فارس جیسے ہی ریسٹورنٹ پہنچا سامنے ہی مھر اور رمشا کو گاڑی کے پاس کھڑا پایا ۔۔۔
تھینک یو گڑیا۔۔۔۔اب تم سامنے کے مال سے شاپنگ کرلو جب تک پھر میں تمھیں کال کر دونگا اور ہاں یہ لو میرا کریڈٹ کارڈ ( ان کے قریب پہنچ کر فارس نے رمشا سے کہا)
ہاۓ لاںٔیں دیں اور ہاں زیادہ دیر نہیں کریے گا( کارڈ لے کر رمشا سامنے مال میں چلی گئی)
چلیں ( فارس نے نظریں جھکاںٔی کھڑی مھر سے بولا )
ج۔۔جی ( مھر سکے پیچھے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی چلنے لگی)
وہ لوگ ایک خوبصورت سے ریسٹورنٹ میں آۓ تھے جہاں فارس نے ایک ٹیبل پہلے سے بک کروائی ہوںٔی تھی جو باقی لوگوں سے الگ تھی تاکہ وہ سکون سے بات کرسکے۔۔۔
Please sit ...
فارس مھر کے لیے کرسی آگے کرتے ہوۓ بولا جس پر مھر جھجھکتے ہوۓ بیٹھ گئی اسکے بعد فارس بھی سامنے بیٹھ گیا ۔۔۔
مھر اپنے گود میں رکھے ہاتھوں کو گھور رہی تھی۔۔۔
مھر ( خاموشی میں فارس کی بھاری آواز گونجی)
جی ( مھر نے اوپر دیکھے بغیر ہی جواب دیا)
دیکھو مھر مجھے لمبے چوڑے اظہارِ محبت نہیں آتے نہ خالی قسمیں وعدوں پر یقین رکھتا ہو اس دن جو بھی ہوا نہیں ہونا چاہیے تھا نہ مجھے تم سے یوں بات کرنی چاہیے تھی نہ ہی جذبات میں یوں ڈھڑلے سے اظہارِ محبت کرنا چاہیے تھا شاید تم کسی اور کو پسند کرتی ہوگی تمھیں برا لگا ہوگا۔۔۔ آںٔی ایم سوری۔۔۔میں
نہیں ایسا نہیں ہے( مھر فوراً اسکی بات کاٹ کر بولی لیکن پھر اپنی جلد بازی پر جتنا پچھتاتی کم تھا) ۔۔۔۔
مھر کی بات پر فارس کے لبوں پر ایک شریر سی مسکراہٹ آگںٔی کیونکہ أخری بات اسنے جان بوجھ کر بولی تھی...
اچھا تو کیا مجھے پسند کرتی ہو ( فارس نے مسکرا کر سوال کیا)
نہیں اب ایسا بھی نہیں بولامیں نے (مھر اسے مسکراتا دیکھ خفا ہوتے ہوۓ بولی)
مھر کی بات پر فارس نے جاندار قہقہہ لگایا پھر مزید بولا:.....
