part 16

670 38 3
                                    

ہیلو ......ہاں میں آگںٔی ہوں کہاں ہیں آپ؟( دانیہ تیمور کے بتاۓ ہوۓ ریسٹورنٹ میں پہنچ کر کال پر اس سے بولی)
اسی وقت سامنے ایک خوش شکل سا مرد بھی کسی کال پر مصروف نظر آیا ۔دانیہ فوراً ہی اسکے پاس جا کر بولی)
تیمور اسد ؟ ( دانیہ کے پکارنے پر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓبولا)
دانیہ قمر راںٔٹ ؟( تیمور کے بولتے ہی دانیہ نے مسکرا کر اپنا نازک ہاتھ اسکی طرف بڑھا دیا جسے تیمور نے فوراً مسکرا کے تھام لیا )
راںٔٹ میں دانیہ ہوں آئیں کہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں ( دانیہ کے بولنے پر وہ دونوں ایک ٹیبل کی طرف آگںٔے جو پبلک سے کچھ فاصلے پر تھی تاکہ وہ سکون سے بات کرسکیں )
اپنی جگہ سنمبھالتے ہی دانیہ نے تیمور کا ایک ہی نظر میں تفصیلی جائزہ لے لیا اور اسے تیمور کو دیکھ کر کافی حیرت ہوںٔی تھی کیونکہ وہ بلکل ویسا نہیں تھا جیسا دانیہ نے سوچا تھا بلکہ وہ تو کافی خوش شکل تھا ۔ صاف رنگت ، کھڑا ناک اور اسکے چہرے پر موجود فرینچ داڑھی جو اسے بہت سوٹ کرتی تھی ۔ ڈارک گرے پینٹ پر لاںٔٹ گرے شرٹ اور اوپر بلیک لیدر کی جیکٹ پہنے بہت ہینڈسم لگ رہا تھا.۔۔۔۔۔۔۔
ہاں تو دانیہ قمر پہلے بات کرلی جاۓ یا کچھ لیں گی آپ؟( تیمور کی بولنے پر دانیہ چونک کر اسکی طرف متوجہ ہوںٔی لیکن فوراً ہی مسکرا کر بولی)
کوفی آڈر کرلیتے ہیں جب تک پھر ہم بات بھی کرلیں گے ( دانیہ کے بولتے ہی تیمور نے ویٹر کو بلا کر دو کوفی آرڈر کیں پھر بولا)
جی کہیے ہم کیا کرسکتے ہیں آپ کے لیے ؟( تیمور کو بھی نازک سی دانیہ اچھی لگی تھی)
ہاہاہاہا۔۔۔۔فلحال خود کے لیے ہی کرلیں ویسے ہماری بات تو کال پر ہو ہی گںٔی تھی لیکن ملنے کا مقصد ہمیں یہ ڈساںٔڈ کرنا ہے کہ کام شروع کہاں سے کیا جاۓ ( دانیہ بالوں کو کان کے پیچھے اڑاتی ہوںٔی بولی)
مجھے صرف اور صرف اس لڑکی کی بربادی چاہیے طریقہ چاہے جو بھی ہو ( تیمور نفرت سے بولا)
میں بھی یہی چاہتی ہوں لیکن ہمیں جو بھی کرنا ہوگا بہت احتیاط اور صبر سے کرنا ہوگا ( دانیہ کے شاطر دماغ میں اس وقت بہت کچھ چل رہا تھا )
اسی وقت ویٹر کوفی لے آیا تو وقتی طور پر دونوں خاموش ہوگںٔے پھر اسکے جاتے ہی تیمور بولا.....۔۔۔
کیا کرنا ہوگا مجھے ؟
میری بات غور سے سنیے گا ۔۔۔دیکھیں آج نہیں تو کل مہر کے گھر والے اسے معاف کردیں گے اسی لیے ان کا ہمیں کوںٔی فاںٔدہ نہیں ہے لیکن فارس شاہنواز کو بہکانا تھوڑا آسان ہے کیونکہ موصوف زرا جذباتی ہیں لیکن مہر سے محبت کرتا ہے اسی لیے ہمیں فارس کا دل مہر کی طرف سے اور مہر ما دل فارس کی طرف سے خراب کرنا ہے ( دانیہ اسے سمجھاتے ہوۓبولی)
مطلب؟( تیمور کو اب بھی سمجھ نہ آیا)
دانیہ نے ایک کوفی کا سپ لیا پھر بولی)
مطلب سمپل ہے تیمور اسد فارس شاہنواز کو مہر سے اتنا بدگمان کرنا ہے کہ وہ اسے چھوڑنے میں منٹ بھی نہ لگاۓ اور مہر کو بھی فارس کی طرف سے بدگمان کرنا ہوگا تاکہ وہ بھی اسکی شکل دیکھنا پسند نہ کرے ( دانیہ کے بات ختم کرتے ہی تیمور کے چہرے پر مسکراہٹ آگںٔی)
ویری نائس کافی ٹیلنٹڈ ہو تم ( وہ کوفی کے بھاپ اڑاتے ہوۓ کپ سے سپ لے کر بول)
