"امید" (قسط نمبر 27)

133 10 6
                                    

کافی دیر سے وہ کال کررہی تھ لیکن اس نے ابھی تک کال اٹینڈ نہیں کی تھی۔پھر وہ حنا بیگم کے پاس چلی گٸ۔
”اسلام و علیکم امّی جان۔“ وہ سلام کرکے حنا کے پاس بیٹھی۔وہ تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ابھی عشا۶ کی نماز پڑھ کر بیٹھی تھیں۔
”وعلیکم اسلام۔کیا ہوا بیٹا؟“ اس نے انکی گود میں سر رکھا تو وہ اسکے سر پر ہاتھ پھیرنے لگیں لہجہ فکرمند تھا۔وہ مسکرادی۔
”کچھ نہیں ہوا۔“پچھلے دنوں مصروفیت رہی میرا دل کررہا تھا آپکے پاس بابا کے پاس بیٹھنے کا باتیں کرنے کا۔“اس نے دل کی بات کہی۔وہ تسبیح پڑھتے مسکرادیں۔وہ انکی گود میں سر رکھ کر لیٹی رہی۔
”تمہارے بابا تو نماز ادا کرنے گۓ ہیں۔تم پریشان ہو زوہی؟!۔“انھوں نے اسے بتاکر دوبارہ پوچھا۔
”امّی جان۔۔۔کچھ لوگوں کی باتیں اتنی تکلیف دہ کیوں ہوتی ہیں۔۔۔مطلب جب جڈ ہم سوچیں تکلیف ہر دفعہ اتنی کی اتنی ہی محسوس ہوتی ہے۔کم کیوں نہیں ہوتی؟“ وہ ٹہر ٹہر کر ساری بات کہتی الجھن کا شکار دکھ رہی تھی۔
”زَہرہ۔۔۔جب امید نہ لگاٸی جاۓ تو نتیجے اتنے تکلیف دہ بھی نہیں ہوتے۔جب ہر ایک سے امی لگاٶ گی تو دل ٹوٹنا بھی لازم ہوجاۓ گا۔اور یوں ہر ایک کی باتوں کو اتنا سوچا نہیں کرو دل سے لگا کر مت بیٹھ جایا کرو۔“وہ بہت پیار سے اس سے کہہ رہی تھیں۔وہ آنکھیں بند کیے انکی بات بڑے غور سے سن رہی تھی۔
وہ کہہ کر خاموش ہوگٸیں۔پھر تسبیچ پڑھتے دھیرے دھیرے اسے تھپتھپانے لگیں۔
اس نے آنکھیں کھولیں۔یکدم ہی اسکی آنکھیں آنسوٶں سے بھرنے لگیں۔وہ یقیناً اسے اچھا محسوس کروانا چاہ رہیں تھیں۔آنسو گرتے گرتے اسکے اسکارف میں جذب ہونے لگے تھے۔وہ خاموشی سے رو رہی تھی۔
”زوہی بیٹا۔تم روسکتی ہو۔خود پر اتنا بوجھ نہیں ڈالو کہ سنبھالنا مشکل ہوجاۓ۔“حنا بیگم نے کچھ دیر بعد کہا تو وہ جو خاموشی سے رورہی تھی اچانک انکے کہنے پر آنسو اٹک گۓ۔وہ جھٹکے سے اٹھی اور حنا کے گلے لگ کر رونے لگی۔پھر وہ جتنی دیر روتی رہی وہ اسے تھپتھپاتی رہیں۔
”م مم میں بتا نہہیں سکتی میں کتنی خوش نصیب ہوں کہ آپ اور بابا جان میرے ساتھ ہیں۔“ وہ کچھ دیر بعد ان سے الگ ہوٸی اور آنسو صاف کرتے کہنے لگی۔وہ بےاختیار مسکرادیں۔
”میں اور تمہارے بابا ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں زَہرہ۔خود کو کبھی بھی اکیلا مت سمجھنا۔چاہے ہم تم سے جتنا دُور ہوں لیکن ہم تب بھی تمہارے قریب ہوں گے۔کبھیہمت نہیں ہارنا۔کوٸی جتنا تمہیں نیچا دکھانے گرانے کی کوشش کرے بس اللہ سے امید رکھنا۔۔۔اس ربّ پہ یقین رکھنا کہ وہ تمہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔اور بابا اور امی جان ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں۔
میں نہیں چاہتی میری بیٹی کمزور ہو،دنیا سے ڈر جانے والی ہو۔میں چاہتی ہوں میری بیٹی بہادر ہو، کبھی ہمت نہ ہارے۔“وہ بہت پیاری پیاری باتیں سمجھا کر اسے گلے لگا گٸیں۔وہ ایک بار پھر سے آنکھیں بند کیے وہ سکون محسوس کرنے لگی۔
       تھوڑی دیر بعد وہ ان سے الگ ہوٸی توعین اسی وقت مزمل صاحب کمرے میں داخل ہوۓ تھے اسے وہاں موجود دیکھ کر شفقت سے مسکرادیے۔
”اسلام و علیکم آج ہماری بیٹی کو میری یاد آرہی تھی؟“ وہ اٹھ کر مزمل صاحب  سے ملی تو وہ بہت لگاٶ سے پوچھنے لگے۔وہ مسکرادی۔
”جی بابا جان۔“ اس نے فخریہ انداز میں کہا تو وہ بھی مسکرادیے۔
پھر دونوں کرسیوں پر بیٹھ گۓ۔حنا بیگم تسبیح پڑھتے مسکراتے ان دونوں باپ بیٹی کو دیکھ رہی تھیں۔
”ثاقب کہاں ہے؟“ مزمل صاحب نے پوچھا تھا۔
”وہ آج صالحہ یوسف وغیرہ آۓ ہیں تو ان سب کے ساتھ ہے۔“ زَہرہ نے بتایا تو انھوں نے سمجھ کر سر کو جنبش دی۔
”بابا جان؟“ اس نے تھوڑی دیر بعد پکارا۔
”جی بیٹا بولیے۔“ انھوں نے متںجہ ہوکر بہت پیار سے پوچھا۔وہ مسکرادی۔
