گھر پہنچ کر وہ بستر پہ ڈھ گٸ۔آخر کوٸ انسان اتنی نیچ اور گھٹیا سوچ بھی رکھ سکتا ہے؟! رہ رہ کر وہ بس یہی سوچے جارہی تھی کہہنے والا انسان تو کہہ دیا کرتا ہے لیکن اسکے الفاظ سامنے والے کے دل پر جتنا گہرا زخم چھوڑ جاتے ہیں وہ اس تکلیف کو کبھی محسوس ہی نہیں کرسکتا۔ اور آخر کل اذان نے سب کے سامنے اعلانیہ کیوں کہا کہ وہ اسکی منگیتر ہے؟ یہ کوٸ اتنی بڑی بات بھی نہیں تھی۔اور زکریا کی نظریں؟۔۔۔زکریا!... اور یہاں تک سوچتے سوچتے وہ ایک بار پھر تھک سی گٸ۔
آج ولیمہ تھا کل سے وہ یہی باتیں سوچ رہی تھی۔کل بھی وہ رات کو دیر سے سوپاٸ تھی۔کپڑے بدل کر وضو کرکے باتھ روم سے نکلی تو نظر گھڑی پر پڑی ساڑھے بارہ بج چکے تھے۔امی جان اور بابا جان تو انزلنا ابراہیم کو ایرپورٹ چھوڑنے گۓ تھے۔وہ گھر پر ہی رک گٸ تھی۔پھر قرآن کی تلاوت کرنے لگی دل کو سکون محسوس ہوا تو تلاوت کرکے اٹھی۔نیند ویسے بھی نہیں آرہی تھی۔بھوک کی شدت کا احساس ہوا تو وہ اسکارف لپیٹے سیڑھیاں اترتی نیچے کچن میں چلی آٸ۔صالحہ اور باقی سب بھی گھر جاچکے تھے اور آج انزلنا کے نہ ہونے سے اکیلا پن محسوس ہورہا تھا۔
فریج میں نظر دوڑاٸ تو ثاقب کا لایا ہوا آٸس چکلیٹ کیک رکھا تھا۔وہ تھکان سے مسکرادی۔پھر دو انڈے نکال کر آملیٹ بنایا اور بریڈ کے کچھ سلاٸس پلیٹ میں رکھ کر کچن میں رکھی ڈاٸننگ ٹیبل سے کرسی کھسکا کر بیٹھ گٸ۔سارے لاٶنج میں اندھ۶را چھایا تھا۔کچن میں جلی لاٸٹیں لاٶنج میں بھی ہلکی ہلکی روشنی دے رہی تھیں۔
آملیٹ کی خوشبو پورے کچن میں پھیل چکی تھی۔اور بھوک اب مزید بڑھ رہی تھی۔پہلا لقمہ منہ میں ڈالا ہی تھا کہ کھٹ پٹ کی آواز پہ لقمہ حلق میں اٹکا رہ گیا۔گرم گرم کھانے کو چھوڑ کر و بنا چاپ کیے اٹھی اور سلیب پر رکھے سپون اسٹینڈ میں سے ایک چھری نکال کر ہاتھ میں جکڑلی۔ایک بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے اور رات کے اس وقت لان سے کس چیز کی آواز آٸ تھی؟ دادو وغیر سب سورہے تھے اور امی جان اور بابا جان آتے تو گاڑی کی آواز آتی۔لمحے بہر میں سب سوچتے ہوۓ اب اسکی بھوک غاٸب ہوچکی تھی۔آدھے لوگ سورہے تھے اور آدھے ایٸرپورٹ۔۔۔وہ اکیلی جاگ رہی تھی اسلیے ہمت جواب دینے لگی تھی۔ابھی وہ مزید کچھ سوچتی کہ دوبارہ کچھ گرنے کی آواز آٸ۔وہ اپنی بادامی رنگ آنکھوں کو آخری حد تک کھولے اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کررہی تھی۔
”ک کون ہے؟“ ایک تو اسکی آواز اتنی دھیمی آواز ہوتی تھی کہ خود پر بھی غصہ آنے لگا۔کوٸ جواب نہ ملا۔پھر لاٶنج کا لاک کھلنے کی آواز آنے پر وہ کچن کی دروازے کی آڑ میں چھپ گٸ۔اگر اپنے یا کسی بھی کمرے میں جاتی تو ضرور پکڑے جاتی۔ایک تو یہ بدتمیز ثاقب بھی بابا جان امی جان کے ساتھ چلاگیا۔قدموں کی چاپ اپنی جانب بڑھتی سناٸ دی تو حلق میں اٹکا لقمہ نگلا۔ہاتھ بھی آہستہ آہستہ کپکپانے لگے تھے۔چھری پر گرفت مضبوط کردی۔
قدموں کی چاپ اب قریب ہورہی تھی۔احتیاطاً اس نے لاٸٹیں بند کردیں اور آیة الکرسی پڑھنے لگی۔کوٸ کچن کی طرف رخ کیے آرہا تھا۔ابھی اس نے اندر قدم رکھے ہی تھے۔۔۔زَہرہ نے پوری قوت کے ساتھ چھوری سے اس وجود پہ حملہ کردیا تھا۔
”آٸٸٸٸٸ۔“زوردار آواز آنے کے ساتھ کوٸ سہارا لینے کے چکر میں زمین بوس ہوچکا تھا۔زَہرہ کو وہ آواز مانوس سی لگی تھی۔دماغ نے کچھ سگنلز دیے تو ہڑبڑا کر کچن کی ساری لاٸٹیں جلاٸیں پھر پیچھے مڑی لیکن نیچے دیکھا تو جسم کا خون جمتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
”(اففف زوہی یہ کیا کردیا)۔“ خود کو سرزنش کرتے ہوۓ اسے افسوس ہورہا تھا۔بادامی رنگ آنکھیں نمکین پانی میں روشنی پڑتے چمکنے لگی تھیں۔چھری کو ٹیبل پر رکھ کر وہ وہیں گھٹنے کے بل بیٹھی۔
