part 21

615 43 4
                                    

صبح فارس کی آنکھ سات بجے کے قریب کھلی تو اسکی نظر مہر کی جگہ پر گںٔی جہاں اسکا سر تکیے سے ڈھلک کر نیچے ہوا تھا ۔ فارس نے اسکے اس طرح سونے پر مسکراتے ہوۓ اٹھ کر اسکا سر اوپر کرنے کے لیے جیسے ہی ہاتھ اسکے سر کے نیچے ڈالا تو مہر کا بےجان سا وجود اسکی طرف ہوگیا ۔ اسکے منہ سے نکلتے ہوۓ جھاگ نے فارس کی آنکھوں کے آگے دنیا گھما دی ۔۔۔۔۔۔۔
مہر ۔۔۔۔مہر آنکھیں کھولو مہر ( فارس ہذیاتی کیفیت میں چیختے ہوئے اسکو پکار رہا تھا لیکن وہ آگے سے بے سد پڑی ہوںٔی تھی)
مہر۔۔۔۔پاگل لڑکی یہ کیا کردیا تم نے مہر آنکھیں کھولو پلیز ( اس جیسے مضبوط عصاب کے ڈاکٹر کے بھی ہاتھ پیر پھل گںٔے تھے )
اسنے بنا کچھ سوچے سمجھے گاڑی کی چابیاں لیں اور مہر کے بے سد وجود کو اپنے بازوؤں میں اٹھا کر باہر کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ملازمہ جو کہ صبح سویرے ہی کام کے لیے اٹھ جاتی تھی مہر کو فارس کے بازوؤں میں جھولتا دیکھ کر فوراً گھبرا گںٔی اور آمنہ بیگم کے کمرے کی طرف بڑھ گںٔی۔۔۔۔۔
فارس نے اسے احتیاط سے گاڑی میں ڈالا اور ہسپٹل کی طرف گاڑی بڑھا دی ریش ڈراںٔیونگ کرتا ہوا وہ اسی ہسپٹل پہنچا جہاں وہ ڈاکٹر تھا فوراً نرس اور دوسرے ڈاکٹرس کو آواز دے کر اسٹریچر منگوا کر مہر کو اس پر ڈالا اور ایمرجنسی میں آپریشن تھریٹر کی طرف لے گںٔے ۔ خود وہ اسی وقت ڈریسنگ روم میں بھاگا اور کپڑے تبدیل کر کے آپریشن تھریٹر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔
ملازمہ کی خبر دینے پر آمنہ بیگم کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی مہر کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا جو کہ ملازمہ دیکھ چکی تھی ۔ آمنہ بیگم نے فوراً شاہنواز صاحب کو اٹھایا اور ساری سچویشن بتاںٔی وہ بھی اسی وقت اٹھے اور فارس کے نمبر پر کال کی جہاں نمبر اوف جارہا تھا ۔ پھر کچھ سوچ کر فارس کے ہسپٹل کال کر کے پوچھا تو پتا چلا کہ فارس ایک لڑکی کو ایمرجنسی میں لے کر آیا ہے جسکی حالت کافی نازک لگ رہی تھی ۔ انھوں نے فوراً آمنہ بیگم کو ساتھ لیا اور گھر میں سب کو بتا کر ہسپٹل کے لیے روانہ ہوگںٔے۔۔۔۔۔۔۔
اماں جی کا تو یہ سن کر ہی برا حال تھا رمشا جو رات میں لیٹ ہونے کی وجہ سے یہیں رک گںٔی تھی وہ بہت مشکلوں سے انھیں سنبھال رہی تھی لیکن وہ سنبھل ہی نہیں رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔
دانیہ تو یہ سب سن کر ہی شاک کی کیفیت میں تھی وہ فارس کو حاصل کرنا چاہتی تھی کسی بھی طرح لیکن کسی کی جان لینا وہ یہ نہیں سوچ سکتی تھی۔۔۔۔۔۔۔
عباس بھی ساتھ بیٹھا اماں جی کو سنبھال رہا تھا ۔ کل جو گھر خوشیوں رونقوں کا گہوارہ لگ رہا تھا آج ادھر آہوں سسکیوں کی آوازیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
ہسپٹل پہنچ کر شاہنواز صاحب پوچھ کر فوراً اسی آپریشن تھریٹر کی طرف گںٔے جہاں وہ لڑکی دنیا وجہاں سے بے خبر زندگی اور موت کی کشمکش میں تھی ۔ فارس کا یہاں ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے کوںٔی کیس نہیں بنا ورنہ یہ پولیس کیس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریباً چار گھنٹے بعد فارس آپریشن تھریٹر سے نکلتا ہوا نظر آیا ساتھ اور بھی ڈاکٹرس تھے جو اسے تسلیاں دے رہے تھے ۔ شاہنواز صاحب نے اپنے خوبصورت جوان بیٹے کو یوں ہارا ہوا دیکھا تو  فوراً اسکے پاس گںٔے ۔کسی ہمدرد کو سامنے دیکھ فارس شاہنواز صاحب کے گلے سے لگ گیا۔۔۔۔۔۔
ینگ مین ہمت کرو ڈاکٹر ہو تم اس طرح ہار جاؤ گے تو اسے کون سنبھالے گا ( شاہنواز صاحب اسکی کمر تھپک کر کہہ رہے تھے لیکن وہ مضبوط ڈاکٹر بچوں کی طرح انکے کندھوں سے لگا رو رہا تھا )
