انسانیت؟؟؟
عزت؟؟؟
ہمیں تو بیٹا چاہیے بس!!!
اپنی بہن سات پردوں میں دوسروں کی بہن بنا کسی پردے کے!!!
کیوں کیا ہوا؟؟؟ یہی آوازیں تو ہے جو آئے دن ہم لڑکیاں، ہم مائیں، ہم بہنیں سنتی آتی ہیں۔ ہم نے تو زبان نہیں کھولیں۔ تو پھر اب کیوں!!!
"نمرتا"۔۔۔
ایک ہندو مذہب کی لڑکی۔ ایک پاکستانی۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹر بننے والی تھی کہ راستے میں کتوں اور بھیڑیوں نے ایسا جھپٹا مارا کے ساری انسانیت کی دھجیاں اڑگئیں۔ یاد رہے ایم بی بی ایس ڈاکٹر بننا آسان بات نہیں ہے۔
ہم کیسے لوگ ہیں؟ تف ہے ہم سب پر۔ ہم نے تو ایک ہندو کو بھی نہیں چھوڑا۔ کیا ہوا اگر وہ ایک ہندو تھی؟ تھی تو پاکستانی نا۔ دل سے تھی نا۔ تو پھر کیوں ایسا ہوا؟؟؟
اس بچاری کا اتنی بے دردی سے قتل کیا گیا کہ رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اور سب سے شرم کی بات تو یہ ہے کہ ہم لوگ تو اپنی مسلمان لڑکیوں کو نہیں چھوڑتے، چاہے وہ کسی بھی عمر کی کیوں نہ ہو۔ بس ہوس کا نشانہ بنایا اور یہ جا وہ جا۔
بعد میں کیا انصاف دلادوں گے ان لوگوں کو جن کی اولاد تھی۔ کیا؟؟؟ کچھ دن کے لیے وہ حیوان جیل کی سلاخوں میں رہے گا اور پھر باہر آجائے بڑے ہی سکون سے گھوم رہا ہوگا۔ نقصان کس کا ہوا؟؟؟
نقصان ان کا ہوا جن کی اولاد نہ رہی۔ ان کی جن کی ساری زندگی اس کے ساتھ جڑی تھی۔ سارے خواب اس کے ساتھ جڑے تھے کہ وہ بڑی ہو گی تو ہمارے خواب پورے کرے گی۔ جو ہم نہ کرسکے وہ کرے گی۔ اور وہ لڑکی پوری محنت سے پوری لگن سے اپنے ماں باپ کا خواب پورا کر رہی ہوتی ہے کہ راستے میں ایک حیوان آتا ہے اور اس کی عزت کو تار تار کر جاتا ہے۔
اس کی زندگی کو مہلت بھی نہیں دیتے کہ وہ دوبارہ کھل کے سانس بھی لے سکے۔ وہ یا تو اسی وقت مر جاتی ہے یا پھر زندہ لاش بن جاتی ہے۔ اور اس کے ماں باپ تانوں تشنوں کا نشانہ بن رہے ہوتے ہیں۔ لوگ آتے ہے آکے فضول گوئی کرتے ہے اور چلے جاتے۔ لیکن ان کی باتوں سے جو گھاؤ دل پہ لگتے ہے وہ تو کسی بھی دل جوئی سے نہیں بڑھتے۔ لوگوں کے تلخ الفاظ " ہاں ہاں لڑکی یونیورسٹی میں پڑھنے جاتی تھی نا، وہاں تو لڑکے بھی ہوتے ہے، ہو گا وہاں کسی لڑکے کے ساتھ چکر تب ہی تو منہ کالا کروا کے آ گئ ہے۔ تبھی تو یہ حال ہوا ہے۔" کسی کی زندگی کیسے برباد کر ڈالتے ہے، یہ کہنے والوں کو کیا خبر۔
ارے شرم نہ آئی تم لوگوں کو یہ کہتے ہوئے۔ تمہارے گھر میں بھی تو بیٹی ہو گی نا۔ خوف نہ آیا تمہیں یہ کہتے ہوئے۔ یہاں کسی کا گھر اجر گیا، کسی کے خواب چکنا چور ہو گئے، کوئ اپنی منزل پانے کے راستے میں بس پہنچ ہی گیا تھا کہ لا کے یوں پٹخا کے کچھ بھی باقی نہ رہا۔
