خوبصورت یہی وہ ایک لفظ تھا جو اس نے اپنی بیس سالہ زندگی میں ہر شخص سے سنا تھا لوگ ہمیشہ اسی طرح ملاحہ کی تعریف کرتے تھے اور وہ ان سب تعریفوں کی حقدار تھی۔
اس کے بال لمبے اور اس قدر سیاہ تھے کی کوی بھی صرف اس کے بالوں کو دیکھ کر ہی اسے دیکھنے کا اشتیاق رکھتا اور خود وہ سرخ وسفید ہونٹوں والی خوبصورت ملاحہ آسانی سے کسی کے بھی دل میں جگہ بنا لیتی سکول کالج یونیورسٹی ہر جگہ اس کا ایک نام ایک مقام تھا ،، وہ خوبصورت تھی اسی کیے ہر کسی کی طرف سے اسے سب کچھ معاف تھا مگر قابلِ غور بات یہ تھی کہ" وہ خوبصورت تھی"
°°°°°°°°°°
پشاور کے اس علاقے میں بڑی بڑی پہاڑیوں کے درمیان ایک بڑی ہوٹل نما عمارت تھی جس میں عموماً سیاحوں کا ڈیرا رہتا تھا مگر تین منزلہ عمارت کی سب سے اپری منزل کہ ایک کمرے میں ہمیشہ اسی کا ڈیرہ رہا تھا مگر کچھ وقت سے وہ وہاں نہیں رہ رہی تھی لیکن دادا نے وہ کمرہ کسے سیاح کو نہیں دیا تھا وہ اسی میں رہتی تھی کچھ دن کیلۓ ہی آتی تھی مگر یہیں رہتی تھی۔
نمرہ نے اپنی امی اور بہن کو سہیلی کی گھر جانے کا چکما دیا اور باہر نکل آی اور رخ اسی عمارت کا کیا جس کا کوی نام نہ تھا مکر اس جگہ پہ قدرت کے دلدادہ لوگوں کی واحد جاہ پناہ تھی۔سب کی نظر سے نکل کے وہ عین اسی کمرے کے آگے آرکی جو کمرہ اس کا تھا پہلی دفع وہ اُس کمرے میں جاے گی اِس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا بالوں سے پن نکال کے اس نے بڑی مہارت کے ساتھ تین منٹ میں لاک کھولا اندر آتے ہی فوراً دروازے سے ٹیک لگا کے لمبے لمبے سانس لیے
"حد ہے نمرہ کوی چوری تھوڑی کر رہی ہے تو ۔۔نارمل" اس نے لمبی سانس کھینچتے ہوے خود کو دلاسا دیا مگر اس کے اندر سے دوبارا آواز آی
"کسی کے کمرے میں چھپ کر گھسنا چوری سے بھی برا کام ہے" غلطی کا احساس ہونے پر مڑ کر دروازہ کھولنے لگی کہ پھر رکی
"کوی نہیں نمرہ پیار اور جنگ میں سب جائز ہے"' پھر کچھ دیر وہیں کھڑے سوچنے کے بعد آگے آئ اور دل میں کہا" جو ہوگا دیکھا جائگا"
قدم قدم چلتی آگے آی تو ایک خوشبو نے اس کو اپنے حصار میں لیا۔۔۔سر جھٹکتی وہ کچھ تلاشنے لگی وہ اس کمرے میں صرف اپنا تجسس دور کرنے آی تھی کہ آخر وہ یہاں رہتی تھی تو کیسے؟ وہ شائد صرف اسکا لائف اسٹائل دیکھنے آی تھی ،یرچیز کو اٹھا ٹھا کر دیکتھی اور واپس رکھ دیتی
چند انگریزی کتابیں،لیمپ،کافی جار اور دیگر معمولی اشیاء پری تھیں کوی خاص شہ نہیں تھی مگر سب کچھ اس ترتیب سے پڑا تھا جیسے ابھی بھی کوی یہاں رہتا ہو ،،لیکن وہ تو کئ دن ہو گئے یہاں سے چلی گئ ہے۔۔ہیی سوچتے ہوے اس نے الماری کھولی تو سامنے اسے بھوری جلد والی کتاب نظر آی
نمرہ نے بے اختیار اسے اٹھایا اور جلد کو پلٹا تو اسکا نام نظر آیا
"ملاحہ"
نمرہ کو لگا جیسے اسے کوی دیکھ رہا ہے۔۔اس نے ڈر کے الماری بند کی مگر ڈائری ہاتھ میں ہی تھی
"ہاں ظاہر ہےنمرہ اللّٰہ دیکھ رہا ہے"
