتے ہوۓ جتایا  تو وہ مسکراٸ
”ہاں واقعی۔“ اس نے فخر سے کہا۔
”تم خود ہی تو اتنی بڑی اداکارہ ہو۔“  اسامہ نے پرسکون انداز میں کہہ کر چاۓ کا گھونٹ بھرا پہلے تو وہ مسکراٸ لیکن بھر عزت افزاٸ ہونے پر اسکا دل چاہا اسامہ کا سر پھاڑ دے لیکن سب کا لحاظ کرتے ہوۓ گھورتی رہی تو سب ہنس دیے۔
”کہاں رہ گیا تھا میرا بچہ۔“ اذان کو وہاں آتے دیکھ کر  دادو نے پیار بھرے لہجے میں پوچھا وہ مسکراتا ہوا انکے برابر میں کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
”نماز پڑھ کے عابی کے پاس چلاگیا تھا۔پھر ایک ضروری کال آرہی تھی تو میں آگیا ثاقب وہیں ہے تھوڑی دیر میں آجاۓ گا۔“ اسنے تفصیلاً بتاتے ہوۓ سر جھکاۓ دو انگلیوں سے کنپٹی کو دبایا۔
کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں پھر مغرب کا وقت ہوا تو ہوا کی میں خنکی میں اضافہ ہوگیا۔محفل برخاست  ہوٸ اور سب نے لاٶنج کا رخ کیا۔وہ بھی اسامہ کے پیچھے پیچھے اٹھ گیا۔جاتے وقت اسکی نظر زَہرہ پہ بھی پڑی لیکن وہ کسی سوچ میں گم تھی پھر کچھ سوچ کر وہ ٹہرا نہیں خاموشی سے باہر چلاگیا۔
زَہرہ سے کوٸ بات نہیں ہوٸ تھی اور اکثر یہی ہوا کرتا تھا وہ کہیں مصروف ہوتی اور وہ بھی اپنے معاملات میں الجھا رہتا تھا۔
لیکن وہ اس بات کا بالکل برا نہیں منارہا تھا۔اور زَہرہ نے بھی محسوس کیا تھا کہ کال والی بات پہ وہ ناچاہتے ہوۓ بھی مسکرایا تھا ورنہ لہجے میں کچھ الجھن واضح تھی۔ لیکن وہ اسے اپنا وہم سمجھ کر سوچوں کو جھٹکتے ہوۓ اندر لاٶنج میں چلی گٸ۔
-------------------
سہج سہج کر قدم اٹھاتے چلتی وہ اپنے بھاری کامدار سرخ خوبصورت جوڑے میں دلکش لگ رہی تھی۔اپنی بہن اور کزنس کے ہمراہ چلتی وہ اسٹیج تک پہنچی تو ابرہیم نے ہاتھ بڑھا کر اسکا ہاتھ تھاما۔کالے رنگ کی شیروانی میں وہ بھی جچ رہا تھا۔دونوں اب ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے بیٹھے تھے۔کپل کو دیکھتے ہوٸ چہ مہ گوٸیاں شروع ہوٸیں۔کسی نے بلاٸیں لیں تو کسی نے تصویروں میں منظر کو قید کرنے کی کوشش کی۔
صالحہ سارہ عنزہ انابیہ نے ایک جیسے جوڑے پہنے تھے۔کامدار قمیص کے ساتھ گھیر والے غرارے رنگوں میں فرق تھا۔لیکن ہمیشہ کی طرح عنزہ انابیہ کو مشرقی لباس سنبھالنے میں مشکل پیش آرہی تھی چونکہ دونوں کی ضد تھی اسلیے گھر کا ہر فرد انھیں الجھے دیکھ کر مسکرا اٹھتا۔ انابیہ نے دوپٹہ نہیں لیا تھا لیکن عنزہ نے جب یقین دلایا کہ وہ گھیر والے غرارے کے ساتھ ساتھ نگوں سے بھرا کامدار دوپٹہ بھی سنبھال لے گی تو زَہرہ اور صالحہ نے اسکے دوپٹہ سیٹ کردیا۔
اور اب وہ بڑی مشقت سے گزر رہی تھی۔گھر کے سب لوگ اسے اتنی مشقت میں دیکھ کر ہنس دیتے البتہ یوسف نے اسکا بہت ریکارڈ لگایا تھا۔
زَہرہ، مزمل صاحب اور حنا بیگم کے ساتھ مہمانوں کو ریسیو کرنے میں مصروف تھی۔
آج اس نے میٹ ریڈ کلر کی گھیر والی فل میکسی کے ساتھ سفید امتزاج کے اسکارف سے نقاب کیا تھا۔
ناجانے کتنی دیر سے وہ ہیلز پہنے وہاں کھڑی تھی اور اب کھڑے کھڑے پاٶں جواب دینے لگے تھے۔