ہم لوگ اپنی نفرتوں، اپنی آناؤں میں اتنے آگے بڑھ گئے ہے کہ ہمیں نظر ہی نہیں آرہا کے ہم کیا کر رہے ہے۔ ہم اپنی بہنوں، بیٹیوں کو سات پردوں میں چھپا کے رکھنا چاہتے ہے کے کسی کی بری نظر نہ پڑے اور خود ہم کیا کر رہے ہے۔ خود ہم کتنے پانی میں ہے۔
شرم آنی چاہیئے ہمیں کہ ہم وہ نہیں ہے جو ہم اپنی بیٹیوں، اور بہنوں کے لیے چاہتے ہے۔ ہم تو وہ ہے جو بہنوں، بیٹیوں کو کہے گے کہ یہ جو کپڑا ہے نا اس کو اپنے سر پہ لیتے ہے۔ اور دوسروں کی بہنوں، بیٹیوں کے سر سے وہی کپڑا اتار کے اپنی پاؤں کی جوتی سمجھ لیتے ہے۔
واہ۔۔۔ بہت خوب۔۔۔ سہی جا رہے ہے ہم۔ ہم نے نہ تو کسی ہندؤں کو چھوڑا، نہ ہی عیسائی کو اور نہ ہی مسلمان کو۔ آخر کیا قصور تھا اس معصوم لڑکی کا۔ صرف اتنا کے وہ ایک ہندو لڑکی تھی۔ میں پوچھتی ہو کہ کیا وہ انسان نہیں تھی کیا؟ وہ ایک پاکستانی نہیں تھی کیا؟ ہمارے مذہب اسلام میں تو یہ نہیں سیکھایا جاتا۔ ہمارے ملک پاکستان کو اس نظریہ سے تو نہیں لیا گیا تھا۔ ارے قائد اعظم نے تو خود کہاں تھا کہ پاکستان میں ہر مذہب کو آزادی ہیں۔ پھر یہ کیسی آزادی؟
کیا خود سے گھن نہیں آتی؟ کیا خود سے شرم محسوس نہیں ہوتی؟
اور چلو اب بات کر لیتے ہے کہ صرف بیٹا ہونا چاہیئے!!! ہمیں تو صرف بیٹا چاہیئے!!! کیوں؟؟؟ بعد میں بیٹوں کی تربیت بھی تو سہی سے کروں نا۔ بیٹیوں کو ٹھکرانے والوں بعد میں وہی بیٹیاں تم لوگوں کا سہارا بن رہی ہوتی ہے۔ انہی کے گھروں کی دہلیز پہ بیٹھے انہی پہ منہسر ہوتے ہوں۔ خود سے ایک کام بھی نہیں کر پاتے اور وہ جن کو اپنی ساری زندگی نرمی سے، پیار سے دور رکھا ہوتا ہے، کبھی پیار سے بات نہیں کی ہوتی، وہی سنمبھال رہی ہوتی ہے تم لوگوں کو۔ بات کرتے ہو بیٹے کی وہ تو اپنی عیاشیوں اور رنگ رلیوں میں تم لوگوں کو سڑک پہ لا کے بیٹھا دیتا ہے۔ تمہاری عزت تک نہیں کرتا۔ یہی اگر اسکی سہی تربیت کی ہوتی، اس کو اچھے برے کی تمیز بتائ گئ ہوتی، اس کو سہی غلط میں فرق بچپن سے ہی بتایا ہوتا تو وہ یہ حرکتیں کبھی نہ کرتا۔
اب ایک یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ تربیت کرنا صرف ماں کا کام ہے اور باپ پیسا کماتا ہے۔ نہیں ہر گز نہیں۔ اگر باپ پیسے کماتا ہے تو ماں بھی کما سکتی ہے اسی طرح ایک بچے کی تربیت کا کام بھی دونوں ماں باپ نے مل کے کرنا ہوتا ہے۔