اس کے دل سے آواز آی مگر وہ دل سے آتی ہر آواز کو ایک ہی جواب دیتی رہی کہ" پیار اور جنگ میں سب جائز یے"اور سر جھٹکتی ڈائری اٹھاے صوفہ پر آ بیٹھی ،،اپنے دل کو بالاۓ طاق رکھے اس نے ملاحہ کے بیڈ کو اپنا شرف نہیں بخشا تھا "آخر اتنے آداپ تو ہیں کہ کسی کی غیر موجودگی میں اس کہ بیڈ پہ نہیں بیٹھتے " لیکن اس کی ڈائری کہ صفحے گردانتے ہوے،صبح کی نرم گرم دھوپ اور آس پاس سے بے خبر وہ اس ڈائری کی دنیا میں پہنچ چکی تھی۔۔۔
°°°°°°
سورج نے دسمبر کہ مہینے میں نہ نکلنے کی قسم کھای ہوی تھی اور اسلام آباد کہ پر رونق شہر کے لوگوں نے اسے اس کے حال پہ چھوڑا ہوا تھا اور اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ایسے میں ایک سیاہ گاڑی مال کہ پارکنگ لاٹ میں آ رکی اور اس میں سے نکلنے والے نوجوان نے سامنے کھڑی لڑکی کو سر سے پاوں تک دیکھا سیاہ جینز اور شرٹ کے اوپر گرے لانگ کوٹ،اور آنکھوں پہ سیاہ چشمہ پہنے وہ لڑکی اسے گھور رہی تھی
" حماد کبھی وقت پر پہنچ کر دیکھو اچھا محسوس ہوتا ہے"وہ اسی طرح نا گواری سے کہتی اسے آگے اتے دیکھتی رہی۔
"میری بہن کی شادی نہیں ہے جو اماں ابا مجھے کہیں جاو بیٹا ،،،جو دہی میں ہمیشہ بھول آتی ہوں وہ میں نوکر سے منگوا لوں گی تم جا کر شاپنگ کرو۔۔۔" وہ اداکاری سے بولتا ہوا قریب ایا
"ہاں تو سارا تمہاری بھی بہن ہے سمجھاو نہ انہیں،اور تم ابھی بھی دہی لے کر آتے ہو" وہ ہنسنے لگی
وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے مال کی طرف قدم بڑھا رہے تھے
"ہاں نا یار ،،جتنے مرضی نوکر رکھ لیں میری اماں جان کو لگتا ہے دہی والا نوکر کوچکما دے کر اسے کھٹا دہی دے گا اسی لۓ میں ہی جاکر لاوں، جیسے میں نے تو دہی میں PHD کی ہوی ہے، اور دہی والا تو ہے ہی اس انتظار میں کہ کب میری امی نوکر کو بھیجیں اور وہ اسے سپیشل کھٹا والا دہی دے" اس کی بات پر وہ ہنسی،،دونوں کے قریب آتے ہی سینسر نے دروازہ کھولا اور دونوں اندر داخل ہوے دروازہ کھلنے اوربند ہونے کے عمل سے ہوا نے ملاحہ کہ سیدھے۔ آ بشار جیسے بالوں کو ہلکا سا اڑایا تو ملاحہ نے بےنیازی سے انہیں اڑنے دیا
"خیر اب تم اپنی امی پہ الزام لگا رہے ہو ۔۔۔تم یقیناً اٹھے ہی لیٹ ہوگے تم نے مجھے انتظار کروایا ہے اور اسکی سزا پوری کرو اور کافی پلاو" ملاحہ نے کافی شاپ کی طرف اشارہ کیا
صبح کا وقت تھا اور رش قدرے کم تھا،مگر پھر بھی وہاں موجود لوگ ان دونوں کو دیکھ رہے تھے رک کر ، مڑ کر، پلٹ کر ،مگر وہ دونوں بے نیازی سے باتیں کرتے چلتے رہے جیسے یہ سب معمول ہو
"مجھے سمجھ نہیں آتی ملاحہ لوگ ہمیں کیوں دیکھتے ہیں اس طرح؟" کافی شاپ میں بیٹھ کر وہ بولا
"شاید موازنہ کرتے ہیں کہ تم زیادہ خوبصورت ہو یا میں؟" ملاحہ نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر مسکراتے ہوے جواب دیا
"توکیا خیال ہے کیا نتیجہ نکالتے ہوں گے؟" بیرے کو کافی کا آرڈر دے کر وہ پیچھے ہوکر بیٹھا