تھوڑی دیر بعد وہ تھک کر ایک کرسی پر بیٹھ گٸ۔باکل سامنے ہی اسٹیج پر سب کزنس ابراہیم اور انزلنا کے گرد موجود تھے۔وہ یونہی موباٸل چیک کرنے لگی۔
  ”جس مصور کی نہیں بکتی کوٸ تصویر
   تیری تصوری  بناۓ گا تو چھا جاۓ گا۔“
کانوں سے آواز ٹکرانے پر زَہرہ نے چہرہ اٹھا کر دیکھا۔ اسامہ اور اذان ساتھ ہی کھڑے تھے۔ اامہ اسے دیکھ کر مسکرایا جبکہ اذان کی توجہ موباٸل پہ ہی تھی۔
”اذان کیسا لگا  شعر؟“ اسامہ نے داد طلب نظروں سے دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
”یہ شعر مجھے کہنا چاہیے تھا!۔“ اذان نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور اگلے لمحے اسے کسی احساس نے گھیرا تو اس نے موباٸل پر سے نظریں ہٹا کر سامنے دیکھا۔زَہرہ کی توجہ ان دونوں کی طرف تھی اور اب وہ اسکے جواب پر دوبارہ اسٹیج کی طرف رخ موڑ کر بیٹھ گٸ تھی۔ اس نے اسے کافی دیر پہلے سرسری دیکھا  تھا اور اب اسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ کچھ فاصلے پر وہ بیٹھی ہے اس نے یونہی اپنی دھن میں جواب دے دیا تھا اور اب اذان کو شدید خفت محسوس ہوٸ۔
وہ زَہرہ سے ذرا بھی بےتکلفی نہیں کرتا تھا۔اسے محسوس ہوا جیسے زَہرہ کو ایسی بات ناگوار گزری۔
”سوری!۔“ اگلے ہی لمحے اذان میں تھوڑی تیز آواز میں کہا کہ وہ اسے ہی سنانا چاہ رہا تھا۔زَہرہ نے دوبارہ مڑ کر اسکی طرف دیکھا تو وہ اسامہ کی طرف دیکھنا لگا۔وہ کچھ کہے بغیر موباٸل پہ کچھ ٹاٸپ کرنے لگی۔
”کوٸ بات نہیں  یار جھوٹ تھوڑی نہ کہا تم نے۔اب دل کی بات  زبان پہ کبھی نہ کبھی آ ہی جاتی ہے۔“ اسامہ نے بلند آواز میں نام کی سرگوشی کی اور جو اس نے کہا وہ اذان کو آگ لگا دینے کے لیے کافی تھا۔اس نے فوراً زَہرہ کی طرف دیکھا۔وہ سن چکی تھی شاید۔۔۔اذان کو ایسا محسوس ہوا۔
”کیا تم دفعہ ہوسکتے ہو یا پھر میں چلا جاٶں؟“ اذان نے دانت پیستے ہوۓ بہت تحمل سے کہا۔ اسامہ نے اسے بتیسی دکھاٸ۔ ناجانے اللہ نے اسے اتنا شاطر بھاٸ کیوں دیا تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
”جارہا ہوں اتنا غصہ کس بات کا؟“ اسام نے ناک پر سے مکھی اڑانے والے انداز میں کہا اور اسٹیج کی طرف بڑھ گیا۔
اذان اسکی کرسی کے سامنے فاصلے پر رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔نظروں کا رخ اسٹیج کی طرف تھا۔زَہرہ نے نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا پھر دوبارہ موباٸل میں مصروف ہوگٸ۔
”ریٸلی سوری! وہ س اسامہ جان بوجھ کر ایسی باتیں کرجاتا ہے میرا دھیان نہیں تھا اور۔۔۔۔۔“ اس نے شرمدنگی کی وجہ سے سر جھکاۓ کہا۔وہ مسکراٸ
”اٹس اوکے۔اسامہ کی نیچر کا تو معلوم ہے۔“ اس نے تسلی دی تو وہ پرسکون ہوا۔کچھ دیر خاموشی رہی۔
”رِنگ کیسی لگی آپکو؟ مجھے آپکی چواٸس کا زیادہ معلوم نہیں ہے بس جو زیادہاچھی لگی وہ لے آیا۔“ اذان ن ٹہر ٹہر کر کہتے ہوۓ پوچھا۔
وہ مسکراٸ لیکن نقاب کی وجہ سے واضح نہ ہوسکا۔وہ اتنی صفاٸیاں پیش کرتے ہوۓ ہر بات کا کہہ رہا تھا۔
”اچھی ہے۔دادو نے جب دی تھی میں نے تب ہی پہن لی تھی۔آپکی چواٸس اچھی ہے۔“  زَہرہ نے انگوٹھی کو انگلی کے گرد گھماتے ہوۓ کہا۔ وہ مسکرایا۔
