ملے ہو تم ہم کو بڑے نصیبوں سے
سائرہ غفار
قسط نمبر 05
"ڈاکٹر صاحب اللہ اکثر معجزے بھی دکھا دیتا ہے۔"میرا لہجہ نہ چاہتے ہوئے بھی طنز سے بھر گیا تھا۔
"وینٹی لیٹر پر معجزہ......؟؟ میں نے تو آج تک نہیں دیکھا۔"وہ میری پیٹھ تھپتھپاتے مجھے مایوس کن سوچوں کے بھنور میں ڈوبنے کے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔
میں نے گہری سانس بھر کر اسٹیج کی طرف دیکھا جہاں آویزش سجی سنوری پریوں سی حسین مورت بنی بیٹھی تھی۔ میرے دل میں ایک ہوک سی اٹھی۔ اسے دیکھ کر ایک خالی پن کا احساس جاگنے لگاتھا۔نجانے ایسا کیوں ہورہاتھا؟میں خود کو سمجھنے سے قاصر تھا۔
........................٭٭............٭٭........................
"معید......معید......اوہو معید اٹھیں ناں ......"آویزش میرے سر پر کھڑی ہو کر مجھے کب سے آوازیں دے رہی تھی۔میں نے کسلمندی سے ذرا سی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ وہ بالکل فریش میرے سامنے کھڑی تھی۔ ہنستی مسکراتی......اور اٹھلاتی۔اس کی آنکھوں میں ایک شرارتی سی چمک تھی۔ میں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے کوئی چیز ہوا میں لہرائی:"بوجھو تو جانیں؟"میں نیند کے خمار میں ڈوبا ہواتھا مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہاتھا۔میں نے بیزاری سے کروٹ بدلتے ہوئے کہا:"مجھے نہیں پتہ یار۔"اس نے فوراً مجھے پکڑ کر اپنی جانب گھما لیا:"ارے ایسے کیسے نہیں پتہ؟دیکھیں تو سہی۔"میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔اور بیٹھے بیٹھے آنکھیں بند کرلیں۔مجھے اس قدر نیند آرہی تھی جس کی کوئی حد نہیں تھی۔"معید......ایسا مت کریں ناں۔دیکھیں تو سہی۔"آویزش کی آواز سن کر مجھے شدید غصہ آرہاتھا مگر میں نے بمشکل آنکھیں کھول لیں اور ا س سے پوچھا:"بتاؤ کیا ہے؟""آپ کو پتہ ہے ڈیڈ نے مجھے شادی کا گفٹ دیاہے۔ہم دونوں سنگاپور جارہے ہیں۔"یہ خبر سنتے ہی میری آنکھیں مکمل طور پر کھل گئیں۔"کیا؟کیوں؟ہم کیوں جارہے ہیں؟""ارے ڈیڈ نے ہمیں شادی کا گفٹ دیاہے۔آپ بھی ناں ......چلیں اٹھیں ہمیں پیکنگ کرنی ہے۔ کل صبح کی فلائیٹ ہے اور بہت سارے کام باقی ہیں۔آویزش وارڈروب کے سامنے جاکھڑی ہوئی اور اپنے کپڑے پسند کرنے لگی۔میں اس کی پیٹھ کو کافی دیر گھورتا رہا مجھے نہیں سمجھ آرہاتھا کہ میں کیسے ری ایکٹ کروں۔ میری حسیں جواب دے چکی تھیں اور میرے اوسان خراب ہوچکے تھے۔لیکن ان سب کے باوجود اگلے دن صبح کی فلائیٹ سے ہم لوگ سنگاپور کے لئے روانہ ہوگئے۔آویزش بہت ایکسائیٹڈ تھی اور میں جیسے محض وقت گزاری کررہاتھا۔ میں اپنا دل و دماغ اپنا چین و سکون اپنا سب کچھ جیسے پریشے کے پاس چھوڑ آیاتھا۔ ایسا محسوس ہورہارتھا جیسے میرا صرف جسم آویزش کے ساتھ ہے روح کہیں پیچھے چھوٹ گئی ہے......
........................٭٭............٭٭........................