ملاحہ نے ایک لمحے کو اپنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا لمبا خوبصورت ،،ہلکی بڑھی ہوی شیوہ،،سفیںد رنگت اور مسکراتی آنکھوں والا نوجوان اس کے جواب کا منتظر تھا
"ظاہر ہے تم زیادہ ہینڈسم ہو"اس نے شانے اچکاے اور مسکرای
"ظاہر یے اس وقت میں تمہیں کافی پلا رہا ہوں"
"اگرمیں پلاتی تب بھی یہں کہتی" اب کہ وہ کھل کی مسکرای اور سامنے رکھی کافی کا سپ لیا
کیا خیال ہے یہ historical wedding کو رد کرنے کا آئڈیا سارا کا ہی ہے؟
حماد نے کفی کا سپ لیتے ہوے پوچھا
"تم پھر اسی بات پر آ رہے ہو شادی کی تیاریوں سے ٹائم نکال کے آی ہوں تمہارے پاس اور تم دوبارا بابا کے خلاف بول رہے ہو،کیا چاہتے ہو؟۔ وہ بد مزہ ہو کی پیچھے ہوی
"صرف یہ چاہتا ہوں کی تم اپنے بزنس مین باپ کے کسے منصوبہ کا حصہ نہ بنو" وہ ہنوز کافی پی رہا تھا
،
"مطلب تم چاہتے ہو میں جاوں؟ "
"ہر گز نہیں"
" تو پلیز اب ڈیڈ کے بارے میں کچھ مت کہنا ،،،ڈیڈ واقعی مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں اور یہ انکا پیار ہی ہے جو تمہیں مشکوک لگ رہ ہے"
"او کے میں مان گیا "وہ کافی ختم کرچکا تھا اورملاحہ کی کافی یونہی ادھوری پڑی تھی جب وہ اٹھ کھڑی ہوی
"واٹ دا حیل؟ جا رہی ہوں میں " وہ جھنجھلا کہ اٹھی اور کافی شاپ سے باہر نکل آی
باریک ہیل سے لمبے قدم اٹھاتی ملاحہ مال کی خاموشی کو توڑ رہی تھی جب وہ تیز تیز چلتا اسکے قریب آیا" غصہ نہ کیا کرو پتہ نہیں کیوں بیویوں والی فیلینگ آتی ہے "
اس کی آواز سن کے وہ رکی پھرپلٹی، دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے
"ایسے موقع پہ سوری کہتے ہیں"
"واہ بڑی نالج ہے تمہیں " وہ چہک کہ بولا
"ہاں اور مینرز بھی" کہہ کہ مڑی اور بوتیک کی شاپ کھول کہ اندر داخل ہوی کاونٹڑ ٹیبل پہ مطلوبہ آرڈر کا بتایا اور ورکر اسکا آرڈر لانے چلا گیا
"باہر کچھ مینرز کی بات کر رہی تھیں آپ،،ذرا بریف کریں گی پلیز" وہ معصومیت سے اس کے سامنے کھڑا ایک ہاتھ کاونٹر پہ جماے کہ رہا تھا
"میں بس یہں کہ رہی تھی کی مجھے مینرز ہیں کہ کسی کہ پیرینٹس کی بارے میں میں نیگیٹیو کمنٹس پاس نہیں کرتی؟
وہ چند ثانیے اسکی آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر بولا "سارا اور حیدر کی لو میریج ہے نا؟ سونیا اور حسن کی بھی! سو واے ڈونٹ وی؟
(so why don't we?)
اس کا آرڈر اچکا تھا ۔۔ڈریس کی حاف پیمنٹ وہ کرچکی تھی، کریڈٹ کارڈ سے آدھی اور کر کے بیگ اٹھایا اور باہرچل دی
"کیا ہوا ملاحہ کم آن جواب تو دو!"
"اس بات کا کیا جواب دوں ؟کتنی دفع بتایا ہے کہ یہ ان کا پیار ہے وہ میرے لیے ان سیکیور ہیں اسی لیے وہ تمہارے پروپوزل کا سوچ رہے ہیں، ان کو لگتا ہے کہ میں ان سے دور ہو جاوں گی تمہاری وجہ سے ،دیٹس اٹ ! تم سمجھتے کیوں نہیں ہو؟"
"واو، تم کتنی خوشفہمی میں رہ رہی ہو ،،ویک اپ !،،،یہ ساری ان سیکیوریٹیز تمہارے لیے ہیں باقیوں کہ لیے کیوں نہیں ہیں؟"
"کیونکہ میں سب سے چھوٹی ہوں "
"بٹ مائ ڈئر لو! ماں باپ کے لے اولاد چھوٹی بڑی نہیں،بس اولاد ہوتی ہے ،برابر!"