”سب کہہ رہے ہیں اینگیجمنٹ کی خوشی میں ڈنر کرواٶ۔اذان بھی جاٸیں گے۔تو کیا میں چلی جاٶں؟اگر آپ دونوں کو ٹھیک لگے تو؟“ اس نے سر جھکاۓ مٶدب انداز میں پوچھا۔دونوں طرف سے جواب نہ پاکر اس نے سر اٹھا کر بابا کو دیکھا۔
”ہاں بیٹا چلے جاٶ۔اس میں اتناپریشان ہونے والی بات نہیں اور بابا کو اپنی بیٹی پہ بھروسہ ہے۔“ انھوں نے بہت نرم اور دھیمے لہجے میں کہا پھر مسکرادیے وہ بہت خوش ہوٸی۔
”جزاکاللہ بابا جان۔“ وہ ان سے کہہ کر اور حنا کو بھی مشکور نگاہوں سے دیکھتی باہر چلی گٸ۔حنا اور مزمل صاحب مسکرادیے۔
            --------------------
”زَہرہ کال کردی اذان کو؟“ اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی انایبہ نے پوچھا تھا۔
”تم لوگ ریڈی تو ہوجاٶ کال بھی کردوں گی۔“وہ جان چھڑانے والے انداز میں کہہ کر بیڈ پہ آلتی پالتی مار کر ٹیک لگا کر بیٹھ گٸ۔
وہ امی جان کے پاس چلی گٸ تھی کچھ دیر باتیں کرتے اور پھر اسے کال کرنا ہی بھول گٸ تھی۔وہ تینوں تیار ہورہی تھیں۔
وہ موباٸل لیے بیٹھ گٸ۔
عنزہ جو بالوں کو اسٹریٹ کررہی تھی مڑی اور اسے بغور دیکھا۔
”تمہیں لگتا ہے وہ تمہاری ایک کال پہ آجاۓ گا۔“عنزہ نے مسکراہٹ دباۓ کہہ کر ڈریسنگ ٹیبل کی طرف منہ کرلیا۔آٸینے میں وہ زَہرہ کا عکس دیکھ رہی تھی۔صالحہ اور انابیہ بھی مصروف دکھنے کی کوشش کررہی تھیں البتہ وہ بھی جواب کی منتظر تھیں۔
”ہاں۔“ زَہرہ نے اسکے کہنے کے اعد فوراً جواب دیا تھا۔سارا دھیان موباٸل کی طرف تھا پھر سوال پر غور کیا تو فوراً موباٸل سے نظریں ہٹا کر پہلے عنزہ اور پھر صالحہ انابیہ کو دیکھا۔
وہ تینوں مسکراتے ہوۓ اسے دیکھ رہی تھیں۔
”کیا؟“وہ شرمندہ تھی لیکن الٹا سوال کر ڈالا۔
”زوہی!۔“ انابیہ نے شکی نظروں سے دیکھتے اسے پکارا تھا باقی دو بھی اسے ویسے ہی دیکھ رہی تھیں۔
”کم آن انابیہ ڈونٹ ڈسٹرب ہَر۔ اس نے کہا ہے کہ وہ اسکی ایک کال پہ آجاۓ گا تو آجاۓ گا۔ہے ناں زوہی۔“عنزہ نے جیسے کچھ منٹ بڑی ہونے کا رعب جماتے ہوۓآنکھیں پٹپٹاتے زَہرہ سے پوچھا۔صالحہ مسکراٸی تھی اور انابیہ ہنسی تھی۔
”بکواس بند کرو تم تینوں۔زَہرہ نے جھنجھلاتے ہوۓ کہا تھا اوراٹھ کر جانے لگی۔
آدھے راستے میں ہی تھی کہ انایبیہ اور صالحہ دیوار بن کر کھڑی ہوگٸیں وہ پھر مسکرا رہی تھیں۔
”اب کیا مسٸلہ ہے؟“ زَہرہ نے شکی نظروں سے دیکھتے آنکھوں میں بےزاریت لیے پوچھا تھا۔
”بیٹھو پہلے۔“دونوں نے ہم آواز ہوکر کہا۔وہ بادامی رنگ آنکھوں میں بےزاریت لیے ضبط کیے ان تینوں کو دیکھتے دوبارہ بیڈ پر بیٹھ گٸ۔
”ہاں بھٸ زوہی۔تو۔۔۔۔“ عنزہ ہاتھوں کو آپس میں ملتے اسکے سامنے کرسی رکھ کر بیٹھ گٸ۔ابھی ان سب کے جانے میں وقت تھا۔اُسامہ ثاقب اور یوسف نماز پڑھنے گۓ تھے ابھی آۓ نہیں تھے۔اذان کا کچھ پتا نہیں تھا۔اور ان چاروں کے پاس ابھی کافی وقت تھا۔
”بولو بھی اب۔“ زَہرہ نے چڑ کر کہا۔وہ تینوں ہنسیں۔صالحہ اور انابیہ کرسی کے ہتّھوں پہ ٹک گٸیں۔ اب وہ تینوں اسکے سامنے بیٹھی تھیں۔
”اب یہ کہ۔۔۔تم اذان کو کال ملاٶ۔اور۔۔۔“ انابیہ نے جملہ ادھورا چھوڑا۔
”اور اگر اس نے پہلی دفعہ میں تمہاری کال ریسیو کرکے ہامی بھرلی تو۔۔۔“
عنزہ نے بھی جملہ ادھورا چھوڑا۔زَہرہ ابھی بھی بےزاریت سے بات مکمل ہونے کا انتظار کررہی تھی۔
”تو ہم تینوں کی طرف سے اس سردی کے موسم میں آٸسکریم ٹریٹ ڈن!۔“ صالحہ نے ہاتھوں کو پھیلاۓ جسے بہت بڑی آفر دی تھی۔
”اتنا سب آٸسکریم کی لالچ دے کر کر رہے ہو تم لوگ۔ پیٹ ہے میرا کنواں نہیں ۔جو
صرف آٸسکریم ہی کھاتی رہوں۔“ زَہرہ نے گہری سانس خارج کرتے ان تینوں کی عقل کا جنازہ پڑھنا چاہا۔
وہ تینوں ڈھٹاٸی سے ہنس دیں۔
”اچھا اچھا۔تعریف بعد میں ۔چلو جلدی کال ملاٶ شاباش۔“ انابیہ نے بات ختم کرتے کہا۔زَہرہ نے اسے گھورا۔
”اور والیم آن رکھنا۔“عنزہ نے بات پوری کی۔زَہرہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”بہت بدتمیز ہورہی ہو تم سب۔“ زَہرہ نے ناراضگی سے کہا۔تینوں ہنس دیں۔
