part 7

646 35 10
                                    

"حال"
اگلی صبح مھر کے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گںٔی اسد صاحب اور ان کے گھر والے مھر کے فیصلے سے بہت خوش تھے مھر بھی اپنے گھر والوں کی خوشی دیکھ کر مطمئن ہوگئی تھی اسد صاحب نے دو دن بعد سادگی سے منگنی کرنے کا بھی بول دیا تھا یہ خبر مھر نے کال پر رمشا اور رانیہ کو دی تو دونوں بہت خوش ہوںٔیں رمشا کو افسوس تو ہوا کیونکہ اسنے فارس اور اسے ساتھ میں دیکھا تھا لیکن مقدروں کے لکھے سے کون لڑسکا ہے اسنے دل سے اسکی خوشی میں شریک ہونے کی ہامی بھری اس بہانے اسکی دوست سب بھول جاۓ گی کیونکہ اس دن کے بعد سے بہت کم مسکراتی تھی اور تینوں میں یہ بھی ڈیساںٔیڈ ہوا کہ منگنی کے بعد واپسی میں ہی رمشا کے ساتھ چلی جاںٔیں گی کیونکہ اسکے شادی کے فنکشن شروع ہونے والے تھے ۔۔۔۔
اور پھر وہ دن بھی آگیا جب تیمور نے مھر کو اپنے نام کی انگھوٹی پہنا کر اپنے نام کرلیا ۔تقریب واجد صاحب نے اپنے لان میں رکھی تھی بس گھر والے اور کچھ جاننے والے شامل تھے ۔لاںٔٹ بلو کلر کے ہلکے سلور کام والے جوڑے ،لاںٔٹ سے میک اپ جو کہ رمشا اور رانیہ نے مل کر ہی کیا تھا اور کانوں میں صرف جھمکے پہنے وہ وہ غضب ڈھا رہی تھی اپنے بڑی بڑی نشیلی آنکھوں سمیت وہ رانیہ سے بات کرتے ہوۓ پورے چہرے سے مسکراتی تیمور کی توجہ کا مرکز بنی ہوںٔی تھی تیمور کی نظریں اسکے چہرے سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہیں تھیں ۔وہ خود بھی اچھی شکل و صورت کا مالک تھا مھر کے ساتھ اچھا لگتا تھا ۔ بلاآخر یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔ مھر اور رانیہ رمشا کے ساتھ ہی آگںٔی تھیں ۔اماں جی اور باقی سب بھی بہت خوش ہوۓ تھے خاص طور پر دانیہ اور مسرت بیگم کیونکہ تین سال پہلے والا واقعہ صرف وہی جانتی تھیں۔ اماں جی نے اسے ہمیشہ فارس کے لیے سوچا تھا لیکن اپنی خواہش کا اظہار کبھی نا کیا ۔اب تقدیر کا فیصلہ سمجھ کے خاموش ہوگئیں اورمھر کو بہت سی دعائیں دے ڈالیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانیہ اور مھر دونوں رمشا کے روم میں ہی رکیں تھیں رات میں وہ تینوں دیر تک باتیں کرتیں اور پھر صبح کے قریب سوتی تھیں ۔ مہمانوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا گھر مہمانوں سے بھر گیا تھا ۔ مھر بڑھ چڑھ کے اپنی دوست کی خوشی میں ہر کام میں شریک ہوتی ۔اسنے اور رانیہ نے بہت سی ذمہ داریاں بھی اپنے سر لی ہوںٔیں تھیں جس کے باعث رمشا کے گھر والے بہت خوش تھے ان سے دانیہ بھی دیکھاوے کے لیے تھوڑا بہت کرلیتی لیکن جلد ہی پھر اکتا کے چھوڑ دیتی تھی ۔۔۔۔۔
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦
اس دن بھی مھر کچن میں سب کے لیے چاۓ بنا رہی تھی .آمنہ بیگم تو اسے کچن میں آنے سے بہت منع کرتی لیکن وہ یہ بول دیتی کہ وہ سب اپنی خوشی سے کرتی ہے تو وہ مسکرا کر بہت سی دعائیں دے دیتی۔ کل رمشا کی ڈھولکی تھی۔ جس کے باعث گھر میں کام بھی بڑھا ہوا تھا اور ساری ملازماںٔیں کاموں میں لگی ہوئی تھی۔اچانک سے باہر سے شور کی آواز آنے لگی ۔ مھر سمجھی کہ کوئی مہمان ہی ہوگا اسی لیے اپنے کام میں لگی رہی ۔۔۔۔