چلو نہیں کرتی تو کیا ہوا ۔کروگی وہ بھی شدید محبت( فارس نے پر یقین لہجے میں کہا)
اتنا یقین کیسے ہے اپکو ( فارس کی بات پر مھر پوچھے بغیر نہ رہ سکی)
بس خود پہ نہیں اپنی محبت پر یقین ہے جو تمھیں مجھ سے محبت کے لیے مجبور کردے گی۔۔( فارس اسے نرم نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولا)
فارس کی بات پر مھر کے لبوں پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ آگںٔی جس کو وجہ سے اسکے ہونٹوں کے قریب موجود ننھا سا ڈمپل کھل اٹھا فارس تو مبہوت ہی رہ گیا اسکی اس ادا پر اور اسی لمحے فارس پر یہ بات آشکار ہوںٔی کہ اس پری کی نا صرف آنکھیں بلکہ مسکراہٹ بھی جان لیوا ہے۔۔۔
آںٔی لو یو۔۔۔۔(فارس کے اچانک بولنے پر مھر نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا پھر اسے خود کو دیکھتا پاکر دوبارہ نظریں جھکا گںٔی) ۔۔
آج جواب نہیں دوگی ( اسے کچھ نہ بولتا دیکھ فارس نے پوچھا)
میں کیا جواب دوں آپ یوں اچانک زندگی میں کسی ہوا کے جھونکے کی طرح آگںٔے کہ اپکے ہونے کا یقین بھی نہیں کر پاںٔی ہوں میں پھر اچانک اپکا مجھ سے محبت کا دعویدار ہونا میں نہیں جانتی کہ کیا جواب دینا چاہیے۔۔۔۔( مھر نظریں جھکا کر ہی بولی)
تو کیا تمہیں میرا دعویدار ہونا برا لگا ( فارس نے اپنے دل میں چھپے سوال کو پوچھا)
مھر کچھ نہ بولی بس نفی میں سر ہلا دیا جس پر فارس ہلکا پھلکا ہوگیا اور مسکرا کر بولا ۔۔۔۔۔
بس پھر پریشان نہیں ہو مجھے کوںٔی جلدی نہیں ہے کسی چیز کی میں نے امریکہ میں اسپیشلایزیشن کے لیے اپلاۓکیا ہے کچھ دنوں میں پتا چل جاۓ گا پھر میں وہاں چلاجاؤ گا جب تک تم بھی سکون سے اپنی اسٹڈیزکمپلیٹ کرلو لیکن واپس آکر کوںٔی رعایت نہیں ہوگی ۔۔۔پوری بات کے بعد فارس شرارت سے بولا جس پہ مھر مسکراںٔی )
میں تمہیں وہ سب دے سکتا ہوں جس کی ہر کسی کو خواہش ہوتی ہے میں تمھیں اپنی شریکِ حیات کی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔ ( فارس مزید بولا)
کچھ بولو بھی ( مھر کی خاموشی پر فارس پریشان ہوتا ہوا بولا)
گ۔۔گھر چلیں دیر ہو گئی ہے ( مھر فوراً بولی)
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔ظالم لڑکی میری اتنی لمبی بک بک پہ بولی بھی تو کیا ۔۔لگتا ہے بہت ستانے والی ہو ( فارس کھل کے مسکرایا)
اسکی بات پر مھر بھی مسکرا گئی
اچھا ایک پک تو لے لو میرے ساتھ امریکہ میں تمہیں یاد کرونگا تو وہی دیکھ لیا کرونگا ۔۔
فارس کے بات پر مھر نے اسے دیکھا پھر اسکی آنکھوں میں التجا اور محبت دیکھ کر مسکرا کے اجازت دے دی ۔۔۔اسکے بعد فارس نے کچھ آرڈر کرنا چاہا لیکن مھر نے دیر ہو نے کا بول کر منع کردیا لیکن پھر بھی اسنے کوفی آرڈر کی ۔کوفی کے بعد فارس نے رمشا کو کال کر کے بلایا۔ رمشا کے آنے پر مھر اسکے ساتھ چلی گئی اور فارس اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا.....
♥️♥️♥️♥️
گھر آکر بھی مھر کو ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہورہا تھا ابھی بھی وہ اپنے خیالوں میں ہی مسکرا رہی تھی کہ سارہ بیگم کی آواز پر چونک گئی۔۔۔۔۔
کیا بات ہے میری بیٹی بہت خوش لگ رہی ہے۔۔۔
ج۔۔جی امی برتھڈے پارٹی بہت زبردست تھی بہت مزہ آیا ( مھر کو ان سے جھوٹ بولنا اچھا تو نہیں لگا لیکن وہ ابھی انھیں نہیں بتا سکتی تھی).......