”تمہیں ہمارے سامنے بات کرنے میں شرم آرہی ہے؟“عنزہ نے شرافت سجاۓ آگے ہوکر کہا۔زَہرہ یکدم شرمندہ ہوٸی۔
”استغفراللہ۔چپ کرجاٶ اب۔“زَہرہ نے ہاتھ اٹھا کر کہتے بات ختم کرنا چاہی۔مسکراہٹ ان تینوں کے ہونٹوں پر رینگ رہی تھی۔
”اچھا بھٸ جلدی کال کرو۔ہم بھی دیکھنا چاہتے ہیں تمہاری بات میں کتنا وزن ہے۔“
انابیہ نے بات ختم کی۔زَہرہ نے صالحہ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔وہ بھی ڈھٹاٸی سے ہنس رہی تھی۔اُس سے تو وہ بعد میں نمٹے گی۔
وہ تینوں اپنی سرگوشیوں میں مصروف تھیں۔وہ موباٸل پ کچھ ٹاٸپ کرنے لگی۔
”کال پک کرلیں پلیز۔ضروری بات کرنی ہے۔“
سینڈ کے ساٸن پہ کلک کرکے اس نے ٹیکسٹ میسج بھیجا تھا۔کال کے لیے بیلنس نہیں تھا تو سوچا واٹس ایپ سے کرے گی کال۔
وہ تینوں اپنی سرگوشیوں میں مگن تھیں۔اچھا ہے ان تینوں نے نہیں دیکھا۔کیوں کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ کال ریسیو نہ کرے اور وہ تینوں پھر خوب مزے لیں۔
پھر ان تینوں کے متوجہ ہونے پر اس نے کال کی۔
”ہۓَ زَہر۔ دِس ون ریڈ ہرٹ ہاں؟!“ انبیہ کی
نظر ڈاٸلڈ ہوتے نمبر پر گٸ۔اذان کے نام کے ساتھ دل والا اسٹیکر۔ریڈ ہارٹ ایموجی؟“
اس نے آنکھیں پھاڑے اسکرین کو دیکھا۔
وہ تینوں پھر مسکرا رہی تھیں۔
”(یہ کس نے کیا؟ اورپہلے میری نظر اسپہ کیوں نہیں گٸ۔)“ وہ حیرت سے موباٸل کی اسکرین کو دیکھتے سوچ رہی تھی۔واٹس ایپ پہ کال جارہی تھی ابھی ریسیو نہیں ہوٸ تھی۔
وہ مزید کچھ سوچتی۔۔۔
”اسلام و علیکم!۔“ موباٸل سے آواز ابھری۔چاروں الرٹ ہوٸیں۔زَہرہ نے ان تینوں کو دیکھا۔آج مسکراہٹ سے ان تینوں کی دوستی تھی۔شریر اور زہریلی مسکراہٹ!
”وعلیکم اسلام۔۔۔(اسے زیادہ حیرت ہوٸی تھی۔پہلے اس نے تین دفعہ کالز کی تھیں لیکن اسنے ریسیو نہیں کیا تھا۔ اور اب۔۔۔ پہلی دفعہ میں ریسیو!)“
زَہر اسکرین کو نہیں دییکھ رہی تھی وہ زمین کو تک رہی تھی۔انابیہ نے اسکا ہاتھ ہلایا۔”وہ یوسف اور عنزہ آۓ ہیں اور انگیجمینٹ کی سیلیبرشن کے لیے ڈنر کروانے کا کہا ہے۔“زَہرہ نے بڑے تحمل سے اپنی بات کہی۔ان تینوں کی گھورتی نظروں کی وجہ سے اسے جھنجھلاہٹ محسوس ہورہی تھی۔اور پھر اسپیکر آن کیے بات کررہی تھی۔(”اسے معلوم ہوا تو برا لگے گا۔“) اس نے دل میں سوچا۔
”جی۔پھر۔۔۔؟“اسکے خاموش ہونے کے اگلے لمحے اذان نے پوچھا۔
وہ تینوں اسے دیکھ رہی تھیں۔
”تو ان سب نے کہا آپکو بھی بتادوں۔“زَہرہ نے بتایا پھر چپ ہوگٸ
”اچھا!۔“ اس نے مختصر کہا۔زَہرہ  کو اسکا لہجہ۔۔۔فی الحال۔۔
وہ کال اینڈ کرنے لگی۔عنزہ نے اشارہ کیا کہ وہ آۓ۔
اس نے یاد دلایا
”آپ آجاۓ گا۔۔۔۔مم میرا مطلب آپ آٸیں گے؟“الجھن میں اس نے دوبارہ جملہ درست کرکے پوچھا۔کچھ دیر خاموشی رہی۔
”اوکے۔“ اذان نے کہا اور اس نے فوراً کال اینڈ کی۔
”واٶ زوہی۔“کال کے ختم ہوتے ہی تینوں نے کہا۔وہ نظریں پھیر کر خاموشی سے اٹھ کر جانے لگی۔ان تینوں کی ہنسی گونجی۔
”تم سب کا وقت آۓ گا۔پھر بات کروں گی۔“بڑبڑا کر کہتے ہوۓ وہ موباٸل اٹھاۓ کمرے سے باہر نکلی۔وہ تینوں ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہی تھیں۔
وہ اسکارف کو درست کرتے سیڑھیاں اتری تھی۔
”سب ریڈی ہوگۓ تو چل لیں؟“یوسف نے پوچھا۔وہ تینوں بھی آگۓ تھے۔
”نہیں صالحہ ابھی تیار ہورہی ہے۔انتظار کریں۔“تھوڑا چڑ کر کہتے وہ کچن میں پانی پینے چلی گٸ۔یوسف مسکرادیا۔
             --------------------------
وہ گھر پہنچا تو آٹھ بج چکے تھے۔ابراہیم اور انزلنا ابھی تک نہیں آۓ تھے۔
اور اسے بھوک لگ رہی تھی۔شکر ہے نماز اس نے پہلے ہی ادا کرلی تھی۔اور دن  میں بھی اپنے آفس میں پڑھی تھی۔اس نے ایکسکیوز کیا تھا کہ میٹینگ تھوڑی دیر میں ہوجاۓ گی پہلے نماز ادا کرلی جاۓ۔اور آدم بالکل بھی جھجکا نہیں تھا۔فوراً اسکے ساتھ گیا اور اسکے آفس روم میں بنے چھوٹے کشادہ پرے ایریا میں اسکے لیے جاۓ نماز بچھادی تھی تو اس نے باآسانی نماز پڑھ لی تھی۔پھر دوبارہ میٹینگ کنٹینیو کی تھی۔