اپنے عزیز وجان بیٹے کی یہ حالت دیکھ آمنہ بیگم کے اپنے آنسو نہیں تھم رہے تھے وہ سب اسے مل کر تسلیاں دے رہے تھے لیکن وہ مسلسل نفی میں سر ہلاتا رویا جارہا تھا ۔ ایک اسکے دوست ڈاکٹر نے پانی کا گلاس لے کر آیا تو شاہنواز صاحب نے اسے خود سے الگ کرکے گلاس لبوں سے لگایا جو کہ اسنے پورا خالی کردیا۔ رونے میں ٹھہراؤ آیا تو آمنہ بیگم نے آگے بڑھ کر اسکا چہرا اپنے پلو سے صاف کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسی ہے وہ میری جان؟( اسکے سنبھلنے پر آمنہ بیگم نے محبت سے پوچھا )
م۔۔موم وہ میری وجہ سے اندر ہے میں ہوں اسکی حالت کا زمہ دار میں نے اسے اتنے دکھ دںٔیے کہ وہ اپنی جان لینے کے در پر آگںٔی ( فارس بچوں کی طرح ان سے بولا)
شاہنواز صاحب نے دوسرے ڈاکٹرس سے اسکی حالت پوچھی تو پتا لگا کہ اسنے سلیپنگ پلز بہت زیادہ مقدار میں لے لیں تھیں جسکی وجہ سے اسکا میدہ واش کرنا پڑا ہے اور اگلے چوبیس گھنٹے اسکے کے لیے بہت کرٹیکل ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں میری جان آپ خود کو اس طرح الزام مت دو انشاء اللّٰہ وہ میرے فارس کے پاس واپس آجاۓ گی ( آمنہ بیگم اسکے پاس بیٹھتی ہوںٔی بولیں)
نہیں موم وہ بس ایک بار ٹھیک ہوجاۓ پھر جو وہ کہے گی میں وہی کروں گا پکا موم میں اسے اب کوںٔی دکھ نہیں دونگا( وہ انکا ہاتھ تھامتا ہوا بولا )
اس وقت وہ کہیں سے بھی ماہر اسپیشلسٹ ڈاکٹر نہیں لگ رہا تھا بلکہ ایک سہما ہوا بچہ لگ رہا تھا جسکی کوںٔی چیز اس سے چھینی جارہی تھی اور وہ مسلسل رو کر اسے مانگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
اماں جی کے نا سنبھلنے پر مجبوراً عباس کو انھیں ہسپٹل لانا پڑا ساتھ رمشا بھی تھی لیکن جب انھوں نے اپنے بھاںٔی کی حالت دیکھی جو بےبسی کی تصویر بنا بیٹھا تو انکا دل پھٹنے کے قریب ہوگیا ۔ رمشا اسکی دیوانگی جانتی تھی اسی لیے فوراً اسکے پاس بیٹھ گںٔی۔۔۔۔۔
بھاںٔی۔۔۔( رمشا نے اسے پکارا جو ضبط سے لال آنکھیں لیے فرش کو گھور رہا تھا)
بھاںٔی آگر آپ اس طرح ہار جاںٔیں گے تو اسے کون سنبھالے گا میں جانتی ہوں کہ آپ اسے دیوانگی کی حد تک چاہتے ہیں لیکن کوںٔی اپنی دیوانگی یوں چھوڑ کر نہیں آتا ( رمشا کی بات پر فارس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو اسنے مسکرا کر سر ہلا دیا )
جاںٔیں بھاںٔی اسے آپ کی ضرورت ہے اپکی میر اپکو اب چھوڑ کر نہیں جاسکتی جاںٔیں اسے بچا لیں ۔۔۔۔۔( اسکے اس طرح حوصلہ دینے پر وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اور اندر وارڈ کی جانب بڑھ گیا )
اماں جی پریر روم کی طرف جا چکی تھیں۔ شاہنواز صاحب نے واجد صاحب کے گھر کال کرکے سب بتا دیا تھا ۔ کچھ دیر بعد سارہ بیگم اور واجد صاحب ہانپتے کانپتے ہوئے ہسپٹل پہنچے ۔۔۔۔
کہاں ہے میری بچی ؟( سارہ بیگم روتے ہوئے آمنہ بیگم کے پاس آںٔیں تو انھوں نے انھیں پاس بٹھا کر دلاسہ دیا تو وہ بھی اپنی بیٹی کی زندگی خدا سے مانگنے کے لیے پریر روم میں چلی گںٔیں۔ واجد صاحب مسلسل سر جھکائے کھڑے تھے۔۔۔۔۔
سب میری وجہ سے ہوا ہے میری بچی آںٔی تھی مجھ سے معافی مانگنے لیکن میں نے اسے معاف نہیں کیا۔۔۔میں کیسے اتنا برا ہوسکتا ہوں ( یہ بولتے ہوئے انکی آنکھوں سے اشک نکل کر بہہ گںٔے تو شاہنواز صاحب نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی )
وقت اپنی رفتار سے سرکتا جا رہا تھا ۔ لیکن کوںٔی اور بھی تھا جسکی سانسیں وقت کے ساتھ بوجھل ہوتی جارہیں تھیں ۔ فارس بہت مشکلوں سے اسکے پاس کھڑا ٹریٹمنٹ دے رہا تھا ۔سفید بادر میں اسکے پڑے ہوئے وجود اور سامنے مشین پر اسکی چلتی ہوںٔی مدھم سانسیں فارس کی جان نکال رہیں تھیں اگلے چوبیس گھنٹوں میں کچھ بھی ہوسکتا تھا یا تو یہ لڑکی اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیتی یا اسکے پاس واپس آجاتی ۔ وہ ڈاکٹر جسکا ہاتھ بڑے بڑے آپریشن میں بھی نہیں کانپتا تھا آج اپنی کل متاعِ جاں کو ایک انجیکشن لگاتے ہوئے بھی ہاتھوں میں کپکپاہٹ تھی ۔ لیکن وہ لڑکی آنکھیں موندیں سب سے ناراض پڑی تھی وہ حسین آنکھیں جس نے فارس کی دل کی دنیا ہلا دی تھی آج کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہیں تھیں ۔ کل تک سب کتنے خوش تھے لیکن آج باہر سارے اسکی زندگی کے لیے دعا گو تھے ۔ اسکے عزیز وجان بابا جو اسکی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں تھے آج دعاؤں میں اسکی زندگی کی بھیک مانگ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