"تم صرف پروپوزل کی وجہ سے ایسا کہ رہے یو تو جان لو حماد، ڈیڈ صرف تمہیں ہاں کہیں گے"ملاحہ نے قدرے نارمل انداز میں کہ کر کندھے ڈھلکا دیے
حماد مسکراتا ہوا قریب آیا اور اس کے کان میں جھک کہ بولا"اگر آپ کہ پیارے راج دلارے ڈیڈڈ نے سارا کی شادی والے دن تمہاری منگنی کسی اور کے ساتھ کر دی تو؟"
"یو نو واٹ ،مجھے آج آنا ہی نہیں چاہیے تھا تم نے سواے مجھے اریٹیٹ کرنے کہ کچھ نہیں کیا! دبہ دبہ سا غرا کہ کہتی وہ تیزی سے پلٹ گی
وہ دونوں بوتیک کہ باہر آمنے سامنے کھڑے تھے اور ملاحہ ان کے سامنے تماشہ نہیں چاہتی تھی سو تیز تیز قدم اٹھاتی پارکنگ لاٹ میں آگئ ڈریس والا بیگ پھینکنے کے انداز سے پیچھے رکھا اور کار اسٹارٹ کی
تیز ہوا سے بال اڑ اڑ کر کھڑکی سےباہر جھانک رہے تھے مگر پروا کس کو تھی وہ تو بس آج یہاں آنے پرخود کو کوس رہی تھی۔
°°°°°°°
"شام بخیرحسینہ "
اسکے گاڑی میں بیٹھتے ہی حماد نے دو دن پہلے کی سختی کا کوی اثر لئے بغیر اسے مخاطب کیا، جس پرملاحہ نے صرف ایک ناراض نظر حماد پر ڈالی اور شیشے سےباہر دیکھنے لگی
"تمہیں پتہ ہونا چاہیے میں ابھی تک ناراض ہوں"
"کم آن ،اپنے ہٹلر باپ کی وجہ سے تمجھ سے ناراض ہو گی؟ سیریسلی؟
اسی لمحے ملاحہ نے چہرہ موڑ کے اسے دیکھا نظریں چار ہویں اور ساری نارضگی چلتی گاڑی کہیں پیچھے راستے میں ہی چھوڑ آی
ملاحہ نہ مسکرا کہ "ہنہ" کیا
"ہاں بھئ جب خدا حسن دیتا ہے تو نزاکت آ ہی جاتی ہے "
"shut up"
وہ ہنس دی
ان کی منزل آگئ تھی ،،حماد نے باہر نکل کے دوسری طرف سےملاحہ کی طرف کا دروازہ کھولا تو وہ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیتی گاڑی سے باہر نکلی
گاڑی کے اندھیرے میں وہ اسکو ٹھیک سے نہیں دیکھ سکا تھا مگر گاڑی سے نکل کے تیز روشنیوں میں وہ اس کو دیکھ سکتا تھا ،ملاحہ کے لہنگے میں چھوٹے چھوٹے پھول بنے تھے جن میں دنیا کا ہر رنگ اور ہر موتی چنا تھا،،دوپٹہ کسی شہزادی کے سے انداز سے آگے اور پیچھے سیٹ ہوا تھا گلابی رنگ کی کرتی اور سیاہ بال آدھے آگے اور آدھےپیچھے گرے تھے
"کیا تم نے ہر دفع ہر کسی کو یونہی مبہوت کر دینے کا ٹھیکا لیا ہوا ہے" اسکا ہاتھ پکڑ کے اسے آگے لے جا رہا تھا،
"oh please"
وہ مسکرا کہ بے نیازی سے کہتی ہنس دی
ہال میں ملاحہ کی بہن کی مہندی کا فنکشن شروع تھا اس کی بڑی بہن اور امی اس کو دیر سے آنے پر غصہ ہورہی تھیں مگر یہ اسکا نظروں میں آنے کا ہی ایک انداز تھا فنکشن قدرے بور تھا وہی اس کی معمول کی تعریفیں جن سے اس کو مزید کوی فرق نہیں پڑتا تھا،، ڈیکوریشن سے ایک لال گلاب نکال کے ملاحہ حماد کی طرف بڑھی
"This is for you dear love"
شرارت سے کہتی وہ اسی کے ساتھ آ کھڑی ہوی وہ اس کے ساتھ رہنا چاہتی تھی یہ شاید ہر آنٹی اور ہر لڑکے کی ذو معنی نظروں کا جواب تھا
"حماد کیا تم ڈیڈ سے ملے ہو"
"نہیں وہ ملے مجھ سے اور اپنے اس دوست سے بھی ملوایا جن کو آج سے پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھا" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بول رہا تھا
"کم آن تم کیا ڈیڈ کے ہر دوست کوجانتے ہو؟"