ارے واہ یہ تو اچھا ہوا کہ اوٹنگ ہوگںٔی چلو آؤ میرے ساتھ زرا کھانا لگالو۔۔۔
جی امی۔۔۔۔۔
رات کو کھانے کے بعد مھر چاۓ بنا کر اپنے بابا کے پاس تھوری دیر بیٹھ گئی پھر ان کے آرام کے وقت اپنے کمرے میں آگئی ۔بیڈ پر جیسے ہی سونے کے لیے لیٹی تو موبائل کی بیپ نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔فارس کا میسج دیکھ کر اسکے چہرے پر خود ہی مسکراہٹ آگںٔی ۔
جی ۔۔۔۔( مھر نے رپلائی کیا)
میرے بارے میں سوچ رہی تھی نہ ( فارس کا رپلائی آیا) ۔۔۔
ہممممم۔۔۔۔نہیں تو ( مھر نے شرارت سے جواب دیا)
تم تو سہی سے خوش بھی نہ ہونے دیا کرو( فارس نے منہ بناۓ ہوۓ ایموجی کے ساتھ رپلائی کیا)
ابھی اتنے اچھے دن نہیں آۓ نہ آپکے کہ اب سوچوں میں بھی آپ ہی ہوں ( مھر نے مسکراہٹ دبا کے جواب لکھا)۔۔۔
ہاہاہاہا ظالم لڑکی سچ میں بہت ستاؤ گی
( فارس کی بات پر مھر بھی مسکرا دی) ۔۔۔
پھر یہ سلسلہ چل نکلا مھر کو بھی فارس کے ساتھ ہنسنا بولنا اچھا لگنے لگا۔وہ فارس شاہنواز جس کے چہرے پر ہر وقت سنجیدگی ہوتی تھی ایک چھوٹی سی لڑکی کے ساتھ جب وہ مسکراتا تھا تو خود بھی حیران رہ جاتا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مھر کے اوپر بھی اسکا سحر سر چڑھ کے بولنے لگا اور وہ بھی اسکی محبت میں گرفتار ہوتی گئی لیکن اظہار کی ہمت وہ اب بھی نہیں رکھتی تھی۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
مزہ آگیا آج تو یار ( دانیہ اپنے دوستوں کے ساتھ پارٹی سے واپسی پر بولی )
سمیرہ تم نے میرا ڈریس سنمبھال لیا تھا نا( دانیہ اپنی دوست سے بولی جو اسکے ساتھ ہی ڈراںٔیو کر رہی تھی )
ہاں سنبھال لیا تھا تیرا بھی سہی ہے گھر سے کچھ اور پہن کے آتی ہے پارٹی میں ہمارے جیسا پہن لیتی ہے ( سمیرہ نے اپنے ڈریس کی طرف اشارہ کر کے بتایا جس میں اسکا جسم پورا واضح ہورہا تھا اور چادر سے ڈھکا ہوا تھا کیونکہ دانیہ کو چھوڑنے جارہی تھی)
کیا کرو یار ادھر یہی کرنا پڑتا ہے( دانیہ منہ بنا کے بولی)
ویسے یار اس عمیر سے دوستی کرلو بیچارہ جب بھی کلب آ تا ہے تیرے پیچھے ہی لگا رہتا ہے( سمیرہ مسکرا کے بولی اور سیگریٹ سلگا لی)
ہاہاہاہا۔۔۔اب دانیہ قمر اتنی سستی بھی نہیں کہ تیسری بار میں ہی اسکی آفر قبول کرلے زرا لگانے دو اسے چکر پھر سوچیں گے ( دانیہ نے ایک ادا سے مسکرا کے کہا)
ہاہاہاہا۔۔۔ویسے یہ تو ہے یار تیرا جو کزن ہے فارس شاہنواز بہت ہینڈسم ہے ( سمیرہ فارس کو سوچتی ہوںٔی بولی)
وہ صرف اور صرف دانیہ قمر کا ہے سر تا پیر سوچنا بھی مت اسکے بارے میں ( یہ بول کر دانیہ نے اسکے ہاتھوں سے سیگریٹ لے لی )