دانیہ نے جب یہ بات کال کرکے تیمور کو بتاںٔی تو کچھ پل کے لیے وہ بھی خاموش ہوگیا لیکن بعد میں بات کرنے کا کہہ کر کال کٹ کردی۔ شروع میں دانیہ کو بھی افسوس ہوا تھا لیکن جلد ہی شیطان غالب آگیا تھا کہ آگر یہ لڑکی اس طرح رستے سے ہٹتی ہے تو یہی ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔
رمشا نے سب کو گھر بھیج دیا تھا صرف وہ فارس اور سارہ بیگم وہاں رکی تھیں جو کہ مسلسل سجدے میں اسکے لیے رب کے آگے گڑگڑا رہیں تھیں۔ آخر کار اگلی صبح کے آٹھ بجے مہر کے بے جان وجود میں ہلکی سی  جنبش ہوںٔی تو فارس کو بھی اپنے وجود میں نںٔی زندگی محسوس ہوںٔی ورنہ تو یہ پوری رات اسنے سولی پر لٹک کے گزاری تھی ۔ وہ باہر آیا اور سب کو یہ خوشخبری دی کہ وہ اب خطرے سے باہر ہے تو سارہ بیگم اسکا ماتھا چومتی رب کا شکر کرنے لگیں ۔ رمشا نے بھی فوراً یہ خوشخبری گھر پہنچا دی ۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں سب وہاں ہسپٹل میں موجود تھے مہر کو پرائیویٹ وارڈ میں شفٹ کردیا گیا تھا ۔ جہاں سب باری باری اس سے ملنے جارہے تھے سب سے پہلے واجد صاحب اور سارہ بیگم اندر گںٔے ۔۔۔۔۔
مہر بچے ( سارہ بیگم نے اسے سرہانے بیٹھ کر محبت سے پکارا تو اسنے اپنی آنکھیں آہستہ آہستہ کھولیں لیکن سامنے اپنے ماں باپ کو دیکھ کر آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے۔۔۔۔۔
نہ میرے بچے ہم آگںٔے ہیں یہاں تیرے پاس اب نہیں رونا ہے تجھے۔ ( آمنہ بیگم نے اسکی پیشانی چوم کر کہا )
ب۔۔۔۔بابا مجھے معاف ......
نہیں میری جان تو مجھے معاف کردے ہم اپنی انا اور ضد میں آکر سب گنوا رہے تھے وہ سب تو میرے تھے ہی نہیں جس کے لیے میں نے تجھے معاف نہ کیا ( واجد صاحب اسکے آنسو پونچھ کر بولے تو وہ ان کے ہاتھ چومتی رونے لگی)
اسکے بعد سب نے آکر اسکی عیادت کی لیکن نہ آیا تو وہ شخص جو مسلسل اسی کے پاس تھا لیکن صرف تب جب وہ ہوش میں نہیں تھی۔لیکن جب سے اسے ہوش آیا تھا وہ وہاں سے ہی غاںٔب ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
مہر کو دو دن بعد۔ ڈسچارج کردیا گیا تھا تو واجد صاحب اسے اپنے ساتھ گھر لے آئے تھے ۔ فارس نے ان سے پہلے ہی مل کر معافی مانگ لی تھی۔جسکو انھوں نے مسکرا کر قبول کیا ۔۔۔۔۔۔
اپنے گھر آکر مہر بہت خوش تھی کسی نے اسے اسکے اس انتہائی قدم پر بات نہیں کی اور نہ کچھ پوچھا اور اسنے بھی اس موضوع کو نہ چھیڑا ۔۔۔۔۔۔۔
♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
اس وقت رات کا دوسرا پہر چل رپا تھا اور وہ مسلسل سیگریٹ پر سیگریٹ پھونک رہا تھا ۔ مہر کو گںٔے آج پندرہ دن ہوگںٔے تھے لیکن فارس نے مڑ کر اسکا نہیں پوچھا تھا ۔ وہ اب اسے کوںٔی بھی تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا نہ ہی اسکے سامنے آکر اسکی اذیت کا باعث بننا چاہتا تھا۔ لیکن ان چند دنوں میں اسکی دیوانگی مزید بڑھ گںٔی تھی۔اسکے ہوش میں آنے کے بعد جب وہ گھر آیا تھا تو اپنے شک کو یقین میں بدلنے کے لیے اپنی پلز چیک کیں تو اسے یقین ہوگیا کیونکہ مہر نے وہیں سے گولیاں لیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سرد سانس ہوا کے سپرد کرتا ہوا وہ اٹھ کر ریلنگ کے اوپر ہاتھ رکھ کر چاند کو تکنے لگا۔۔۔۔۔ آج اماں جی نے اسے کل مہر کو لانے کے لیے کہا تھا لیکن اسنے مصروفیت کا بہانہ بنا کر انھیں ٹال دیا تھا لیکن یہ دل اب صرف اسکی دید کا طلبگار ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