وہ تو میں ہوں۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ اتنا بھی آسان نہیں ہوگا کہیں ڈر کی بیچ میں ہی تو نہیں بھاگ جاؤ گے؟؟ ( دانیہ مسکرا کر اسکی آنکھوں میں بے باکی سے دیکھتی ہوںٔی بولی)
آزمائش شرط ہے مس دانیہ ( وہ بھی اسی طرح مسکرا کے بولا)
ہاہاہاہا....( اسکے انداز پر دانیہ کھکھلا کر ایک ادا سے ہنس دی )
چلیں پھر آج سے ہی کام شروع کر دیتے ہیں اور پھر دانیہ نے اسے سارا پلین سمجھانا شروع کیا جسے سن کر تیمور کافی متاثر ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر ڈن ہوگیا .....( دانیہ نے فوراً اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا جسے تیمور نے مسکرا کر تھام لیا )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
رات میں سب خاموشی سے کھانے کی میز پر کھانا کھا رہے تھے کہ مہر کی آواز پر سب اسکی طرف متوجہ ہوگںٔے۔۔۔۔۔۔۔
انکل مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ( مہر نے بہت مشکلوں سے خود کو بات کرنے کے لیے تیار کیا ورنہ فارس کی آر پار ہوتی نظریں اسے کنفیوز کر رہی تھیں )
جی بیٹے بولو( شاہنواز صاحب فوراً اسکی طرف متوجہ ہوئے)
انکل میں اپنی سٹیڈیز کنٹینیو کرنا چاہتی ہوں ( مہر کی اس اچانک بات پر فارس پہلے تو چونکا لیکن پھر کھاجانے والی نظروں سے اسے گھورنے لگا کیونکہ اب یہ اجازت مہر کو اس سے لینی چاہیے تھی اب چاہے جیسے بھی لیکن وہ ہی اسکا شوہر تھا اور اسکی زندگی کے فیصلوں پر حق رکھتا تھا)
کیوں نہیں بیٹے آپ پڑھو ضرور دوبارہ یہاں کسی کو بھی کوںٔی اعتراض نہیں ہوگا اور اگر ہوا بھی تو اسے کسی خاطر میں نہیں لایا جاۓگا ( شاہنواز صاحب فارس کو سنانے کے لیے اپنی بات پر زور دے کر بولے جس سے فارس کو اور  غصہ آیا )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانیہ بڑے مزے سے اسکے تاثرات دیکھ رہی تھی وہ دونون کے بیچ میں سرد دیوار محسوس کرچکی تھی اسی لیے کچھ پرسکون بھی تھی کیونکہ جو بھی ہو اسنے تین سال پہلے کوںٔی اتنا معمولی کام بھی نہیں کیا تھا کہ جس کا ازالہ کچھ دنوں میں ہوجاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھینک یو انکل ( مہر خوشی سے مسکرا کر بولی جس سے اسکے ہونٹوں کے پاس موجود ننھا سا ڈمپل کھل اٹھا جو فارس شاہنواز کی جان اور جلا گیا)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔😄
برخودار تم کل بچی کو ساری بکس اور جو جو  ضرورت کی چیزیں ہوں لاکے دوگے سمجھے ( شاہنواز صاحب کے اچانک مخاطب کرنے پر فارس پہلے چونکا کیونکہ اسکا سارا دیھان اس پری کے جان جلانے والے ننھے گڑھے کی طرف تھا لیکن پھر فوراً "جی ڈیڈ" بول کر چپ ہوگیا )۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے کے بعد سب نے حسبِ معمول ساتھ بیٹھ کر کوفی اور چاۓ پی اسکے بعد سب اپنے اپنے کمروں کی جانب بڑھ گںٔے ۔۔۔۔۔۔
مہر جب کمرے میں آںٔی تو اس وقت فارس کوںٔی فاںٔل ریڈ کر رہا تھا ۔ مہر اسے پوری طرح نظر انداز کرتی الماری سے اپنا کمبل نکال کر اپنی جگہ آکر لیٹ گںٔی اور کمبل کو ہمیشہ کی طرح اپنے سر تک چڑھا لیا ۔فارس کو اسکی کمال بے نیازی پر حیرت بھی ہوںٔی اور غصہ بھی آیا اسنے فاںٔل کو ساںٔڈ پہ رکھ کر ایک جھٹکے سے اس پر سے کمبل کھینچا ۔ وہ جو مکمل سونے کی تیاری میں تھی بوکھلا کر اٹھ بیٹھی اور فوراً دوپٹہ درست کرتے ہی غصے سے بولی........