”کس کی بات کررہی ہیں آپ؟!“ اذان نے پوچھا تو اس نے ناسمجھے سے اسے دیکھا۔وہ مسکراتا ہوا سر جھٹکتے اٹھ کھڑا ہوا۔اسکی مسکراہٹ بلاشبہ بہت دلکش تھی۔ زَہرہ نے یکدم سر جھٹک دیا۔وہ اسکی بات سمجھ گٸ تھی۔ دوبارو موباٸل پر کچھ ٹاٸپ کرنےلگی۔
”میں اب تک بہت خوش ہوں۔اللہ نے چاہا تو آگے باقی سب بھی بہت اچھا ہوگا۔مجھے آپکا تاثر معلوم نہیں۔اگر زندگی میں کبھی بھی آپکو کوٸ پریشانی کوٸ سوال کوٸ بات بتانا ہو آپ مجھ سے کہہ سکتی ہیں۔ میں پرفیکٹ نہیں ہوں۔لیکن میں خود کو سنوارنے کی کوشش میں ہوں۔“ وہ ٹہر ٹہر کر کہتے ہوۓ اسٹیج کی طرف دیکھ کر ساری بات کہہ گیا۔ ٹاٸپ کرتے ہوۓ اسکے ہاتھ اب رک گۓ تھے۔وہ سب خاموشی سے سنتی رہی۔
اُسے ایک فیصد بھی اندازہ نہیں تھا وہ اتنا مخلص ہے۔اسے اپنی سماعتوں پہ آہستہ آہستہ یقین آرہا تھا۔زَہرہ نے وہیں بیٹھے بیٹھے مڑ کر دیکھا۔ وہ جاچکا تھا۔وہ بہت دیر تک اسکے الفاظ سوچتی رہی۔ پہلی دفعہ کسی نے اس سے یوں کہا تھا۔اسکے پاس جواب نہیں تھا۔یہ بات نہیں تھی کہ وہ بے تحاشہ خوش تھی بلکہ وہ بہت کچھ سوچ رہی تھی۔ پھر وہ ناجانے اتنی تک اس نے جو کچھ صالحہ کو ٹاٸپ کیا تھا وہ کینسل کیا۔۔۔
---------------
”آنکھیں ہیں یا لوڈو کی گوٹیاں؟ دیکھ کے نہیں چل سکتے“ یہ تھے صالحہ کے الفاظ جو ابھی ابھی یوسف سے ٹکراٸ تھی۔غلطی صالحہ کی نہیں تھی بلکہ اس ٹرے کی تھی جو یوسف کی بازو سے ٹکراٸ تھی۔ اسکا غصہ یہی بتارہا تھا۔
”اچھا! میری آنکھیں تو لوڈو کی گوٹیاں ہیں تمہارا اپنی آنکھوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ چار چار آنکھیں لگاۓ گھوم رہی ہو پھر بھی نہیں دکھتا کہ سامنے سے اتنا ہینڈسم لڑکا آرہا ہے تو رک جاٸیں لیکن نہ بھٸ محترمہ نے انڈین فلمیں بھی تو بہت دیکھ رکھی ہیں جان بوجھ کر ٹکراٸ خود اور قصوروار میں۔عقل سے کام لیا کرو لڑکی۔“ یوسف نے بھی پتھر کا جواب اینٹ سے دیتے ہوۓ آخر میں اسکے ماتھے پر انگلی جما کر کہا تو وہ تپ اٹھی۔سب باتوں کو ساٸیڈ میں رکھ کہ اسے دکھ صرف اس بات کا تھا وہ گلاسز نہیں لگاتی تھی اور وہ لینس کی بات کررہا تھا۔
”تمیز ہے تمہیں کچھ؟ لینس ہیں یہ! اور تم کونسے شہزادے ہو جو میں تم سے ٹکراٶں استفقراللہ کتنی خوش فہمیاں پال رکھی ہیں تم نے۔“ وہ بھی حساب برابر کرتی  ٹے اٹھاۓ جانے لگی۔
”تمیز تو بہت ہے لیکن۔۔۔او ہاں یاد آیا۔ میری پسند آرہی ہے کچھ دیر میں ملواٶں گا تمہیں اس سے تاکہ تمہاری یہ پٹر پٹر کرتی زبان کو بریک لگے۔“ وہ بھی فخریہ جتاتے ہوۓ  اسے بچوں کی طرح زبان چڑاتا چلاگیا۔ اور وہ پیر پٹختی جلتی کڑھتی اسٹیج کی طرف بڑھ گٸ۔
------------------
زَہرہ دادو کے ساتھ اسپیشل گیسٹ والی ساٸیڈ پہ بیٹھی تھی۔دادو بھی مہمان نوازی کرتے کرتے تھک گٸ تھی۔وہ آنکھیں بند کیے بیٹھی تھیں تو وہ بہت دھیرے دھیرے دادو کا سر دبانے لگی۔
”اسلام علیکم دادوو“ مسکراکر کہتا ہوا وہ زکریا تھا۔ سفید رنگ کے صوبر سے کُرتا شلوار میں۔اور نیلی آنکھوں کا امتزاج!