”یہ کونسی دشمنی تھی؟“ اذان کے تکلیف سے کراہتے ہوۓ کہنے پر وہ شرم سے پانی پانی ہوگٸ تھی۔وہ کچن کے دروازے سے ٹیک لگا کر بیٹھا۔بازو کو پکڑے وہ ضبط کرنے کی حتی الامکان کوشش کررہا تھا۔زَہر نے جتنی قوت سے چھری ماری تھی وہ اسکے قد اچھا ہونے پر داٸیں بازو پہ لگی تھی اگر وہ زیادہ غصے میں ہوتی تو ناجانے وہ آج کہاں سے کہاں ہوتا۔
”آ۔۔آٸ۔۔۔آٸ ایم سوری اذان!“ اس نے سرجھکاۓ شرمندگی سے بہت دھیمی آواز میں کہا تھا۔اذان نے لمحہ بھر اسے دیکھا پھر نظریں پھیر گیا۔
”ابھی تو میں بالکل ٹھیک نہیں ہوں۔بینڈج مل سکتی ہے؟“ اس نے درد سے کراہتے جلدی جلدی کہا۔پھر بازو سے ہاتھ ہٹایا ت نظر پڑی ہتھیلی خون میں ہوچکی تھی اور اب اسے کمزوری محسوس ہونا شروع ہورہی تھی۔زَہرہ کے دیکھنے پر اس نے ہاتھ کو فوراً فرش پر ٹکادیا۔
زَہرہ دیکھ نہیں پاٸ تھی۔پھر فرسٹ ایڈ بوکس لینے چلی گٸ۔دوسری طرف اذان بھی بہت ہمت جمع کرکے اٹھا اور اپنے کمرے میں گیا ۔وہ باتھ سے فرسٹ ایڈ لے کر نکلنے لگی لیکن آنسو بار بار ابھر رہے تھے سو وہ دوبارہ باتھروم کا دروازہ بند کرکے کچھ دیر وہیں کھڑی روتی رہی۔اس نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی ایسا ہوگیا تھا۔اس نے پوری قوت کیساتھ چھری سے حملہ کیا تھا اور زخم یقیناً گہرا ہوگا۔وہ تھوڑی دیرآنسو پونچھ کر باہر آٸ اور کچن کی جانب چل دی۔اذان اب ڈاٸننگ ٹیبل کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھا تھا اب وہ کپڑے تبدیل کرآیا تھا۔
وہ کسی کام کے لیے باہر گیا تھا۔واپسی پر دیر ہوگٸ تھی لیکن چونکہ حنا نے اسے کی سیٹ دیا ہوا تھا تو اس نے کسی کو تنگ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔اندر وہ دبے قدم آیا تھا اور دروازہ تو کھول لیا تھا تھوڑی کھٹ پھٹ ہوٸ تھی اور بےدھیانی میں گملے سے ٹکرا گیا تھا اور گھٹنا چھل گیا تھا۔اور زَہرہ جاگ رہی ہوگی اسے معلوم نہیں تھا ۔کھانا اس نے بھی نہیں کھایا تھا۔
آج ولیمہ تھا اور زَہرہ نے نہ ہی اسے دیکھا تھا اور زکریا تو شاید آیا نہیں تھا۔اذان نے یہی سمجھا تھا کو سب سوچکے ہوں گے کیوں کہ انکل آنٹی اور ثاقب تو ایٸرپورٹ گۓ تھے باقی دادو اور اسامہ تو سوچکے تھے۔
”یہ لیں۔“ اس نے فرسٹ ایڈ بکس رکھا تو سوچوں کو جھٹک کر اس نے نظر اٹھا کر زَہرہ کو دیکھا پھر فوراً بوکس سے لے کر سامنےٹیبل پر رکھا۔وہ روٸ تھی۔۔۔اور شاید ضبط کرتے تھک گٸ تھی۔ وہ سمجھ گیا تھا۔پھر خاموشی سے روٸ سے زخم پر سے خون صاف کرنے لگا۔وہ کرسی اس سے فاصلے پر کرسی پر بیٹھ گٸ۔
”(حد ہوتی ہے زَہرہ! اتنا گہرا زخم۔۔۔میں تو چںر یا ڈاکو سمجھی تھی۔)“ اب وہ سرجھٹکے خود کو ملامت کررہی تھی۔
”یقیناً آپ سمجھی ہوں گی چور یا ڈاکو آگۓ ہیں۔ہیں ناں!۔“ اذان نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے کام مصروف ہوۓ کہا.وہ چوک گٸ۔
”مجھے نہیں معلوم تھا آپ گھر سے باہر ہیں۔“اس نے ندامت چھپاتے ہوۓ کہا۔
اب وہ ٹراٶزر اور ٹی شرٹ پہنا تھا۔پہلے تقریب والا سوٹ پہنا تھا جسکی وجہ سے زخم صاف نہیں ہوسکتا تھا۔اس نے خون میں لپٹی روٸکو قریب رکھے ڈسٹ بن میں پھینکا۔
”اچھا۔ویسے مجھے معلوم نہیں تھا کہ کوٸ اپنے منگیتر کا اتنا شاہانہ استقبال کرتا ہے۔“وہ مسکراہٹ دباۓ زچ کرتے ہوۓ کہہ رہا تھا۔پھر آٸنٹمینٹ لگانے لگا۔
”اذان!“اسے اب جھنجھلاہٹ ہورہی تھی۔وہ سمجھ گٸ تھی کہ وہ اسکی شرمندگی کا فاٸدہ اٹھارہا ہے۔وہ چاہ کر بھی مسکراہٹ نہیں روک پایا۔اسکے مسکرانےپر وہ نظریں پھیر گٸ۔
”اسامہ کے کمرے کو نوک کردیں۔“ وہ جانے
کے لیے اٹھ ہی تھی تو اس نے کہا۔
”کیوں؟“ اس نے فوراً سوال کیا۔
”میری بینڈج وہی کرے گا۔“ اذان نے حیرت سے جتاتے ہوۓ کہا۔
”میرا مذاق بنواٸیں گے۔“ زَہرہ نے ملامت بھری نظروں سے اسے دیکھ کر کہا۔
”میں ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔“اسکی بات پر آنکھوں میں دکھ لیے اذان نے کہا تھا۔پھر آٸینٹمینٹ زخم پر اثر کرنے لگا تو تکلیف بڑھ گٸ جیسے ابھی زَہرہ کے الفاظوں سے بڑھی تھی۔