یہ کیا بدتمیزی ہے؟
اچھا تو یہ بدتمیزی ہے اور جو تم نے نیچے کیا وہ کیا تھا ہاں ؟ ( فارس اپنی بھاری آواز میں دبے دبے غصے سے بولا)
کیا کردیا میں نے نیچے ؟ ( مہر بھی جان کر انجان بنی)
نہیں یاد تمہیں؟؟ ( فارس اسکی ایکٹنگ پر عش عش کر اٹھا)
نہیں تو ( مہر بھی ڈھیٹ بنی رہی )
یونی کنٹینیو کرنے کی اجازت جو تم نے ڈیڈ سے لی ہے تمھیں نہیں لگتا کہ مجھ سے لینی چاہیے تھی؟( فارس اب کے سیدھی طرح بولا کیونکہ اتنا تو وہ سمجھ گیا تھا کہ اسنے آج اپنی غلطی خود سے نہیں ماننی تھی)
کیوں لوں آپ سے اجازت ؟ انکل سے ہی لونگی ( مہر ہنوز اسی طرح بولی)
شوہر نامدار ہوں میں آپکا مہر فارس ( فارس جتاتے ہوۓلہجے میں بولا۔۔اب اسے مہر کا یہ انداز مزہ دے رہا تھا کیونکہ وہ کبھی اس طرح سے نہیں بولی اسکے سامنے)
ہہہ۔۔۔۔میں تو نہیں مانتی اس زبردستی اور بدلے کی شادی کو ( مہر کے بولتے ہی فارس نے ایک ہی جھٹکے میں اسکا بازو پکڑ کر اپنے پاس کھینچا اور وہ کسی ٹوٹی ہوںٔی ڈالی کی طرح اسکے چہرے کے قریب ہوگںٔی وہ بہت مشکلوں سے اپنا بیلنس کیے بیٹھی تھی ۔۔۔۔اب ورنہ تو فارس کی قربت اسکی جان ہوا کر رہی تھی )
ایک بات میری اپنی اس چھوٹی سی عقل میں بٹھا لو ( فارس نے انگلی سے اسکی چمکتی پیشانی کو ہلکا سا دباؤ ڈالا جس سے دونوں کی دھڑکنیں آپس میں ریس لگانے لگ گئیں)
کہ ڈاکٹر فارس شاہنواز ہی تمہارا شوہر ہے پھر چاہے وہ مرضی کا ہو زبردستی کا یا بدلے کا ہو۔۔۔۔ رہے گا وہ تمہارا ہی مہر فارس اور یہ بات مجھے اچھی طرح تمھیں سمجھانا بھی آتی ہے لیکن میں اس چیز کا قاںٔل نہیں ہو لہٰذا آںٔندہ تم مجھ ہی سے اجازت لوگی پھر چاہے وہ کسی بھی چیز کی ہو سمجھیں۔۔۔؟؟؟( فارس اسکے چہرے کے ایک ایک نقوش کو آنکھوں کے ذریعے دل میں اتار رہا تھا ۔ اسے کچھ نا بولتا دیکھ فارس نے اسے دوسرے بازو سے بھی پکڑ کر کچھ اور پاس کیا اور مہر کی غیر ہوتی حالت کی پروا کیے بغیر پورے استحاق سے اپنے آگ کی مانند دھکتے لب اسکی روشن پیشانی پر رکھ دںٔیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہنے ماتھے پر اسکا نرم گرم لمس محسوس کرتے ہی مہر نے بے اختیار ہی آنکھیں بند کرکے اسکے بازو کو سختی سے پکڑ لیا ۔ کیا نہیں تھا اسکے لمس میں مان ، چاہت ، ضد ، محبت  ۔ فارس نے آہستگی سے اپنے لب اسکی پیشانی سے ہٹاۓ تو اسے آنکھیں بند کیے اور سختی سے اپنا بازو پکڑے دیکھ اسکے لبوں پر ایک گہری شرارتی سی مسکراہٹ آگںٔی۔ اسنے ہلکے سے مہر کے چہرے پر پھونک ماری جس سے وہ فوراً ہوش کی دنیا میں واپس آتی بوکھلا کر آنکھیں کھول گںٔی۔ اسکی دمکتی رنگت میں گھولتی سرخی چہرے پر بوکھلاہٹ اور نشیلی آنکھوں پر لرزتی پلیں جو رخساروں پر سجدہ ریز تھیں ۔ فارس کی جان اب سہی معنوں میں نکلی تھی اسنے فوراً ہی خود سے گھبرا کر اسے ایک جھٹکے سے خود سے دور کیا ۔۔۔۔۔۔۔
فارس کے آزاد کرتے ہی فوراً سیدھی ہو کر پیچھے ہوںٔی اور اپنی جگہ پر لیٹ کر کمبل دوبارہ خود کے اوپر تک چڑھا لیا ۔۔۔۔۔۔۔
فارس نے فوراً اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر  پپسینے کو صاف کیا جو سردی میں بھی اسکے  خوبصورت چہرے پر اگیا تھا آج ایک بار پھر وہ خود ہی سے گھبرا گیا تھا اپنے دل کی چلتی دھڑکنوں کی رفتار سے گھبرا گیا تھا۔ اسکے جانلیوا حسن سے گھبرا گیا تھا اسکی نشیلی اٹھتی گرتی پلکوں کی حرکت سے گھبرا گیا تھا۔ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا خود کو رلیکس کرتے ہوۓلاںٔٹ اوف کر کے لیٹ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