کیوں مہر کیوں کیا ایسا تم نے کیا میرا وجود اتنا ناپسند تھا تمھیں کہ اپنی جان لینے کے در پہ آگںٔی۔۔۔۔( فلک پر چمکتے چاند کو دیکھ کر افسوس سے بولا)
🔥🔥
یہ باہر شور کیسا ہے رباب ؟( مہر جو ابھی یونی سے آںٔی تھی شور کی آواز سن کر رباب سے بولی)
اسنے بہت ضد کے بعد دو دن پہلے ہی یونی جانا شروع کیا تھا
تمھارے سسرال والے آںٔیں ہیں تمھیں لینے ( رباب کے منہ سے سسرال لفظ سن کر ہی اسے چپ لگ گںٔی تھی)
اپنے ماں باپ سے ملنے کی خوشی میں وہ اس شخص کو بھولی نہیں تھی جو آخری رات اسکے آگے کھڑا معافی مانگ رہا تھا ۔ وہ اس رات اسکی سننا چاہتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اس سے اتنی محبت اور استحاق  سے وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی خود کی نظروں کے  آگے لیکن کھاںٔی گںٔی دواؤں نے اتنی  مہلت نہ دی ۔بے اختیار ہی اسکی نظر اپنے ہاتھ پر گںٔی جہاں ڈاںٔمنڈ کی نازک سی انگوٹھی اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
میں نہیں جاؤں گی واپس ( لیکن اچانک دانیہ اور اسکی محبت کو یاد کرتے ہوئے فوراً بولی)
لیکن کیوں ( رباب بھی حیرت سے بولی)
بس۔۔۔۔( اسے سمجھ نہ آںٔی کہ کیا بولے اسی وقت سارہ بیگم کمرے میں آںٔیں تو ساتھ میں اماں جی اور آمنہ بیگم تھیں انھیں دیکھ کر مہر فوراً اٹھ کر سلام کیا جسکا ان دونوں نے محبت سے جواب دے کر اسکی پیشانی چومی ۔۔۔۔۔
چلو میری جان ہم تمھیں لینے آںٔیں ہیں ( آمنہ بیگم اسکو ساتھ بیٹھاتی ہوںٔی بولیں)
لیکن۔۔۔۔۔۔
یہ بلکل ٹھیک کہہ رہیں ہیں مہر اب تمھیں اپنے سسرال جانا چاہیے ( اسی وقت واجد صاحب بھی کمرے میں آۓ)
بابا میں آپ سے پھر دور نہیں جانا چاہتی ( مہر فوراً انکے ساتھ لگ کر بولی)
نہیں میری جان بیٹی کا صحیح گھر اپنے شوہر کا گھر ہی ہوتا ہے اور جب تمہارا دل کرے آجانا ( وہ اسے محبت سے پچکارتے ہوئے بولے)
ہاں مہر بیٹی تمھارے بعد گھر کاٹنے کو دوڑتا ہے بس اب چلو ہمارے ساتھ ( اماں جی کے کہنے اور سب کے سمجھانے کے بعد مہر ناچار تیار ہوگںٔی کیونکہ جانتی تھی کہ آج بھلے چلی جائے لوٹ کر تو یہیں آنا ہے  )
خود نہیں آسکتے تھے لینے ( گاڑی میں بیٹھی بے اختیار ہی شکوہ دماغ میں آگیا )
خود کیوں آںٔیں گے وہ میرا حال تک نہیں پوچھنے آئے تھے ۔۔۔میں کونسا انکی محبت تھی ( پھر خود ہی اپنی سوچ کی نفی کرتے باہر کے منظر کو آتے جاتے دیکھنے لگی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر پہنچ کر اسکا سامنا دانیہ سے ہوا ۔ دانیہ اسے دیکھ کر بہت شاک ہوںٔی تھی کیونکہ وہ سمجھی تھی کہ اب اسکے گھر والے اسے واپس نہیں بھجیں گے لیکن یہاں تو سب الٹ ہوگیا تھا ۔ اسی غیر موجودگی میں دانیہ نے فارس کے قریب ہونے کی ہر ممکن  کوشش کی لیکن ہمیشہ ناکام ہوتی کیونکہ زیادہ تر وہ خیالوں میں ہی پایا جاتا تھا اور اسکے مخاطب  کرنے پر بس ہاں ہوں میں جواب دیتا تھا۔۔۔۔
سب سے ملنے کے بعد وہ کمرے میں آگںٔی تھی۔ اتنے دنوں کے بعد اس کمرے میں دوبارہ آنا اسے عجیب سا لگ رہا تھا یہاں کی ہر شے میں اس بے وفا شخص کا احساس تھا وہی احساس جس سے مہر بھاگتی تھی ۔ وہ ہمیشہ اسے سامنے دیکھ کر ہار سی جاتی تھی۔وہ آج بھی جب اسے جذبات لٹاتی نظروں سے دیکھتا تو نہر کا دل بے قابو سا ہوجاتا تھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے اسکی حالت عجیب ہورہی تھی جسے وہ سمجھنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔لیکن کہیں نہ کہیں دل آج بھی اسے کے لیے دھڑکتا تھا مگر دماغ دل پر غالب آجاتا تھا ۔ وضو کرکے اسنے عصر کی نماز ادا کی اور خدا سے اپنے برے فعل ( خودکشی) کی معافی مانگنے لگی ۔ جسکا احساس اسے بعد میں سارہ بیگم اور رمشا نے دلایا تھا۔۔۔۔۔۔۔
"انسان کو چاہے جیسے بھی حالات ہوں لیکن اسے کوںٔی حق نہیں کہ اپنے رب کی دی ہوںٔی زندگی کو خود سے چھین لے کیونکہ ہمارا رب ہمیں ہماری برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ......"