وہ فون کال میری زندگی کی نوید بن کر خوشی کا دیپک بن کر اور امید کا سورج بن کر میری سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔ میں اسے سن کر کتنا خوش تھا اس کا مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا۔ لیکن میرے ساتھ آویزش تھی اور اس نے میرے مزاج کی تبدیلی کو فوراً بھانپ لیا جب میں نے اسے خود سے کہا کہ واک پر چلو:"خیریت ہے جناب؟آج آپ کا موڈ بڑا سہانا ہے......""آج میں بہت خوش ہوں ......بہت بہت بہت زیادہ خوش۔"مجھ سے خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔"زبردست......مجھے تو بتائیں خوشی کی خبر؟''وہ جاننے کو بے تاب تھی۔"آویزش پاپا کا فون کا آیاتھا پاکستان سے......اور انہوں نے ......"میں ایک دم رک گیا۔ میرا دل خوشی کے مارے بھر آیاتھا۔"کیا کہا انہوں نے؟"وہ میرے قریب آکر میرا بازو سہلانے لگی۔میں نے بمشکل خود پہ قابو پاتے ہوئے کہا:"انہوں نے کہا کہ پریشے کی طبیعت میں بہتری آگئی ہے۔ اسے وینٹی لیٹر سے ہٹا دیاگیا ہے اور اسے آئی سی یو میں رکھا ہے۔ ڈاکٹر قادری کہہ رہے تھے کہ جلد ہی اسے روم میں شفٹ کردیں گے۔ اللہ تیرا شکر ہے۔"
"ارے یہ تو بہت زبردست نیوز ہے۔ ماشاء اللہ ......اللہ نے پریشے پر بہت کرم فرمایا ہے۔"آویزش پریشے کا نام سن کر بالکل پریشان نہیں ہوئی بلکہ اس نے خوشی کا اظہار کیا۔
میں بس اسے دیکھتا رہ گیا کہ اسے مجھ سے جھگڑنا چاہئے تھا میں اس کے سامنے ایک پرائی عورت کا ذکر کررہاتھا مگر نکاح کے بعد سے میں نے اسے ہمیشہ بہت زیادہ پراعتماد دیکھا تھا۔ یا تو اسے مجھ پر حد درجہ اعتبار تھا یا پھر نکاح کے اٹوٹ بندھن پر اسے پورا بھروسہ تھا اسی لئے وہ بالکل پریشان نہیں ہوتی تھی۔
ہم لوگ واک کے لئے باہر نکل آئے تھے۔میں نے محسوس کیا کہ آویزش کسی سوچ میں گم ہے اور بہت خاموش ہے۔
"تم مجھ پہ غصہ ہو؟"واک کرتے ہوئے میں نے اسے دیکھا۔
"نہیں میں کیوں غصہ ہونے لگی؟"اس کے الٹے سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
"پریشے کی وجہ سے......؟"میری آواز پریشے کا نام لیتے ہی دھیمی اور کمزور پڑ جاتی تھی۔ یہ بات میں نے خود بھی آج ہی نوٹ کی تھی۔
اس نے سر ناں میں سر ہلایا:"نہیں میں بالکل غصہ نہیں ہوں۔ لیکن میں کچھ سوچ رہی ہوں۔"
میں نے رک کر اس کے چہرے پہ غور کیا۔ وہ پریشان محسوس ہورہی تھی:"کیا سوچ رہی ہو؟"
"معید وہ موت کو ہرا کر واپس زندگی کی جانب لوٹ آئی ہے......لیکن جس د ن وہ نیند سے جاگے گی اس دن کیا ہوگا؟" اس کے خدشات کو سن کر میں سن رہ گیا۔ یہ سب میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ اس نے رک کر ایک لحظے کے لئے مجھے دیکھا پھر بولی:"کیا اسے سب یاد ہوگا؟یا وہ سب بھول چکی ہوگی؟اور سب سے اہم سوال......"وہ ایک دم رک گئی۔
میں نے اسے بغور دیکھا:"وہ کب جاگے گی؟"
آویزش نے پلٹ کر واپسی کے راستے پہ دھیرے دھیرے واک کرنا شروع کردیا تھا۔ میں اسے جاتا دیکھ رہاتھا پھر جیسے ہوش میں آیا اور اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔وہ ایک دم رکی اور پلٹ کر میری طرف آئی میں رک کر اسے اپنی طرف آتا دیکھنے لگے۔ وہ آکر میرے سامنے رک گئی:"اگر وہ کبھی نہ جاگی تو......تو کیا ہوگا معید؟"
"ہم انتظار کریں گے......"میری آواز بے حد کمزور تھی۔
"کتنا؟"اس کے سوال کی نوعیت میری سمجھ سے بالا تھی اور اس کے سوالات تسلسل کے ساتھ مشکل ہوتے جارہے تھے۔
"جتنا ہمارے مقدر میں لکھا ہوگا اتنا......"میں نے اسے غور سے دیکھا۔ اس کے چہرے پر ابھی بھی پریشانی اور تذبذب کے ملے جلے تاثرات تھے۔وہ پھر پلٹی اور آگے کی طرف چلنے لگی جب میں نے اسے آواز دی:"آویزش؟"
وہ چلتے چلتے رک گئی لیکن پلٹی نہیں:"کیا تم میرے ساتھ مل کر مقدر میں لکھا اس کے جاگنے کا انتظار کرو گی؟"
وہ ایک دم پلٹی اور عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔ پھر واپسی کے راستے پر محو سفر
ہوگئی۔ میں اس کا جواب نہیں سمجھ سکا۔ بس اسے جاتا دیکھتا رہا۔
........................٭٭............٭٭........................