صبح فجر کی اذانوں پر مہر کی آنکھ کھلی ۔ سردیوں کی صبح اور خاموش فضاؤں میں فجر کی آذانوں کی سر گھولتی آوازیں بہت بھلی لگ رہی تھی ۔ مہر نے بال باندھ کر اپنے برابر میں دیکھا تو مغرور سا شہزادہ دنیا وجہاں سے بے خبر سو رہا تھا۔ ۔وہ سوتے ہوۓ بہت معصوم لگتا تھا  لیکن اس معصومیت میں بھی اسکی کھڑی لمبی ناک پر غرور واضح تھا ۔ اسے دیکھتے ہی بے اختیار مہر کے پنکھڑی جیسے لبوں پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ آگںٔی لیکن اپنی اس مسکراہٹ پر خود ہی حیران رہ گںٔی ۔ اپنی چوری پکڑے جانے کے خوف سے فوراً اپنی جگہ سے اٹھی اور واش روم میں گھس گںٔی۔۔۔۔۔۔۔۔
10 منٹ بعد وضو کر کے آںٔی ۔ اپنے چہرے کے گرد دوپٹہ باندھ کر جاۓ نماز بچھا کر نماز ادا کرنے لگی ۔ لیمپ کی ہلکی روشنی پر فارس کی آنکھ کھلی جو کہ مہر نے اپنی ساںٔڈ روشن کردیا تھا ورنہ وہ لیمپ اوف کر کے سوتی تھی ۔رات دیر سے سونے کی وجہ سے اسکی آنکھیں نہیں کھل رہی تھیں لیکن اسنے جیسے ہی مہر کی خالی جگہ کو دیکھا تو فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔پر نظر جیسے ہی سامنے کاؤچ کے پاس گںٔی تو اسے اپنے اندر تک سکون اترتا محسوس ہوا جہاں وہ بہت اطمینان سے سجدے میں گںٔی ہوںٔی تھی اس وقت اس کے حسین چہرے پر ایک نور کا حالہ بنا ہوا تھا جو اسکی معصومیت اور پاکیزگی کو ظاہر کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر نے جیسے ہی سلام پھیرا تو فارس کو خود کی طرف دیکھتا پاکر فوراً نظریں چراتی دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے ۔ اسکی اس حرکت سے فارس کی گھنی مونچھوں تلے عنابی لبوں پر ایک گہری سی مسکراہٹ آگںٔی۔ وہ بھی اسی وقت اٹھا اور وارڈروب سے اپنی شلوار قمیض لیتا واشروم میں چلا گیا۔ گرم پانی سے غسل کر کے مسجد نماز کی ادائیگی کے لیے چلا گیا ۔ جب تک وہ کمرے میں تھا مہر مسلسل دعا میں مشغول رہی اسکے جاتے ہی دعا ختم کر کے اپنی جگہ پر آںٔی اور کمبل کو سر تک چڑھا کر ایک بار پھر اس میں گھس گںٔی کیونکہ وہ رات کے بعد فارس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس جب واپس آیا تو اسے کمبل میں گھسا دیکھ کر سمجھ گیا کہ وہ کیوں ایسے کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔
صبح سات بجے کے قریب کھٹ پھٹ کی آواز پر مہر کی آنکھ کھلی تو دیکھا فارس ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تیار ہورہا تھا بلیک ڈریس پینٹ پر گرے ڈریس شرٹ پہنے وہ اس وقت اپنے چھا جانے والی شخصیت کے ساتھ مہر کا دل دھڑکا گیا۔ اس پر سے نظریں چراتی اپنی جگہ سے اٹھی اور دانیہ کے دںیٔے ہوۓ جوڑوں میں سے ایک لے کر واشروم میں گھس گئی 10 منٹ بعد شاور لے کر باہر آںٔی تو دیکھا فارس کل رات والی ہی فاںٔل بیٹھا دیکھ رہا تھا ۔ مہر اسے پوری طرح نظر انداز کرتی ڈریسن ٹیبل کے آگے کھڑی ہوکر بال سلجھانے لگی ۔ فارس بظاہر تو اپنا کام کر رہا تھا لیکن دیھان مہر کی جانب ہی تھا ۔ فاںٔل بند کر کے جیسے ہی اپنی جگہ سے اٹھا تو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے نظر پڑتے ہی گویا پلٹنا بھول گںٔی اور بے اختیار ہی اس کے قدم اس طرف بڑھنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر کچھ اکتاںٔی ہوںٔی اپنے بال سلجھانے میں مصروف تھی کیونکہ گھر میں اسکے بال لمبے ہونے کی وجہ سے سارہ بیگم ہی سلجھاتی تھیں لیکن اب تو یہ مشکل بھی اسکے سر تھی ۔ جیسے تیسے بالوں کو سلجھا کر اسنے انھیں بے دھیانی میں ایک جھٹکے سے پیچھا کمر پہ پھینکا تو وہ سیدھا پیچھے کھڑے فارس کے منہ پر جا لگے ۔۔۔۔۔۔