سر اٹھا کر دیکھتے ہی زَہرہ کے دل کو وہ منظر بےحد پیارا لگا تھا۔پھر یکدم ہی وہ دادو کی طرف متوجہ ہوگٸ۔
وہ اتنی عام تو نہیں تھے کہ احساسات کو کسی بھے لے پر یوں ہی آسانی سے چلنے دے۔
”وعلیکم اسلام  میرا بچہ۔ کیسے ہو؟ اتنی دیر بعد ملنے آۓ ہو ہم سے۔“ دادو نے خفگی سے کہہ کر شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو وہ مزید جھکا۔ وہ جو دادو کے بلکل برابر میں بیٹھی تھی یکدم الجھن کا شکار ہوکر تھوڑا دور ہوگٸ۔ زکریا نے مسکراہٹ کو باآسانی چھپایا۔
” اوہو۔ آپ مجھے یاد کررہی تھیں تو بُلوا لیتیں۔“ زکریا نے اسکی طرف سرسری دیکھتے ہوۓ دادو سے کہا۔وہ دادو کی طرف متوجہ تھی۔اور ظاہر ایسی کررہی تھی جیسے اس کی بات سُی ہی نہیں۔وہ شاید زَہرہ کے خفا ہونے کا انداز تھا۔۔۔وہ یہی اخذ کرسکا تھا۔ 
دادو نے سر ہلایا تو وہ مسکراتا ہوا دادو کے دوسری طرف کندھے پہ سر رکھ رکھ کر بیٹھ گیا۔یہ اسکی بہت زیادہ اپناٸیت کا انداز تھا۔ بہت دیر تک وہ اور دادو باتیں کرتے رہے اور وہ دادو کا سر سہلاتی رہی۔
”یہ اذان کدھر ہے؟تم نے اسے دیکھا؟“ یاد آنے پر دادو نے پوچھا۔
”یہیں ہوگا دادو۔“ اس نے پرسکون لہجے میں کہا۔بڑوں میں سواۓ مزمل صاحب کے کوٸ نہیں جانتا تھا کہ ان دونوں کی لڑاٸ ہوٸ ہے۔ اور ان سب میں ابراہیم انزلنا یوسف صالحہ اور حذیفہ سارہ کو یہ بات معلوم تھی۔اور ان سب نے خوشی کے موقع پر اس بات کو چھپا دینا ضروری سمجھا تھا۔اور اگر دادو کو پتا چلتا تو وہ اداس ہوجاتیں۔اور وہ ایسا نہیں چاہتا تھا۔
”میں دیکھوں یہ کہاں ہے۔تم بیٹھو یہیں میں آتی ہوں۔“ وہ کہہ کر اٹھیں اور زَہرہ کا گال تھتھپا کر چلی گٸیں۔وہ اسکے عمل سے خوش ہوٸ تھیں۔
پھر وہ بھی اٹھ کر سنگل صوفے پہ بیٹھگیا۔ آج ناجانے کیوں اسکا دل کررہا تھا وہ زَہرہ سے خوب سوال کرے۔
”ویسے معذرت نام کی بھی کوٸ چیز ہوتی ہے پر یہاں میری ناراضگی کی پرواہ کسے۔“ اس نے موباٸل کو ہاتھ میں گھماتے بہت سرسری سے انداز میں کہا۔اسے معلوم تھا وہ جواب نہیں دے گی۔کیوں کہ اس دن وہ اس سے لڑا تھا۔
”وضاحتیں دینے کی بھی کوٸ وجہ ہوتی ہے پر یہاں مخلصی کی پرواہ کسے۔“ اسی کے انداز میں زَہرہ نے کہا تو وہ مفہوم سمجھتے ہوۓ مسکرادیا۔ لیکن زَہرہ بھی سر جھکاۓ  موباٸل کو دیکھتے ہوۓ کہہ گٸ۔
”تم نے مجھے وضاحت دی؟“ وہ اب سنجیدہ ہوا تھا۔
”آپ نے پوری بات سُنی؟“ زَہرہ نے بھی اسے دیکھت کر ترکی بہ ترکی کہا لیکن پھر سر جھٹک گٸ۔
”تم جانتی تھیں میں اس وقت تکلیف میں تھا!“ زکریا نے جتایا۔
”آپکو لگتا کیا لگتا ہے محبت صرف آپ کرسکتے ہیں اور تکلیف بھی صرف آپکو ہوسکتی ہے؟!“ ناچاہتے ہوۓ بھی اسکا لہجہ سخت ہوگیا تھا۔ زکریا الجھا۔
”تم بعد میں بھی کہہ سکتی تھیں۔“زکریا نے جتایا۔
”میں نے بتانے کی کوشش کی تھی لیکن آپکے سخت الفاظوں نے مجھے روک دیا۔“ اس نے کہا تو زکریا کو شرمندگی محسوس ہوٸ۔
”آپکے لیے ہمیشہ مناہل ہی اہم رہی۔ آپکو مناہل سامنے ہر انسان جھوٹا ہی تو لگتا ہے۔“ زَہرہ نے بہت سرسری انداز میں کہا لیکن زکریا کو پھر بھی شکوہ  لگا۔
”میں سُن لیتا تم  کہہ سکتی تھیں۔“ زکریا نے تھوڑے نرم لہجے میں کہا۔
”آپ سے شکایتیں کیسی!۔“ بہت دھیمی آواز میں کہتے ہوۓ زَہرہ نے بات ختم کرنا چاہی۔ آنسوٶں کا گولہ اب اسکے حلق میں اٹک چکا تھا اور اب وہ مزید کچھ کہنا نہیں چاہتی تھی۔وہ بس خاموشی سے اسے دیکھتا رہ گیا۔