دہ دن بعد ہم سنگاپور سے واپس لوٹ آئے تھے۔ واپسی میں ہم ایک ان کہی سوغات اپنے ساتھ لے آئے تھے......ایک ایسی سوغات جو مجھے بہت کانٹے کی مانند چبھ رہی تھی۔
وہ سوغات تھی آویزش کی سوال کرتی آنکھیں ......اس کی آنکھیں ہر وقت سراپا سوال رہتی تھیں ......پریشے کب جاگے گی؟جاگے گی تو کیا کرے گی؟غصہ؟ نفرت؟ یا پھر سوال؟ اسے کچھ یاد ہوگا کہ نہیں؟ کیا اسے اپنا نام پتہ کچھ یاد ہوگا؟ اگر وہ نہیں جاگی تو؟ وغیرہ وغیرہ۔
میں اس سے کترانے لگا تھا۔کوشش کرتا تھا کہ اس کے سامنے نہ جاؤں۔ پاپا نے مجھے آفس میں بہت زیادہ مصروف کردیاتھا میں پریشے سے ملنے کے لئے لنچ ٹائم میں جانے لگاتھا۔پہلے میں صرف اسے دیکھا کرتا تھا اب میں اس سے سوال کرنے لگاتھا۔
"تم کون ہو پریشے؟"
"کہاں رہتی ہو؟"
"کیا مجھے جانتی ہو؟"
"تمہاری نیند کب پوری ہوگی پریشے؟"
"پریشے کیا تم مجھے سن سکتی ہو؟"
"کیا تمہیں پتہ ہے آج کتنا اچھا موسم ہے؟"
"جب نرس تمہیں انجکشن لگاتی ہے تو کیا تمہیں درد ہوتا ہے؟"
اور بھی بہت سارے سوال تھے جو میں اس سے کرتا تھا ......میرے سوال بڑھتے جارہے تھے......میرے وسوسے بڑھتے جارہے تھے......میں ڈپریشن کا مریض بنتا جارہاتھا...... میں اپنی ذات سے اپنی زندگی سے خار کھانے لگا تھا۔
........................٭٭............٭٭........................
چند دنوں بعد میں اپنے آفس میں لیپ ٹاپ پر غائب دماغی سے انگلیاں پھیر رہاتھا۔ کمرے میں دھیمے سروں میں سونو نگم نغمہ سرا تھا۔
ہر گھڑی بدل رہی ہے روپ زندگیچھاؤں ہے کہیں کہیں ہے دھوپ زندگیہر پل یہاں جی بھر جیوجو ہے سماں کل ہوناہوچاہے جو تمہیں پورے دل سےملتا ہے وہ مشکل سےایسا جو کوئی کہیں ہےبس وہ ہی سب سے حسیں ہےاس ہاتھ کو تم تھام لووہ مہرباں کل ہوناہوایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ میری بپتا بیان کررہاہے......گانے کے سارے بول میرے احساسات و جذبات کی ترجمانی کررہے تھے اور میں پوری طرح سے اس میں ڈوبا ہواتھا کہ ایک دم سے میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔اس وقت مجھے سخت کوفت محسو س ہوئی اور میرا دل چاہا کہ میں موبائل کو دیوار میں دے ماروں مگر میں نے دل پر جبر کرکے گانے کو روکا اور موبائل ہاتھ میں لے لیا۔اسکرین پر ایک نیا نمبر جگمگا رہاتھا......میں نے بے دلی سے یس کا بٹن دبا کر فون کان سے لگالیا:"جی السلام اعلیکم۔"
"آپ مجتبیٰ صاحب بات کررہے ہیں؟"دوسری طرف سے پوچھاگیا۔
"جی نہیں ......"