"میں ایڈریس بھی بتا سکتا ہوں! وہ اسی سکون کے ساتھ بولا
خیر میں مزید کوی بحث نہیں چاہتی ،، کیا تم نے کھانا کھایا؟ نہیں کھایا ہوگا آو میرے ساتھ کھاو"
وہ نارمل سے انداز میں اس کے ساتھ چلتا بوفیٹ ٹیبل کے قریب جانے لگا
"میں اس شادی میں صرف تمہاری وجہ سے آیا ہوں ملاحہ، کیونکہ مجھے تم سے محبت ہے، مجھے وہ سب نظر آرہا ہے جو تم نہیں دیکھ رہی ،میں کسی بھی حال میں تمہارا دل نہیں توڑ سکتا مگر ۔۔۔ وہ رکا
"مگر کیا " وہ ایک دم رکی، دونوں بوفیٹ ٹیبل سے کچھ فاصلے پر کھڑے تھے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ،مگر ملاحہ کی آنکھوں میں دکھ تھا
"مگر تمہارا ہر بات کو سیریس نا لینا اگر کچھ اور ہوا تو مجھے واقعی بہت دکھ ھوگا"
"وہ اسے بنا کچھ کہے وہاں سے چلی گئ،حماد نے اسکی آنکھوں کا گلابی پن دیکھا تو اپنے الفاظ پر دکھ ہوا مگر وہ اسے اب کچھ نہیں کہ سکتا تھا اس محفل میں تو بلکل نہیں ویسے ہے وہ سب کی نظروں میں آگۓ تھے سو سر جھٹک کے ٹیبل کی طرف چل پڑا
°°°°°
"تم آج میرے ساتھ کیوں نہیں آییں ،یہ طے تھا کہ اسٹایلسٹ کے پاس ہم اکٹھے جاینگے " وہ سیاہ لمبی بیک لیس نیچے سے پھولی ہوی میکسی میں ملبوس ورکر سے پیچھے کے بالوں کو کرل کروا رہی تب ھی وہ اس کے پاس آیا ،ملاحہ نے اپنی نیلی گرے آنکھوں کو اٹھا کر اسے دیکھا
"ہمارے درمیان اور بہت کچھ طے تھا شاید تم بھول رہے ہو"
وہ کچھ دیر یونہی اس حسینہ کو دیکھتا رہا جو سامنے شیشے کو سرد مہری سے دیکھ رہی تھی پھر گویا ہوا"مجھے اپنے کل والے الفاظ پر دکھ ھے ملاحہ"
"صرف کل والے الفاظ پر؟ جب سے سارا کی شادی کے دن قریب آے ہیں تم اسی طرح مجھے ٹانٹ کر رہے ہو! وہ پھٹ پڑی
مجھے لگتا ہے تمہیں ڈیڈ سے نہیں مجھ سے ان سیکیوریٹی ہے کہ میں شاید تمہیں چھوڑ نہ دوں" اسکی انکھیں دوبارا گلابی پڑنے لگیں ،یہ اسٹائلسٹ کا الگ کمرہ تھا جہاں خصوصی مہمان ہوتے تھے اب بھی وہ دونوں ورکر کے جانے کے بعد اکیلے تھے،اس سے پہلے وہ کچھ بولتا ملاحہ دوبرہ بول اٹھی
"ایسا ہی ہے،،تم دن بہ دن مجھے ہرٹ کر رہے ہو یا شائد تم مجھے اپنی طرف سے بدگمان کرنا چاہتے ہو تا کہ میں تمہیں چھوڑ دوں ، اگرتم ایسا چاہتے ہو تو حماد تم جو چاہے کرو تم اپنے ہر فیصلے میں آزاد ہو" یہ کہ کر اس نے اپنی میکسی سمبھالی اور ٹیشو سے انکھوں کا پانی جذب کرنے لگی
"کم آن ملاحہ ہمارا ریلیشن خراب ہو رہا ہے اس طرح میں کسی قیمت بھی تمہیں نہیں چھوڑنا چاہتا
you know how much I love you"
حماد اس کو شانوں سے پکڑ کے کہ رہا تھا
"تو پلیز حماد ،،،سمجھ جاو کہ ڈیڈ کو وقت چاہیے "وہ تھکان سے بولی وہ اس سے مزید نہیں لڑنا چاہتی تھی
"اوکے ناو آل گڈ " وہ اسی طرح اسے دیکھ کہ مسکرایا تو وہ بھی مسکرا دی
°°°
آج کی شام ایک خاص اونچے ستونوں والی عمارت میں منعقد تھی ۔
ملاحہ سب سے ملتی ہوی حماد کو تلاش رہی تھی جو اسے کہیں نظر نہیں آ رہا تھا" آیا تو تھا میرے ساتھ مگر اب کہاں گیا "دفعتاً اس کے ڈیڈ نے قریب آکر اس کے سامنے ہاتھ پھیلایا