آ۔۔۔۔آپ سوری میرا دھیان نہیں رہا کہیں آنکھ میں تو نہیں لگ گیا ؟ ( مہر نے فوراً گھبرا کر اسکے چہرے کا جاںٔزہ لیا جہاں کوںٔی ناگواری کے اثار نہیں دکھ رہے تھے۔۔۔۔۔
فارس تو اسکی دراز زلفیں دیکھتے ہی انکا دیوانہ ہوگیا تھا اوپر سے انکی نمی کا یوں چہرے پر لگنا اسے ٹھنڈی پھواروں جیسا لگا تھا۔۔۔۔
لگی تو نہیں نا؟( مہر نے ایک بار پھر ڈرتے ڈرتے پوچھا لیکن اس بار فارس نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا ۔ اسکی اس حرکت پر مہر کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گںٔیں ۔ اسکے لمس سے ہی مہر کے وجود میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا تھا بے اختیار ہی اسنے اپنے نازک لب سختی سے بھینچ کر آنکھیں جھکالیں ۔۔۔۔۔۔
فارس بہت غور سے اسکا جاںٔزہ لے رہا تھا۔ ڈارک گرین کلر کے پرنٹڈ کاٹن کے اسٹائلش سے سوٹ میں وہ بلکل صبح کے حسین منظر کی طرح کھلی کھلی سی لگ رہی تھی ۔ فارس نے اپنی شہادت کی انگلی سے اسکی ٹھوڑی پکڑ کر چہرہ اوپر کیا تو مہر نے بھی اپنی جھکی حسین آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک فسوں تھا ایک سحر تھا اس لمحے میں جسنے دونوں کو اپنے حصار میں قید کیا ہوا تھا۔ اس وقت دونوں ایک دوسرے کی آنکھیں میں دیکھتے کوںٔی راز تلاش کرنے کی کوشش کررہے تھی کہ اچانک ہی مہر کے اندر انا نے زور سے انگڑائی لی اپنے ساتھ اپنے ماں باپ بہن کے ساتھ کی گںٔی ہر زیادتی پوری یادوں سمیت اسکے ذہن میں تازہ ہوگیا ۔خود کا استعمال کیے جانا خود کا رسوا کیے جانا یہ سب یاد آتے ہی مہر نے پورے زور سے فارس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے دھکا دینے کے انداز میں دور کیا ۔ فارس تو اسکے سحر میں جکڑا اس افتاد کے لیے بلکل تیار نہیں تھا اور سیدھا لڑکھڑا کر پیچھے کی طرف ہوا ۔ پہلے تو اسے سمجھ نہ آیا کہ ہوا کیا ہے لیکن سمجھ آنے کے بعد جو اگلا احساس تھا وہ غصے اور
توھین کا تھا ۔ فارس اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا جبکہ مہر اس سے زیادہ پیشانی پر شکنیں لیے اپنی چھوٹی سی ناک پھلا کر غصے میں اسے گھور رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
یو۔۔۔۔۔۔( اس سے پہلے فارس کچھ بولتا دورازے پر ہونے والی دستک نے دونوں کی توجہ اپنی طرف کھینچی. مہر اسے غصے سے گھورتی دروازے کی طرف بڑھ گںٔی جبکہ فارس بھی اس پر ایک قہر آلود نظر ڈالتا اپنی فاںٔل لینے چلا گیا جو کہ ساںٔڈ ٹیبل پر تھی۔ ملازمہ کے پیغام پر دونوں نیچے چلے گںٔے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتے کے بعد سب اپنی اپنی مصروفیات میں گم ہوگںٔے ۔ فارس کو اماں جی نے کچھ بات کرنے کے لیے اپنے پاس ہی بٹھا لیا .۔۔۔۔۔۔
ہاں اماں جی کہیے کیا حکم ہے میرے لیے ( فارس انکا ہاتھ تھامتے ہوۓ بولا)
مجھے تجھ سے اتنی لاپرواہی کی امید نہیں تھی فارس ( اماں جی روٹھے انداز میں بولیں)..