اسے اب تیمور کی بھی پروا نہیں تھی کیونکہ اسکے بابا اسے معاف کر چکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ خاموشی سے جاکر ٹیرس پر کھڑی ہوگئی۔ ایک بار خود کی زندگی پر غور کیا تو کچھ بھی نظر نہ آیا۔ سب کچھ بےمقصد سا لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں کھڑے اسے وقت کا پتا بھی نہ لگا اور مغرب ہوگںٔی ویسے بھی سردیوں کے دن بہت مختصر ہوتے ہیں ۔ مغرب کی نماز ادا کرکے وہ اماں جی کے پاس چلی گںٔی۔۔۔۔۔
انکے ساتھ باتوں میں وقت کا پتا بھی نا لگا اور تمام مرد حضرات گھر آگںٔے۔ عباس نے تو اسے دیکھتے ہی شرارتی سا ویلکم پیش کیا جسے مہر نے مسکرا کر وصول کیا ۔ رات کے کھانے پر بھی فارس موجود نہیں تھا۔ شاہنواز صاحب سے معلوم کرنے پر پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ انھیں چند دنوں میں اسکے نںٔے ہسپٹل کی افتتاح ہے جس کے لیے پارٹی بھی رکھی جائے گی۔ سب نے اسکی شاندارکامیابی پر خوش ہوکر دل سے اسکے لیے دعائیں کی۔ جبکہ مہر خاموشی سے پلیٹ پر جھکی رہی ۔
پتا ہے مہر میرا خواب ہے کہ میں بہت بڑا اسپیشلسٹ بنو اسکے بعد یہاں میرا ایک ہسپٹل ہو جہاں ڈاکٹر فارس شاہنواز غریبوں کا مفت علاج کرے گا اس کے ساتھ اسکی حسین سی بیوی بھی ہو جو کہ تم ہوگی ( تین سال پہلے والا اسکا کہا گیا جملا کانوں میں گونجا تو بے چینی نے آگھیرا)
چاۓ کے بعد سب اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گںٔے ۔ کمرے میں آکر مہر نے عشاء کی نماز کے بعد الماری کھول کر جیسے ہی اپنے لیے کمبل نکالا تو ایک تصویر باہر آکر اسکے پیروں میں گر گںٔی۔ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر جب مہر نے اس تصویر کو اٹھایا تو نظریں وہیں ساکت رہ گںٔیں۔ یہ وہی تصویر تھی جب وہ اور فارس پہلی بار ریسٹورنٹ میں ملے تھے ۔ اسنے تصویر پلٹا کر دیکھی تو اسکے پیچھے تاریخ کے ساتھ دن بھی اور ایک خوبصورت سی شاعری بھی تحریر تھا۔۔۔۔۔۔۔
تیری جستجو کے حصار سے
تیرے خواب تیرے خیال سے
میں وہ شخص ہوں جو کھڑا رہا
تیری چاہتوں سے ذرا پرے۔۔۔۔۔۔
کبھی دل کی بات کہی نہ تھی
جو کہی تو وہ بھی دبی دبی
میرے لفظ پورے تو تھے مگر
تیری سماعتوں سے ذرا پرے۔۔۔۔۔۔
تو چلا گیا میرے ہمسفر
ذرا دیکھ مڑ کے تو ایک نظر
میری کشتیاں ہیں جلی ہوئی
تیرے ساحلوں سے ذرا پرے۔۔۔۔۔۔
اس خوبصورت سی غزل کے نیچے چھوٹا سا "جانِ فارس "بھی لکھا ہوا تھا ۔ یہ سب دیکھ اور پڑھ کر مہر کے قدم ڈگمگا گئے۔۔۔۔۔۔
"اچھا ایک پک تو لے لو میرے ساتھ امریکہ میں تمہیں یاد کرونگا تو وہی دیکھ لیا کرونگا ۔۔"( فارس کا کہا گیا تین سال پہلے والا جملہ اسکے کانوں میں گونجا تو سہی معنوں میں اسکے کان ساںٔیں ساںٔیں کرنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔
"""دیکھو مھر جیسا تم نے دیکھا ویسا کچھ نہیں ہے تم ۔۔۔۔
بس فارس آنکھوں دیکھا جھوٹ نہیں ہوسکتا بہتر ہے مجھے مت روکیں..."""( اسے ماضی کی تمام باتیں یاد آنے لگیں)
""""ت۔۔۔۔۔تم بہت بری ہو مہر بہت سنگدل ۔۔۔۔۔مرنے والے کی بھی آخری بار سنی جاتی ہے لیکن تم نے میری ایک بھی نہیں سنی۔۔ ایک بھی نہیں"""""......( اور بس مہر نے وہیں ضبط سے آنکھیں بند کردیں تو آنکھوں کے سامنے اسکا خوبرو چہرہ آگیا۔ اسنے فوراً آنکھیں کھولیں اور وہ تصویر دوبارہ اسکی جگہ پر رکھ کر سونے کے لیے لیٹ گںٔی لیکن نیند اب آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔۔۔۔۔