ملاحہ نے بغیر کسی تاخیر کے ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دیا وہ یہہی سمجھی تھی کہ شاید وہ اسے کسی سے ملوایں گے مگر نہیں یہ تو اسٹیج کی طرف بڑھ رہے تھے ملاحہ کو اپنا گلا خشک ہوتا محسوس ہوا اس نے نظر دوڑا کرجلدی سے اسے تلاشنا چاہا مگر وہ وہاں نہیں تھا
قدیر ملک صاحب نے گہری مسکراہٹ کے ساتھ سب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اب وہ کچھ کہ رہے تھے مگر ملاحہ کو کچھ سنائ نہیں دے رہا تھا اس کا دماغ بس اسی کے الفاظ دہرا رہا تھا
"اگر آپ کے پیارے راج دلارے ڈیڈ نے سارا کی شادی والے دن تمہاری کسی اور کے ساتھ منگنی کر دی تو؟
"مجھے وہ سب نظر آرہا ہے ھو تم نہیں دیکھ رہی"
سو واے ڈونٹ وی؟
"اوہ "۔۔ملاحہ نے انکھیں بند کیں
اسکا دل ڈوب رہا تھا
"ڈیڈ" اسنے سرخ ہوتی آنکھوں کے ساتھ انہیں بے یقینی سے دیکھا
"میری بیٹی نے میرا مان رکھا "۔۔۔اور یہ ہی وہ ایموشنل جملہ ہے جو ہر دفع کامیاب ہوتا ہے ۔۔اس نے بھی یہی سوچا اور خاموش رہی کہ سب کے سامنے کیا لڑے ،البتہ حماد اسے کہیں نظر نہیں آرہا تھا
"شجاع ملاحہ آج سے تمہاری امانت ہے" ڈیڈ نے کہتے ساتھ ہی اسکا ہاتھ شجاع کے ہاتھ میں دیا اور انگوٹھوں کا تبادلہ ہوا (تو ڈیڈ نے اتنی لمبی پلانگ کی تھی) اس نے زخمی نظروں سے اپنے باپ کو دیکھا
اس حادثہ کے بعد جو بھی ہوا ملاحہ کو کچھ خبر نہیں وہ لوگوں سے ملتی اور ان کے کچھ پوچھنے پراسکی امی ملاحہ کی شادی کی ڈیٹ کی جلد اطلاع کا بتا دیتی رخصتی تک اس نے انتظار کیا اور جیسے ہی بارات واپس گئ ملاحہ نے گاڑی نکالی اور گھر چلی گئ
°°°°°°°°°°°°
راستےمیں کتنی دفع اس نے حماد کو کال ملای مگر جواب موصول نہ ہوا گھر آتے ہی اس نے کپڑے چینج کیے جینز ٹی شرٹ اور کھلے بالوں کے ساتھ دوبارا گاڑی میں بیٹھ گئ اس سارے عمل میں بیس منٹ لگے تھے اور گھر والے ابھی تک نہیں آے تھے
ملاحہ نے ایک کالونی کے گیٹ کے سامنے کار روکی اور حماد کی بہن فاطمہ کو کال ملای
"ہاں ییلو فاطمہ حماد گھر پہ ہے ؟ وہ پریشانی اور پھولی سانسوں کے ساتھ بولی
"ہاں وہ گھر پہ ہے بٹ از ایوری تھنگ فاین ملاحہ" وہ پریشان ہوی
"ہاں بس میں تمہارےپاس آرہی ہوں اوپن دا ڈور" ملاحہ نے جھٹ سے فون بند کیا اور کار آگے لے گئ کچھ دیر میں وہ حماد کے ڈرائنگ روم میں بے چینی سے ٹہل رہی تھی فاطمہ پوری کہانی سن کے حماد کوبلانے گئ تھی
"منگنی کی بہت مبارک ہو ملاحہ" اس نے کمرے میں آتے ہی اس پہ چوٹ کی وہ جو اسکا انتظار کر رہی تھی اسکی بات پر ٹیبل پر پڑا واز اٹھا کے اسکی طرف دوڑی جسے بڑی مہارت سے حماد نے پکر لیا
"کیا ہے نا ملاحہ اس وقت میرے اماں ابا اور اس کالونی کے تمام لوگ سو رہے ہیں تو میں یہاں واز اپنے سر پہ مروا کہ مفت کا کرائم سین نہیں چاہتا"وہ تپے ہوے انداز میں واز واپس رکھ رہا تھا
"بتاو کیسے آنا ہوا؟" وہ اس کے سامنے پہلووں پہ ہاتھ جماۓ بیزاری سے بولا
"حماد تم واپس کیوں آگۓ مجھے چھوڑ کے"اس کی آنکھیں آنسووں سے لبالب بھری تھیں
"اوہ کم آن میں لو برڈز کے درمیان کباب میں ہڈی کا رول پلے نہیں کرنا چاہتا تھا"