آج اسے بہت اچھا محسوس ہورہا تھا۔پہلے ہی دن اتنا زیادہ کام ہونے کے باوجود اسکی نماز قضا نہیں ہوٸی تھی۔
ابھی وہ باتھ لے کر باہر نکلا تھا۔تھوڑی دیر کے لیے بیڈ پر پاٶں پھیلاۓ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔کچھ دیر موباٸل چیک کرکے اس نے رکھ دیا۔اچانک میسج ٹون بجی۔
”سر.کل میں اور ڈراٸیور آپکو پک کرلیں؟ اگر آپ چاہیں؟ معیز سر نے میسج بھجوایا ہے کہ آپکو ٹھیک لگے تو پک کرلیں۔“ اسسٹنٹ آدم کے نام سے میسج آیا تھا۔
”شیور۔“ سینڈ کرکے وہ خاموشی سے آنکھیں موندے بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر بعد کمرے سے باہر نکل کر وہ سیڑھیاں اترتے نیچے کچن میں آگیا۔ شیف کچن میں ہی تھا۔کھانا بھی تقریباً تیار ہوچکا تھا۔
پانی کا گلاس بر کر وہ خاموشی سے ڈاٸننگ ٹیبل کی طرف چلاگیا۔
”کیا تم پہنچ گۓ؟ہم کچھ دیر میں آرہے ہیں۔“ ابراہیم کا واٹس ایپ پہ میسج آیا تھا۔وہ پڑھ کر دھیما سا مسکرادیا۔
پانی پی کر اٹھ کر وہ لاٶنج میں چلاگیا۔ٹی وی آن کرکے فٹ بال میچ دیکھنے لگا۔
پندرہ بیس منٹ بعد وہ بھی پہنچ گۓ تو تینوں نے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔
انزلنا کچن میں برتن دھورہی تھی۔ نیوز چینل لگا ہوا تھا لیکن ان دونوں ک دھیاں نہیں تھا۔
”کیسا رہا پہلا دن؟“ ابراہیم نے پوچھا۔
”اچھا،“
”تم جاکر سوجاٶ تھک گۓ ہوگے!۔“ابراہیم نے کہا لیکن اس نے صرف سر کو جنبش دے کر بات ختم کردی۔بھر ابراہیم نے ککھ نہیں کہا۔
”اتنے خاموش کیوں بیٹھے ہو؟ زندہ بھی ہو؟“ انزلنا نے پیچھے کھڑے ہوکر دونوں ٹھنڈے ٹھنڈے ہاتھ ابراہیم کے گالوں پر رکھ دیے۔زکریا نے اسے دیکھا۔
”ایسی حرکتیں کروگی تو زندہ بھی نہیں بچوں گا۔“ وہ گھوم کر اسکے ساتھ آکر بیٹھی تو ابراہیم نے گھور کر دیکھتے ہوۓ کہا۔یقیناً اتنی سردی میں ٹھنڈے ہاتھ لگنے پر وہ چڑ گیا تھا۔انزلنا نے بتیسی دکھاتے ہنس کر دیکھا۔ابراہیم کی ہنسی چھوٹ گٸ۔
زکریا اٹھ کر جانے لگا۔
”تم کہاں جارہے ہو؟بیٹھ جاٶ تھوڑی دیر۔“ انزلنا نے خوش لہجے میں کہا اس نے جواب نہ دیا اور آگے بڑھ گیا۔ابراہیم خاموش رہا۔
کچھ منٹ بعد وہ دوبارہ واپس آیا۔
”سردی میں آٸسکریم زیادہ اچھی لگتی ہے۔ہیں ناں؟!“ اس نے ہلکی سی مسکراہٹ سجاۓ آٸسکریم باٶل ٹیبل پر رکھا۔
وہ دونوں بھرپور انداز میں مسکرادیے۔
زکریا نے اپنا باٶل اٹھایا اور کھانے لگا۔ابراہیم اور انزلنا نے بھی اپنے اپنے باٶل اٹھالیے۔
”ایک منٹ، ذرا اپنا سپون دکھاٶ۔“ ابراہیم نے کہا تو وہ کھاتے کھاتے ہاتھ روک کر دیکھنے لگی پھر خاموشی سے اسے دے دیا۔ زکریا بھی خاموشی سے سرسری دیکھ رہا تھا۔
پھر ابراہیم نے ایک چمچ آٸسکریم کھا کر اسپون واپس اسے دے دیا۔ انزلنا ہنسدی۔
ابراہیم اور اسکی حرکتیں!
”تمہاری دآٸسکریم میں نمک ملا ہوا تھا ہیں ناں ابراہیم۔“ معصومیت سے اس نے کہا تھا۔
”ہاں مٹھاس تو ساری تمہاری وجہ سے ہے۔“ وہ بڑی سی مسکراہٹ سجاۓ کہنے لگا۔انزلنا بہت زور سے ہنسی تھی۔جبکہ زکرا مسکرایا تھا۔
”اچھا اب چپ کرکے کھالو۔“ ابراہیم نے اس سے کہا۔وہ اسکے اچانک کہنے پر حیرت سے دیکھنے لگی۔
”بدتمیز ہونہہ۔۔۔“ چڑ کر کہتے وہ کھانے لگی۔ابراہیم ہنس دیا۔
زکریا پھر مسکرایا تھا۔پھر سر جھٹک کر آٸسکریم کھانے لگا۔
اچانک ہی ذہن کے پردے پر کچھ ابھرا تھا۔
”(میرے لیے آرڈر نہیں کیا؟۔۔۔ایسے کیا دیھ رہی ہو؟۔۔۔پھر اس نے بھی کپ میں سے ایک گھونٹ کوفی پی کر آدھی بچا کر اُسے دے دی تھی۔۔۔۔اور وہ سر جھکاۓ کچھ لمحے کوفی کو دیکھتی پھر کوفی پی رہی تھی۔۔۔۔پھر وہ نظریں پھیرتے یونہی مسکرادیا تھا۔۔۔)“سںچتے ہوۓ اچانک
ہی آٸسکریم اسکے حلق میں اٹک سی گٸ تھی۔اس نے آٸسکریم نگلنا چاہی لیکن ناجانے اس لمحے اسے وہ آٸسکریم انتہاٸی کڑوی محسوس ہوٸی تھی۔
حلق میں جیسے کھ اٹکتا محسوس ہورہا تھا۔وہ اچانک ہی کھانسنے لگا۔شاید آنسو اٹک گۓ تھے!شاید۔۔۔!