”میں ہیلپ کردیتی ہوں۔“ ناچاہتے ہوۓ بھی اس نے کہا کیوں کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکی بےوقوفانہ حرکت پر اتنابڑا زخم لگنے پر سب بار بار اسے دوہراٸیں اور وہ شرمدنہ ہوتی رہے۔تو اسے یہی بہتر لگا۔
اذان نے حیرت سے اسے دیکھا۔وہ نظرانداز کیے اٹھی اور درمیان والی کرسی چھوڑ کر اسکے بعد والی کرسی پر بیٹھ گٸ۔بینڈج نکالی پھر اذان کی طرف دیکھا وہ اسے ہی دکھ رہا تھا۔
گوری رنگت اور وہ ٹی شرٹ پہنا تھا۔بازو پہ لگا تو کٹ بہت گہرا تھا۔وہ جھجھک رہی تھی،وہ سمجھ گیا تھا۔،
”پریشان نہ ہوں میرے ہاتھ میں چھری نہیں ہے۔“ ہاتھوں کی کپکپاہٹ اور اسکے یوں حیرت سے دیکھتے رہنے پر وہ خفت سے نظریں پھیرے کہہ گٸ۔
”( افف ایک تو یہ لڑکی مرواۓ گی اسے!)“ اذان نے اسکی نظریں پھیر کر کہنے پر سر جھٹکتے ہوۓ سوچا تھا۔وہ اپنی خفت کا ملبہ چھپانے کے لیے کہہ رہی تھی کہ پریشان نہ ہوں!۔
”میں خود کرلوں گا۔“ تھوڑے سخت لیکن دھیمے لہجے میں اذان نے کہا اور اشارہ کیا تو اس نے بینڈج اذان کے ہاتھ پہ رکھ دی۔جب وہ کمفرٹیبل محسوس نہیں کررہی تھی تو وہ پاگل نہیں تھا کہ اسے سمجھتا نہیں کہ وہ اتنا کپکپا کیوں رہی تھی۔
اذان بڑی مشقت سے بینڈج کرنے لگا تھا،زَہرہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔اذان محسوس کرچکا تھا لیکن فی الحال دل کے ہاتھوں مجبور ہونے کا نقصان اسے کسی شرط قبول نہیں تھا۔بڑی احتیاط سے اس نے ایک ہاتھ سے مشقت کرتے کرتے بینڈج خود ہی کرلی تھی۔ایک لمبی سانس خارج کرتے اسکی نظر سامنے ٹیبل کے دوسرے کونے پہ رکھے آملیٹ اور بریڈ سلاٸس پہ پڑی تھی۔
”(حد ہوتی ہے اذان! اس نے کھانا بھی نہیں کھایا ٹھیک سے!)“ سوچتے ہوۓ اسکادل چاہا اپنا سر دیوار سے مارلے...لیکن ابھی ہاتھ کی تکلیف کچھ کم نہ تھی۔۔۔
“کھانا کھالیا؟“ اذان نے اٹھتے ہوۓ سرسری پوچھا۔زَہرھ اسکے بینڈج بندھے ہاتھ کو دیکھتے کچھ سوچ رہی تھی۔ایک دم چونکی۔
”ج جی“ اس نے فوراً کہا۔اذان بےزار ہوا۔وہ جھوٹ بول رہی تھی۔
”تو پھر یہ بریڈ آملیٹ بھوتوں کےلیے رکھے ہیں۔“ پانی کا گلاس بھرتے اس نے کہا۔زَہرہ کی طرف اسکی پشت تھی اور اسکی بات پہ وہ خوب شرمندہ ہوٸ تھی۔
”ایسے ہی بنالیے تھے۔“ ایک بار پھر اپنی خفت مٹانے کے لیے اس نے کہا۔
اذان چڑ گیا تھا۔وہ اُسے سیدھا جواب کیوں نہیں دیتی تھی؟اللہ جانے!
”اوہ اچھا! تو رات کے ایک بجے ایسے ہی دل کیا تو بنالیا۔ٹھیک۔“اذان نے گھونٹ گھونٹ پانی پیتے جیسے خود کو سمجھانے والے انداز میں کہا۔
”آپ کھالیں۔۔۔“زَہرہ نے بےنیازی سے کہا۔جیسے اسے آفر کرکے بہت بڑا احسان کررہی تھی۔زَہرہ کی طرف اسکی پشت تھی اسلیے وہ فوراً مسکرادیا۔پھر خالی گلاس رکھ کر واپس پلٹا اور اس کرسی سے اٹھ کر پہلے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔زَہرہ کو وہاں اس وقت بیٹھنا اچھا نہیں لگ
رہا تھا تو وہ اپنی کرسی سے اٹھی اور دونوں پلیٹیں اسکے سامنے رکھ کر لاٶنج میں لاٸٹیں جلاکر بیٹھگٸ۔
اذان کی نظر پڑی۔اُس نے ایک آدھ لقمہ ہی کھایا تھا۔وہ مسکراہٹ دباۓ خاموشی سے ٹھنڈا آملیٹ اور بریڈ کھانے لگا۔مسکراہٹ تھی کہ ہونٹوں سے جدا نہیں ہورہی تھی۔۔۔
وہ کھانے سے فارغ ہوکر باہر آیا اور ٹاٸم دیکھا دو بجنے میں کچھ دیر تھی۔لیکن زخم میں دواٸ لگالینے کے بعد بھی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں اور اتنی دیر میں اب اسے بخار چڑھ رہا تھا۔زَہرہ ہاتھ پہ سر ٹکاۓ بیٹھی تھی۔
”میں سونےجارہا ہوں۔۔۔اور میں سچ بولنے پر آپکو ہرگز شُوٹ نہیں کرتا۔۔۔“ کہہ کر وہ سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے میں چلاگیا۔ ایک دفعہ پھر وہ شرمندہ ہوٸ تھی۔
پھر اٹھ کر کچن میں جانے لگی تو لاشعوری طور پر فرش پر نظر پڑی، خون کے نشانات تھے۔جسطرح سے وہ زخم پر ہتھیلی رکھ کر درد برداشت کررہا تھا خون واقعی زیادہ نکلا تھا۔