"""تم صرف میری ہو فارس شاہنواز کی سمجھیں۔۔۔۔تمھارے پور پور پر فارس شاہنواز کا حق ہے۔۔
تمھاری طرف اٹھنے والی گندی نظر کو بھی میں نوچ کر نکال دونگا مہر فارس مجھ سے دور بھاگنا چھوڑ دو سب کی سب چالیں بے کار جاںٔیں گی تمھاری ۔۔کیونکہ میں تو تمھیں نہیں چھوڑنے والا ۔۔۔۔۔""""""
اگر اتنی محبت تھی تو وہ سب کیا تھا جو میں نے دیکھا ( خود سے بڑبڑاتی فوراً اٹھ کر بیٹھ گںٔی)
فارس بھاںٔی نے تیرا ٹریٹمنٹ کیا تھا مہر وہ رو رہے تھے تیرے لیے ( رمشا کی کہہ گںٔی بات اسے یاد آںٔی جسے وہ فراموش کرگںٔی تھی)
یا اللّٰہ۔۔۔۔کیا سچ ہے کیا جھوٹ ہے میں کیسے پتا لگاؤں دل صرف اسی شخص کی طرف داری کرتا ہے اور دماغ ماضی کو لاکر کھڑا کر دیتا ہے ۔۔۔۔۔( وہ بےبسی سے کہتی بیٹھی تھی )
کہ اسی وقت کمرے میں فارس داخل ہوا ۔ مہر کو سامنے دیکھ اسے خوشگوار حیرت ہوںٔی لیکن جیسے ہی ولیمے کی رات یاد آںٔی تو ضبط سے ہونٹ سختی سے بھینچ لیے اور وارڈروب کی جانب بڑھ گیا۔ مہر اسے یوں اچانک دیکھ کر دوپٹہ تلاشنے لگی جو تکیے کے کونے میں رکھا تھا ۔ آج اسے دیکھ پھر سے اسکی دھڑکنوں میں شور سا اٹھا تھا ۔ اسنے چور نظر سے اسکی پشت کو دیکھا جو اب کپڑے لیے واشروم میں گھس گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
12بج رہے ہیں پتا نہیں کھانا کھائیں گے یا نہیں ( خود سے سوال کرتی سوچنے لگی کیونکہ پوچھنے کی ہمت تو اس میں نہیں تھی)
بلاآخر وہ اٹھ ہی گںٔی اسکے کے لیے کھانا گرم کرتی ٹرے میں رکھ کر جب اوپر آںٔی تو وہ بالوں میں کنگھی پھیر رہا تھا ۔۔۔۔
س۔۔۔۔سنیے ( مہر نے لبوں پر زبان پھیر کر اسے پکارا لیکن جواب نہیں آیا)
کھانا کھالیں ( اسے جواب نہ دیتا دیکھ مہر خود بولتی ہوںٔی اپنی جگہ پر بیٹھنے ہی لگی تھی کہ فارس کہ غصے والی آواز نے اسکے قدم روک دںٔیے)
تمھیں کس نے کہا کہ مجھے کھانا چاہیے لے جاؤ اسے یہاں سے ۔۔۔۔۔۔۔
ل۔۔۔لیکن آپ نے۔۔۔۔۔۔
چپ رہو مہر واجد جتنا کہا جائے اتنا ہی کرو لے جاؤ اسے یہاں سے ( اسکی بات درمیان میں کاٹ کر اس قدر دھاڑ کے بولا کہ مہر کے تو اوسان ہی خطا ہوگئے اور بوکھلا کر فوراً ٹرے اٹھا کر باہر کی طرف بڑھ گںٔی لیکن جب اسکے منہ سے لیے ہوئے اپنے نام پر غور کیا تو انکھوں میں خود بہ خود ہی آنسو آگںٔے جنھیں بے دردی سے رگڑ گںٔی)
اسکے جانے کے بعد فارس نے دروازے کو اتنی بری طرح گھور کر دیکھا کہ جیسے سامنے مہر ہی کھڑی ہو اور ساںٔیڈ ٹیبل سے لاںٔٹر سے سیگریٹ جلا کر لبوں میں دبا لیا . مہر جب کمرے میں آںٔی تو ڈرتے ڈرتے اسے دیکھا جو سیگریٹ نوشی کرنے میں مگن تھا۔ لیکن مہر کے کمرے میں آتے ہی باہر نکل گیا ۔ اسکے اس طرح جھڑک کر اگنور کرنے پر مہر کی خوبصورت آنکھوں میں ایکدم ہی پھر سے نمی تیرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
اگلی صبح وہ مہر کے اٹھنے سے پہلے ہی کمرے میں آیا اور کپڑے لے کر واشروم میں چلا گیا ۔ کل رات اسنے کھانا نہیں کھایا تھا کیونکہ مہر کو دیکھ کر جو لاوا اندر ابل رہا تھا اگر وہ پھٹ جاتا تو اس میں نقصان دونوں کا ہوتا اسی لیے وہ کمرے سے ہی چلا گیا تھا ۔ اسکی ولیمے کے رات والی حرکت اسے بھلاۓ نہیں بھول رہی تھی ۔ کوںٔی اس قدر بھی کسی سے نفرت کرسکتا ہی کہ اس سے نجات کی خاطر اپنی جان ہی لینے کی کوشش کرے ۔ وہ اس بے قدر لڑکی کو نہیں بتانا چاہتا تھا کہ وہ اس کے لیے کتنا تڑپا کتنا جاگا کتنا رویا کیونکہ وہ اسے صرف بے وفا ہی مانتی تھی اور جو اسنے دیکھا تھا اسکی نظر میں سچ صرف وہی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