ابراہیم اس پر نظر پڑتے ہی فوراً اٹھا تھا۔وہ اسے تھپتھپانے لگا۔
”پانی دو۔“ ابراہیم نے انزلنا کو اشارہ کیا تو وہ فوراً گلاس بھر کر لاٸی۔
وہ آدھا گلاس پانی پی گیا۔اب کھانسی کم ہوچکی تھی۔
”اب ٹھیک ہے؟“ انزلنا نے پریشانی سے پوچھا تھا۔اس نے سر کو جنبش دی۔
”میں سونے جارہا ہوں۔“ کہہ کر وہ ادھوری آٸسکریم چھوڑ کر خاموشی سے سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے میں چلاگیا۔
پیچھے انزلنا اور ابراہیم پریشان نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گۓ۔۔۔
بستر پر لیٹے اسے ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا تھا لیکن نیند نہیں آرہی تھی۔پایک عدد کتاب شیلف سے نکال کر وہ پڑھنے لگا۔۔۔۔
          -------------------
کانٹے چمچوں کی پلیٹس سے ٹکراتی ہلکی ہلکی آواز اٹھ رہی تھی۔
وہ سب ڈنر کر رہے تھے۔
”زَہرہ تھینکس فار دی ڈنر۔“ یوسف نے کہا تو اس نے سر کو جنبش دے کر بات ختم کی۔نقاب کے باوجود وہ آسانی سے کھانا کھا کھارہی تھی۔
ثاقب انابیہ اسکے سامنے جبکہ صالحہ اسکے برابر والی نشست پہ بیٹھی تھی۔
عنزہ اور یوسف اسکے دوسری طرف جبکہ ثاقب کے برابر میں اسامہ اور پھر آخری نشست پہ اذان تھا۔وہ دونوں الگ الگ کونوں پہ بیٹھے تھے۔
”ویسے اذان۔۔۔ہمیں معلوم نہیں تھا کہ تم زَہرہ کی کال ایک دفعہ میں ہی ریسیو کرلیتے ہو۔ورنہ بھاٸی نے تمہیں چار کالز کی تھیں۔“ انابیہ مزے سے کھانا کھاتے کہہ گٸ۔زَہرہ کا لقمہ حلق میں اٹکا تھا جبکہ اذان نے اسی لمحے اسکی طرف دیکھا تھا۔اسکے علاوہ کسی اور نے دھیان نہیں دیا تھا۔
”ہاں بھٸ۔سب انسان ایک جیسی اہمیت تو نہیں رکھ سکتے ناں۔کچھ نہ کچھ تو فرق ہوتاہے۔“ اُسامہ نے مسکراتے ہوۓ کہا تھا۔سب کے چہروں پر مسکراہٹ ابھری سواۓ زَہرہ اور اذان کے۔
”جہاں تک مجھے یاد ہے تم بچپن میں اتنے ذلیل انسان نہیں تھے۔“اذان نے کھا جانے والی نظروں سے اسامہ کو دیکھتے سرگوشی کی تھی۔
عنزہ اور یوسف سن چکے تھے وہ مسکراۓ جبکہ اسامہ باقاٸدہ ڈھٹاٸی سے ہنسا تھا۔
”اس میں کوٸی بڑی بات تو نہی۔اذان ابھی سے پریکٹس کررہا ہےبعدمیں زَہرہ کو شکایت نہیں ہوگی۔“ یوسف نے اذان کو گہری نظروں سے دیکھتے سرسری کہا۔زَہرہ نے اسی لمحے اذان کی طرف دیکھا تھا۔وہ جو یوسف کو گھور کر نظریں پھیر رہا تھا،اُسی پہ رک گٸیں۔ وہ الجھن کے مارے سر جھکاۓ کھانا کھانے لگی۔
”اچھا ہے پہلی دفعہ میں ہی کال ریسیو کرلی۔ ورنہ آپی نے قتل کردینا تھا تمہیں اذان۔“ ثاقب نے بتیسی دکھاتے ہوۓ کہا۔سب کی ہنسی چھوٹی تھی البتہ اذان کا دل چاہا ان سب کو شوٹ کردے۔
”مجھے یقین ہے تم سب نے کھانا کھالیا ہے۔اب ہم چل سکتے ہیں؟“غصہ ضبط کرتے اس نے ان سب کو گھورتے ہوۓ کہا۔سب نے ہامی بھرلی جبکہ ہنسی سبکے ہونٹوں پر رینگ رہی تھی۔وہ سب کو دفع کرتے خاموشی سے بل پے کرنے چلاگیا۔
           -----------------------------
وہ صالحہ کہ ساتھ لیے کاٶنٹر پر بل پے کرنے چلی گٸ۔باقی سب باتوں میں مصروف تھے۔وہ دونوں سرگوشی کرتے دھیرے دھیرے چل رہی تھیں۔
”مجھے اذان کا لہجہ سرد محسوس ہوا تھا۔۔۔صبح سے ٹھیک سے جواب نہیں دیا۔“ زَہرہ نے سرسری کہتے ہوۓ صالحہ کو دیکھا۔وہ ہنس رہی تھی۔
”تمہیں فکر ہورہی ہے اسکی؟“ صالحہ نے معصومیت سے پوچھا تھا۔زَہرہ بےزار ہوگٸ۔
”کم آن! میں تم سے ایک بات کہہ رہی ہوں صالحہ۔“ اس نے وضاحت دی تھی۔
”اچھا اچھا۔اب بتاٶ تمہیں ایسا کیوں لگا؟“صالحہ نے پوچھا تو اس نے کل رات والا واقعہ بتادیا۔صالحہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
کیا؟؟؟“ زَہرہ اسکے گھور کر دیکھنے سے اکتا گٸ تھی۔
”یارر۔۔۔وہ ہرٹ ہوا ہوگا شاید۔“ صالحہ نے اپنے اندازے کے مطابق بتایا۔
”کیوں؟“وہ سمجھ نہ سکی۔”اتنے خطرناک حملے پر؟“
”نہیں زوہی۔“صالحہ غصہ ہوٸی۔زَہرہ اسکے کہنے کا انتظار کرنے لگی۔
”شاید انسلٹ کرنے والی بات پر۔“صالحہ نے پرسوچ لہجے میں کہا۔
چلتے چلتے اس نے گردن موڑ کر صالحہ کو دیکھا۔
”اتنی سی بات پہ؟“ زَہرہ کی آواز اور آنکھوں میں حیرت ابھری تھی۔