اب میں نے کیا کردیا اماں جی ؟( فارس فوراً ہی پریشان ہوتا ہوا بولا)
تجھے مہر کی زرا پروا نہیں ہے اب وہ تیری ذمہ داری ہے ۔ اس بچی کے پاس کپڑے نہیں ہیں میں نے دانیہ سے کہلوا کر چار جوڑے اور دو گرم چادریں اسے دی تھیں لیکن انسان کی ضروریات بھی ہوتی ہیں اب وہ تجھ سے مانگے گی تو نہیں ۔۔۔۔۔آج شام کو ہسپٹل سے واپسی پر اسے شوپنگ پر لے کر جاؤگے اور جو کتابیں وہ چاہتی ہے وہ بھی دلا دے ( اماں جی بات پر فارس کو سہی معنوں میں شرمندگی ہوںٔی تھی وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھیں وہ مانگے گی کب فارس اور اسکے درمیان کونسے
ایسے اچھے اور خوشگوار تعلقات تھے جو وہ فرماںٔشیں کرتی پھرتی یہ خیال اسے خود آنا چاہیے تھا)
آپ فکر نہیں کریں اماں جی میں آج ہسپٹل سے واپس آکر اسے لے جاؤنگا ( فارس مسکرا کر بولا)
جیتا رہے خوش رہ ( اماں جی اسکی پیشانی چوم کر بولیں)
فارس جیسے ہی ہسپٹل کے لیے اٹھا تو سامنے دانیہ موباںٔل پر مصروف نظر آںٔی فارس اس سے شکریہ کی غرض سے اسکے پاس چلا گیا جو بھی اسنے مہر کے لیے کیا تھا لیکن یہ منظر کچن میں کھڑی مہر نے دیکھ لیا تھا فارس کا یوں مسکرا کر دانیہ سے بات کرنا اسے ایک آنکھ نہ بھایا تھا لیکن پھر خود ہی پر لعنت بھیجی جو سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کے بعد بھی انکی پروا کر رہی تھی ۔رات میں فارس کی پیش قدمی سے اسکے پتھر دل پر زرا سی دراڑ پڑی تھی جو اب بلکل فضول لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔
ویسے بھی فارس کے ساتھ میرا یہ زبردستی کا تعلق عارضی ہے ( مہر اپنی ہی سوچ میں تھی کہ اماں جی کی آواز پر چونک کر انکے پاس فوراً گںٔی )....
جی اماں جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جا بیٹا فارس کو گیٹ تک چھوڑ کر آ ( اماں جی کے اس انوکھے حکم پر مہر نے حیران ہو کر انھیں پھر سامنے کھڑے فارس کو دیکھا جو اب اپنی مسکراہٹ روکے موباںٔل پر مصروف تھا دانیہ اپنے روم میں جاچکی تھی.....
لیکن اما۔۔۔۔۔
اماں جی مجھے بہت لیٹ ہورہا ہے میں نکل رہا ہوں ( فارس اسکی بات درمیان میں ہی کاٹ کر بولا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مہر اب نخرے ہی کرے گی اور اماں جی کو بھی اپنی معصوم صورت سے راضی کرلے گی)
جا نہ بچے ( اماں جی کے دوبارہ بولنے پر اسے ناچار فارس کے پیچھے پیچھے ہی جانا پڑا)
فارس باہر آکر گاڑی میں بیٹھنے ہی لگا تھا کہ کہ اچانک اماں جی کی بات یاد آنے پر اس پری پیکر سے بولا جو نظریں جھکاۓ گیٹ پر کھڑی تھی ....
مہر ۔۔۔۔
ج۔۔۔جی۔۔۔۔۔( فارس کے پکارنے پر اسنے چونک اسے دیکھا)
رات میں ہسپٹل سے واپس آؤں تو تیار رہنا اماں جی نے بولا ہے کہ تمھیں شوپنگ کروادوں(یہ بولتے ہی اسنے اپنے کالے گلاسز آنکھوں پر لگا لیے )
لیکن مجھے کسی چیز کی بھی ضرورت نہیں ہے آپ پلیز منع کردیں ( مہر بھی جھٹ سے بولی)
اماں جی کا حکم ہے چاہو تو خود ہی منع کردو ( فارس جو اسکی بات پر رک گیا تھا جیسے ہی دوبارہ بیٹھنے لگا تو مہر کی آواز نے پھر وہیں روک لیا)
فی امان اللّٰہ ( مہر کا ایک سادہ سا جملہ جو خود میں ہی بہت خوبصورت معنی رکھتا تھا۔یہ سنتے ہی فارس کے گھنی مونچھوں تلے عنابی لبوں پر ایک غیر محسوس سی مسکراہٹ آگئی جسے وہ بر وقت چھپا گیا )
اللّٰہ حافظ ( چہرے پر چھاںٔی سنجیدگی کو قاںٔم رکھتے ہوۓ گاڑی میں بیٹھا اور فوراً آگے بڑھا دی ۔ اس بار مہر کی نظروں نے اس کا تب تک پیچھا کیا جب تک گاڑی نظروں سے اوجھل نہ ہوگںٔی )
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️
دوپہر کے کھانے کے بعد مہر اماں جی کے کمرے میں ہی انکے ساتھ آگںٔی تھی ۔۔۔۔۔
مہر بچے ذرا میری دواںٔیوں میں سے سر درد کی گولی تو دینا یہ میگرین کا درد جان نہیں چھوڑتا ( اماں جی کے کہنے پر مہر ساری دواںٔیاں انکے پاس لے آںٔی تاکہ وہ مطلوبہ دوا ڈھونڈ سکیں ).