🔥🔥
میرا بچہ کہاں چلا گیا تھا تجھے زرا اپنی بوڑھی دادی کا خیال نہ آیا ( اماں جی روتے ہوۓ فارس کا ماتھا چوم رہیں تھیں تو کبھی اسکے ہاتھ )
فارس ابھی ہی پہنچا تھا امریکہ سے وہ سب کو بتاۓ بغیر ہی آگیا تھا جب اسنے اپنی عزیز وجان دادی کی طبیعت اور اپنی بہن کی خوشی کا سنا تو سب کچھ فراموش کر کے چلا آیا۔۔۔
بس نہ اماں جی آگیا ہوں نہ اب آپ کیوں رو رو کے خود کو ہلکان کر رہی ہیں ( فارس انھیں محبت سے ساتھ لگاتے ہوئے بولا)
اما جی کان کھینچیں اس بھاںٔی کے آپ ( عباس بھی روٹھا روڑھا سا بولا)
خبردار میرے بچے کو کچھ کہا تو ( اماں جی آنسوؤں کے درمیان میں ہی بولیں )
جس پر فارس مسکرا کر عباس کو ساتھ محبت سے بٹھاتا ہوا بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماں جی اور باقی آپ سب بھی مجھے معاف کردیں میں نے آپ سب کو اپنی وجہ سے بہت تکلیف میں رکھا ( فارس سب سے شرمندہ تھا )
کوںٔی بات نہیں میرا بچہ تو واپس آگیا یہی بہت ہے ہمارے لئے (اماں جی اسکے ہاتھ چومتی ہوںٔی بولیں )
اتنےمیں اوپر سے رمشا بھی آگںٔی جو ابھی سو کر اٹھی تھی اپنے بھائی کو دیکھ کر جھٹ سے اسکے گلے لگ گئی۔۔۔
بھائی کیسے ہیں آپ ( وہ روتے ہوئے فارس سے لگی ہوںٔی ہی پوچھتی ہے)
میں بلکل ٹھیک میری گڑیا کیسی ہے ( فارس بھی محبت سے اسے ساتھ لگاتے ہوۓ بولا )
اپکو دیکھ لیا اب بلکل ٹھیک ہوں ( رونے کے درمیان ہی مسکراتی ہوئی بولی)
چلو بس کرو میرا بچہ لمبے سفر سے آیا ہے تھک گیا ہوگا اب آرام کرنے دو ( اماں جی سب کو جھڑکتی ہوںٔیں بولی)
جس پر سب نے مسکرا کر اسے آرام کرنے کا کہا ۔فارس کچھ خود بھی تھک گیا تھا اسی لیے اٹھ گیا لیکن جیسے ہی سامنے کچن کے دروازے پر نظر پڑی تو وہیں ساکت ہوگیا ۔۔۔۔
مھر کو جب باہر سے کچھ بھاری جانی پہنچانی آواز آںٔی تو اسنے باہر دیکھا لیکن جو منظر اسنے سامنے لاؤنج میں دیکھا اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا ۔اسکا ماضی آج تین سال بعد پوری یادوں سمیت اسکے سامنے کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
فارس کچھ پل اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکا وہ دشمن جاں اسکے سامنے کھڑی تھی ۔وہی حسین بڑی بڑی نشیلی آنکھیں جنھیں وہ حیرت سے اور بڑاکیے ہو ںٔےتھی۔ خوبصورت گلابی لب جو نیم واہ تھے ۔ چٹیا سے نکلے بال اور چہرے پر آتی آوارہ لٹیں سادہ سے کالے جوڑے میں دوپٹے کو شانوں پہ پھیلاۓ وہ فارس شاہنواز کو ایک بار پھر سے دیوانہ کر گئی تھی بس فرق صرف یہ تھا کہ وہ پہلے سے کچھ اور بھی حسین ہوگئی تھی لیکن جیسے ہی فارس کے کانوں میں زناٹے دار تھپڑ کی آواز گونجی اسنے فوراً اپنا رخ پھیر لیا ۔مھر بھی ہوش کی دنیا میں آتے ہی جھٹکے سے واپس اندر مڑگںٔی ۔فارس شاہنواز صاحب اور قمر صاحب سے بولا۔۔۔۔
ڈیڈ اور چاچو کچھ ضروری کال کرلوں پھر آرام کرونگا تھوڑا پھر آپ سارے کام بتا دیجیے گا مجھے ۔۔۔
کوںٔی بات نہیں برخودار اب تو کام ہوتے رہیں گے جاؤ کال سننے کے بعد آرام کرلو( شاہنواز صاحب مسکرا کر اسکی کمر تھپتھپاتے ہوۓ بولے)