کپڑے بدل کر وہ بغیر ناشتہ کیے ہی ہسپٹل کے لیے روانہ ہوگیا ۔ آمنہ بیگم نے تو بہت منتیں کیں لیکن باہر سے کھانے کا کہہ کر چلا گیا ۔ کچھ ہی دنوں میں اسکی اپنے ہسپٹل کی افتتاح تھی جس کے لیے اسنے بہت سے خواب دیکھے تھے اب انھیں پورا کرنے میں وہ کوںٔی کسر نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر جب اٹھی تو پورے کمرے میں نظر دوڑاںٔی لیکن اسکی موجودگی کا احساس اسے کہیں سے نہیں ہوا ۔ وہ جب فجر میں اٹھی تو وہ اس وقت بھی کمرے میں نہیں آیا تھا ۔ جسے دیکھ کر ناجانے مہر کا دل بہت اداس سا ہوگیا ۔ وہ اب ایک موقع چاہتی تھی اپنے اس بے جوڑ رشتے کے لیے لیکن کیوں یہ تو وہ بھی نہیں جانتی تھی ۔ اپنی جگہ سے اٹھ کر یونی کے لیے تیار ہوںٔی اور سب کے ساتھ ناشتہ کرکے ڈراںٔیور کے ساتھ چلی گںٔی جہاں اسے پتا چلا کہ اس ہفتے کے آخر میں رانیہ کی منگنی رکھ دی گںٔی ہے جس کے لیے وہ خود آکر گھر پر انویٹیشن دے گی ۔ مہر نے اسے خوب مبارکباد دی جسے وہ شرما شرما کر قبول کرتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔
یونی سے واپسی پر وہ مہر کے ساتھ ہی آگںٔی تھی اور اماں جی سمیت سارے گھر کے لیے دعوت نامہ لے کر آںٔی تھی جسے دانیہ نے تو کوفت سے دیکھا البتہ سب نے باخوشی قبول کرکے اسے مبارکباد دی ۔ اسکے بعد اسے رمشا کے ہاں بھی جانا تھا دعوت دینے کے لیے۔۔۔۔۔۔
مہر کمرے میں اسکی خوشی کا سوچ کر مسکرا رہی تھی کہ اچانک سے اسکا شرارت سے کہا گیا جملا یاد  آگیا ۔۔۔۔
تو ایسا کرنا کہ فارس بھاںٔی کے ساتھ باںٔک پر آنا گاڑی میں تو الگ الگ بیٹھے ہوتے ہو لیکن باںٔک پر چپک کر بیٹھنا اور انھیں پیچھے سے دونوں ہاتھوں سے کس کے پکڑنا ( جس پر وہاں تو گھوری ڈال کر ایک تھپڑ اسکی کمر پر رسید کردیا تھا لیکن اب سوچ کر مسکراتی شرما گںٔی اسنے اپنا چہرہ جب شیشے میں دیکھا تو وہ الگ ہی رنگ لیے گلنار سا ہو رہا تھا ۔ فارس کی محبت کی کلی اب اسکے بنجر دل میں گلاب بن کر کھلنے لگی تھی ۔ اچانک ہی باہر بادلوں کے گرجنے کی آواز آںٔی وہ فوراً گلاس وال سرکا کر ٹیرس کے پاس آںٔی تو بادلوں نے پورے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا  ہر طرف سیاہی پھیلی ہوںٔی تھی ۔ فضا میں ایک خاموشی سی ہوگںٔی تھی جیسے طوفان سے پہلے کی خاموشی ہو اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ٹھنڈی ٹھنڈی بوندوں نے برسنا شروع کردیا۔ اسکے خوشی سے مسکرا کر اپنا ہاتھ آگے کیا تو اپنی سرخ سفید ہتھیلیوں پر بارش کی ننھی بوندیں دیکھ کر فوراً کھکھلا کر ہنسی ۔۔۔۔۔۔
""""پتا ہے تم بہت حسین ہو لیکن تمھاری یہ آنکھیں بہت ظالم ہیں ۔ یہ ایک گہری جھیل کی طرح ہیں جہاں سے فارس شاہنواز کبھی باہر نہیں آیا اور نہ ہی کبھی ان کے سحر سے آزاد ہونا چاہتا ہے""""" ( اچانک ہی اسکے کانوں میں فارس کا کہا گیا جملا سناںٔی دینے لگا جو اسنے پچھلی بارش میں کہا تھا تو مہر کے لبوں پے ایک شرمگیں سی مسکراہٹ آگںٔی ۔ اسکی یہ حالت کچھ ہی دنوں سے ہوںٔی تھی جب سے رمشا نے اسے فارس کی حالت کے بابت بتایا تھا ۔۔۔