”زوہی اسٹیج پہ آجاٶ اور۔۔۔۔۔“ اعلان کرنے والے انداز میں کہتی انابیہ اچانک رک گٸ۔
”ارے آپ بھی آۓ ہیں۔ہمیں لگا شاید آپکی ناراضگی ہے ہم سے۔“ انابیہ نے بہت خوش انداز میں کہا تو وہ  محض مسکرادیا۔ زَہرہ نے ان دونوں کو دیکھا۔
”چلیں؟ بلا رہے ہیں سب۔“ زَہرہ نے کھڑے ہوتے ہوۓ سنجیدگی سے کہہ کر ان دونوں کو یاد دلایا۔
”ارے ہاں چلوجلدی۔“ کہہ کر انابیہ اسٹیج کی طرف بڑھ گٸ۔وہ دونوں بھی اسکے پیچھے پیچھے اسٹیج پر پہنچے۔
-----------------
”شٹ یور ماٶتھ۔۔۔“ غصے پر حد درجہ قابو کرتے ہوۓ اس نے اتناہی کہا۔اذان کے کہنے پر فون کے دوسری جانب کچھ دیر خاموشی چھاٸ رہی لیکن پھر کال کاٹ دی گٸ۔وہ جھنجھلاہٹ میں بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔صاف واضح تھا کہ وہ کسی پریشانی کا شکار ہے۔آج صبح سے اسکے سر میں درد تھا اور بخار کے باعث اب آنکھیں بھی جلتی ہوٸمحسوس ہورہی تھیں اسلیے اسے زیاددہ غصہ آرہا تھا۔بال بھی اب خراب ہوچکے تھے اور اسکا موڈ بھی۔مہمانوں سے قدرے دُور آکر اس نے کال موصول کی تھی۔اب کال کاٹی گٸ تو وہ بھی کچھ سوچتے ہوۓ تیزی آگے قدم بڑھانے لگا۔اسکا رخ بہت فاصلے پر اسٹیج کی جانب تھا۔
”اذان۔۔۔“ پکار پر اس نے ماتھے پر بل سجاۓ ناگواری سے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
عنزہ سامنے ہی کھڑی تھی،الجھی ہوٸ ہاتھ میں ایک بڑا سا گفٹس سے بھرا باکس پکڑے وہ کسی الجھن کا شکار تھی۔
”جی کہیں!“ اس نے چہرے پر بےزاری سجاۓ پوچھا۔وہ جھجکی۔
”یہ سینڈل میں۔۔۔“ اس نے اشر کیا تو اذان کی نظر اسکے پیر پر پڑی۔اسکے غرارے کا کوٸ نگ سینڈل میں پھنس گیا تھا اور وہ کسی وقت بھی عنزہ کو زمین بوس کردینے کی تیاری میں تھا،آس پاس کوٸ کرسی وغیرہ بھی نہیں تھی جو وہاتنا بڑا باکس رکھ کر اپنی پریشانی حل کرلیتی۔
”تو؟“ اذان نے اتنی سردمہری سے کہا کہ وہ یکدم چپ ہوگٸ۔
”آپ وہاں سے کسی کو بھیج دیں میں یہیں کھڑی ہوں کوٸ چیز بھی نہیں ہے جو خود سے ٹھیک کرلوں ورنہ آپکو مدد کے لیے نہیں کہتی۔“  کچھ دی بعد وہ لمبی سی وضاحت دے کر آخر میں جتانے والے انداز میں بولی۔وہ آگے بڑھ گیا۔
وہ سر جھٹک کر رہ گٸ، آنکھوں میں موجود نمی کی وجہ سے ہر منظر دھندلا محسوس ہورہا تھا۔
”بیٹھیں!۔“ وہ آواز پر یکدم چونکی۔اذان کرسی کی طرف نظریں کیے کھڑا تھا۔ اس نے فوراً آنکھیں صاف کیں اور بیٹھ گٸ۔
ابھی وہ باکس ساٸیڈ میں رکھ کر جھک ہی رہی تھی کہ اذان کو  ایک گھٹنے کے بل بیٹھتے دیکھ کر خود فوراً پہلی والی پوزیشن میں بیٹھگٸ۔ وہ بیٹھا اور جھک کر سینڈل سے وہ نگ بڑی احتیاط سے الگ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔وہ
ہر کام بڑی توجہ اور احتیاط سے کیا کرتا تھا۔۔۔وہ جانتی تھی۔عنزہ خاموشی سے اسے دیکھتی انتظار کرتی رہی۔جیسے ان چند لمحے بس وہی ضروری کام تھا۔
”اب چل کے دیکھ لیں۔“ اذان تھوڑا دور ہوا پھر نظر اٹھاکر دیکھتے کہا۔لمحے بھر کو نظر ملی لیکن وہ بناتاخیر کے فوراً اٹھا اور کپڑے جھاڑے۔اسکا ہاتھ عنزہ کے پیر سے ٹکرایا تک نہیں تھا۔وہ جتنا رشک کرتی کم تھا۔وہ لاجواب تھا! کم از کم عنزہ کے لیے تو!۔
”اب ٹھیک ہے تھینکس۔“ اس نے مسکرا کر کہا۔اذان نے اسے دیکھا بھی نہیں۔پھر جانے کے لیے مڑگیا۔
”مجھے لگا آپ بھول چکے۔“ عنزہ نے دھیمے لہجے میں کہا وہ تھوڑے فاصلے پہ کھڑا تھا لیکن سن لیا۔وہ رکا پھر دوبارہ اسکی طرف مڑا۔