بیٹا چاہیئے؟؟؟ اور بعد میں وہی بیٹا عورتوں کی عزتوں سے کھلواڑ کر رہا ہوتا ہے۔ اور ایک بات اور، بلکہ سب سے بڑی بات یہ کہ بڑے ہم سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار ہے نا، تو بتاؤ مجھے کیا تھا انکا (صلی اللہ علیہ وسلم) کوئ بیٹا؟؟؟ وہ تو وہ عظیم روح تھے جن کے بیٹے تو ہوئے پر جلد ہی انہیں خدا نے اپنے پاس بھلا لیا مگر اس پیغمبر خدا کی زبان سے ایک لفظ بھی شکایت کا نہ نکلا۔ وہ تو چپ کر کے اپنے آنسوؤں بہا گۓ۔ اور فرمایا کہ آنکھ پر نم ہے، زبان خاموش ہے، پر اپنی زبان سے ایک لفظ نہ نکالے گے جو خدا کو نا پسند ہوں۔
جب اس پیغمبر خدا نے صبر کر لیا تو تم لوگ کیا ہو۔ کیا اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کے ہو۔ بتاؤں؟؟؟
مجھے ایک بات بتاؤ کیا تم مردوں میں سے کوئ چاہے کہ تم جیسا مرد ہی تمہاری بہنوں، اور بیٹیوں کو ملے؟ یا پھر تم جیسی عورت ہی تمہارے بھائ، اور بیٹوں کو ملے؟ اگر ہاں تو اپنے آپ کو ایسا ڈھالوں کہ ہر کوئ تم سے سیکھے۔
اور اگر نہیں تو اپنے آپ کو ایسا بناؤ، اس قابل بناؤ کہ کہہ سکو کہ مجھے اپنی بہنوں، بیٹیوں یا پھر بھائیوں، بیٹوں کے لیے اپنے جیسا مرد یا عورت پسند ہے۔
اور یہ خوب کہاں کہ عزت رول دی ہے اس (لڑکی) نے۔۔۔ ارے اسکو کبھی عزت دی ہوتی اسکا اعتبار کیا ہوتا، اسکو سمجھا ہوتا تب نا۔ مگر نہیں۔ وہ کماتی ہے تو طعنے، وہ گھر میں بیٹھی تمہارا گھر سنبھالتی ہے، تمہارے بچے سنبھالتی ہے تو طعنے۔ اور وہ چپ کر کے سنتی رہتی ہے کیوں کہ اسکا اب ٹھکانہ یہی ہے۔ کما کما کہ تم لوگوں کو وہ کھلاۓ، اپنی کمائی سے تم لوگوں کا بوجھ اٹھاۓ، خود روکھی سوکھی کھاۓ مگر تم لوگوں کی پسند کا کھانا بنا کے پیش کرے۔ تم لوگوں کے طعنے سنے اپنی عزت پہ کیچڑ اچھلتا سہے۔ اور تم لوگ اسکو آوارہ، بد چلن، اور بد کردار کہوں۔ کیا یہ سہی ہے؟ وہ عورت اندھر ہی اندھر سب برداشت کرتی مر جاتی ہے۔ وہ کماۓ تو مصیبت، نہ کماۓ تو مصیبت۔ آخر چاہتے کیا ہو تم سب لوگ؟
وہ پڑھ لکھ کر کچھ بن جاۓ تو بھئ شادی کر دو۔ پڑھاتے ہی کیوں ہو آخر اسے؟ بعد میں تو گھر ہی سنبھالنا ہے نا، بچے ہی پیدا کرنے ہے۔ بلکہ بچے پیدا کرنے والی مشین بننا ہے۔ اگر اسکی پڑھائ اتنی ہی چبتی ہے تم لوگوں کو تو عیش کی زندگی بھی تو تم لوگ ہی جیتے ہو نا جب وہ اپنی پڑھائ کے بل بوتے پہ کما کے لاتی ہے۔
شرم کرو اے انسان شرم کرو۔ کیوں انسانیت کا گلا گھونٹ رہے ہو تم لوگ۔ انسانیت تو زندہ رہنے دوں۔
ہم مسلمان تو اپنے ہی فرقوں میں بٹے ہوۓ ہے ہم کیا دوسروں کی حفاظت کرے گے۔
تف ہے تم لوگوں پہ تف ہے۔ بات صرف نرمتا کی نہیں ہے، زینب کی بھی نہیں ہے، بات انسانیت کی ہے۔ نجانے کتنی زینب نے اپنی زندگی کو یوں ہی کھو دیا؟
انسانیت کو تو جینے دو۔ پاکستانی ہونے کا ذرا تو ثبوت دے دو۔ مزہب کو ایک طرف رکھ کہ انسانیت کو بچا لو۔ خدا را۔