فارس دوپہر میں کھانے پر ملنے کا بول کر باہر لان میں چلا گیا اور ساری خواتین کچن میں دوپہر کے کھانےکی تیاری کے لیے چلی گںٔیں ۔۔۔۔۔۔۔
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️
باہر آکر فارس نے ایک گہرا لمبا سانس ہوا کے سپرد کیا ۔ اپنے کالر کے بٹن بھی کھول دںٔیے۔ نومبر کے شروع کے دن تھے ۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں بھی اسکو اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہورہا تھا۔ اس دن وہ امریکہ اسی لیے چلا گیا تھا کہ مھر کے ساتھ کچھ علط نہ کردے لیکن وہاں جاکر بھی وہ اسکے عصابوں پر بری طرح سوار تھی جب جب اسکو وہ تھپڑ اور توہین بھرے الفاظ یاد آتے تو اسکا غصہ کسی طور نا کم ہوکے دیتا اس دوران اسے شدید ڈپریشن بھی ہوا تھا جس میں اسکے دوستوں نے اسکی مدد کی تھی پڑھائی میں بھی بہت مشکل سے دل لگاتا تھا مگر پھر وہ آہستہ آہستہ وہ زندگی کی طرف واپس آنے لگا تھا لیکن آج اسے پھر سے سامنے دیکھ کر اسکے ہر ہر زخم تازہ ہوگئے تھے وہ یہ تو جانتا تھا کہ وہ اب بھی رمشا کی دوست تھی اور شادی میں بھی شریک ہوگی لیکن گھر میں موجود ہوگی یہ اندازہ نہیں تھا وہ صرف اپنے گھر والوں کے لیے واپس آیا تھا جو اس سے محبت کرتے تھے لیکن اس لڑکی کو دیکھ کر اسکی دیوانگی نے پھر جوش مارا تھا دل میں اسکے حصول کی چاہ نے پھر سر اٹھایا تھا لیکن اپنی توہین اور تھپڑ یاد آتے ہی وہ اپنی خول میں بند ہوگیا تھا۔ کوٹ کی جیب سے اپنی ڈپریشن پلز نکال لی کیونکہ اس وقت اسے ان کی اشد ضرورت تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
شام کو سورج ڈھلتے ہی پورا گھر خوبصورت روشنیوں سے روشن ہوگیا ۔پورا گھر پھولوں کی مہک سے مہک رہا تھا ۔ساری لڑکیاں اوپر نیچے اپنی ناختم ہونے والی تیاریوں میں مصروف ایک دوسرے سے خوبصورت لگنے کی تگ ودو میں تھیں۔ ایسے میں وہ اماں جی کے پہلو میں خاموش سی نظریں جھکاۓ گم سم بیٹھی ہوئی تھی ۔آج سب لڑکیوں نے واںٔٹ ڈریس اور اوپر اپنے اپنے رنگ کے دوپٹوں کا تھیم رکھا اور لڑکوں نے واںٔٹ کرتا شلوار کاتھیم رکھا تھا ۔ مھر بھی سفید رنگ کے جوڑے پر مہرون گوٹے والا دوپٹہ پہنے بے حد حسین لگ رہی تھی ۔ فارس کو دیکھنے کے بعد وہ بھاگ کر فوراً اپنے کمرے میں گںٔی اور سامان پیک کرنے لگ گئی ۔رمشا بھی بھاگی بھاگی اسکے پیچھے آںٔی تھی پھر رانیہ اور رمشا نے اسکی ہزار منتیں اور دوستی کے واسطے دے کر جس طرح روکا تھا یہ صرف وہی جانتی تھیں۔ مھر رک تو گئی تھی رمشا کی خوشی کی خاطر لیکن اسکا اب کسی چیز میں دل نہیں لگ رہا تھا ۔تیار بھی اسکو رانیہ نے کیا ،چہرے پر رانیہ نے اسکے زبردستی مہرون لپ سٹک لگاںٔی تھی جس پر اسنے بہت شور کیا تھا لیکن اسنے ہٹانے نا دی باقی کا پورا چہرہ سادہ چھوڑ دیا لیکن اس سادگی میں بھی غضب ڈھا رہی تھی ۔جس شخص کو وہ دیکھنا گوارا نہیں کرتی تھی اب وہ اسی گھر میں ہے اور وہ اتنی مجبور ہے کہ جا بھی نہیں سکتی ۔ انہیں سوچوں میں گم تھی کہ اماں جی کی شفقت بھری آواز آںٔی۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا میری بیٹی کو کیوں اتنی چپ ہے ؟
