Milay Ho tum hum ko Baray Naseebon say By Saira Ghaffar Episode#06

304 8 0
                                    

ملے ہو تم ہم کو بڑے نصیبوں سے

سائرہ غفار

قسط نمبر 06

'ؔ'دراصل دانین یہاں ایک سیمینار میں شرکت کرنے آئی تھی لیکن اس سیمینار کے علاوہ اس کو دو اور سیمینار اٹینڈ کرنے تھے۔ایک حیدرآباد میں اور دوسرا نوابشاہ میں۔ حیدرآباد کے جس ہوٹل میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا تھا وہ ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا۔ہوٹل کی عمارت بہت بوسیدہ اور خستہ حال تھی۔ سیمینار والے دن وہ ہوٹل زمین بوس ہوگیاتھااور ......"وہ ایک لمحے کو رکا،اپنی سانس بحال کی اور پھر بولا:"ہوٹل میں موجود تمام لوگ ملبت تلے دب گئے۔ وہاں موجود کوئی بھی انسان......زندہ نہیں بچا......"اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔اس نے ہاتھ اٹھا کر "شکر الحمدللہ"کہا اور اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے بولا:"میں تو اس حادثے کو رحمت خداوندی ہی گردان سکتا ہوں۔ بے شک وہ کومہ میں ہے مگر مجھے زندہ تو ہے ناں ......اور مجھے امید ہے کہ وہ جلد ہی صحت یاب ہوگی انشا ء اللہ اور جلد آکر آپ لوگوں سے ملاقات کرکے اپنی جان بچانے کا شکریہ ادا کرنے آئے گی۔"
"انشاء اللہ......"وہاں موجود سب لوگوں کے دل کی یہی آواز تھی۔
افراہیم دانین کو ایمبولینس میں اپنے ساتھ لے کر روانہ ہوگیا۔اس کی باقی ماندہ فیملی بھی ان کے ساتھ ہی روانہ ہوگئی تھی۔میں ڈاکٹر قادری کا شکریہ ادا کرتا آویزش کے ساتھ گھر کے لئے روانہ ہوگیا۔ مجتبیٰ انکل اپنے گھر چلے گئے تھے۔ڈرائیو کرتے ہوئے میں بار بار آویزش کو دیکھ رہاتھا۔ پچھلے کچھ دنوں کی ایک فلم سی میری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی۔

کیسے اچانک وہ میری زندگی میں آگئی تھی۔اسے معلوم بھی نہ ہوا اور میں نے عشق کے کئی مراحل اکیلے تنہا طے کرلئے......اور آخر میں اس کے میاں کی دبنگ انٹری......ان سب کے بیچ میں جو بات مجھے سب سے زیادہ حیران کررہی تھی وہ تھا آویزش کا رویہ......یہ سارا معاملہ اس کی محبت کی جیت کا قصہ تھا......میں سمجھ رہاتھا کہ میں نے محبت کی ہے......مگر اصل میں محبت تو آویزش نے کی تھی......سچی محبت......بنا کسی غرض کے محبت......بنا کسی لالچ کے محبت......جبھی میں اسے بآسانی میسر آگیا......میری محبت میں کہیں کھوٹ تھا...... کہیں حرص تھی......شاید میں لالچی تھا......اور مبہوت بھی تو میں حسن دیکھ کر ہواتھا......میں نے بت سے محبت کی تھی......اور بت تو پاش پاش ہونے کے لئے ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جانے کے لئے ہی بنے ہوتے ہیں ......اورا ٓویزش......اس کی محبت روح کی محبت تھی......اس نے سچے من سے مجھے چاہا تھا......حاصل کرنا اس کا مقصد نہیں تھا پھر بھی اس نے مجھے حاصل کرلیا......راہیں انہی کے لئے ہموار ہوتی ہیں جو سچے دل سے راستے پہ چلتے ہیں ......صرف منزل کا تعین کرتے ہیں ......راستہ مشکل ہوپھر بھی بدلتے نہیں ......آویزش نے بھی ایسا ہی کیا تھا ......اس نے راستہ نہیں بدلا تھا......جبکہ میں تو مکمل بھٹک گیاتھا......صرف راستہ ہی نہیں ......میں تو منزل بھی بھول گیاتھا......
جب میں گھر پہنچا تو پاپا نے میرا کندھا گرمجوشی سے تھپتھپایا اور مجھے گلے سے لگا کر بھینچ لیا۔ میں اس گرم جوشی پہ حیران تھا۔مما بھی ساتھ ہی کھڑی تھیں۔ "مجھے تم پہ فخر ہے بیٹا۔"پاپا کے اس جملے پہ مجھے بہت حیرت ہوئی۔"تم نے اس بچی کو بحفاظت اور خوش دلی سے واپس کیا......مجھے سچ میں تم پہ فخر ہے۔ میں تو سچ مچ ڈر گیا تھا کہ نجانے تم کیسے ری ایکٹ کرو گے مگر تم نے ثابت کیا کہ تم ایک اچھے انسان ہو۔"میں نے سر جھکا لیا۔ صبح سے میں اپنی اس قدر تعریفیں سن چکا تھا کہ خود سے نظریں نہیں ملا پارہاتھا۔میں شرمندگی کے مارے زمین میں گڑ جانا چاہتا تھا۔ لوگ مجھے جو عزت دے رہے تھے میں اس کے قابل نہیں تھا۔

Milay Ho tum hum ko Baray Naseebon ko By Saira GhaffarWhere stories live. Discover now