آج ولیمہ تھا اور ولیمہ دن دو بجے منعقد کیا گیا تھا ۔ مومل نے کوپر کلر کی میکسی پہن رکھی تھی اور کاشان نے تھری پیس پہن رکھا تھا ۔ دونوں کی جوڑی بہت اچھی اور ایڈیل لگ رہی تھی مگر شادی شدہ جوڑے کی یہ ایڈیل لگنے والی جوڑی اتنی ہی ٹوٹی اور بے جوڑ بن چکی تھی ۔ سحر نے ولیمہ کے لیے بلیک ساڑھی پہن رکھی تھی ، آج عاصم اور شہزل نہیں موجود تھے وجع یونیورسٹی میں ہونے والی مصروفیات تھی سحر کو بھی یونی میں کام تھا مگر اس نے سوچا کہ عاصم سے کام لے لے گی ویسے تو عاصم کو کوئی دلچسپی نہیں تھی ان کاموں میں مگر سحر کے کافی اصرار ہر اس نے ہامی بھری تھی ۔
ارہم ذرا بات سننا ۔ سحر نے مومل کی بہن کو مخاطب کیا ۔
ہاں بولو ۔
یار وہ باہر گاڈی میں کچھ سامان رکھا ہے وہ لے آؤ مجھے کوئی دوسرا کام ہے ورنا میں خود لے آتی وہ سامان لانا بھی ضروری ہے ۔
اچھا اچھا میں لے آتی ہوں اتنی
وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ۔ کون سی گاڑی میں ہے ۔
فرقان بھائی کی گاڑی ہے بلیک کلر کی ، بھائی گاڑی میں ہی ہوں گے ابھی لائیں ہیں ۔ سحر نے جلدی جلدی بولا ۔
اچھا ۔ وہ بولتے ہوئے باہر پارکنگ کی طرف چلی گئی ۔
******************************
وہ سامان دے دیں، سحر نے بھیجا ہے مجھے ۔ ارہم نے آتے ہی فرقان سے کہا ۔
کوئی سامان نہیں ہے ۔ فرقان نے بڑے آرام سے کہا ۔
کیا مطلب کوئی سامان نہیں ہے ۔ ارہم نے اسے غیر یقینی انداز میں دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔
مطلب یہ کہ مجھے آپ سے بات کرنے تھی تو اسی لیے سحر جھوٹ بول کر آپ کو یہاں بلوایا سوری آپ کو دھوکہ سے بلوانے کے لیے ۔
میں بھی کتنی بےوقوف ہوں اتنی آسانی سے بےوقوف بن گئی بھلا ولیمہ والے دن کون سا سامان لانا ہو گا ۔ ارہم قدرے غصے سے بولی ۔
نہیں میں معافی چاہتا ہوں آپ غصہ مت ہوں ۔
آپ کو جو بات کرنی ہے کریں ورنہ میں اندر جا رہی ہوں ۔
جی مجھے آپ سے پوچھنا تھا کہ۔۔۔ ۔ وہ ۔ مجھے لفظ نہیں بنانے آتے سیدھی بات کرتا ہوں مجھے آپ سے محبت ہو گئی کیا آپ کسی کو پسند تو نہیں کرتی میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔ وہ لفظ توڑ توڑ کر بول رہا تھا ۔
مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی ۔ ارہم نے سرد لہجے میں کہا ۔
کیا میں وجع جان سکتا ہوں ۔
نہیں ۔ میں بتانا ضروری نہیں سمجھتی ۔ وہ سخت لہجے میں بولتی ہوٹل میں چلی گئی ۔
تم نے سہی نہیں کیا ۔ ارہم راستے میں سحر کو غصہ میں بولتے ہوئے آگے نکل گئی ۔
******************************
فرقان مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔
جی بھابی کہیں ۔فرقان کو کچھ کچھ اندازہ ہو گیا تھا کہ آخر وہ کیا بات کرنا چاہ رہی ہیں ۔
تم نے ارہم سے جو کہا ہے کیا وہ سچ ہے ۔ مومل نے سوالیہ نظروں سے کہا ۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے بھابی اگر اس نے آپ کو یہ بتایا ہے تو وہ بھی بتایا ہو گا جو اس نے کہا ہے ۔