وہ آنسو روکے کپڑا گیلا کرکے جلدی جلدی نشانات صاف کرنے لگی۔ابھی وہ برتن سمیٹ کر وہاں سے نکلی ہی تھی کہ گاڑی کے ہارن کی آواز آٸ۔وہ لوگ آگۓ تھے اسے تسلی ہوٸ اور اپنے کمرے میں چلی گٸ۔بھوک دوبارہ لگ رہی تھی لیکن وہ سونے کی کوشش کرنے لگی۔
----------------
آج صبح صبح ہی اسکی آنکھ کھل گٸ تھی۔رات کو اسلام آباد پہنچنے پر و گھر آکر فوراً سوگیا تھا۔اٹھکر اس نے پردے ہٹاۓ تو خوبصورت اسلامآباد کی خوبصورت صبح نے اسے خوشآمدید کہا۔بہت دُور وہ خوبصورت بھورے کالے پہاڑ اور روٸ کے گالے جیسے نرم نرم دکھتے بادل۔ایک ہلکی سی مسکراہٹ اسکے لبوں کو چھو گٸ۔
فریش ہوکر وضو کرکے اسنے سب سے پہلے فجر ادا کی کہ مسجد جانے کے حوالے سے اسے دیر ہوگٸ تھی پھر تیار ہوا اور بلیک کوٹ ہاتھ میں اٹھا کر نیچے پہنچا۔
آٹھ بج چکے تھے۔اسے آفس کے لیے نکلنا تھا۔گھر کے نوکر اب حاضر ہوۓ تو بزنس ڈریسنگ میں تیکھے تاثر کے ساتھ بیٹھے اس شخص پر نظر پڑتے ہی سب اپنے اپنے کاموں میں لگ گۓ تھے۔
بابا نے فون پر ہی اسے اسکے آفس اور باقی تمام اہم تفصیلات کے بارے میں آگاہی دے دی تھی۔تو وہ تھوڑا کم پریشان تھا۔
”سر! گاڑی تیار ہے۔“ شوفر نےآکر تابعداری سے بتایا تو وہ سر اثبات میں ہلاتا اپنا بلیک کوٹ پہنے چل دیا۔ناشتے کا ٹاٸم نہیں بچا تھا۔
گاڑی اسلامآباد کی سڑک پر تیری سے رواں دواں تھی۔درختوں کی لمبی قطار ہر لمحے پیچھے کو جارہی تھی۔اُس نے شیشہ نیچے کردیا۔سرد موسم میں سرد ہوا ہر طرف دھند اور بادل سب کچھ اسے سکون دے رہا تھا۔وہ آنکھیں بند کیے بیٹھ گیا۔آج اسے ایک نٸ زندگی کی شروعات کرنی تھی۔وہ تمام تر یادیں۔۔۔وہ لوگ سب اِن درختوںکی طرح بہت پیچھے رہ گۓ تھے۔وہ تمام تر برے لمحے، وہ تکلیف دینے والا وقت سب بہت بپیچھے رہ گیا تھا۔اب اسکے لیے بہت کچھ بدلنےجارہا تھا۔
جب قسمت موقع دے تو اپنی فتح کے لیے جان توڑ کوششیں کرنا چاہییں باقی کے فیصلے اللہ پر چھوڑ دینا چاہییں۔اب وہ بھی اپنی آخری حد تک ہر کوششش کرے گا۔اب اس نے اپنا ہر مقدمہ اللہ کے سپرد کردیا تھا،اور اب جو ربّ کا فیصلہ ہوگا وہ اسے دل و جان سے قبول ہوگا۔۔۔اُس نے سوچ لیا تھا۔
”سر!“ شوفر نے اسے پکارا تو اس نے آنکھیں کھولیں پھر خاموشی سےگاڑی سے اترا کوٹ پہنا اور چل دیا۔گارڈ اسکے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ابھی اسے اسسٹنٹ سے بھی ملاقات کرنا تھی۔جو اسکے چاچو کا سب سے قابلِ اعتماد اسسٹنٹ تھا اور تمام تر ذمہ داریاں اسے دیتے تھے۔
وہ اپنے آفس میں پہنچا تو گارڈ بھی وہیں سے پلٹ گیا۔
----------------
آفس کا انٹیریٸر گہرے بھورے اور کریم رنگ کا امتزاج تھا۔وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔سامنے ٹیبل پرتمام تر فاٸیلز،ڈاکومینٹس اور کام کا دوسرا سامان بھی ترتیب سے رکھا تھا۔
اب اسے اسسٹنٹ کا انتظار تھا، جسے آجکا سارا شیڈول معلوم تھا۔اور اسے ابھی فاٸیلز کو دیکھ کرکچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
اُس نے راٸٹنگ پیڈ اٹھایا اور پین سے اسپہ آڑھی ترچھی لکیریں کھینچنے لگا۔
”(آپ سے شکایتیں کیسی؟۔۔۔۔۔meet my fiance Zahra Muzammil۔۔۔۔آپ نے میری بات سنی؟۔۔۔۔۔ایسا کچھ بھی نہیں ہے زکی۔۔۔)“ بہت سارے منظر ذہن کے پردے پر یکدم روشن ہوۓ پھر فوراً سر جھٹک کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔آفس روم کی ونڈو سے وہ دُور شان و شوکت سے کھڑے پہاڑوں کو دیکھ رہا تھا۔سورج کی کرنیں آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں۔سامنے دِکھتی سرمٸ سڑک پر اکاّ دُکّا گاڑیاں ہر تھوڑی دیر میں گزر رہی تھیں۔
اسکا آفس آٹھویں منزل پہ تھا وہ عمارت آٹھ منزلہ تھی۔دھیان بھٹکا تو اردگرد کا مکمل جاٸزہ لے کر و دوبارہ اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گیا۔