”میں راز رکھنے والوں کو یاد رکھتا ہوں اور اُنکی قدر بھی کرتا ہوں۔“اذان نے ہموار لہجے میں کہا تو وہ مسکراٸ۔پھر گفٹس سے بھرا باکس اٹھایا
”اذان وہ۔۔۔“ کچھ اہم یاد آنے پر اس نے کہنے کے لیے لب وا کیے۔
”مجھے کسی کے ہونے یا نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔“ اس نے بہت سادہ لہجے میں کہا۔
”بھلا جب آپکو کسی چیز کی ضد ہوجاۓ تو آپ پیچھے کیسے ہٹ سکتے ہیں۔“ عنزہ نے جیسے اسکی خاصیت اسے ہی گنواٸ۔وہ اس سارے وقت میں پہلی دفعہ مسکرایا۔وہ تھم گٸ تھی۔
”میں اب اپنی ضد قربان کرچکا ہوں۔“ اس نے مسکرا کر کہا۔وہ خاوشی سے سنے گٸ۔
”وہ مجھے بتاناتھا کہ اسکی کال آٸ تھی اور۔۔۔“ اس نے پہلی والی بات مکمل کی۔وہ جی بھر کے بےزار ہوا تھا۔
”پلیز! میری طبیعت ویسے ہی ٹھیک نہیں تو آپ یہ باتیں بتا کر مزید موڈ خراب نہیں کریں۔“ اس نے یکدم  سخت لہجے میں کہا۔
”میرا مطلب آپکو ہرٹ کرنا نہیں تھا۔“ عنزہ نے سر جھٹکتے جتاتے ہوۓ کہا۔اذان نے چونک کر اسے دیکھا پھر اسٹیج کی طرف رخ کیے اس نے کہا۔
”اٹس اوکے عنزہ۔ میں نے آپ پر بھروسہ کیا اور آپ دونوں نے میرا مان رکھا۔میں آپکا احترام کرتا ہوں اور یوسف تو میرا بہترین دوست ہے اور آپ دونوں نے جو میرے لیے کیا۔۔۔فی الاحال ایک سرپراٸز ہے ڈنر کے بعد سب کے لیے“ وہ کہہ کر خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔وہ بھی باکس اٹھاۓ جلدی جلدی اسٹیج کی طرف چلنے لگی۔
---------------
فیملی گروپ فوٹو سب سے آخر میں ہوٸ۔اور بہت دیر بعد جاکر وہ دونوں پرسکون ہوکر بیٹھے تھے۔بہت دیر بعد صالحہ اور زَہرہ انزلنا کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ابراہیم نے کسی سے کہلواکر زکریا کو بلوایا تو وہ بھیاسٹیج پر اسکے برابر میں بیٹھ گیا۔
کھانا شروع ہوجانے کی وجہ سے اب وہ پانچوں بڑے سکون س باتوں میں مصروف تھے۔
”مبارک ہو بھاٸ“ زکریا نے مسکراتے ہوۓ کہا تو ابراہیم ہنس دیا۔صالحہ اور انزلنا بھی اسکے انداز پر مسکرادیں۔
”ہاں دیکھ لو۔نکاح ہوگیا الحمداللہ۔ تمہاری طرح تھوڑی ہوں کہ ایک ناراضگی مٹانے میں سالوں لگادوں۔“ آخری بات پہ ابراہیم نے ڈھٹاٸ سے ہنستے ہوۓ سرگوشی کی تو وہ اسے گھورتا دانت پیستا رہ گیا۔
ابراہیم نے انزلنا کو اشارہ کیا تو اس نے کھڑی ہوتی زَہرہ کو روکا۔
”زوہی آجاٶ ایک گروپ فوٹو ہوجاۓ“ انزلنا نے مسکراتے ہوۓ کہا اور انکار نہ کرسکی پھر صالحہ کو بھی روکا۔لیکن زکریا کو وہاں کھڑے دیکھ کر وہ خاموش رہی۔لمحہ کیمرے میں  قید ہوتے ہی وہ تینوں اٹھے اور اپنی اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوگۓ۔
----------------
مہمانوں کو رخصت ہوۓ تھوڑی دیر گزری تھی۔اب گھر کے لوگ ہی تھے سید فیملی، زَہرہ کی فیملی،صالحہ کی فیملی،یوسف کی فیملی اور اذان کی فیملی۔سب بڑے بڑے اپنی باتوں میں مصروف تھے اور اسی سے کچھ فاصلے پر بڑی سی ٹیبل کے گرد کرسیوں کے پھول پر وہ شب بیٹھے تھے۔ماحول بہت خوشگوار تھا۔ زَہرہ،صالحہ،عنزہ،انابیہ اپنی باتوں میں مصروف تھیں۔حذیفہ سارہ اور ابراہیم انزلنا اپنی باتوں میں۔یوسف اور اذان بھی اپےن راز ونیاز میں مصروف تھے۔ثاقب ناجانے کدھر تھا اور زکریا بےزار سا خاموش بیٹھا تھا۔