انکی آواز پر مھر چونک گئی پھر مسکرا کے بولی:
ایسی تو کوںٔی بات نہیں ہے میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔
اس سے پہلے اماں جی کچھ بولتیں سامنے سیڑھیوں سے فارس آتا دکھائی دیا سفید کرتا شلوار میں اسکا کسرتی جسم کچھ اور واضح ہورہا تھا وہ پہلے سے بہت بدل گیا تھا چہرے پر بھری سٹاںٔلش سی داڈرھی جو اسکی صاف رنگت پر خوب جچتی تھی اور بال بھی کچھ بڑے کیے ہوۓ تھے جنھیں جیل لگا کر سیٹ کیا ہوا تھا ۔وہ تین سال پہلے والا فارس کہیں سے نہیں لگتا تھا وہ اب پروقار اور بارعب مرد لگتا تھا۔سنجیدہ تو وہ پہلے سے ہی تھا لیکن اب اس کے چہرے پر کچھ غیر معمولی سنجیدگی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے اترتےہی اسکی نظر مھر پر پڑی تو گویا پلٹنا ہی بھول گئی جو کہ اماں جی سے کچھ بات کرتے ہوۓ مسکرا رہی تھی لیکن اسکی آنکھیں اسکا ساتھ نہیں دے رہی تھی وہ ایک گہرا سانس لے کر اماں جی کے پاس ہی آگیا ۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم اماں جی کیسی طبعیت ہے آپکی؟ ( فارس نے مھر کے بلکل سامنے والے صوفے پر بیٹھتےہی مسکراتے ہوۓ بولا)
فارس کی آواز قریب سے سن کر مھر نے چونک کر اسے دیکھا ایک پل کو دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ملیں لیکن مھر نے فوراً نظریں جھکا لیں اسکی یہی فوراً گھبرا جانے والی ادا ہی تو فارس کو پسند تھی ۔۔۔۔۔
واعلیکم السلام میری جان مجھے کیا ہونا ہے میں بلکل ٹھیک لیکن تو صبح سے ہی کام میں لگا ہوا تھا تھک گیا ہوگا نہ ( اماں جی محبت سے بولیں)
نہیں اماں جی تھکن کیسی اسی لیے تو آیا ہوں تاکہ اپنی ساری ذمہ داریاں پوری کر سکوں ( فارس جواب اماں جی کو دے رہا تھا ساتھ ساتھ اس پری پیکر پر بھی نظر ڈال لیتا جو نظریں جھکا اپنے ہاتھ میں موجود انگوٹھی کو ایسے گھما رہی تھی جیسے اس سے زیادہ ضروری کام دنیا میں اور کوںٔی نہیں ہے )
چل کچھ کھاۓ گا ؟ ( اماں جی بولیں)
نہیں کھانا لیٹ کھایا تھا بس ایک کپ چاۓ کا بنوادیں .....
اس کی بات پر اماں جی نے ادھر ادھر نگاہیں دوڑایں لیکن ساری ملازماںٔیں کام میں مصروف نظر آںٔیں۔۔۔۔۔۔
مھر میری بچی کیا تو بنا دے گی چاۓ؟ ( کسی کے نا ملنے پر انھوں نے مھر سے پوچھا )
اماں جی کے بولنے پر وہ منع نا کرسکی اور جی بول کر فوراً اٹھ گئی)
مھر کے اٹھ کے جانے پر فارس نے اسے دیکھا اسکی نازک کمر پر لمبے کالے بال جس میں براؤن سا شیڈ تھا ڈھیلے سے کیچر میں بندھے ہوۓ تھے جہاں تک اسے یاد پڑتا تھا تین سال پہلے اسکے بال لمبے نا تھے لیکن اب وہی بال فارس کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہے تھے اسے لمبے بال شروع سی پسند تھے ۔وہ اسے دیکھنے میں اتنا مگن تھا کہ اماں جی کی آواز پر چونک گیا ۔۔۔۔۔۔
فارس پتر ( فارس کو مھر کو دیکھتا پاکر انھوں نے اسے پکارا)
جی اماں جی ( فارس سنبھل کے بولا)
اچھی لگتی ہے کیا یہ تجھے؟ ( اماں جی کے اس سوال پر وہ فوراً گڑبڑا گیا لیکن پھر مسکرا کے بولا)
نہیں اماں جی ایسی تو کوںٔی بات نہیں ہے ۔۔۔
اسکی بات پر اماں جی کا چہرا فوراًاتر گیا ....