"پھر آ پ یقینا معید ہیں؟"اس بندے کے پروثوق انداز ہر میرے چہرے پہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔
"جی میں معید ہوں۔لیکن آپ کون ہیں؟"تھوڑی دیر پہلے والی بے دلی اڑن چھو ہوگئی تھی۔
"میں دانین کا شوہر ہوں۔میرا نام ......"
"ایک منٹ ایک منٹ......کون دانین......؟؟لگتا ہے آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ یہاں کوئی دانین نہیں ہے۔"میں نے اس کی بات سننے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔
"آپ نے جس لڑکی کی جان بچائی تھی اس کا نام دانین ہے۔"نہایت صبر و تحمل سے میرے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیلا گیاتھا۔میں ایک دم کرسی پر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔
"اس ......کا ......نام......دانین ہے......"مجھے یقین نہیں آرہاتھا۔
"جی اس لڑکی کا نام دانین ہے اور میں ان کا شوہر ہوں۔میرا نام افراہیم ہے۔میں اصل میں اسپتال میں موجود ہوں مگر مجھے آئی سی یو میں جانے نہیں دیاجارہا۔ اس لئے آپ کو زحمت دے رہاہوں۔ کیاآپ ابھی اسپتال آسکتے ہیں؟"
میں ایک دم اچھل کر اپنی سیٹ سے کھڑا ہوا:"جی میں ابھی آتا ہوں۔"
میں نے جلدی سے گاڑی کی چابی اٹھائی اور جب میں اسپتال کی طرف جارہاتھا تب میں نے مجتبیٰ انکل کو کال کر کے افراہیم کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی اسپتال پہنچ رہے ہیں۔
میں اسپتال پہنچ کر پارکنگ میں ہی گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا اور مجتبیٰ انکل کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں مجتبیٰ انکل کی کار پارکنگ کے احاطے میں داخل ہوئی۔ کار پارک ہوئی تو مجتبیٰ انکل کے ساتھ آویزش بھی تھی۔ مجھے ڈھارس محسوس ہوئی۔ آج مجھے پریشے کو شاید الوداع کہہ دینا تھا اور اسے الوداع کہنا میرے لئے بہت تکلیف دہ مرحلہ ثابت ہوسکتاتھا۔ایسے میں آویزش کی موجودگی زخم پر مرہم کیسی محسوس ہورہی تھی۔
وہ دونوں چلتے ہوئے میرے سامنے آکھڑے ہوئے۔
"پھر؟"مجتبیٰ انکل کا سوال بڑا مبہم تھا۔ یہ دونوں باپ بیٹی بڑے مشکل سوال کرتے تھے۔
میں نے کندھے اچکا کر ناسمجھنے کا اشارہ کیا۔
"ملے ہو تم اس سے؟"
"ابھی تک تو نہیں ......"