”یار زوہی! کیا پتہ تمہارے لیے اتنی سی بات ہو۔ہمارے لیے جو خاص ہوتا ہے اسکی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی ہمارے لیے بہت معنی رکھتی ہے۔“صالحہ نے مسکراتے ہوۓ دوستانہ انداز میں سمجھانا چاہا۔
”ہاہ! میری بات کیوں اتنی خاص ہوگی؟“ زَہرہ کو جیسے بات ہضم نہیں ہورہی تھی۔
”کیا پتہ اسے تم سے محبت ہو!۔“ صالحہ نے بتیسی دکھاتے کہا تھا۔
”بکواس مت کرو۔“ اتنی بےتکی بات پر اس نے یہی کہنا ٹھیک سمجھا۔
”تمہیں لگ رہی ہے بکواس۔یقیناً اسے انسلٹ کرنے والی بات ہی بری لگی ہوگی۔“صالحہ نے ڈھٹاٸی سےکہا زَہرہ نے کوٸی جواب نہیں دیا۔
وہ کاٶنٹر پر پہنچ گٸیں۔زَہرہ نے بل کا پوچھا تو معلوم ہوا وہ پہلے ہی پے کرچکا تھا۔اسے حیرت ہوٸی پھر گردن موڑ کر صالحہ کو دیکھا۔وہ مسکرارہی تھی۔(ایک تو اس سے بات کرنا ہی فضول ہے۔)اس نے سوچا تھا۔
”محترمہ ایک بات تو بتاٸیں۔“ کاٶنٹر سے واپسی جاتے ہوۓ زَہرہ نے بڑی توجہ سے اسے پکارا۔
”ارشاد ارشاد۔۔۔“ صالحہ نے بھی بڑی دلچسپی سے مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔
”یہ اذان کے نیم کے ساتھ ہارٹ ایموجی لگانے کی فضول حرکت کس نے کی تھی؟“ زَہرہ نے دانت پیستے کہا تھا۔
”تم مجھ پہ شک کررہی ہو؟“صالحہ نے آنکھوں کو سُکیڑتے کہا۔
”شک نہیں پورا یقین ہے۔تمہارے علاوہ کسی کو میرے موباٸل کا پاسورڈ نہیں معلوم۔“ زَہرہ نے اسے شرمندہ کرانا چاہا۔
”تو کیا ہوا؟۔منگیتر ہے اب وہ تمہارا“ صلاحہ نے ڈھٹاٸی سے مسکراتے کہا۔
”منگیتر ہے کوٸی شوہر نہیں آٸی سمجھ۔“ زَہرہ نے اسے لتاڑا تھا۔
”تو شوہر بھی بن جاۓ گا۔“ صالحہ نے آسان حل پیش کیا تھا۔زَہرہ اسے گھورتی رہ گٸ پھر ایک تھپڑ اسکے بازو پہ لگا دیا۔وہ ہنس دی۔
وہ سب سامنے کھڑے دکھاٸی دیے تو صالحہ اسپیڈ پکڑتی ان سب تک پہنچ گٸی۔سب گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگۓ۔
”مجھے کچھ چیزیں خریدنا ہے یہاں روک لو۔“ شاپنگ مال کے سامنے سے گزرنے پر  عنزہ نے کہا تھا۔اذان ڈراٸیو کررہا تھا تو اس نے خاموشی سے گاڑی روک دی۔
سب وہاں رکے۔
”بھاٸی آپ میرے ساتھ آنا۔“ عنزہ نے یوسف کو کہا تو وہ چلاگیا۔باقی سب بھی گاڑیوں سے اتر کر مال میں چلے گۓ۔
عنزہ اور صالحہ نے آٸسکریم بھی تو کھلانی تھی۔
”صالحہ یہ کس کے لیے لے رہی ہو؟“ صالحہ کو جینٹس ہوڈی اور جینز پیک کرواتے دیکھ کر انابیہ نے تجسس سے پوچھا تھا۔
”تمہارے بھاٸی کے لیے۔“ صالحہ نے چڑ کر کہا تھا۔
”ہیں؟اچھا!۔“ انابیہ نے حیرت زدہ خوشی سے کہا۔
”ظاہر سی بات ہے اپنے بھاٸ کی لیے ہی لے رہی ہوں۔“صالحہ نے جملہ درست کیا۔
”اوہ اچھا۔“انابیہ ہنس دی۔ان دونوں کی تو ویسی ہی جنگ چھڑی رہتی ہے۔
”گفٹ میں زہر والی گولیاں دوں گی تمہارے بھاٸی کو۔“صالحہ نے کڑھتے ہوۓ کہا انابیہ کی ہنسی چھوٹ گٸ۔ پھر لیڈیز سیکشن سے سارہ کے لیے بھی ایک دو سوٹ خرید لیے۔
”صالحہ ادھر آنا۔“ زَہرہ نے اسے پکارا تو وہ فوراً اسکے پاس چلی آٸی۔
انابیہ عنزہ کے پاس چلی گٸ۔
”میں سوچ رہی ہوں اذان کے لیے کوٸ گفٹ لے لوں۔“ زَہرہ نے سوچتے ہوۓ اسے کہا۔وہ مسکرادی۔
”مطلب یہ کہ اذان نے مجھے یہ رِنگ گفٹ کی۔اب صرف گفٹ لے تو نہیں سکتے ناں گفٹ دینا بھی تو ہوتا ہے۔“زَہرہ نے اسے دیکھتے ہوۓ وضاحت دی۔
”اوکے اوکے۔چلو جل کر دیکھ لیتے ہیں۔“ کہہ کر دونوں ساتھ چل دیں۔
          ---------------------------
تھوڑی دیر میں وہ گفٹ پیک کرواکر نکلی تھیں۔زَہرہ نے اپنے اور باقی سارہ صالحہ عنزہ انابیہ کے لیے بھی اسکاف خریدے تھے۔
باتیں کرتے وہ شاپ سے باہر نکلیں تو سامنے کھڑے اذان پر نظر پڑتے بوکھلا گٸیں۔
وہ سنجیدہ سا کھڑا تھا۔چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ خوب بےزار ہورہا ہے مال آکر۔
”آپ یہاں؟“صالحہ نے کہا زَہرہ اس سے کچھ قدم پیچھے کھڑی تھی۔اسنے جلدی جلدی گفٹ بیگ کو دوسرے بڑے شاپنگ بیگ میں احتیاط سے رکھ دیا۔
”عنزہ ثاقب وہاں بلارہے ہیں۔“اس نے اوپری منزل پر کسی آٸسکریم پارلر کی طرف اشارہ کیا تھا۔صالحہ نے سمجھ کر سر اثبات میں ہلایا۔