نو بج چکے تھے۔آفس روم کا کانچ کا دروازہ کھلا اور کوٸ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا وہاں پہنچا تھا۔
”اسلام و علیکم۔گڈ مارننگ سر زکریا۔آٸ ایم یور پرسنل اسسٹنٹ محمد آدم۔“
رعبدار سی آواز بلیک جینز اور بِلو شرٹ پہنے مٶدب انداز میں چہرے پر سنجیدگی لیے وہ کھڑا تھا۔
زکریا نے ایک نظر اسے دیکھا تھا اور اسے حیرت ہوٸ وہ اس سے عمر میں ایک دو سال چھوٹا ہی ہوگا لیکن مکمل ڈریسنگ اور چہرے پر اتنی سنجیدگی جتنا سنجیدہ وہ اپنی زندگی میں شاید ہی ہوا ہو۔لیکن پہلےکی بات اور تھی۔۔۔
”وعلیکم اسلام۔ ہیو آ سیٹ آدم۔“ اسکے سنجیدگی سے کہنے پر آدم کرسی کھینچ کر بیٹھا اور ایک فاٸل اسکے سامنے رکھی۔ زکریا نے اسکا جاٸزہ لینا شروع کیا۔
”سر! آج آپکی فرسٹ میٹنگ ہے دس بجے کانفرنس روم میں آپکا انتظار رہے گا۔اسکے بعد دوسری میٹنگ ایک کمپنی کے کلاٸنٹ سے ہے وہ ساڑھے بارہ بجے ہے۔باقی آپ کو اگر کوٸ چینجنگ کروانی ہو۔۔۔“ زکریا کے فاٸل دیکھنےپر آدم اسے فر فر شیڈول بتارہا تھا۔زکریا نے ساری بات سمجھتے ہوۓ سر کو اثبات میں ہلایا۔
”اوکے۔یو کین گو ناٶ۔“ کہہ کر اس نے فاٸل کی ایک ایک چیز کو دھیان سے دیکھنے لگا۔آدم تابعداری سے بات سمجھتے ہوۓ سر ہلا کر چلاگیا۔
----------------
”مسز ابراہیم!۔“ ابراہیم ن بہت آہستہ سے ایک بار پھر اسگا کندھا ہلاکر آواز دی لیکن و ٹس سے مس نہ ہوٸ۔یہ تیسری دفعہ تھا اور اب بھی کوٸ اثر نہ ہونے پر اسکا دماغ کام پہ لگ چکاتھا۔
”انزلناااااا۔“ اسکے کان کے قریب ابراہیم نے پرزور آواز میں کہاتو وہ ہڑبڑاگٸ۔وہ بہت زور سے ہنسا۔
”گڈ مارننگ مسز ابراہیم۔“ اس نےانزلنا کا گال تھپتھپاتے ہوۓ کہا۔وہ غصے سے جلی بھنی بیٹھی تھی۔اسے صبح جلدی اٹھنے کی عادت نہیں تھی۔
”میری مارننگ گُڈ کیسے ہوسکتی ہے جب صبح صبح تمہارا چہرہ دیکھنے کو ملے۔“ انزلنا نے بم پھٹے بالوں کو کیچر میں جکڑتے ہوۓ منہ پر بےزاری سجاۓ کہا۔وہ جی بھر کے مسکرایا۔وہ اسے جان بوجھ کر تپارہی تھی۔اور وہ ابراہیم ہی کیا جو سامنے والے کو نہ تپاۓ۔
”عادت ڈال لو اپنے اس خوبصورت شوہر کو دیکھنے کی۔“ ابراہیم نے بڑے ڈرامٹک انداز میں کہا۔انزلنا جو باتھروم جارہی تھی واپس پلٹی۔
”تم اپنا ڈاٸیلاگ بھول چکے ہو۔“ اس نے فکرمندی سجاۓ تاثرات سے کہا پھر خاموشی سے فریش ہونے چلی گٸ۔
ابراہیم ہنس دیا۔حذیفہ کے ولیمے کی صبح بھی انزلنا نے یونہی اسے غصہ دلایا تھا اور ابراہیم نے چیلنج کرتے ہوۓ کہا تھا کہ عادت ڈال لو بہت جلد یہی چہرہ دیکھنے کو ملے گا۔“
وہ سب سوچ کر مسکرایا تھا۔پھر کمرے سے نکل کر کچن کی جانب بڑھا تھا کہ اچانک کچھ یاد آیا۔
”زکریا کہاں ہے؟“ پاس سے گزرتے نوکر کو رکا کر پوچھا۔
”وہ تو صبح آٹھ بجے ہی آفس چلے گۓ تھے۔“اس نے بتایا تو ابراہیم کو حیرت ہوٸ۔اگر وہ تھوڑی دیر سے چلاجاتا توکوٸ حرج نہیں تھا۔
”ناشتہ کیا اس نے؟“
”نہیں۔“ کہہ کر وہ آخری بچا نوکر بھی کام سمیٹ کر سرونٹ کوارٹر میں چلاگیا۔
ابراہیم کچھ پریشان سا صوفے پر بیٹھ گیا۔پھر کچھ منٹ بعد ٹی وی پہ میچ وغیرہ دیکھنے لگا۔
انزلنا فریش ہوکر آٸ تو دھپ سے اسکے برابر میں بیٹھ گٸ۔
ابراہیم نے باقاٸدہ گردن موڑ کر اسےدیکھا۔پھر حیرت سے اسے ہی دیکھتا رہا۔
انزلنا چینل بدلتے ہوۓ اسکی نظریں محسوس کرچکی تھی لیکن ڈھٹاٸ سے اپنے کام میں مصروف رہی۔
”مسز ابراہیم۔“ ابراہیم نے اسے پکارا۔
”یس؟“ انزلنا نے انتہاٸ تمیز سے ابرو اچکا کر پوچھا تھا۔
”یہ میری شرٹ کس خوشی میں پہنی ہے؟“ تیوری چڑھاۓ اس نے پوچھا۔
”میرا دل چاہ رہا تھا۔“ انزلنا نے بےنیازی سےکہہ کر بات ختم کردی۔اور ٹی وی پر نظریں جمالیں۔
”اوہ اچھا!“ ابراہیم نے آنکھوں میں حیرت سجاۓ تھوڑی اونچی آواز میں کہا۔انزلنا نے توجہ نہ دی۔ پھر مسکراہٹ دباۓ کچن میں چلاگیا۔
”آج کچھ کہا نہیں! ناشتہ کیسے ہضم ہوگا؟۔“ انزلنا حیرت سے بڑبڑاٸ
”کچھ کہا؟؟؟“ مسکراہٹ دباۓ ابراہیم نے ہانک لگاٸ۔