اس نے مجھے سب بتایا ہے اب تم بتاؤ کیا تم سیریس ہو کہ نہیں ۔
میں تو سر سے پاؤں تک سیریس ہوں پر مجھ بچارے کے سیریس ہونے سے کیا ہوتا ہے ۔
اس سے بہت کچھ ہوتا ہے ۔
کیا مطلب! فرقان نے حیرت سے اسے دیکھا تھا ۔
مطلب کہ تم امی سے بات کر لو باقی میرے پر چھوڑ دو ۔
مگر میں اس کی مرضی سے اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں ناکہ کسی دباؤ میں ڈال کر ۔ فرقان نے سیریس انداز میں مومل کو دیکھتے ہوے اس سے کہا ۔
اس کی تو جہاں بھی شادی کی جائے گی زبردستی ہی کی جائے گی ۔
کیا مطلب کیا وہ کسی کو پسند کرتی ہے ۔فرقان نے بےچین نظروں سے سوال کیا تھا جس کا جواب اسے چاہیے تھا۔
ہاں بہت محبت کرتی ہے وہ ۔
کس سے ۔ اس کی نظروں میں دکھ اور بےچینی ایک ساتھ تھی ۔
اپنے ماں باپ سے ۔ مومل نے بڑے تحمل سے جواب دیا تھا ۔
کیا مطلب آپ کا میں سمجھا نہیں ۔
مطلب یہ کہ ارہم میری سگی بہن نہیں ہے وہ میرے پاپا کو ملی تھی وہ اپنے گھر کا راستہ بھول گئی تھی اس وقت وہ کافی چھوٹی تھی پاپا نے پولیس میں کمپلین لکھائی تھی مگر کچھ پتا نہیں چلا اور پھر ہمیں اس سے محبت بھی اتنی ہو گئی تھی تو پاپا نے اسے اڈاپٹ کر لیا ۔ اور ویسے بھی ماما دوبارہ ماں نہیں بن سکتی تھی اور اب جب پاپا کو کینسر ہے ڈاکٹر نے صاف جواب دے دیا ہے تو اب ارہم شادی ہی نہیں کرنا چاہتی مجھ سے زیادہ وہ ان سے پیار کرتی ہے اور ماما پاپا بھی اس سے بہت پیار کرتے ہیں ہمارے گھر کی لاڈلی ہے وہ مگر پاپا اس کی شادی جلد سے جلد کرنا چاہتے ہے ۔
وہ کچھ لمحے رکی اور لہجہ بھر آیا اور کہنے لگی ۔ پاپا کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے یہ ہم بھی جانتے ہیں وہ بہت بیمار ہیں مگر ظاہر نہیں کرتے اور آج کل وہ ہم دونوں کا ہی رشتہ دیکھ رہے تھے وہ تو میرا رشتہ تمہارے بھائی سے طہ ہو گیا ورنہ وہ ہماری شادی اکٹھی کرنا چاہتے تھے اور اب ان کی خواہش ہے کہ کم از کم ارہم کا نکاح کر دیا جائے ۔
بھابی میں اس سے ملنا چاہتا ہوں ۔
ٹھیک ہے میں تمہاری ملاقات کروا دوں گی ۔
************************************
آج مومل یونیورسٹی نہیں آئی تھی ، مگر سحر ولیمے کے اگلے ہی دن یونیورسٹی آ گئی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی پڑھائی میں کوئی بھی حرج ہو مگر مومل کے لیے یوں شادی سے اگلے ہی دن یونیورسٹی آنا زرا مشکل تھا تو اس نے سوچا کہ وہ ایک ہفتہ ٹھر کر جائے گی ۔
عاصم سحر اور کاشان لاوئن میں بیٹھے تھے کہ عاصم نے عجیب سوال کیا ۔
یار تم دونوں کو محبت ہوئی ہے کبھی ۔
دونو کے منہ سے ایک ساتھ ہاں نکلا تھا ۔
اچھا زرا بتاؤ یہ محبت ہوتی کیسی ہے کیسی دکھتی ہے ۔ مجھے کیوں نہیں ہوتی یہ محبت ۔