پھر دوبارہ اسکی طرف دیکھا تو آنکھیں سکیڑے دیکھے گٸ۔ یوسف ان لوگوں کی طرف آرہا تھا۔
”چلیں محترمہ؟“ یوسف نے مٶدب ہوکر پوچھا۔
”جی بلکل۔“ اس نے بھی چڑ کر جواب دیا۔زَہرہ اور اذان ان دونوں کی حرکت پہ مسکراۓ تھے۔
”تمہیں آنے کی کیا ضرورت تھی؟“ صالچہ نے کہا۔وہ اور یوسف لڑاٸی میں مصروف چل رہے تھے۔اور پیچھے چلتے زَہرہ اور اذان ان دونوں کی باتوں سے کافی لطف اندوز ہورہے تھے۔
”آپ نے پہلے کال اٹینڈ نہیں کی تھی۔“ زَہرہ جو اس سے کافی فاصلے پر چل رہی تھی اس نے تھوڑی تیز آواز میں کہا آس پاس لوگوں کا ہجوم اور باتوں کی آواز میں شاید اذان تک آواز پہنچ گٸ تھی۔وہ چونکا تھا۔
”مصروف تھا۔“ اس نے مختصر کہا۔
”اگر آپکو میسج نہ ملتا تو آپ کال ریسیو نہیں کرتے۔“ اس نے بغیر تمہید کے کہا۔اسے برا لگتا اگر صالحہ اور عنزہ کے سامنے اسکی بات کچی ہوجاتی۔وہ تو شکر کہ اس نے میسج چھوڑ دیا تھا۔صالحہ اور یوسف ناجانے کونسے خزانے کے لیے لڑ رہے تھے۔
”نہیں آپ نے کہا اہم بات کرنی ہے اسلیے کال ریسیو کرلی۔۔۔“ تھوڑی توقف کے بعد اذان نے وضاحت دی۔پھر جیب میں ہاتھ ڈالے خاموشی سے چلنے لگا۔
کوٸی خاص بات نہیں تھی۔صالحہ عنزہ وغیرہ پیچھے پڑ گٸ تھیں کہا کہ کال کروں اور اگر آپ نے پہلی دفعہ میں اٹنیڈ کرلی تو میں جیت جاٶں گی پھر وہ آٸسکریم ٹریٹ دیں گی۔“ اس نے تفصیل بتاٸی۔زمین کو دیکھتے وہ چل رہی تھی۔لیکن اسے محسوس ہوگیا تھا کہ اس نے حیرت کے زیر اثر اسے دیکھا ہے۔
صرف آٸسکریم کے لیے اتنا سب کچھ۔“ اذان نے ترس کھانے والی نظروں سے دیکھتے کہا۔پھر نظریں پھیر گیا۔
”نہیں!!۔۔۔“ وہ جیسے شرمندہ ہوگٸ۔
”میں انکل سے کہتا ہوں وہ تو آپکے لیے پورا آٸسکریم فریج رکھوادیں گے پھر آپکو اتنی محنت نہیں کرنا پڑے گی۔“اس نے یوسف صالحہ کی طرف دیکھتے سنجیدہ لہجے میں کہا تھا۔لیکن وہ مذاق کررہا تھا وہ سمجھ گٸ تھی۔اسے ان تینوں پر غصہ آنے لگا تھا۔
”ایسی کوٸ بات نہیں ہے۔وہ بس دیکھنا چاہ رہی تھیں کہ آپکے لیے میری بات کتنی اہم ہے۔“ اس نے لاپرواہی سے کہتے اپنی شرمندگی کو دور کرنا چاہا۔۔۔جیسے وہ ہمیشہ اسکے سامنے کہا کرتی تھی۔
اور پھر اذان کے لیے مشکل پیدا کردیتی تھی۔۔۔لیکن اسے کہاں خبر تھی وہ تو بس کہہ دیتی تھی۔۔۔۔۔
وہ بےاختیار مسکرایا تھا لیک زَہرہ نے دیکھا نہیں تھا۔
”تو...اب انھیں پتہ چل گیا آپ میرے لیے کتنی اہم ہیں اور آپکی باتیں؟“اذان نے سامنے دیکھتے بہت عام سے لہجے میں پوچھا تھا۔
”جج جی،“ زَہرہ نے اب مزید کچھ نہیں کہا
”اچھی بات ہے۔“وہ کہہ کر مسکراہٹ چھپاگیا۔
”میری بات کی کوٸ ویلیو نہیں رہتی اگر آپکو میسج نہ پہنچتا اور کال اٹینڈ نہ کرتے پھر۔۔۔۔۔۔“ وہ آٹومیٹک اسٹیرز پہ قدم رکھتے کہہ رہی تھی۔۔وہ خاموش سا اسکی بات سن رہا تھا۔۔۔
”تمہیں میری بات کا بھروسہ کب ہوتا ہے؟“یوسف نے یکدم ان دونوں کی طرف پلٹتے دیکھ کر صالحہ کو جتایا تھا۔
وہ غصے سے جل بھن گٸ تھی۔اذان اور زَہرہ کی بات ادھوری رہ گٸ تھی۔
”تو تم ایسی حرکتیںکیوں کرتے ہو؟ کتنی گرل فرینڈز ہیں تمہاری اور وہ جو سفید چھپکلی ہے اسکے بارے میں تو تایا ابو کو بتاٶں گی پھر دیکھنا کیسے لگام لگاٸیں گے تمہیں۔۔۔“وہ غصے میں کہے جارہی تھی۔اذان حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔زَہرہ نے اسکا بازو پکڑ کر اسے خاموش کروانا چاہا۔وہ پبلک پلیس پر تھے اور زَہرہ ابھی کے لیے اسے پرسکون کروانا چاہتی تھی۔
زَہرہ کے ہاتھ پکڑنے پر صالحہ ناچاہتے چپ ہوٸ اور مڑ کر اسے دیکھا۔نقاب میں قید آنکھوں نے اسے خاموش ہونے کا اشارہ کیا تھا۔صالحہ کی آنکھیں غصے سے بھری تھیں وہ خفا ہوکر آگے چہرہ کیے کھڑی ہوگٸ۔اب یوسف ہنس رہا تھا۔
”اوۓ صالحہ۔“ وہ دوستانہ انداز میں کہتا صالحہ سے مخاطب ہوا۔صالحہ نے توجہ نہ دی جبکہ کان وہیں لگے تھے۔
”کم آن یار وہ کوٸی سفید چھپکلی نہیں تھی وہ اذان تھا۔۔یہ اذان۔۔۔“ یوسف نے ہنستے ہوۓ بات مکمل کی تو صالشہ نے شکی نظروں سے اذان کو دیکھا جبکہ زَہرہ کو حیرت ہوٸی۔