”نہیں کچھ نہیں۔“ زبردستی مسکراتے ہوۓ اس نے ابراہیم کو دیکھ کر کہا تو ابراہیم کی ہنسی چھوٹی۔
”اتنا خوفناک نہ مسکراٶ نظر لگ جاۓ گی۔“ ابراہیم نے ہنستے ہوۓ کہا تو وہ عزت افزاٸ ہونے پر ٹی وی پر نظریں جماۓ بیٹھ گٸ۔وہ مسکراتا ہوا کیبینیٹس چھاننے لگا۔
---------------
”دادو۔۔۔آپکی چاۓ۔“ چاۓ کی پیالی رکھتے ہوۓ زَہرہ نے کہا اور خود بھی ناشتے کی ٹیبل پہ بیٹھی۔مزمل صاحب،حنا بیگم ثاقب دادو اسامہ سب ہی ناشتہ کررہے تھے۔
”آج انزو نہیں ہے کتنی خاموشی محسوس ہورہی ہے۔“ ثاقب نے افسردگی سے کہا۔سب سے زیادہ لڑتا بھی وہ ہی تھا۔اسکی بات بر سب مسکرادیے۔
”زَہرہ۔ انزلنا کو کال کرلینا۔“ مزمل صاحب نے یاد دہانی کرواٸ
”جی بابا جان۔وہ تو سو کے بھی نہیں اٹھی ہوگی ابھی۔دوپہر تک کروں گی۔“ اسنے مسکراتے ہوۓ کہا تو مزمل صاچب مسکرادیے۔
”زوہی۔مومنہ سے بھی ملنے چلیں گے۔“ حنا نے یاد دلایا۔اس نے محض سر ہلادیا۔سب ناشتے میں مصروف ہوگۓ۔
”اسلام و علیکم“ اذان ٹیبل کی طرف آیا تو سلام کرکے ثاقب کے برابر میں خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔
”اور بھٸ آج اتنی دیر تک سوتے رہے۔گیارہ بج چکے ہیں۔“ ثاقب نے اسکے سیدھے بازو پہ مکہ جڑا تو اچانک حملے پر اس کی تکلیف سے آواز ابھری۔زَہرہ سمیت سب اسکی طرف متوجہ ہوۓ۔پھر و خاموشی سے ناشتہ کرنے لگی۔
”اذان بیٹا کیا ہوا؟ طبیعت خراب ہے؟“ مزمل صاحب نے فکرمندی سے پوچھا تو لمحے بھر کے لیے زَہرہ نے اسے دیکھا۔اذان مزمل صاحب کی طرف متوجہ تھا۔لیکن اسکی نظریں وہ محسوس کرچکا تھا۔
”نہیں۔بس ہاتھ میں تھوڑا درد ہے۔ٹھیک ہوجاۓ گا۔“اذان نے مسکراتے ہوۓ کہا تو انھیں تسلی ہوٸ۔
وہ شرٹ پر جیکٹ پہنا ہوا تھا اسلیے بینڈج واضح نہیں ہوٸ تھی۔اور اس نے کسی کو پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔زَہرہ کو حیرت ہوٸ لیکن خاموشی سے کوفی کے گھونٹ بھرنے لگی۔
-------------
”مسٹر ابراہیم۔“ انزلنا نے اسے پکارا تو اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”زکریا کہاں ہے؟“ انزلنا نے تجسس سے پوچھا۔
”جب تم گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہی تھیں۔۔۔تب وہ آفس چلاگیا تھا۔“ابراہیم نے ذرا جتاکر کہا۔توقع کےمطابق وہ چڑ گٸ۔
”اور جیسے تم تو صبح ناشتہ بنانے اٹھے تھے ناں!۔“ انزلنا نے جل کر کہا تو وہ بتیسی دکھا کر ہنس دیا۔
”تیار ہوجاٶ۔“ ابراہیم نے کہا تو انزلنا نے اسے دیکھا۔
”کس خوشی میں؟“ انزلنا نے کمر پر ہاتھ رکھے بھنویں اچکا کر کہا تو کچھ لمحے افسوس بھری نظروں سے ابراہیم نے اسے دیکھا پھر کچن میں سلیب پر بکھرا سامان سمیٹنے لگا۔
”دوسری شادی کررہا ہوں۔اس خوشی میں! مل گیا سکون؟!۔“ابراہیم نے اونچی آواز میں کہا وہ اسکے سوال سے بےزار ہوا تھا۔انزلنا جوکہ ہمیشہ سے ہی اسکی چھوٹی چھوٹی تنگ کرنے والی باتوں پر چڑ جاتی تھی آج بھی چڑ گٸ تھی۔پیر پٹختی درمیان کا فاصلہ طے کرتی وہ ابراہیم کے پیچھے خاموشی سے کھڑی ہوگٸ۔
”اگر تم نے دوسری شادی کی تو تمہیں اور تمہاری اس چڑیل کو قتل کردوں گی میں پھر چاہے مجے ساری زندگی جیل میں گزارنا پڑے سمجھے تم!۔“ انزلنا پوری آواز کے ساتھ ایک ایک لفظ پر زور دیتے اسے کہا تھا۔اور ابراہیم کے لیے اپنی ہنسی قابو کرنا محال ہورہا تھا۔
ہنسی کو بریک لگاکر وہ پیچھے مڑا اور اسے اپنے حار میں لیا۔وہ اسی طرح منہ پھلاۓ کھڑی رہی۔
”پھر میں بھوت بن کر بھی تمہیں تنگ کیا کروں گا۔“ابراہیم نے ہنستے ہوۓ کہا۔وہ اسکی ہر بات سے لطف اندوز ہورہا تھا۔انزلنا کو تنگ کرنا اسکی زندگی کا سب سے پسندیدہ مشغلہ تھا۔انزلنا نے کنانکھیوں سے اسے دیکھا۔شک کرنے والی صورت لیے۔وہ جانتا تھا وہ بس غصے والی صورت بناۓ کھڑی ہے ورنہ وہ بھی اس سے پنگے لینے میں کسر نہیں چھوڑتی تھی۔
وہ سنجیدہ ہوا۔
