مومل کتنا مزہ آیا ناں ۔ مومل اور سحر دروازے سے گھر میں داخل ہو رہے تھے جب سحر نے مومل سے آج کی شوپنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ۔ مومل نے صرف سر ہلا دیا ۔ اس دن مومل کے آنسوں نے ان کے قدم بازار سے روک دیے تھے مگر لڑکیوں کو شاپنگ سے کوئی چیز بھلا کب تک روک سکتی ہے ۔
دونوں ٹی وی لاوئنچ میں داخل ہوئے تو رات کے نو ہو رہے تھے یہ دونوں شاپنگ کے لیے چار بجے نکلی تھی اور پھر رات کا کھانا کھا کر ہی آئی تھی دونوں سحر کی گاڑی میں گئے تھے اس لیے مومل سحر کے ساتھ اندر آگئی اور ساتھ ہی گھر گاڑی بھیجنے کے لیے فون کر دیا دس منٹ میں گاڑی آنے والی تھی ۔
سحر اور مومل اندر داخل ہوئے تو مہک نے ماما کہتے ہوئے مومل کو اپنے ننے بازوں کے ایثار میں لے لیا ۔ دو پل کو تو اسے یوں لگا جیسے کسی نئی دنیا نے اس کا استقبال کیا ہو جیسے ایک نیاء احساس جاگا ہو اس کی سانسیں رک گئی ہوں کسی نے روک دی ہوں ۔ وہ بےیقینی کے عالم میں اپنے سامنے بیٹھے اس گھر کے لوگوں کو دیکھا جو اس کو اسی حیرت اور شرمندگی سے دیکھ رہے تھے ۔ اس بچی کے معصوم ذہین میں یہ بات کیسے آئی کوئی نہیں جانتا تھا وہ جو ماں لفظ سے بھی انجان تھی ماں کے احساس سے ناواقف جس نے ہر احساس کو اپنے باپ کے روپ میں دیکھا تھا ۔
مومل کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان ہاتھوں کو کس طرح ہٹاۓ اور وہ ہٹا ہی کیسے سکتی ہے کیسے کسی کے جزبات کا مزاق بنا سکتی جیسا اس کا بنایا گیا تھا ۔ کاشان آگے بڑھا اور مہک کا رخ اپنی طرف موڑتا ہوا اندر لے گیا مومل سے دو پل وہاں کھڑا نہ رہا گیا اور وہ گھر سے باہر نکل آئی اور روڈ پر چلنے لگی اس کی گاڑی اب تک نہیں آئی تھی مگر وہ تو جیسے کسی اور ہی دنیا میں چلی گئی ہو الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے جملے تیز ہوا کی طرح کانوں میں گھس رہے تھے ۔
آج مہک کا خوبصورت سا لفظ ماں کہنا اس کی سماعت پہ قدم رکھ رہا تھا ۔
پھر کسی اندھیری رات سا چار سال پہلے کے وہ جملے آ جاتے ۔
وہ جملہ جب اسے اس نے کہا تھا ۔
مجھے نہیں ہے محبت تم سے محبت ایسے تھوڑے ہی ہو جاتی ہے ۔
پھر محبت میں اس کا بھیکاری بن جانا اور اس کا اسے یوں جیسے ایک بھیکاری سے کہا جاتا ہے ۔ معاف کرو مجھے زندگی بخش دو میری ۔ کہنا اور اسے کسی بےضرر شہ کی طرح رد کر دینا ۔ کاشان کے وہ جملے آج تک اس کا پیچھا کرتے رہے تھے اس کی سماعتوں میں گونجتے رہے تھے کسی اندھیری رات کی طرح اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتے تھے ۔ پھر کاشان کا اس کی ضد میں اسی ماہ شادی کر لینا ۔
مومل سیکنڈ آئر کے پیپر دے کر سحر سے ڈسکس کر رہی تھی کہ سحر نے اسے بتایا کہ کاشان کی پرسو برتھ ڈے ہے ۔ مومل نے آج سے پہلے دو تین بار اس کی برتھ ڈے کا پتا لگانا چاہا مگر ناکام رہی اور پھر مومل کو کیا سوجا کہ اس نے بیگ اٹھایا اور اور وہاں سے اٹھ کر چل پڑی سجر بھی اس کے پیچھے چلنے لگی ۔
کیا ہوا ہے مومل ایسے کیوں چل پڑی
بس ناراض ہوں ۔
کیوں ناراض ہو ۔