آ ۔۔۔آ ۔۔کیا کر رہی ہے یار گھر جاکے تجھے اچھی لڑکی بھی تو بننا ہے ( سمیرہ نے اسکے ہاتھوں سے سیگریٹ لیتی ہوئی بولی)
ہاں سہی یاد دلایا چل پھر ملاقات ہوگی ( گھر آ نے پر دانیہ بولی)۔۔۔۔
وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی ڈراںٔنگ روم سے اسے قہقہوں کی آوازیں آںٔیں ۔جب دیکھا تو اندر رمشا کے ساتھ مھر بیٹھی ہوئی تھی لاںٔٹ گرین کلر کے پرنٹڈ سوٹ میں ملبوس سر پر دوپٹہ اور کالی چادر کو کندھے پر ڈالے ہوۓ تھی اسکی سفید دمکتی رنگت پر یہ کلر غضب ڈھا رہا تھا ۔اوپر سے اپنی حسین بڑی بڑی نشیلی آنکھوں سمیت پورے چہرے سے مسکراتی ہوئی وہ دانیہ کو اندر تک سلگا گئی ۔ایسا نہیں تھا کہ دانیہ خوبصورت نہیں تھی لیکن مھر کے مقابلے میں ماند پڑجاتی اور اسکا ڈھکا چھپا حسن اور حد درجہ معصومیت اسے سب سے مختلف کرتی تھی۔ لیکن آج دانیہ نے سوچ لیا تھا کہ کچھ تو کر کے ہی رہے گی ۔
ہاہاہاہا۔۔۔اچھا نہیں تنگ کرتی اتنے دنوں بعد آںٔی ہے ابھی بھائی آتے ہی ہونگے مل کر جانا اندر سے رمشا کی شرارت بھری آواز آئی)
رمشا کی بات پر مھر مسکرا گئی۔۔
چل بیٹھ میں زرا چاۓ دیکھ کے آتی ہوں ( یہ بول کے رمشا اٹھ کر چلی گئی)
رمشا کے جانے کے بعد دانیہ مغرور سی چال چلتی اندر آگںٔی ۔۔۔۔
السلام علیکم کیسی ہو؟ ( دانیہ نے مھر سے پوچھا)
واعلیکم السلام ! میں الحمدللّٰہ آپ کیسی ھیں ( مھر خوشدلی سے مسکرا کے بولی)
میں تو بہت حسین (دانیہ کا ہمیشہ والا جواب حاظر تھا جس کو سن کے مھر محض مسکراہی سکی)
ویسے اتنے دنوں بعد کیسے آنا ہوا( دانیہ بولی)
وہ رمشا سے ایک امپورٹنٹ نوٹس ڈسکس کرنے تھے ( مھر بہانا بناتی ہوںٔی بولی)
اوہ اچھا( دانیہ اسکے بہانے سے محضوض ہوںٔی پھر کچھ سوچ کرملازمہ کو آواز دی،)۔۔۔۔
رقیہ۔۔۔۔رقیہ ادھر آؤ۔۔۔
جی بی بی جی ( ملازمہ فوراً آگئی)
فارس نہیں آۓ کیا اب تک ہسپٹل سے کیا ( دانیہ نے جان کے پوچھا)
نہیں بی بی جی آتے ہی ہونگے بس ( ملازمہ بولی) اچھا سہی ہے جاؤتم ۔۔۔۔
مھر اس ساری کاروائی چپ چاپ دیکھتی رہی ۔۔۔
ملازمہ کے جانے کے بعد اسے چپ دیکھ کر دانیہ نے خود ہی مسکرا کر بات شروع کی ۔۔۔ وہ کیا ہے نا ہم روز ساتھ میں لنچ کرتے ہیں ایک دوسرے سے محبت جو بہت کرتے ہیں بچپن سے ( یہ بول کر دانیہ اسکے ایکسپریشنز دیکھنے لگی )
دانیہ کی بات پر مھر کی رنگت ایکدم بدلی تھی دانیہ نے جب محسوس کیا کہ اسکا ہوا میں چھوڑا ہوا تیر نشانے پر لگا ہے تو مزید بولی )
لیکن آج ناراض ہیں مجھ سے کل لڑاںٔی ہوگںٔی تھی نا اسکی عادت ہے مختلف لوگوں سے دوستیوں کی جو مجھے پسند نہیں ہے لیکن کیا کرو ماننا ہی پڑتاہے اسکی بات کو پیار جو بہت کرتے ہیں ہم لیکن ابھی بتایا نہیں ہے ہم نے گھر میں کسی کو تم بھی رمشا کو مت بتاناوہ کیا ہے نہ ۔۔۔۔۔۔