"شٹ اپ ،جسٹ شٹ اپ تم جانتے ہو میں یہ سب نہیں جانتی تھی میں غلط تھی، ہاں میں غلط تھی، مگر تمہیں کم ازکم وہاں مجھے یوں چھوڑ کے نہیں آنا چاہیے تھا"وہ اس پر چلا رہی تھی
"میں نے بتایا تھا تمہیں ،میں تمہیں وارن کر رہا تھا ،مگر تم اپنے ولن باپ کے پیار میں اندھی ہو کر کچھ بھی نہیں سمجھ رہی تھی"
"کہا نا میں غلط تھی " وہ رو رہی تھی روتے ہووے اس نے سر جھکایا تو سیاہ بال چہرے کے سامنے بکھر گۓ
"اوکے ملاحہ وی ول سورٹ آوٹ، ریلیکس ہم کوی حل نکال لیں گے ۔
حماد نے اسکے آنسو صاف کر کے اسے صوفے پر بٹھایا
ڈھای بجے چوکیدار نے دروازہ کھولا تو اس کالونی کے درختوں نے ملاحہ کی گاڑی کو باہر جاتے دیکھا تھا
°°°°°°°°°°°°°°
واپس آکر وہ بغیر کچھ
دیکھے اوپر بھاگتی گئ اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو دیکھا مام اس کے کمرے کی صوفہ پر بیٹھیں تھیں اور ڈیڈ بے چینی سے ٹہل رہے تھے
ان کو اگنور کر کے بالوں کو اونچے جوڑے میں بانھدھنے لگی
"یہ کیا تھا ملاحہ؟" ڈیڈ نے اس کے ناٹ رسپونڈینگ موڈ کودیکھتے ہوے پوچھا
"ڈیڈمیں نے آپ سے پوچھا وہ سب کیا تھا؟ نہیں نا ،تو آپ کو بھی مجھ سے کچھ نہیں پوچھنا چاہیے" ہاتھوں کو جھلا کی وہ بے زاری سے گویا ہوی
"ملاحہ اتنے مہمان ہیں گھر پہ وہ سب تمہارا پوچھ رہے تھے جانتی ہو ہم نے کتنی مشکل سے سمبھالا ہے؟ " مام غصہ تھیں
"یہی تو مام ابھی مہمان گھر پر ہیں آدھے جا چکے ہیں آدھے صبح تک چلے جاییں گے تو ان کے جانے کے بعد ہم فرست سے لڑیں گے ' اوکے! " کہنے کے ساتھ ہی واشروم میں چلی گئ اور مام ڈیڈ بھی چارو ناچار وہاں سے چلے گۓ
°°°°°°
ملاحہ کی صبح قدرے دیر سے ہوی تھی اور تمام مہمان جا چکے تھے
ڈھیلے سے پرنٹڈ کرتا پاجامہ پہنے نیچے آتی دکھای دی ،ٹیبل پر بیٹھتے ہی ملازمہ کو آواز دی
"رضیہ باجی دو ایگ وایٹ(انڈے کی سفیدی) کا آملیٹ بنا دیں پلیز" ملازمہ سر ہلاتی چلی گئ تو وہ جوس گلاس میں انڈیلنے لگی ، تبھی دفعتاً رک کر سامنے اسے گھورتے مام ڈیڈ کو دیکھا
"اوہ آی سی! آپ تو مجھ سے یہاں لڑنے بیٹھیں ہیں اوہ رییلی سوری میری وجہ سے آپکو صبح صبح غصہ پینا پڑا لیکن خیر مجھے جوس پینے دیں فرست سے لڑیں گے پھر"دانت نکال کے تپانے والے انداز میں کہتی جوس کا پورا گلاس ایک ہی سانس میں پی گئ پھر سکون سے کرسی کی پشت سے ٹیک لگای اور چہرہ تھیلی پہ جما لیا
"اوکے اسٹارٹ کریں مسٹر قدیر"
"ملاحہ تمہارا باپ ہوں میں" وہ غصہ ہوے
"ہاں اندازہ ہوا ہے مجھے کل"
"میں تمہیں بتانا چاہتا تھا مگر مجھے پتہ تھا تم حماد کو بتاو گی وہ تو تمہاری برین واشنگ کرے گا ویسے ہی وہ تمہیں بہت یوز کرچکا ہے ،،ناو اٹس ٹایم ٹو کلییر آل دا تھنگس
( Now its tym to clear the things)
"اس کو خیر باد کہو اور آگے موو آن کرو،،،شجاع واقعی بہت نائیس بندہ ہے" انہوں نے بات ختم کی تو ملازمہ آپلیٹ لے آی
"خیر آپ دونوں کے پاس لڑنے کیلے پرانی گھسی پٹی باتوں کے علاوا کچھ نہیں ہے تو مجھے سکون سے ناشتہ کرنے دیں"
وہ جو کتنی دیر سے چہرہ ہتھیلیوں پہ گراے ان کو سن رہی تھی آملیٹ آنے پہ کانٹا اٹھایا اور کھانا شروع کر دیا
"وہ لوگ لالچی ہیں اور تمہیں جال میں پھنسا کر تمہارے ڈیڈ کےبینک بیلنس پر نظر رکھے ہوے ہیں" مام نےمصالحتی انداز میں کہا