اچھاااا۔۔۔۔مجھے یہ بچی دل سے پسند ہے جب اسے دیکھتی تھی تب تیرا خیال آتا میں نے ہمیشہ اسے تیرے لیے سوچا تھا ( اماں جی کی بات پر فارس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر انھیں دیکھا لیکن کچھ بولا نہیں)
لیکن پندرہ دن پہلے اسکی منگنی ہوگئی ہے جس دن یہاں آںٔی تھی اسی دن بس اب کیا کہہ سکتے ہیں اللّٰہ اسے خوش رکھے ( اماں جی تو بول کر خاموش ہوگںٔیں لیکن فارس اسکی منگنی سے آگے تو کچھ سن ہی نہ سکا ۔ یہ خبر فارس کے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں تھی وہ تو آج بھی اسکی محبت میں دیوانہ تھا نہیں یہ محبت نہیں تھی جو تین سال بعد بھی ویسی ہی تھی یہ تو عشق تھا جو اسے مھر واجد کے سوا کسی اور کا ہونے ہی نہیں دیتا تھا ۔ امریکہ جیسے آزاد ملک میں بھی اسنے کسی کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا ۔لیکن کیا اسے مجھ سے کچھ پل کی محبت بھی نہ تھی جو اتنی آسانی سے کسی اور کے نام ہوگںٔی ۔ہاں محبت کیسے ہوسکتی ہے محبت ہوتی تو اعتبار کرتی میرا۔ تو یہ طے ہوا مھر واجد کے میں تین سال تک صرف یک طرفہ محبت میں جلتا رہا صرف اور صرف تمھاری وجہ سے جس کے لیے میں تمھیں کبھی معاف نہیں کرونگا کبھی بھی نہیں)۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس انھی سوچوں میں گھم تھا کہ مھر کی آواز پر اسنے چونک کر سر اٹھا کر دیکھا ۔۔۔۔
چاۓ۔۔۔۔۔۔۔آپکی ( آج وہ تین سال بعد اس سے مخاطب تھی فارس نے پہلے اسکے۔ حسین چہرے پر دیکھا جہاں سردی میں بھی پسینے کے چند موتی اسکی ماتھے پر چمک رہے تھے اور پھر اسکے کپکپاتے ہاتھوں پر دیکھا جہاں ایک گولڈ کی خوبصورت آنگوٹھی اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہی تھی انگوٹھی دیکھتے ہی اسکے چہرے پر فوراً پتھریلا پن آگیا )
فارس نے ہاتھ بڑھا کر اسکے ہاتھ سے کپ اس طرح لیا کہ اسکی انگلیاں مھر کی انگلیوں سے ٹچ ہو گںٔیں بس یہاں مھر کی ہمت جواب دے گںٔی
اماں جی میں رمشا کو دیکھ کے آ تی ہو ۔۔۔۔۔۔۔
جاؤ بچے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ فوراً اوپر کی طرف بڑھ گںٔی۔ فارس نے ہمیشہ کی طرح اسے خود سے دور جاتا دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️
کمرے کے پاس آکر پہلے وہ دروازے کے باہر ہی کھڑی ہوگںٔی اسکا دل جس اسپیڈ سے دھڑک رہا تھا کچھ بعید نہیں تھی کہ باہر آجاتا۔ فارس کا دیکھنا کم اور گھورنا زیادہ اسے گھبراہٹ اور کوفت میں مبتلا کر رہا تھا ۔وہ تو ارادہ کر کے اس گھر سے گںٔی تھی کہ اس شخص کی کبھی شکل بھی نہیں دیکھے گی لیکن قسمت کی ستم ظرفی یہ کہ اسی کے در پہ لا پٹخا تھا جب دھڑکنیں کچھ معمول پر آںٔیں تو ایک گہرا سانس لے کر خود کو کمپوز کیا اور اندر کمرے میں چلی گںٔی۔۔۔۔۔۔۔