مھر کو لگا تھا کہ وہ اگر تھوڑی اور دیر یہاں بیٹھی تو پتا نہیں کیا ہوجاۓ گا اسی لیے اسکی بات کے بیچ میں ہی فوراً سے کھڑی ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔
ارے کیا ہوا ( اسے کھڑے ہوتا دیکھ دانیہ نے پوچھا)
کیا آپ رمشا کو بتادینگی کہ مجھے کچھ ضروری کام یاد آگیا ہے اسی لیے مجھے جانا ہوگا ( مھر بامشکل خود پہ قابو پاتے ہوۓ بولی)
ارے اچانک چلو صحیح ہے میں بتا دونگی(دانیہ اپنی کامیابی پر خوش ہوتی ہوںٔی بول۔ بس اسے یہ ڈر تھا کہ وہ یہ سب رمشا سے نہ ڈسکس کرے)
جی اللّٰہ حافظ ( یہ بول کر مھر رکی نہیں اور تیزی سے نکل گئی جیسے ہی باہر آںٔی سامنے سے فارس آتا ہوا دیکھاںٔی دیا مھر کو دیکھ کے وہ پورے دل سے مسکرایا لیکن مھر اسے دیکھ کے آج مسکرا بھی نہ سکی اور اسکے پاس سے تیزی سے نکلتی چلی گئی .فارس نے اسے آواز دی لیکن تب تک وہ جا چکی تھی ۔فارس نے گھر آکے رمشا سے بھی پوچھا لیکن اسنے لاعلمی کا اظہار کیا تب فارس کو پریشانی ہوںٔی لیکن بعد میں خود پوچھنے کا سوچ کر چپ ہوگیا ۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
مھر سارے رستے اپنے بہتے ہوۓ آنسوؤں کو بے دردی سے صاف کرتی رہی دانیہ کاایک ایک لفظ اسکے سر میں ہتھوڑوں کا کام کررہا تھا اسنے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ فارس بھی ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ وہ ایسا لگتا ہی نہیں تھا ۔دل کر رہا تھا کہ چیخ چیخ کر اس سے حساب مانگے لیکن انا بیچ میں آ کے روک دیتی تھی۔سارے رستے رونے کے بعد وہ گھر پہنچنے تک بڑی مشکل سے خود کو نارمل کر چکی تھی۔ وہ اپنی وجہ سے اپنے ماں باپ کو پریشان نہیں کرسکتی تھی ۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
رات میں کھانے جے بعد مھر جو میسج کیا لیکن رپلاۓ نا آیا پھر کالز کی لیکن اسنے ایک بھی نا اٹھاںٔی فارس کو مھر کی حرکت پر بہت غصہ آیا ۔یونی میں رمشا سے بھی اسنے اپنی امی کی اچانک طبعیت کا بہانا بنا لیا تھا ۔یہ بات رمشا نے فارس کو بتاںٔی جس سے وہ کافی حد تک مطمئن ہوگیا لیکن مکمل نا ہوسکا وہ روز اسے کالز میسجز کرتا لیکن کوںٔی جواب نہ آتا یہ بات فارس کو پریشان کرہی تھی وہ اسے اپنے ایڈمیشن کے بارے میں بتانا چاہتا تھا جہاں اسنے تین دن بعد جانا تھا لیکن مھر کی ناراضگی کیوں تھی اور اتنی سخت ہوسکتی تھی وہ نہیں جانتا تھا ۔بلاآخر اسنے مھر کو منانے کا فیصلہ کیا کہ شاید ہوسکتا ہے کہ اس دن گھر لیٹ آنے پر ناراض ہوگئی ہو اسی لیے اسنے رمشا کو اسے گھر لے کر آنے کے لیے کہا تاکہ اس سے مل بھی لے اور منا بھی سکے .......