”تم پریشان نہ ہومیری زندگی تم واحد چڑیل ہو اور رہوگی مجھے کسی اور کی ضرورت ہی نہیں۔“ بہت آہستہ سے اسکے قریب سرگوشی کرتے ہنسی روک کر کہتے اسے اپنے حصار سے آزاد کرتا آگے بڑھ گیا۔
وہ یکدم مسکرا اٹھی۔البتہ چڑیل کہنے کا انتقام اس نے بعد کے لیے رکھ لیا تھا۔اگر ابراہیم کا جینا دشوار نہیں کرے گی تو سکون سے رہے گی کیسے؟۔۔۔سوچتے ہوۓ شیطانی مسکراہٹ اسکے لبوں کی چھو گٸ تھی۔
”مجھے شاپنگ کروادینا۔تمہارے ہی کہنے پر میں صرف دو تین سوٹ رکھ کر لاٸ تھی۔اب تمہاری جینز اور شرٹ پہنوں تو ناراض نہ ہونا۔“ اسکے برابر سے گزرتے ہوۓ وہ زبان چڑاکر کہتے ہوۓ کمرے میں چلی گٸ۔اور وہسر جھٹک کر ہنس دیا۔
---------------
ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ میں پکڑے وہ سیڑھیاں اترتا کسی سوچ میں گم تھا۔چھری سے لگا زخم تکلیف بہت دے رہا تھا۔اور ابھی بھی اسے بخار تھا۔
”اذان!“ آواز پر وہ رکا تو سامنے زَہرہ کھڑی تھی۔
”یس؟“ اس نے گھڑی کی طرف دیکھتے مصروف انداز میں کہا۔اب اسے تو ممکن نہیں تھا کہ جب تک اسکے سامنے کھڑی رہتی وہ اسے دیکھتا رہتا۔۔۔
”یوسف نے کہلوایا ہے وہ لوگ آرہے ہیں تو آپکو بتانا تھا۔“اس نے پیغام پہنچایا۔
”اوکے۔“ کہہ کر وہ خاموشی سے چلاگیا۔زَہرہ کو اسکا لہجہ سرد محسوس ہوا تھا۔
-----------------
”سر اگلی میٹنگ آدھے گھنٹے بعد ہے۔کلاٸنٹ پہنچنے والے ہیں۔“ آدم نے ہاتھ میں بندھی گھڑی کی طرف دیکھتے اسکے پیچھے چلتے کہا۔زکریا نے سر کو جنبش دی۔
””سر آپ سے کوٸ ملنے آیا ہے۔“ آفس کی ہی ایک ورکر نے آکر اسے آگاہ کیا تو زکریا نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”و وہ سر۔۔ ابراہیم سر آۓ ہیں۔“ لڑکی نے ڈرتے ہوۓ فوراً بتایا۔
”تم جاٶ۔ میں پہنچتا ہوں تھوڑی دیر میں۔“کلاٸ میں بندھی گھڑی کی طرف دیکھتے اس نے آدم سے کہا تو وہ چلاگیا۔زکریا واپس اپنے آفس روم میں آگیا۔
”آٸیے محترم! سر میں نے آپکو پریشان تو نہیں کیا؟“ بہت فرمانبرداری سے کہتے ہوۓ ابراہیم اپنی نشست سے کھڑا ہوا تھا۔زکریا بےزاری سے اسے دیکھتا اپنی کرسی تک آیا۔
”بکواس بند کرو۔“ زکریا نے کہا تو وہ ہنسا۔پھر نظر انزلنا پر پڑی۔
”تم بھی آٸ ہو؟“ زکریا نے تھوڑی حیرت سے کہا۔آج اسکا خود پہلا دن تھا اور آج وہ دونوں بھی ٹپک پڑے تھے اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
وہ جو کونے میں رکھے صوفے پر ٹیک لگاۓ بیٹھی تھی اسکی بات پر مسکرا اٹھی۔
”نہیں۔ابھی آرہی ہوں۔“ انزلنا نے ہنستے ہوۓ کہا اور اسکا دل چاہا خود کو شوٹ کرلے۔
”کیا کھالیا تھا صبح ناشتے میں؟“ اس
نے چہرے پر شریفانہ حیرت سجاۓ پوچھا تو وہ دونوں ہنس دیے۔
”الحمداللہ ہم نے تو سب کچھ اچھا اچھا کھایا تھا۔لیکن دکھ رہا ہے شاید تم صبح مرچیاں چبا کر آۓ ہو۔“ابراہیم نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے کہا تو زکریا نے اسے گھوری سے نوازا۔
”تم چپ رہو۔“ زکریا نے بےزاریت سے کہا تو ابراہیم نے منہ پر انگلی رکھ لی۔
”اوکے بوس!“ ابراہیم نے سرگوشی کرتے ہوۓ کہا لیکن زکریا اب انزلنا کی طرف متوجہ تھا۔ابراہیم مسکرادیا۔
”تم نے کچھ کھایا نہیں صبح بھی۔یہ پیزا لاۓ ہیں۔کھالینا ڈنر تو ساتھ ہی کریں گے۔“ انزلنا نے خوش لہجے میں کہتے ہوۓ پیزا بوکس سامنے رکھا۔
”کیا ضرورت تھی لانے کی۔“ زکریا نے سنجیدگی سے کہا۔
”تم صبح ناشتہ کرکے نہیں گۓ تھے تو۔۔۔“ انزلنا نے جملہ ادھورا چھوڑا۔ابراہیم خاموشی سے زکریا کو دیکھ رہا تھا۔
”تو میں باہر سے لے کر کچھ کھالیتا۔“ زکریا نے ہنوز سنجیدگی سے کہا۔انزلنا کی مسکراہٹ سمٹی اور اسنے ابراہیم کو دیکھا وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
وہ یکدم سنجیدہ ہوگٸ تھی یقیناً زکریا کا انداز اسے برا لگا تھا۔
”زکی!“ ابراہیم نے نرمی سے اسے پکارا۔
”ہاں؟“ زکریا نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا پھر الجھے ہوۓ انداز میں انزلنا کو دیکھا تو اپنے لہجے کا احساس ہوا۔