رمشا نے آج سفید جوڑے پر لال گوٹےوالا دوپٹہ کیا ہوا تھا ۔ ماہر بیوٹیشن کے ہاتھوں نے اسکے خوبصورت سے چہرے کو اور دلکش بنا دیا تھا ۔رانیہ نے بھی سفید جوڑے پر ڈارک بلو گوٹے والا دوپٹہ پہنا تھا وہ بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔ نیچے سے بلاوا آیا تو مھر رانیہ اور کچھ دوسری لڑکیاں رمشا کو لے کر نیچے آںٔیں ۔سارے مہمان آچکے تھے اور محفل شروع ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے تو لڑکیاں اور لڑکوں نے ڈھول پر لڑاںٔی کی لیکن کوںٔی فیصلہ نہ ہو نے کی صورت میں معاملہ اماں جی کی عدالت میں چلا گیا جہاں لڑکیوں کے حق میں فیصلہ ہوا کیونکہ یہ محفل خاص لڑکیوں کے لیے ہی ہوتی ہے ۔لڑکے بیچارے اپنا سا منہ لے کر رہ گںٔے لیکن پیچھے ہٹنے والے کہاں تھے ۔۔ ڈانس میں بھی ایسا مقابلہ لگایا کہ بس دیکھنے والے دیکھتے کم اور ہنستے زیادہ رہ گںٔے جس میں زیادہ ہاتھ عباس کی شرارتوں کا تھا جو رانیہ کو تپانے کے لیے کافی تھیں ایک دوسرے کو مختلف ناموں سے پکار پکار کر تنگ کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس یہ سب ساتھ ہی بیٹھا ہوا مسکرا کر دیکھ رہا تھا جب کہ یہ سب اسکے مزاج کے خلاف تھا لیکن بہت عرصے بعد سب کو ساتھ دیکھ کر خوشی ہورہی تھی ۔ ایک چیز جو اسے انتہائی ناگوار گزر رہی تھی وہ دانیہ کی حد درجہِ خود سے بے تکلفی تھی وہ سفید جوڑے پر پنک دوپٹہ کیے خوب تیار ہوکر بہانے بہانے سے فارس کے پاس بیٹھتی جو اسے بلکل پسند نہیں آرہا تھا لیکن پھر بھی سب کے خیال سے ضبط کرکے بیٹھا رہا ۔ان سب میں اسکی نظر سامنے رمشا کے ساتھ بیٹھی مھر پر پڑی جو رمشا کے کان میں کوئی سرگوشی کر کے کھل کے مسکرا رہی تھی جس سے اسکا ہونٹوں کے پاس موجود ننھا سا ڈمپل کھل اٹھا تھا۔وہ کتنی حسین لگ رہی تھی اس وقت یہ کوںٔی فارس کے دل سے پوچھتا لیکن ہنستے ہوۓ جیسے ہی مھر کی نظر فارس پر پڑی جو سنجیدگی سے اسے ہی دیکھ رہا تھا تو اسکے مسکراتے لب فوراً سکڑ گںٔے اور اپنی نظروں کا زاویہ بھی بدل لیا ۔یہ بات فارس کو بہت بری لگی۔ مطلب کے اپنی زندگی سے مطمئن تھی جو یوں کھکھلا رہی تھی دل کچھ اور بھی بد گمان ہوگیا ۔اس کے بعد فارس نے ایک نگاہِ غلط بھی اس پر ڈالنا گوارا نہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔تقریب اپنے اختتام کو پہنچی تو سب آرام کی غرض سے اپنے اپنے کمروں میں چلے گںٔے کیونکہ کل مہندی کی تقریب تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔⁦
♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
رات کے پچھلے پہر وہ اپنی سوچوں میں غرق سیگریٹ پہ سیگریٹ پھونک رہا تھا۔۔۔۔۔۔
کیوں مھر کیوں کیا تم نے ایسا اس دن ۔۔۔۔۔میری بات تو سن لی ہوتی ۔۔۔۔۔لیکن نہیں تم نے میری ایک نہ سنی اور سب کے سامنے مجھے ذلیل کر کے تھپڑ مار کے چلی گئیں۔ چاہتا تھا کہ عزت اور محبت سے تمھیں اپنا بناؤ لیکن تم نے میری ضد کو ہوا دی ہے ۔
"You have to pay for this"
تمھیں فارس شاہنواز کا ہونا پڑےگا مھر واجد تمھیں بھی وہ ذلت برداشت کرنی ہوگی جو تم میرے لیے چھوڑ گئیں تھی ........
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩

TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅Where stories live. Discover now