محبت! اہ محبت ۔ میرے لیے محبت جادو ہے ایک جادو، ایک کیفیت جو نئی دنیا میں لے جاۓ نت نئے سفر کروائے نئی کیفیت جگائے محبت تو ایک سحر انگیزی ہے جو اپنے جادو میں انسان کو ڈبو دے ۔ وہ اپنی دھن میں بول رہا تھا ۔
مگر سحر تو بس سحر انگیزی پر رک سی گئی تھی اس کے لیے تو وہی دنیا تھی بس ۔ کیا وہ یہ کہہ رہا ہے ،کہ اس کے لیے میں محبت ہوں ۔
*******************************
ارہم ۔
ہاں بولیں میں سن رہی ہوں ۔
تم میری بات دہان سے سنو یہ کھیلنا بند کرو کھانے کے ساتھ ۔
ہاں بولیں ۔ اس نے چاول کی پلیٹ میں چلاتے ہاتھ روکتے ہوۓ کہا ۔
تم مجھ سے شادی کر لو ۔
ارہم کچھ بولنے لگتی ہے کہ فرقان اسے روک دیتا ہے ۔
مجھے معلوم ہے کہ تم کیا کہنے لگی ہو مگر میری بات کان کھول کر سن لو شادی تو میں تم سے ہی کروں گا اور رہی بات تمہاری تو تمہارے جو بھی خدشے ہیں انہیں بھول جاؤ انکل انٹی شادی کے بعد ہمارے ساتھ رہیں گے ۔
مگر آپ کی فیملی کو اعتراض نہ ہو ۔
کس کو اعتراض ہو گا امی اور کاشان بھائی سے میں نے بات کر لی ہے اور رہی بات بھابی کی تو مجھے نہیں لگتا کہ انہیں اعتراض ہو گا اور سحر کی تو ویسے سال دو میں شادی ہو جانی ہے اور رہی بات میری ہونے والی بیوی کی تو اس کو تو میں سیدھا کر لوں گا اگر اس نے ہمت بھی کی اعتراض اٹھانے کی ۔ آخری بات اس نے کچھ شرارتً کی تھی ۔
ارہم نے ہلکی سی مسکراہٹ دی تھی جو اس کی ہامی ظاہر کر رہی تھی ۔
*******************************
آج ان کی شادی کو پورا ایک ماہ ہو گیا تھا اور مومل نے تو شادی کے ایک ہفتے بعد ہی یونی جوائن کر لی تھی اور ان کے مڈ ٹرم شروع ہونے والے تھے اور آج سحر اور مومل دونوں سحر کے کمرے میں بیٹھے تیاری کر رہے تھے ان دونو کے سبجکٹ مختلف تھے مگر مومل اپنے کمرے میں تیاری نہیں کر سکتی تھی کیونکہ کچھ وقت میں کاشان آنے والا تھا اور اس طرح اس کی نیند میں خلل پیدا ہوتا جو وہ ہر گز نہیں چاہتی تھی ۔
وہ دونوں بیٹھے تیاری کر رہے تھے کہ موبائل پر کسی کی کال آئی تھی موبائل پر ابھرنے والا نام عاصم کا تھا ۔
سحر نے فون اٹھاتے ہی غصے میں بولا ۔ یار بندہ خود نہ پڑھتا ہو تو اگلے کو ہی پڑھ لینے دینا چاہیے ۔
ارے تمہیں پڑھائی کی پڑی ہے یہاں وقت بدل گیا حالات بدل گئے ۔
اچھا زیادہ بڑھا چڑھا کر بتانے کی ضرورت نہیں ہے سیدھا مدعے پر آؤ ورنہ فون کاٹتے ہوئے ایک منٹ نہیں لگاؤ گی ۔
اگلی بات جو عاصم کی طرف سے کی گئی تھی اس نے اس کی سانسیں روک دی اسے لگا کوئی بڑی بے دردی سے اس کی سانسیں چھین رہا ہو اسے اپنا آپ کہیں ڈوبتا محسوس ہوا تھا اسے لگا کہ واقعی سب ختم ہونے والا ہے اس کی ساری خوشیاں اب فنا ہو جانے والی ہے۔
اور اس کے ہاتھ سے موبائل گر گیا اور خود بھی تو گر ہی چکی تھی کسی گہری کھائی میں وہ عاصم سے تصدیق کر رہی تھی اور وہ بڑے آرام سے جواب دے رہا تھا اور پھر وہ بے ہوش ہو گئی ۔
******************************
مجھے میرے انسٹاگرام پیج پر فولو ضرور کریں.
Sajal_writes01