شروع اس رب کے نام سے جو مجھے چاہتا ہے۔
سورج کی نرم گرم کرنیں مسجد کی میناروں سے نکلتی محسوس ہو رہی تھیں ۔ پرندوں کی شیریں چہچہاہٹ سماعتوں سے ٹکرا کر روح کو تازگی فراہم کر رہی تھی۔ ۔اس نے نادم سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھنا چاہا لیکن دوسرے ہی لمحہ وہ سر پھر سے جھک گیا۔۔ سیاہ آنکھوں سے ندامت آب کی مانند ظہور ہونے لگی ۔۔
وہ مسجد کے دروازے کا سہارا لے کر مسجد کے اندر لے جانے والی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔ لرزتے ہاتھوں پر اس کو اپنا گناہ مظہر ہوتا نظر آیا۔ دل کے اندر اک ٹیس سی اٹھی اور منہ سے ایک کربِ مسلسل کی گواہی دیتی بےآواز سسکی ۔۔
"تھک گیا ہے ؟ "عقب سے سوال کیا گیا اس نے چونک کر منبع آواز کی جانب دیکھا۔ سفید شلوار قمیص__ جو کہ پُر شکن تھی__ پہنے نورانی صورت والے بابا کو دیکھ کر وہ متعجب ہوا کیونکہ آنے والے کی شکل وہ اپنے خوابوں میں کئی بار دیکھ چکا تھا۔۔۔خواب۔۔۔ وہی خواب جو اس کی رہنمائی کرتے تھے لیکن ایک سال سے وہ خواب خواب ہو گئے تھے۔۔ پہلے وہ اس کو گناہ سے بچنے کا کہتے تھے ۔۔ لیکن اب نہیں ۔۔
"آ۔۔آپ؟" صحرا میں تشنگی کو ترستی ایک آواز جیسی بے یقینی اس کے سوال میں پنہاں تھی ۔۔اور شاید آنکھوں میں بھی۔۔
وہ مُسکرائے۔۔اُن کی آنکھوں میں نمی تھی جسے دیکھ کر موسیٰ حیات پشیمان ہوا- یہ آنسو اُسی کے تو دئے تھے ۔۔۔بابا اپنی لاٹھی کو پکڑے اسی سے ذرا فاصلے پر بیٹھ گئے ۔۔چونکہ صبح کے دس بج رہے تھے اس لیے مسجد میں لوگ نا ہونے کے برابر تھے ۔۔
"میں نے دیر کردی۔" مغموم سی صدا ۔۔۔لاحاصل سی پُکارا۔۔۔ تلخ سی حقیقت۔۔
نہیں! " یک لفظی جواب موسیٰ کے دماغ کو سُن کر گیا ۔
آپ بھی مُجھ سے ناراض ہیں؟" نا امیدی کے دھاگے میں سِلا ایک اور سوال۔۔۔ موسیٰ کا سر ایک بار پھر جھک گیا-
" تمہیں آج یہاں کیا چیز کھینچ لائی؟ "انہوں نے موسیٰ کا سوال یکسر نظر انداز کیا ۔
"ندامت!" ندامت کا" ن" آنکھ کی نمی کا "ن" بن کر عیاں ہوا۔
"رب کی مخلوق کی ضرورتوں سے فائدہ اٹھاتے اٹھاتے تھک گیا؟" بے کسی کی مالا میں پرویا ایک اور سوال موسیٰ کی سماعتوں کی نذر ہوا۔اس نے جھکے سر کے ساتھ ہولے سے اثبات میں سر ہلایا۔
"کیوں؟"کچھ سوال بولنے میں آسان ہوتے ہیں لیکن ان کے جواب سہل نہیں ہوتے۔ موسیٰ کے لئے بھی جواب دینا دوبھر ہوا۔
"جب متاعِ جان کو دوائی نہ ملنے پر ترپ تڑپ کر موت کی آغوش میں جاتے دیکھا۔ "ماضی کی کرب آلود ماضیات ذہن کے پردے پر رقصاں ہوئیں ۔
منظر بدلہ ۔۔اسی کی نادم آنکھوں نے دوبارہ وہ منظر دیکھا جس کو بھلانا کے لیے وہ اپنی یادداشت سے ہاتھ دھونا چاہتا تھا ۔۔ننھا عرش موسیٰ حیات کالختِ جگر ۔۔جو اک وبا کا شکار ہو کر ہسپتال کا سرد فرش پر اس کی گود میں تڑپ رہا تھا۔ وبا کی وجہ سا دواؤیاں بازار سے غائب ہو کر نفس کے پجاریوں کے گوداموں میں جا چکی تھیں۔ اگر مل بھی جاتیں تو چوگنا گنا زیادہ قیمت پر۔۔ ذخیرہ اندوزی کا بازار گرم تھا۔