تم نے مجھے برتھ ڈے پر نہیں بلایا ۔
ارے یار بھائی کی برتھ ڈے ہے اور اگر میری ہوتی تو ضرور بلاتی ۔
اچھا ویسے تو بڑی لگی رہتی یو ہم بہنیں ہیں اور گھر کے ایونٹ تک میں تو بلاتی نہیں ہو مجھے ۔
اچھا اتنی سی بات ہے تو پھر پرسوں اچھا سا تحفہ لے کر پہنچ جانا ۔
ایسے کیسے اب اپنے منہ سے دعوت دلوا کر تو میں نہیں آ رہی ۔
ارے ناراض تو نہ ہو اب ہم میں یہ تکلف کہاں سے آ گیا اب انسانوں کی طرح پہنچ جانا ۔
اور پھر وہ برتھ ڈے کے لیے پہنچ گئی اور موقع دیکھتے ہی اس نے کاشان سے اپنے دل کی تمام باتیں کر ڈالی مگر اس نے وہ کہا جو اس نے سوچا تک نہ تھا ۔
مومل تمارا دماغ اپنی جگہ پر ہی ہے کہ پاگل ہو گئی ہو ۔
محبت کرتی ہوں آپ سے ۔
مجھے نہیں ہے محبت تم سے محبت ایسے تھوڑے ہی ہو جاتی ہے ۔
مگر مجھے تو ہے اور آج سے نہیں کب سے ہے ۔معاف کرو مجھے زندگی بخش دو میری ۔ اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔
ایسا تو نہ کہیں ۔
اور کیا کہوں تم سحر کی دوست نہ ہوتی تو بتاتا تمہیں کہ تمہاری میری نظر میں کیا حیثیت رہ گئی ہے کیسے تم ڈھٹائی سے محبت کا اظہار کر رہی ہو کوئی شرم ہے کہ نہیں ۔
مومل سے اپنی اور بےعزتی برداشت نہ ہو پائی ۔ محبت میں انسان اپنی عزتِ نفس اگلے کے آگے ہار دیتا ہے اور وہ پہلے ہی خود کو کافی گرا چکی تھی ۔ وہ سحر کے گھر سے نکل گئی ۔
اس کی سماعتوں میں آج بھی وہ الفاظ تازہ تھے اس نے کبھی ان الفاظ کو مرنے ہی نہ دیا تھا آخر محبوب کا دیا گیا پہلا تحفہ تھا ایسے کیسے مار دیتی ان الفاظ کو ۔
جب یہ الفاظ شدت میں کمی اختیار کرتے تو تین سال پہلے کے جملے شدت پکڑ لیتے ۔
اس دن مہک کی پیدائش ہوئی تھی اور نورین کی ڈیتھ ۔
مومل نے ہمت کر کے کاشان سے تعزت کا سوچا اور اسے اکیلا کھڑا دیکھ کر اس سے مخاطب ہوئی ۔
بہت افسوس ہوا مجھے ان کی ڈیتھ کا ابھی تو اتنا عرصہ بھی نہیں ہوا تھا آپ کی شادی کو اور یہ سب ہو گیا ۔
بڑی بات ہے قاتل بھی مقتول کی تعزت کرتے ہیں کوئی نیاء فیشن آیا ہے بھئی مجھے تو علم ہی نہیں تھا ویسے اس ملک میں تو کچھ بھی ممکن ہے تو قاتل کی اظہارِ تعزت معمولی سی ہی بات ہے ۔ کاشان بڑے سرد سے لہجے می بولا ۔
جی !
ارے اب اتنی معصوم تو نہیں ہو تم ۔ تمہاری ہی دعائیں ہیں کہ آج میری بیوی زندہ نہیں ہے میں یوں تنہا ہوں میری بیٹی بن ماں کے پلے گی ۔
مومل سے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا مگر اس نے ہمت کر کے الفاظ کو جوڑنا شروع کیا اور بولی ۔ اگر میری دعاؤں میں اتنا اثر ہوتا تو یا تو نورین آپ کی بیوی نہ ہوتی یا میں آج زندہ نہ ہوتی ۔ اس کے الفاظ ٹوٹے ہوئے تھے مگر انہوں نے سامنے والے کو بھی توڑ دیا تھا ۔ وہ وہاں سے روتے ہوئے نکلی تھی اور آج پھر وہ الفاظ اس کا پیچھا کر ریے تھے اور شاید تاحیات کرتے رہیں ۔
وہ سڑک پر زیادہ نا چلی تھی کہ پیچھے سے ایک گاڑی آئی جس میں اس کا ڈرائیور بیٹھا ہوا تھا اس نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گئی ۔
******************************
Plz like comment and share follow