"ہم یہاں کیوں وقت ضائع کر رہے ہیں؟ چلیں ناں چل کر دیکھیں ماجرا کیا ہے؟" آویزش ہماری باتوں سے اکتا گئی تھی اور وہ پریشے کے میاں سے ملنے کی وجہ سے بھی بہت پرجوش تھی۔
ہم تینوں آگے پیچھے چلنے لگے۔ اسپتال کے دروازے کے سامنے پہنچے ہی تھے کہ ایک دم آویزش بول پڑی:"ایک منٹ......"ہم دونوں رک کر اسے دیکھنے لگے۔
"کیا وہ جانتا ہے کہ پریشے کومہ میں ہے؟"وہ آویزش ہی کیا جس کا سوال عجیب نہ ہو۔
"اس کا نام پریشے نہیں ہے آویزش۔"آج میرا لہجہ کمزور نہیں تھا۔ میں خو دکو پراعتماد محسوس کررہاتھا۔آویزش اور مجتبیٰ انکل مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
"دانین نام ہے اس کا۔"
"نائس نیم......"آویزش کو واقعی نام پسند آیا تھا۔
"ہم کوشش کریں گے کہ ڈاکٹر قادری ہی اسے پریشے......میرا مطلب ہے کہ دانین کے بارے میں بریف کریں۔"مجتبیٰ انکل نے آسان حل نکال لیا تھا۔
میں نے سر ہلایا اور اسپتال کے اندر پہنچ گیا۔آئی سی یو کے باہر بے چینی سے ٹہلتا ہوا افراہیم مجھے فوراً ہی نظر آگیا تھا۔ وہ ایک وجیہہ شخص تھا بالکل دانین کے لائق......اسی کی طرح خوبصورت سا......مجھے اس پر رشک سا آیا۔
"یہ تو بڑا زبردست بندہ ہے۔"کوریڈور میں اس کی طرف جاتے ہوئے آویزش نے میرے کان میں سرگوشی کی توبے اختیار میرے لبوں پہ ایک مسکراہٹ رینگ گئی۔
ہم اس کے سامنے پہنچے تو اس نے گرم جوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔ وہ ایک بینک میں مینیجر تھا اور دانین ایک یونیورسٹی میں لیکچرار تھی۔ افراہیم نے بتایا کہ دانین ایک سیمینار میں شرکت کرنے کے لئے بہاولپور سے کراچی آئی تھی اور ا سکے بعد اسے کراچی سے سیدھا حیدرآباد جانا تھا پھر نوابشاہ اور اس کے بعد واپس بہاولپور لوٹ آناتھا۔ یہاں اس کی ایک ہوٹل میں رہائش تھی۔وہاں اس نے ایک لال رنگ کی مہران رینٹ اے کار سے منگوائی تھی اور ایک دعوت میں شرکت کرنے کے بعد واپس ہوٹل کی طرف جارہی تھی جب اس کا ایکسیڈنٹ ہوا۔ دوسرے دن صبح سویرے اس کی فلائٹ تھی۔ اگلے ایک دو دن افراہیم کا دانین سے رابطہ نہ ہوسکا تو وہ یہی سمجھا کہ شاید مصروفیت کی وجہ سے رابطہ ممکن نہیں ہورہا۔ لیکن اس سے اگلے دن رابطہ نہ ہونے ہی افراہیم پریشان ہوگیا اور اس نے دانین کی انکوائری شروع کردی۔ لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔ وہ ا س کے سیمینار کے شیڈول کے حساب سے حیدرآباد پہنچا لیکن وہاں وہ پہنچی ہی نہیں تھی۔کسی نے افراہیم کو اطلاع دی کہ دانین واپس بہاولپور پہنچ چکی ہے۔ وہ واپس بہاولپور پہنچا لیکن وہاں دانین نہیں پہنچی تھی کسی نے غلط اطلاع دی تھی۔ وہ حقیقتاً پریشان ہوگیاتھا۔اس کے ایک دوست کی نظر سے مجتبیٰ انکل اور معید کا دیا گیا اشتہار گزرا تو اس نے افراہیم کو اطلاع دی اور وہ بھاگا دوڑا کراچی پہنچ گیا۔ اور اب وہ ہمارے سامنے کھڑا تھا۔ ہم سب منہ کھولے اس پہ گزری افتاد سن رہے تھے۔"ڈاکٹر قادری بہت نائس ہیں۔ انہوں نے مجھے دانین کی کنڈیشن کے بارے میں سب بتادیاہے۔ بس آپ کی اجازت کے بغیر مجھے ملنے نہیں دے رہے دانین سے۔ اب آپ لوگ پلیز میری سفارش کردیں تاکہ میں اپنی بیوی سے ملاقات کرسکوں۔"وہ واقعی اس سے سچی محبت کرتا تھا۔ اس کے لہجے میں عقیدت سی تھی۔ وہ اس کی حالت کا سن کر پریشان نہیں تھا۔ مجھے کچھ عجیب سا بھی لگا لیکن تسلی بھی تھی۔مجتبیٰ انکل نے ڈاکٹرصاحب سے بات کر لی تھی وہ متشکرانہ نظروں سے ہمیں دیکھتا آئی سی یو میں چلا گیا۔