♥️♥️♥️♥️
رمشا کی ہزار منتوں پہ وہ گھر آںٔی تھی اور وہ خود بھی فارس سے بات کرنا چاہتی تھی کہ أخر سچ کیا ہے اس طرح خاموشی کسی چیز کا حل نہیں تھی اسی لیے وہ آگںٔی تھی ۔۔۔۔
مھر جیسے ہی رمشا کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی تو دانیہ سیڑھیوں سے نیچے آرہی تھی ۔دانیہ کو دیکھ کر مھر کے زخم پھر تازہ ہوگئے لیکن خود کو سنبھال کر وہ اماں جی کے کمرے میں چلی گئی کیونکہ گھرمیں صرف وہیں تھیں آمنہ بیگم فارس کے لیے کچھ شاپنگ کرنے گئی ہوںٔی تھی اسکے امریکہ جانے کے لیے اور مسرت بیگم اپنے کسی عزیز کی شادی میں شرکت کے لیے قمر صاحب کے ساتھ شہر سے باہر گئی ہوںٔی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔
۔مھر کو دیکھ کر دانیہ سمجھ گئی تھی کہ اس بیوقوف نے رمشا کو کچھ نہیں بتایا نا ہی فارس کو کیونکہ دونوں بلکل نارمل تھے اس کے ساتھ۔ فارس اپنے روم میں ہی تھا وہ آج ہسپٹل نہیں گیا تھا اور مھر اسی سے ملنے آںٔی ہے ۔دانیہ وہاں کھڑی یہی سوچ رہی تھی کہ اب کیا کرے جو یہ قصہ آج ختم ہی ہوجاۓ مسلسل ادھر ادھر چکر کاٹنے کے بعد ایک سوچ کے ساتھ شیطانی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آگئی اور اوپر جاکر سیڑھیوں پر ہی اسکا انتظار کرنے لگی ۔جب اسنے دیکھا کہ مھر اماں جی کے کمرے سے باہر نکلی ہے اور رمشا سے کچھ بات کر رہی تھی اسکا مطلب وہ اوپر آنے والی تھی ۔دانیہ فوراً اپنے روم میں گںٔی کچھ کتابیں اٹھاںٔی اور فارس کے روم کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔
دروازہ ناک کرنے کی آواز پر فارس کے چہرے پر مسکراہٹ آگںٔی کیونکہ وہ بہت بیچین تھا مھر سے ملنے کے لیے لیکن دروازے سے اندر آتی دانیہ کو دیکھ کر اسکی مسکراہٹ سیکنڈوں میں عاںٔب ہوںٔی تھی اور یہ دانیہ نے شدت سے محسوس کیا تھا اسکے دل میں مھر کے لیے جلن اور نفرت کچھ اور بھی بڑھ گئی لیکن پھر بھی اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجا کے فارس سے بولی ۔۔۔۔
فارس کیا تم مجھے ایک سوال سمجھا دوگے میرا بہت ضروری اساںٔنمنٹ ہے ۔۔۔؟؟؟
دانیہ رات میں آجانا میں کروادونگا تمھیں سارا ( فارس کو اس وقت صرف مھر سے ملنے کی جلدی تھی )
لیکن مجھے کمپلیٹ کرنا ہے آج ہی ( دانیہ کسی طور بھی یہ موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی تھی)
دانیہ میں سب کروادونگا تم ٹینشن نہیں لو ( فارس بولا )
اسی وقت دانیہ کو سیڑھیوں پر مھر کے اوپر آنے کی آواز آںٔی کیونکہ وہ دروازے میں ہی کھڑی تھی اور فارس کا روم پہلے نمبر پہ ہی تھا ۔
فارس پلیز میں ۔۔۔( یہ بولتے ہوۓ دانیہ آگے بڑھی اور اپنا پیر زمین پر پڑی ہوںٔی قالین میں اٹکایا جس کی وجہ سے سیدھا فارس کے اوپر آکر گری ۔
مھر اماں جی سے مل کر باہر آںٔی تو رمشا نے اسے فارس کے روم میں جانے کے لیے کہا ۔اوپر آکر مھر کا دل عجیب انداز میں دھڑک رہا تھا کہ جیسے کچھ غلط ہونے والا ہے پھر بھی وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی فارس کے روم میں چلی گئی لیکن سامنے جو منظر اسنے دیکھا وہ اسکی دنیا ہلانے کے لیے کافی تھا مھر بے یقینی کی کیفیت میں کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔
دانیہ کے یوں اچانک گرنے پر فارس سنبھل نہیں پایا اور سیدھا پیچھے بیڈ پر جا گرا جب تک وہ سمجھ کر اسے خود کے اوپر سے ہٹاتا تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اسکی نظر سامنے دروازے پر کھڑی مھر پر گںٔی تو بجلی کی تیزی سے اسنے دانیہ کو اپنے اوپر سے پھینکا اور مھر کے پیچھے بھاگا لیکن تب تک مھر موڑ چکی تھی ۔۔ ۔۔۔
مھر ۔۔۔مھر میری بات سنو ( فارس نے آگے بڑھ کر اسے ہاتھ پکڑ کر روکا) ۔۔۔Dont touch me Faria Shahnawaz
( مھر نے اسکے ہاتھ کو جھٹکا )
دیکھو مھر جیسا تم نے دیکھا ویسا کچھ نہیں ہے تم ۔۔۔۔
بس فارس آنکھوں دیکھا جھوٹ نہیں ہوسکتا بہتر ہے مجھے مت روکیں ( مھر اسکی بات درمیان میں ہی کاٹ کر بولی اور پھر جانے کے لیے مڑی )
مھر۔۔۔( فارس نے پھر آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ پکڑا لیکن اس بار فضا میں ایک زناٹے دار تھپڑ کی آواز گونجی ۔
کہہ چکی ہوں ہاتھ نہیں لگاںٔیں تو سمجھ نہیں آرہی اپکو اب مت روکیے گا ۔
فارس بے یقینی سے منہ پر ہاتھ رکھے اسے دیکھ رہا تھا وہ فارس شاہنواز جسے کبھی کسی نے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کی تھی اسے ایک چھوٹی سی لڑکی یوں تھپڑ مار گںٔی وہ بھی غلط فہمی کی بنیاد پر ۔پھر جو اگلا آنے والا احساس تھا وہ غصے اور توہین کا تھا پھر جب فارس بولا تو اسکی دھاڑ سے پیچھے کھڑی دانیہ بھی سہم گئی اور رمشا جو سیڑھیوں پر کچھ شور کی آواز کی وجہ سے آرہی تھی وہ بھی وہیں رک گئی ۔۔۔
یہ تم نے اچھا نہیں کیا ۔۔۔۔
You have to pay for this Mehar Wajid malik .....
فارس کی بات نے مھر کے قدم سیڑھیوں پر ہی روک دںٔیے
میں آپکی شکل بھی دیکھنا پسند نا کرو فارس شاہنواز کوشش کرنا کہ دوبارہ ہمارا کبھی سامنا نہ ہو ( یہ کہہ کر مھر رکی نہیں بلکہ گھر سے نکلتی چلی گئی)
فارس کی غصے سے دماغ کی رگیں تنی ہوںٔی تھیں اسنے زور سےبرابر میں شیشے پر ہاتھ مارا جو دیکھتے ہی دیکھتے کرچیوں میں بکھر گیا اسکا ہاتھ بری طرح زخمی ہوگیا تھا لیکن فارس کو اپنے ہاتھ میں ہونے والی تکلیف اس تکلیف کے آگے کچھ نا لگی جو اسکے دل میں ہورہی تھی۔ فارس غصے میں اپنے کمرے میں چلا گیا ۔رمشا نے مھر کو بہت روکنے کو کوشش کی لیکن وہ ایک سیکنڈ بھی نہ رکی ۔
دانیہ کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اسکا پلین پورا ہوجاۓ گا لیکن مھر فارس کے منہ پر تھپڑ مار دے گی یہ اسنے نہیں سوچا تھا اسے مھر پر غصہ تو بہت آیا لیکن یہ ہونا بھی ضروری تھا۔ اور فارس امریکہ جہاں دو دن بعد جانے والا تھا اس رات ہی سب سے مل کر چلا گیا سب نے اسے بہت روکا لیکن اسے نا رکنا تھا تو وہ نا رکا ۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
VOCÊ ESTÁ LENDO
TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅
Fantasiaek maghror shehzade ki kahani jo masoom si ladrki ki aankho ka dewana hojata ha... Lkn apni anaa k hatho majbor ho kr dono bichar jate hn۔۔۔۔۔