اس نے کھانا روک کہ انہیں نظر اٹھا کہ دیکھا پھر کانٹا رکھ کہ پلیٹ پیچھے کھسکای
"کیا چاہتے ہیں آپ لوگ ،،ہر دفع کھانے کی ٹیبل پر یہی بات کرنا کیا آپ۔لوگوں کا فرضِ عین ہے؟ اود جہاں تک بات رہی لالچ کی تو کیا ایسا ہے ہمارے پاس جو ان کے پاس نہیں ہے،،، ہر دفع آپ نے ۔مجھے یہی کہا اور میں سمجھتی رہی کہ یہ آپ کا پیار ہے، آپ کا لاڈ ہے، جسکی وجہ سے آپ حماد کے پروپوزل کا نہیں سوچ رہے،مگر نہیں یہ آپ کا پیار ہر گز نہیں تھا ڈیڈ! آآخری الفاظ سختی سے ادا کیےغصہ سے کرسی کو پیچھے دھکیلتی اٹھ کھڑی ہوی
"کہاں جا رہی ہو؟ "مام نے پریشانی سے پیچھے سے آواز دی
"آپ کی امیدوں پر پورا اترنے ،یہی چاہتے ہیں نا آپ لوگ ، نہ کچھ کھاوں نہ پیوں بس پریشان رہوں " درشتی سے دروازہ مارتی ملاحہ اپنی سیاہ چمکتی کار بنگلے سے نکال کہ لے گی
°°°°°°°°°°°
کافی شاپ پہ فاطمہ اور وہ ملاحہ کہ انتظار میں تھے جب وہ کرسی کھینچ کر بیٹھی
"کیسا رہا کل کا ماحول " حماد اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا
"کیسا رہنا تھا یار" وہ گہری سانس لے کر بیٹھ گئ
"مجھے لگتا ہے اس شجاع دی گریٹ کا دل آگیا ہوگا ملاحہ پہ تبھی انکل نے جھٹ پٹ ہاں کر دی" فاطمہ نے تجزیہ کیا
"ہاں تو سارا اور سونیا بھی تھیں ان پہ کیوں نہ آیا اس کا دل" وہ بدمزہ ہوی
اگسیکٹلی!ملاحہ تم خوبصورت ہو! وہ اسی طرح ملاحہ کو دیکھتے ہوے بولا
کہنا کیا چاہتے ہو؟
"دیکھو ملاحہ تم کتنی خوبصورت ہو ،تمہاری آنکھیں بھی گرے کلرڈ ہیں اور نین نکش بھی ان دونوں سے مختلف ہیں"وہ آہستہ آہستہ کہتا اسے بتا رہا تھا
"آی سیڈ کہنا کیا چاہتے ہو؟"ملاحہ نے ٹیبل پہ ہاتھ مارا
"حماد بھای ہی کہنا چاہتے ہیں کہ کیا کبھی آپ نے ڈی این اے ٹیسٹ کروایا ہے؟"فاطمہ نے دونوں کی مشکل آسان کی
"واٹ دا ہیل، فاطمہ کیا کبھی تم نے اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا ہے؟ تم لوگ ایسا کیسے سوچ سکتی ہو
ٹھیک ہے میں سب سے مختلف ہوں میری انکھیں کلرڈ ہیں بٹ کتنے ہی خاندانوں میں صرف چند لوگ ہوتے ہیں کلرڈ آنکھوں والے،ہاں ٹھیک ہے ڈیڈ نے غلط کیا بٹ ہم کوی راستہ نکال لیں گے ،یہی کہا تھا نہ تم نے رائٹ؟ وہ اب حماد کی طرف دیکھتے ہوے بول رہی تھی۔اس کی گردن کی رگیں غصے سے کھنچ کر ابھر رہی تھیں
"لیکن تم کوی راستہ نہیں نکال پا رہے تو اور بات ہے مگر حماد یہ بات نا قابلِ قبول ہے۔ آخر میں ایک آنسو اسکی آنکھ سے گال پہ گرا تھا
"مجھے اندازہ تھا تم اسطرح ہی کی کوی بات کرو گے اور یہ بھی جانتی ہوں کہ یہ بات تم کب سے کرنا چاہ رہےہو بٹ اٹس ہرٹنگ می حماد " غصہ کی وجہ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا
YOU ARE READING
ایک پہاڑی لڑکی
Short StoryA happy ending short story ..is just written to bore the first seed of my writting journey. Read and give votes 🌸...And please don't be shy to say any thing bad about that...anything you won't like in this..bcz I love those readers who wanted me to...