”ہیلو گاٸز! ہاٶ آر یو آل“ آواز نے سب کو متوجہ کیا تو دیکھنے پر ہی سب کے چہروں پر ناگواری ابھری۔اور زکریا جی بھر کے بےزار ہوا تھا۔
”اب تک تو ٹھیک ہی تھے۔“ صالحہ نے کہا تو ان سب نے ہنسی روکی۔
”تم یہاں کیوں آٸ ہو مِناہل؟“ ابراہیم نے ضبط کیے لہجے میں کہا۔انزلنا نے اسے پرسکون رہنے کا اشارہ کیا تو وہ چپ ہوگیا۔یقیناً کوٸ نہیں چاہتا تھا کہ اتنی خوشی کے دن کا اختتام پر بدمزگی ہو۔
”رہنے دو عابی۔کچھ لوگوں کو دںسروں کی مسکراہٹیں خوشیاں ہضم نہیں ہوتیں۔“ زکریا نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا پر یکدم سنجیدہ ہوگیا۔ مِناہل اپنی ہنسی ہنستی اس تک آٸ اور قدرے اسکے قریب کھڑی ہوٸ۔
زکریا نے اگلے لمحے ہی اسے پے دھکیلا۔وہ بمشکل ہی کھڑی ہوپاٸ تھی۔زکریا کی آنکھیں جلنے لگی تھیں، اسے ناچاہتے ہوۓ بھی غصہ آرہا تھا۔
”دُںر رہو مجھ سے۔آٸ سمجھ! میں منہ توڑنے میں لحاظ نہیں کروں گا۔“ وہ بھرپرے شیر کی طرح دھاڑا تھا۔سب اسکی بات پہ چونکے تھے سواۓ اذان،زَہرہ،ابراہیم اور حذیفہ کے۔
مناہل اپنے  ریڈ شارٹ شرٹ اور ٹخنوں سے اوپر جینز میں کھلے بال اور ہیوی میک اپ کے ساتھ مسکرارہی تھی۔اپنی ازلی گھٹیا مسکراہٹ۔کم از کم آج تو زکریا کو اسکا ہر انداز گھٹیا محسوس ہوا تھا۔اذان ضبط کیے خاموش پرسکون سا دکھاٸ دے رہا تھا۔
”کس کے کہنے پر تم منہ اٹھا کے چلی آٸیں؟“ زکریا نے جان بوجھ کر سوال کیا تھا۔مِناہل دوبارہ ہنسی۔
”اذان نے کہا تھا۔“ کہہ کر وہ پرسکون کھڑی مسکرا رہی تھی۔
لمحے بھر کے لیے زکریا نڈھال ہوا تھا پھر بےزاریت سے اسے دیکھا۔باقی سب نے اذان کو دیکھا۔وہ ہونٹ بھینچے بیٹھ رہا۔
”اوہ اچھا۔بھلا میں کیسے بھول گیا، تم ہر دفعہ کسی کے کہنے پر آتی ہو۔“ اس نے استہزاٸیہ انداز میں کہا تو اذان نے شکو بھری نظر اسپر ڈالی۔زَہرہ الجھی۔
اسے تکلیف محسوس ہورہی تھی،اسکی غلطی کہیں نہیں تھی لیکن پھر بھی وہ اتنی تکلیف سہہ چکا تھا۔اسکا رونے کا دل ہی نہ چاہا۔آج اسے اس چاہ اس پیار کا احساس ہی نہیں ہوپارہا تھا۔
”زکی ایسی بات نہیں ہے یہ بس۔۔۔“ اذان بہت کمزور لہجے میں کہتے ہوۓ کھڑا ہوا اور آگے بڑھا۔
”بس کرو یار تم!۔“ زکریا اسپہ گرجا تو وہ بالکل چپ سا ہوگیا اور جہاں کھڑا تھا وہیں رک گیا۔زکریا حد سے زیادہ بےزار ہوچکا تھا اس سب ڈرامے سے۔
کچھ لمحے خاموشی رہی تو اذان چلتا ہوا ٹیبل سے تھوڑا اور فاصلے پر کھڑا ہوگیا۔ان کی ٹیبل سے تھوڑا زیادہ فاصلے پر سب بڑے بیٹھے تھے لیکن ٹیبل تھوڑی آڑ میں تھی اسلیے مناہل کے بارے میں کسی کو خبر نہ ہوٸ۔
وہ ٹیبل سے فاصلے پر جاکے کھڑا ہوا تو سب اسے تجسس سے دیکھنے لگے اور مناہل بھی۔لیکن زکریا کی توجہ نہیں تھی وہ خاموشی سے سر جھٹک کر بیٹھ چکا تھا۔
"Meet My Fiance ZAHRA MUZAMMIL"
بہت پرسکون اور نرم لہجے میں اذان نے اپنی بات کہی تو سب پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹا۔صالحہ انزلنا اور اسامہ ابراہیم کو تو معلوم ہی تھا لیکن باقی سب کے تاثرات دیکھنے والے تھے۔
اذان کےکہنے کے بعد ہی اگلے سیکنڈ اب سب حیرت سے زَہرہ کو دیکھ رہے تھے وہ تھوڑی کنفیوزڈ ہوگٸ اور سوالیہ نظروں سے اذان کو دیکھا تو اس نے ایک ہلکی مسکراہٹ دی اور واپس اپنی جگہ کی طرف بڑھنے لگا۔