موسٰی نے لاکھ ہاتھ پیر مارے لیکن دوائی نہ مل سکی اور ننھا عرش دنیا سے کوچ کرتا موسٰی کی زندگی کو بھی ساتھ لے گیا۔
بابا نے اس کی آنکھوں میں رقم داستان کو پڑھا۔جب الفاظ ساتھ چھوڑ جاٸیں تو آنکھیں ہمکلام ہوتی ہیں۔
"مکافات عمل وہ داٸرہ ہے جس کی زد میں انسان کا آنا لازم ہے۔"بابا نے کہا اور موسٰی حیات نے تسلیم کیا۔۔اس کے ہاتھ بدستور لرزش ذدہ تھے۔ چہرے پر خوف و ہراس کے گہرے بادل چھاگۓ۔
"جانتا ہوں۔۔جب میں آٹا زخیرہ کر کے اس سے دوگنی قیمت پر فروخت کرتا تھا تو میرا عرش سوال کرتا تھا۔"بابا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ "آپ جانتے ہیں میں کیا کہتا تھا؟"پُرنم آنکھوں میں بابا نے جھانکا اور نفی میں سرہلایا۔
"میں کہتا تھا بیٹا کاروبار کرتا ہوں تاکہ تجھے زندگی کی سہولیات فراہم کر سکوں۔"آخر میں موسٰی استہزائیہ ہنسا ۔ جیسے اپنا مذاق اڑایا ہو۔۔اپنی سوچ کا۔۔اپنے الفاظ کا۔۔بابا نے دیکھا تھا۔۔اس کی آنکھوں سے چند نادم آنسو مسجد کی چوکھٹ پر گرے ۔
"دیکھیں اس کاروبار نے مجھ سے میرا بیٹا ہی چھین لیا۔۔"
"دیکھیں اس کاروبار نے مجھ سے میرا بیٹا ہی چھین لیا۔۔چھین لیا ۔۔ میں ۔۔۔ تو ۔۔۔ تہی داماں رہا ۔۔" خالی ہاتھوں میں بکھری زندگی لیے موسی نے کہا۔
"حضرت محمد فرماتے ہیں :
جو شخص ذخیرہ اندوزی کرتا ہے وہ گناہ گار ہے۔ "
ناصحانہ انداز اپنائے بابا نے فرمانِ نبوی سنایا۔
"ضمیر کو سلا کر میں نے بھی ذخیرہ اندوزی کی۔۔ اب ضمیر جاگا ہے تو ہاتھ کچھ نہیں۔۔ "
" توبہ کر لو سکون مل جائے گا ۔" اس کا شانہ تھپتھپاتے انہوں نے راہ دیکھائی ۔
"توبہ؟" متعجب لہجہ ۔۔۔ متحیر نگاہیں۔۔
"ہاں توبہ!" آسان اور سہل جواب۔
"لیکن توبہ سے میرا بیٹا تھوڑی واپس آجائے گا۔" کمزور عذر پیش کیا گیا۔
"تمہیں اللہ مل جاۓ گا ۔۔۔ سب سے بہترین ساتھی ۔۔" مودت سے لبریز لہجہ اس کے دل میں گھر کر گیا ۔۔ فضا میں موجود تناؤ کم ہوا ۔ اس نے چشمِ نم سے بابا کی مسکراتی آنکھوں میں دیکھا ۔۔ان بوڑھی آنکھوں امید و رجا کا پیام پڑھ کر موسیٰ پہلی مرتبہ مسکرایا تھا ۔۔ شاید عرش کے جانے کے بعد پہلی مرتبہ ۔۔ اس کی مبہم مسکراہٹ کو دیکھ کر بابا نے آگے بڑھ کر اس کی پُر شکن پیشانی کو چوما ۔۔
"بے شک اللہ ذخیرہ اندوز کو پسند نہیں فرماتا۔" بابا نے جاتے ہوئے کہا تھا اور موسیٰ نے بے اختیار آسمان کی جانب دیکھا تھا۔۔
*---------*
اللہ تعالیٰ کو یہ ذخیرہ اندوزی نہیں پسند ۔۔ اس سے بچیں۔۔۔ گھروں میں بھی اشیا ضرورت سے زیادہ نہ رکھیں ۔۔ لوگ چار چار ماہ کا اسٹاک رکھ چکے ہیں ۔۔ اس میں سے غریبوں میں تقسیم کریں ۔۔ شکریہ ۔۔
#iff
YOU ARE READING
راہِ حق
Short Storyآج کل کورونا وائرس کی وجہ سے عوام میں نفسا نفسی کا عنصر دیکھنے میں آیا ہے ۔ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کی وجہ سے اللہ ناراض ہو رہا ہے ۔۔ اس کے لئے چند لفظ ۔۔ #iff