یہ تو ختم ہوگںٔی ہے ایسا کر کسی ملازمہ س کہہ دے کے یہ والی دوا فارس کے کمرے سے لے آۓ اسکے پاس بھی ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔( اماں جی اسکے ہاتھ میں دوا کی خالی شیشی دے کر بولیں)
رکںیے اماں جی میں ابھی لے آتی ہوں ( مہر بول کر اوپر کی طرف بڑھ گںٔی )
کمرے میں وہ جیسے ہی آںٔی تو اسکی توجہ اپنے بجتے ہوۓ موبائل کی طرف گںٔی جو پتا نہیں کب سے بج رہا تھا ۔ اسکرین پر چمکتے انجان نمبر کو دیکھ کر مہر نے کال اٹھا لی
ہیلو ( مہر کے پکارنے پر آگے خاموشی ہی رہی)
ہیلو۔۔۔۔( دوبارہ پکارنے پر کوںٔی جواب نہ آیا اس طرح دو تین بار بولنے پر جب کوںٔی جواب موصول نہ ہوا تو مہر نے فون کاٹ دیا)
پتا نہیں کون تھا ( خود سے بڑبڑاتی وہ اماں جی کی مطلوبہ دوا ڈھونڈنے میں لگ گںٔی جو فارس کے طرف کی ساںٔڈ ٹیبل کے دراز میں فرسٹ ایڈ بکس میں تھی ۔مہر نے جیسے ہی بکس نکالا تو پیچھے سے دو اور دواںٔوں کی شیشی سامنے آ گںٔی ۔ اسنے دونوں کو نکال کر دیکھا تو وہ ڈیپریشن پلز اور نیند کی دواںٔیں تھیں ۔ نیند کی دوا تو وہ پہچان گںٔی تھی کیونکہ یہ واجد صاحب بھی کبھی کبھی لیتے تھے لیکن ڈیریشن پلز پر اگر" اینٹی ڈپریسو" نا لکھا ہوتا تو وہ کبھی نہ پہچانتی ۔فارس جیسے ڈاکٹر کے دراز میں ڈپریشن پلز دیکھ کر اسے کافی حیرت ہوںٔی .
کیا فارس کو ڈیریشن ہے لیکن کیوں؟( خود سے سوال کرتی اسنے سب چیزوں کو انکی جگہ پر رکھا اور اماں جی کی مطلوبہ دوا لے کر نیچے کی طرف بڑھ گںٔی ) ۔۔۔۔۔
🔥🔥
رات آٹھ بجے ٹھیک فارس گھر پر تھا ۔۔۔۔
تجھے جلدی آنا تھا نا فارس دیکھ دیر کردی رات ہوگںٔی ہے ( اماں جی اسکے لیٹ آنے پر بولیں)
کیا کروں اماں جی اپنا ہسپٹل بنانا اتنا آسان تو نہیں ہے نا ابھی بس بڑی مشکلوں سے وقت نکال کر آیا ہوں کہاں ہے وہ تیار نہیں ہوںٔی کیا ؟ ( اپنی مجبوری بتاتے ساتھ ہی مہر کا بھی پوچھا)
اللّٰہ میرے بچے کو کامیابیوں سے ہم کنار کرے ۔۔۔۔۔وہ میرے ہی پلو سے لگی بیٹھی تھی جانے کا بولا تو من من کرنے لگی لیکن ڈانٹ کے بھیجا ہے تیار ہورہی ہوگی ( اماں جی اسے دعا دیتی ہوںٔیں بولیں)
کہاں جانے کہ تیاری ہو رہی ہے؟( دانیہ جو کب سے چپ بیٹھی تھی اب کے بول پڑی)
مہر کو شاپنگ پر لے جارہا ہوں ( فارس موباںٔل نکالتا اس میں مصروف ہوکر بولا)
ش۔۔۔شوپنگ لیکن کیوں ۔۔۔؟(دانیہ بوکھلاہٹ میں غلط ہی بول گںٔی)
یہ کیسا سوال ہی دانیہ انسان شوپنگ کیوں کرتا ہے؟ ( فارس کو اسکا بے تکا سا سوال سمجھ نا آیا)
آںٔی مین کہ تم تھکے ہوۓ آۓ ہو رہنے دو میں کل لے چلوں گی اسے ( دانیہ کو انکا باہر جانا زرا قبول نا تھا)
نہیں بیٹے اگر ساتھ نہیں جاںٔیں گے تو غلط فہمیاں کیسے ختم ہونگی ان کے درمیان رہنے دے تو انکو جانے دے ( فارس کی جگہ اماں جی بولیں)
جی ( دانیہ ضبط کرتی ہوںٔی مسکراںٔی)
اسی وقت سامنے سیڑیوں سے مہر آتی ہوںٔی نظر آںٔی بلیک کلر کی شارٹ کرتی جس پر ریڈ سا پرنٹ ہوا تھا ساتھ ہی بلیک کلر کی اپنی شال اوڑھے ہوئے وہ فارس شاہنواز کے دل کو دھڑکا گںٔی تھی ......
ماشاءاللّٰہ میری بچی کتنی پیاری لگ رہی ہے ( اماں جی اسکے پاس آنے پر اسکی پیشانی چوم کر بولیں )
دانیہ تو فارس کو دیکھ رہی تھی جو ٹکٹکی باندھے مہر کی صورت تکے جارہا تھا .....