”تھینک یو انزلنا۔مجھے تم دونوں کو پریشان کرنا اچھا نہیں لگا اسلیے۔“ زکریا نے دھیمی آواز میں کہا۔
”اٹس اوکے۔“ کہہ کر وہ مسکرادی۔
ابراہیم نے محسوس کیا تھا زکریا نے معذرت نہیں کی تھی۔بس اپنے طور پر مختصر بات کی تھی۔پھر بھی جو بھی تھا۔۔۔بات اب پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔
”زکی۔اب ہم چلتے ہیں۔انزلنا کو تھوڑی شاپنگ کروانی ہے۔رات میں ملتے ہیں۔“ابراہیم نے مسکرا کر بات ختم کی۔پھر دونوں چلے گۓ۔
اس نے بھی گھڑی کی طرف دیکھا۔۔۔بارہ بیس ہوچکے تھے۔ابھی دس منٹ باقی تھے۔انٹرکوم سے کال کی اور آدم کو بلاوا بھیجا۔
”یس سر؟“ دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد وہ وھیں کھڑے پوچھ رہا تھا۔
”تم نے لنچ کیا؟“زکریا نے پوچھا تو اس
نے نفی میں سر ہلایا۔
”بیٹھو!“ کونے میں رکھے صوفے کی طرف اشارہ کرکے کہا تو آدم خاموشی سے وہاں جاکر بیٹھ گیا اور ساتھ لاٸ فاٸل دیکھنے لگا۔زکریا ہاتھ دھو کر آیا۔پیزا بوکس اٹھا کر اسی صوفے کے دوسرے کنارے پر بیٹھ کر پیزا کھول کر سامنے رکھا۔آدم مودب سا کھڑا ہوگیا۔
”کیا ہوا؟“ ایک لمحے کو اسکے رویے کو دیکھ کر و الجھا تھا اسلیے پوچھ ڈالا۔آج آفس کا پہلا دن تھا
”کچھ نہیں سر! آپ لنچ کرلیں تو بلوالیے گا مجھے۔“ آدم فاٸل ہاتھ میں پکڑا اسے جواز بتانے لگا۔وہ اس سے تقریباً ایک دو سال چھوٹا ہی ہوگا لیکن زکریا کو اسکا ڈیسیپلین بہت پسند آیا تھا۔
”لنچ کرنے کے لیے ہی بُلایا ہے۔اب بیٹھ جاٶ۔“ زکریا نے انتہاٸ سنجیدگی سے کہا۔آدم حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
”بیٹھ جاٶ اور میرے ساتھ لنچ کرو۔گوٹ اِٹ؟“ زکریا جھنجھلاگیا تھا۔آدم خاموشی سے بیٹھ گیا۔
زکریا پیزا کا سلاٸس نکال کر کھانے لگا۔لیکن آدم نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔زکریا اخاموشی سے کھاتا رہا۔وہ سمجھ چکا تھا آدم کمفرٹیبل محسوس نہیں کررہا۔وہ اسکے باس کا بھتیجا تھا لیکن اب تو باس کا مقام تھا۔اور یقینا اسے زکریا کا یوں آفر کرنا پریشان کررہا تھا۔ساری کہانی زکریا نے خود سوچ لی تھی۔
تین سلاٸس کھا کر وہ اٹھ گیا اور ریسٹ روم جانے لگا۔
”یہ لے جاٶ اور کھالینا۔شاید تمہیں بھوک نہیں لگتی۔“ کہہ کر آخری جملہ بڑبڑاتا چلاگیا۔آدم مسکراہٹ دبا کر سامان سمیٹ کر باہر چلاگیا۔میٹنگ کا وقت ہوچکا تھا۔
-----------------
”اتنی دیر سے آۓ ہو تم لوگ۔“ صالحہ سے گلے ملتے زَہرہ نے ناراضگی سےاسے دیکھتے کہا تھا۔
”اب واپس چلے جاٸیں کیا؟“ صالحہ نے بھی خوب تپ کر جواب دیا تو زَہرہ نے اسکے انداز پر ہنسی روکی۔
”اب میں تمہیں گھر سے باہر تو نہیں نکال سکتی۔اب آہی گٸ ہو تو کیا کرسکتے ہیں؟“
زَہرہ کے لاپرواہی سے کہنے پر عنزہ اور انابیہ ہنسیں لیکن صالحہ نے اسے گھورا۔پھر دونوں ہی خود ہنس دیں۔
وہ چاروں کمرےمیں جارہی تھیں۔
”اذان کہاں ہے؟“ یوسف نے اس سے پوچھا۔
”مجھے نہیں معلوم۔ میں نے تم سب کے آنے کا بتادیا تھا۔“ عنزہ کی طرف دیکھتے اسنے سرسری انداز میں بات ختم کرنا چاہی۔اسے اذان کا صبح والا لہجہ بُھولا نہیں تھا۔
یوسف نے سمجھ کر سر ہلایا اور ثاقب سے باتوں میں لگ گیا۔اسامہ ناجانے کہاں تھا۔
وہ چاروں بھی زَہرہ کے کمرے میں چلی گٸیں۔
--------------
”کنگریچولیشنز زوہی۔“ عنزہ نے
مسکراتے ہوۓ کہا تو زَہر محض مسکرادی۔
”تو بھٸ آج میری زوہی ہم سب کو ڈنر کرواۓ گی۔“ صالحہ نے چہکتے ہوۓ کہا۔
”اوکے!۔“ سادہ جواب دے کر اس نے بات ہی ختم کردی صالحہ نے اسے دیکھا۔لیکن زَہرہ نظرانداز کرگٸ۔
”تو، پھر اذان کو بھی کہہ دو کہ ہم سب کے ساتھ چلے۔“ انابیہ نے خوش ہوتے ہوۓ مشورہ دیا۔اور اس نے مسکرانے پر اکتفا کیا۔
********************اسلام و علیکم۔۔۔
اپنی راۓ اور ووٹ دینا نہیں بھولیے گا۔
یہ چپکے چپکے پڑھ کر بغیر کمنٹ ووٹ کے جانے والوں کا بھی الگ سے حساب ہوگا😋
خوش رہیں.💛