”یس۔۔بدقسمتی سے میں ہی ہوں۔“اذان نے ہلکی سی مسکراہٹ سجاۓ کہا۔زَہرہ صالحہ کے ساتھ چلنے لگی۔یوسف مسکرایا۔صالحہ نے اسے گھورا
”سچ سچ بتاٶ ورنہ اس کے ساتھ ساتھ تمہیں بھی شُوٹ کردوں گی۔“صالحہ نے شیطانی مسکراہٹ سجاۓ یوسف کو کہا۔
”پھر میرا دوست تمہیں جیل بھجوادے گا۔آٸ سمجھ!“ یوسف نے بھی اسے زچ کرنا چاہا۔
”میری دوست سنبھال لے گی اِسے،تم اپنی بات کرو۔“ صالحہ نے پہلی بات پر زَہرہ کی طرف اشارہ کیا پھر اذان کی طرف،اذان سر جھکا گیا۔۔۔جبکو زَہرہ نے صالحہ کے ہاتھ پہ کہنی ماری تھی۔
”بھٸ سچ کہہ رہا ہے یہ۔ایک تو تم اپنے دماغ میں خود سے پوری کہانیاں بناٶ اور پھر غصہ بھی ہم پر ہو۔میں اس دن اسی سے بات کررہا تھا۔تمہیں لگا کسی لڑکی سے بات کررہا ہوں۔اور باقی کہانی تم نے اپنی طرف سے خود سوچ لی اور یاد کرلی۔تم لڑکیوں کا کام ہی یہی ہے۔“ یوسف نے اسکی عقل پر افسوس کرتے ہوۓ پوری وضاحت پیش کی۔
صالحہ وہیں رک کر اسے دیکھنے لگی۔
”سچ؟ سچ کہہ رہے ہو؟“ صالحہ نے پھر کنفرم کرنا چاہا۔
”لاٶ لکھ کر دے دوں۔“ وہ چڑ گیا۔زَہرہ اسکی بات پر مسکراٸ۔اذان بھی ان دونوں کی بایتیں سن رہا تھا۔
آٸسکریم پارلر میں داخل ہوۓ تو ثاقب نے ہاتھ ہلاکر اشارہ کیا۔
”لیکن تم نے تو کہا تھا شادی کے بارے میں تاٸ جان سے بات کروگے اور وہ تمہیں بہت پسند ہے اور تم اسکے بارے میں کچھ برا نہیں سن سکتے۔۔“وہ ایک ایک کرکے اسکی کہی گٸ ساری باتیں دوہرا رہی تھی۔یوسف کو ہنسی آۓنے لگی تھی لیکن اس نے فوراً سیریس موڈ اپنایا۔
”ہاں سو تو ہے۔“ کہہ کر یوسف مسکرایا۔
”بدتمیز ہو تم بہت پہلے نہیں بتاسکتے تھے۔“اس نے چڑ کر کہا۔
”اب بتا تو دیا!“یوسف نے ہنستے ہوۓ کہا وہ گھور کر آگے بڑھ گٸ۔سب اپنی اپنی نشست پہ بیٹھنے لگے تو اذان بھی دوسری جانب جانے لگا۔
”میں کال نظرانداز نہیں کرتا۔ایک پرابلم تھی۔۔ورنہ میں چاہ کر بھی آپکو نظرانداز نہیں کرسکتا،سمجھ گٸیں آپ؟،“ اذان نے دھیمے لہجے میں اسکے سامنےسے گزرتے ہوۓ کہا تھا۔وہ جو کچھ سوچ رہی تھی۔اچانک اسکے سامنے رکنے اور کہنے پر گڑبڑاگٸ تھی۔اوروہ نظریں پھیرے ناجانے کیا کیا کہہ گیا تھا؟۔۔۔وہ سُن کر کچھ دیر کے لیے اسکا دماغ رک گیا۔پھر دماغ نے اسکے کہے گۓ جملوں کو ڈی کوڈ کرکے زَہرہ کو بتایا۔۔وہ بغیر کسی جانب دیکھے سر جھکاۓ اسکے جملوں کو سوچتی خاموشی سے اپنی نشست پر بیٹھ گٸ تھی۔
وہ کہہ کر خاموشی سے دوسری ٹیبل کی طرف جاکر بیٹھ گیا تھا۔
اسکی ہر بات ہر سوال پر وہ جتنا تحمل سے جواب دیتا وہ صرف وہ ہی جانتا تھا۔۔وہ۔۔اسکی سانس رکا دینے والے سوال اتنی آسانی سے کیسے کرلیتی تھی؟۔۔۔
اور وہ۔۔۔خود کو نارمل رکھتے پرسکون انداز میں ہر جواب دے دیتا پوری وضاحت کے ساتھ!۔۔ابھی بھی وہ کہہ آیا تھا۔خود پورا کانپ رہا تھا۔۔خفت کے مارے چہرے کا رنگ بدل رہا تھا۔۔۔۔زَہرہ کے سامنے کھڑے ہوکر اسے دیکھے بغیر جواب دینا۔۔۔یہ کتنا کٹھن کام تھا یہ صرف اذان جانتا تھا۔۔
ناجانےجیسا اس نے سوچا تھا ویسی زندگی اسے مل پاۓ گی بھی یا نہیں۔۔۔۔
جس دلدل میں اُسے سالوں پہلے ڈالا گیا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ زَہرہ اس دلدل کے بارے میں جانے۔۔۔کیا معلوم وہ۔۔۔عنایت۔۔وہ اسکا بات کرلینا۔۔۔اذان کے پاس یہ سب بھی نہ رہے۔اور پھر وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس بری دنیا سے واقف ہو۔۔۔اس بری دنیا کے راز جانے۔۔۔جس سے محبت کی جاۓ بھلا اسے تکلیف میں دیکھ لینا آسان بات ہوتی ہے کیا؟۔۔۔سوچوں کو جھٹکتے وہ موباٸل میں مصروف ہوگیا۔
”(اک تو اسی کے سامنے شرم سے پانی پانی ہوجانا! اُفف حد ہے اذان۔۔۔!)“اُس نے خود کو ڈانٹا تھا۔
     *****************





اسلام و علیکم ریڈرز😊
مجھے خوشی ہے جس جس نے مجھے میسج کیے اور کمنٹس میں کہا ”جلدی ایپیسوڈ دیں پلیز “ مجھے بہت بہت خوشی ہوتی ہے آپ سب کے رسپانس سے💛
پڑھیں اور ووٹس اور کمنٹس دیں اگر آپکو پسند آۓ۔
اپنی صحت کا خیال رکھیں💛 پھر جلد ملیں گے
                                   -ایمن

 "امید"    Where stories live. Discover now