کرلو مزے فارس شاہنواز ایسے منہ کی دونگی دونوں کو کہ سنمبھل بھی نہیں پاؤگے بس ایک موقع مل جاۓمجھے ( دانیہ نفرت سے سوچتی ادھر سے اٹھ گںٔی تھی )
جا فارس کپڑے بدل کر آ پانچ منٹ میں جب تک یہ بیٹھی ہے یہیں ( اماں جی کی بات پر فارس نظروں کا زاویہ بدلتا اوپر کی جانب چل دیا اور ٹھیک دس منٹ بعد نیچے آگیا بلیک پینٹ پر فل سلیوز والی سرمںٔی رنگ کی ہلکی گرم سی شرٹ پہنے وہ بھرپور مردانا وجاہت کا شاہکار لگ رہا تھا بال اسکے ماتھے پر پڑے کچھ بکھرے بکھرے بہت سوٹ کر رہے تھے ۔ اسکے آتے ہی مہر اسکے پیچھے ہی باہر کی طرف بڑھ گںٔی .....
وہ فارس کے پیچھے پیچھے ہی نظریں جھکاۓ آگے بڑھ رہی تھی کہ ایکدم گرل سے بندھے نسلی کتوں نے اسے دیکھ کر بھونکنا شروع کردیا ۔ کتوں کے بھونکنے کی دیر تھی کہ مہر کا ازلی خوف عود آیا اور سیدھا دوڑتی ہوںٔی فارس کے بازوں سے چمٹ گںٔی ۔ اس اچانک افتاد پر پہلے تو فارس حیران ہوا لیکن جیسے ہی معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا تو ایک گہری مسکراہٹ اسکے عنابی لبوں پر آگںٔی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اوو ماںٔے گاڈ مہر۔۔۔۔ آج بھی ڈرتی ہو ان سے ؟( فارس اسے بازو سے پکڑ کر سامنے کرتا ہوا بولا جو خوف سے آنکھیں میچے اسکے سامنے کھڑی تھی)
ب۔۔۔۔بہت یہ ہر بار مجھے ہی دیکھ کے بھونکتے ہیں ( مہر ہنوز آنکھیں میچے ہوۓ بولی)
پھر تو مجھے انکا شکریہ کرنا چاہیے نا ( فارس اسکے کان کے قریب سرگوشی کے انداز میں بولا)
مطلب؟ ( مہر نے آنکھیں کھول کر فوراً پوچھا لیکن فارس کی بولتی پیام دیتی آنکھوں میں دیکھ کر ساری بات سمجھ آگںٔی ۔ شدت سے ماضی کی وہ حسین یاد فلش بیک کی طرح دونوں کے ذہنوں میں تازہ ہوگںٔی لیکن مہر کو وہ یاد کسی اژدھا سے کم نہ لگی جس نے اسکے سب اپنے نگل لیے تھے اسے نفرت تھی اپنے بھیانک ماضی سے ۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ مقابل کی حالت اس سے بلکل مختلف تھی اسے وہ یاد حسین خواب لگتی تھی ۔ ایسا لگا تھا کہ اب تک وہ چلچلاتی دھوپ میں سحرا میں بھٹکا ہوا تھا اور یہ یاد ٹھنڈی چھاؤں جیسی تھی۔ تین سال پہلے جس جگہ وہ دونوں اجنبی بن کے ملے تھی آج اسی جگہ پر ایک دوسرے کے محرم بنے کھڑے تھے ۔۔۔۔۔۔
دونوں اپنی اپنی مختلف کیفیات میں تھے کہ اچانک مہر اپنا بازو اسکی کمزور پکڑ سے چھوڑوا کر فوراً پیچھے ہوںٔی ۔۔۔۔۔۔
چلیں....( فارس جو کہ اپنی آنکھوں میں محبت کا ایک سمندر لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا مہر کے اس اچانک حملے پر لب بھینچے چہرے پر ہاتھ پھیرتا غصہ ضبط کرنے لگا ۔ اسکے اس طرح ضبط کرنے سے مہر اندر ہی اندر سے ڈر گںٔی تھی پر پھر بھی ڈٹ کے کھڑی رہی لیکن اسکی چادر پر مضبوط پکڑ اسکے ڈر کا منہ بولتا ثبوت تھی ۔۔۔۔۔۔
چلو ۔۔۔۔۔( آخر ضبط کے کڑے مراحل سے کامیابی سے گزرنے کے بعد چہرے پر غیر معمولی سنجیدگی لیے آگے بڑھ گیا تو مہر نے پہلے ان خونخوار کتوں کی جانب  غصے سے دیکھا جو اب بھونکنا چھوڑ کر ایسے بیٹھے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو  اور پھر شکر کا کلمہ پڑھتی  فارس کے ساتھ ہی ہولی ۔ دونوں کے گاڑی میں بیٹھتے ہی فارس نے گاڑی مین گیٹ سے نکال کر فوراً آگے بڑھا دی۔........
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩










Assalamualaikum reader's.....hope u enjoy the surprise episode....mainy socha k ab jldi jldi hi upload kro ta k apko zayada intezar na krna padry lkn us k liye apko vote or comment kr k btana hoga k epi kesi lgi ......
Thanks for your support and love....
From;
your innocent writer Mehrmah shah....😁😉

TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅Donde viven las historias. Descúbrelo ahora