اور اذان کی بات سننے پر زکریا نے آنکھوں میں  بےیقینی لیے صرف اور صرف زَہرہ کو دیکھا تھا۔زَہرہ نے نظروں کا حصار محسوس ہونے پر اسکیطرف رخ کیا تو زکریا کی آنکھ میں اٹکا وہ آنسو ناجانے کب ٹوٹ کر گرگیا۔وہ رخ بدل گٸ۔اور زکریا کو محسوس ہوا و کوٸ کھلونا ہے سب نے اپنے اپنے مفاد تک اسکا سوچا اور پھر ہر کوٸ اس سے بےزار ہوگیا۔اسکے رخ موڑتے ہی وہ بھی سر جھکا گیا۔
مناہل شاک کے عالم سے باہر نکلی تو اذان کی طرف بڑھی اسکے انداز نے سبکی توجہ کھینچی کیوں کہ وہ اس سے گلے ملنے کے لیے وہاں جاکر کھڑی ہوٸ تھی اپنی گھٹیا مسکراہٹ کے ساتھ۔اذان چار قدم پیچھے ہوکر کھڑا ہوا۔
”مجھے امید ہے اب تمہاری ہر غلط فہمی دُور ہوجاۓ گی۔“ اذان نے زکریا کے قریب کھڑے دھیمی آواز میں دکھ سے کہا۔زَہرہ کو تکلیف پہنچی تھی۔زکریا اسی انداز میں بیٹھا رہا اسے جیسے چپ لگ گٸ تھی۔
”اور اب تم بھی دفعہ ہوسکتی ہو آجکے لیے اتنا ڈرامہ کافی ہے۔“ ابراہیم نے بغیر کسی تمہید کے الفاظ کا تھپڑ مارا تو وہ مسکراتے مسکراتے اچانک جل بھن کر راکھ ہوگٸ۔پھر اگلے لمحے دوبارہ مسکراٸ۔
”ویسے بہت ہوشیار نکلیں زَہرہ تم تو! ایک تیر سے دو شکار واہ!۔“  اور مِناہل نے وہی کیا جو وہ دوسروں کی خوشیوں کو آگ لگانے کے لیے کیا کرتی تھی۔۔۔لفظوں کے زہر کا استعمال۔۔۔دنیا کے ہر زہر سے طاقتور زہر۔۔۔انسان کو اندر سے مار دینے والا زہر۔۔۔
وہ الفاظ نہیں ہتھوڑے تھے جو زَہرہ کی سماعتوں میں لگے تھے۔شدت ضبط کے باوجود آنسوٶں کی لڑیاں بہنے لگی تھیں سلیقے سے کیے ہوۓ نقاب میں اب و نمکین پانی تیزی سے جذب ہورہا تھا، صالحہ اور عنزہ نے اسکے ہاتھوں کو نرمی سے سہلانے لگیں۔
”اپنی گھٹیا باتیں اپنے تک ہی رکھو!۔“ دو آوازیں ہم آواز ہوٸ تھیں۔اذان اور زکریا کی آواز۔سب لوگوں کو جیسے چپ لگ گٸ۔یوسف اور ثاقب جو کھڑے ہوۓ تھے حیرت سے زکریا اور اذان کو دیکھنے لگے۔
زکریا کا بسنہیں چلتا ورنہ وہ اسے شووٹ کردیتا۔اذان نے بھی اسے بہت سخت لہجے میں وارن کیا تھا۔زکریا نے مزید کچھ نہیں کہا اور مٹھی بھینچے خاموشی سے وہاں سے اٹھ کر چلاگیا۔ اذان بھی کہیں اور چلاگیا۔
وہ رونا چاہتی تھی بہت بہت زیادہ۔
”ویسے مِناہل اگر تمہیں لگتا ہے کہ تمہاری خاطر تواضع کم ہوٸ ہے تو ہم سب بھی حاضر ہیں۔“ صالحہ نے بھر پور مسکراہٹ سے کہا تو مناہل تپ اٹھی اور ان سب کو گھورتی اذان کو تلاش کرتے ناکان ہوکر چلی گٸ۔
حنا نے آکر رخصتی کا بتایا تو سب خاموشی سے اٹھ گۓ پھر بہت دیر آنسوٶں مسکراہٹوں اور دعاٶں کا سلسلہ جاری رہا پھر انزلنا ابراہیم کو رخصت کیا۔
باقی سب بھی گھر کے لیے روانہ ہوۓ، آج کے لیے اتنی تھکاوٹ بہت تھی۔
کچھ دیر خوشی کا سماں عدالت کا ہوچکا تھا۔اور اب عدالت میں بہت سے ایسے فیصلے جو بہت سے دلوں کی تکلیف کا سبب بنے تھے۔لیکن رب کے فیصلوں پر سر جھکانے والا ہی کامیاب ہوا کرتا ہے۔ناجانے اب قسمت سب کی زندگیوں کو کہاں لے جانے والی تھی۔۔۔
              ******************

Assalam o alikum my amazing Readers.
How are you All so Alhamdulillah i published this episode & you already know what you have to do so Don't forget to give Vote  and Feedback  in coment section.
1 More thing: Agar in Chupe Rustam Readers ne vote & feedback NAI dia to acha NAI hoga bs phiR😑 or apni peshan goiyan bhe likhega coment section men, ap sabke ache ache coment boha khushi dete hen💛.
-AIMAN ANIS

 "امید"    Hikayelerin yaşadığı yer. Şimdi keşfedin