ایک گھنٹے کے اندر اند ردانین کے امی ابو اور بھائی بہن بھی اسپتال پہنچ گئے۔ وہ سب لوگ میرے بے حد احسان مند تھے ان کا بار بار شکریہ ادا مجھے شرمندہ کررہاتھا۔ کوریڈور میں ذرا فاصلے پہ افراہیم ڈاکٹر قادری کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھا۔ میں بار بار اسے کن اکھیوں سے دیکھ رہاتھا۔ وہ ایک ذمہ دار شوہر کی طرح اپنی چہیتی بیوی کے متعلق ایک ایک بات نوٹ کررہاتھا۔ میں ٹہلتا ہوا ان کے قریب جاکھڑا ہوا۔میں بظاہر کوریڈور میں لگی پینٹنگ دیکھ رہاتھا لیکن درحقیقت میرے کان ان دونوں کی باتیں سننا چاہتا تھا۔"میں اسے آج ہی لے جانا چاہتا ہوں ڈاکٹر صاحب......""آپ لے جاسکتے ہیں میری طرف سے مکمل اجازت ہے۔ بس چیک اپ کرواتے رہنا اور رپورٹس مجھے دکھاتے رہنا ہے۔""بالکل سر میں آپ کی ہدایات پر پوری طرح عمل کروں گا۔"وہ تابعداری سے بولا تھا۔"آپ سب لوگوں نے دانین کا بہت اچھے سے خیال رکھا ہے داکٹر صاحب میں آپ کا کس منہ سے شکریہ ادا کروں۔"وہ ممنون ہوا۔
"اسی منہ سے کردو بھئی دوسرا کہاں سے لاؤ گے؟"ڈاکٹر قادری نے اسے ہلکے پھلکے انداز میں چھیڑا:"یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے مریض کو اچھا ٹریٹمنٹ دیں۔ باقی آپ کو شکریہ ادا کرنا ہے تو معید اور اس کی فیملی کا کریں۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو شاید آپ کی بیگم زندہ نہ ہوتیں۔"میں پینٹنگ کو مزید غور سے دیکھنے لگا......ہاتھ لگا لگا کر دیکھنے لگا۔وہ دونوں میری طرف متوجہ ہوچکے تھے۔ اور دو قدم کا فاصلہ طے کر کے میرے پاس آکر کھڑے ہوگئے۔"معید آپ کا شکریہ اد اکرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ کاش میں آپ کے احسان کا بدلہ چکانے کے لئے کچھ کرپاتا۔"افراہیم نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا اور نجانے کیوں مجھے اس کے ہاتھ کا وزن بہت زیادہ محسوس ہوا۔میری آنکھ سے اچانک سے ایک آنسو ٹپکا۔میں نے خو دکو فوراً سنبھالا اور مسکراتے ہوئے اپنا رخ ان دونوں کی جانب موڑ لیا۔"شکریہ کی کوئی ضرورت نہیں افراہیم۔ آپ بس پریشے......میرا مطلب ہے دانین کا خیال رکھئے گا۔ اتنے دنوں میں وہ بالکل ہماری فیملی ممبر بن گئی ہیں۔لگتا ہی نہیں کہ وہ ہماری کچھ نہیں لگتیں ......"نجانے کیوں یہ سب کہتے ہوئے میرا دل کٹ رہاتھا۔"ارے ایسے کیسے کچھ نہیں لگتیں وہ ہماری......"آویزش کی آواز پہ ہم تینوں نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا:"وہ میری بہت اچھی دوست بن گئی ہے اتنے دنوں میں ......اور اس کی وجہ سے میں اپنی محبت کو حاصل کرپائی......"اس نے مجھے کن اکھیوں سے دیکھا اور میں نظریں چرا گیا:"افراہیم بھائی آپ بہت لکی ہیں دانین بہت کراماتی ہیں۔اتنے سے دنوں میں وہ آکر میرے کتنے بڑے بڑے اٹکے ہوئے کام ہوگئے۔"آویزش بار بار بات کرتے ہوئے مجھے دیکھتی رہی۔ میں اس کی جانب دیکھنے سے گریز کرتا رہا۔"جی کراماتی تو وہ بہت ہے۔اگر وہ اس دن اس حادثے کا شکار نہ ہوتی تو میں اسے ہمیشہ کے لئے کھو دیتا۔اللہ کا شکر ہے کہ اس کی کار اس حادثے کا شکار ہوئی۔"افراہیم کو کچھ یاد کرنے پہ جھرجھری سی آگئی تھی۔میرے اور آویزش کے منہ سے ایک ساتھ نکلا:"کیا مطلب؟"
YOU ARE READING
Milay Ho tum hum ko Baray Naseebon ko By Saira Ghaffar
RomanceMilay Ho tum hum ko Baray Naseebon ko By Saira Ghaffar Complete Online Urdu Novel A romantic novel Love story