اسکا دل اب خود بہ خود فارس کی جانب کھنچنے لگا تھا ۔ وہ اسی دھن میں سردی کی بارش میں بھیگ رہی تھی کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور فارس اندر آیا ۔اسکو کمرے میں نا پاکر ٹیرس کی طرف قدم بڑھا دںٔیے۔ لیکن وہاں اسے ٹھنڈی بارش میں خوشی سے جھومتا بھیگتا دیکھ وہ مبہوت سا دیکھنے لگا ۔ وہ بچوں کی طرح خوش ہوتی آنکھیں بند کرکے گول گول گھوم رہی تھی ۔ وہ آج کل اپنے ہسپٹل کے سلسلے میں بھاگ دوڑ کر رہا تھا ابھی بھی وہ گھر کے پاس سے ہی گزر رہا تھا کہ گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے وہ بھیگتا ہوا گھر آیا تھا کہ بارش کے رکنے پر واپس چلا جائے گا۔۔۔۔۔
مہر کو جب ٹھنڈ کا احساس ہوا تو اسنے جیسے ہی آنکھیں کھول کر واپسی کے لیے قدم بڑھائے تو فارس کو خود پر ٹکٹکی باندھے دیکھ وہیں رک گںٔی ۔ اسنے گھبرا کر اپنے بھیگے سراپے پر دوپٹہ پھیلایا ۔
آ۔۔۔۔آپ کب آئے؟( مہر کی آواز پر فارس ہوش کی دنیا میں واپس آیا اور اپنی بے خودی پر خود کو لعنت ملامت کرتا بغیر جواب دںٔیے آگے بڑھ گیا )
اسکی اس طرح بے رخی پر مہر کو رونا آنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک تو زبردستی اپنی زندگی میں شامل کیا اور پھر اس رشتے کو بدلے کا نام دے کر اب بے رخی ( اندر ہی اندر گھٹ کے سوچتی کمرے کی طرف بڑھ گںٔی)
فارس اپنے کپڑے لے کر واشروم میں گھس گیا تھا ۔ مہر بھی اپنا سوٹ لیتی ڈریسنگ روم میں گھس گںٔی۔ جب باہر آںٔی تو وہ خود پر پرفیوم چھڑکتا انجان سا بنا ہوا تھا ۔ اسکے ہٹنے پر مہر اپنے بال سلجھانے لگی ۔ فارس کی نظریں باربار بھٹک کر اسکے سنہرے آبشار سے الجھ رہیں تھیں لیکن غصہ محبت پر غالب آرہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
کوفی لاؤں آپکے لیے؟( اسے ہونٹوں میں سیگریٹ دباۓ دیکھ کر بولی)
تمھیں کوںٔی ضرورت نہیں ہے مہر واجد میرے کام کرنے کی ( چبا چبا کے کہتا ہوا اپنے موبائل میں مصروف ہوگیا )
ن۔۔۔۔نہیں میں اپنے لیے بنانے جارہی تھی تو بس۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا بس ہاں۔۔۔۔ اپنی اوقات میں رہو اور دن پورے کرو اپنے کیونکہ میں تمھیں جلد ہی چھوڑنے والا ہوں ( غصے میں کہتے ہوۓ وہ مہر کو چپ لگوا گیا تھا ۔ کل تک جو اسکی چھوڑنے پر خوش ہورہی تجی اب اسکے احساسات میں تبدیلی آنے لگی تھی وہ دانیہ کا ہے یہ جانتے بوجھتے بھی اسکی طرف بڑھنے لگی تھی ۔ )
وہ کچھ بھی کہے بغیر ایکدم سے کمرے سے نکل گںٔی اور پیچھے فارس اسکے اس طرح بھاگ کر جانے پر حیران رہ گیا ۔۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
وہ چپ چاپ نیچے کچن میں آگںٔی ۔ صد شکر کہ کچن میں ایک ملازمہ کے علاوہ کوںٔی نہ تھی اور وہ بھی اپنے کام میں مگن تھی ۔ اسکے دل کی دھڑکن معمول سے بڑھ کر چل رہی تھی فارس کے الفاظ تیر کی طرح اسکے دل کو چیر گںٔے تھے ۔ 
""""دل کے بغیر بھی کوںٔی زندہ رہا ہے کبھی .؟....میں نہیں چھوڑ سکتا تمھیں مہر نہیں چھوڑ سکتا تم ۔۔۔۔۔۔۔""""( اسکی حسین آنکھوں سے ایک آنسو لڑھک کر گالوں پر بہہ گیا تھا )
مہر کیا کر رہی ہو ؟( دانیہ کی آواز پر وہ چہرہ صاف کرتی چونک کر اسکی طرف مڑی لیکن یہ سب دانیہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکا لیکن پھر بھی انجانی بن گںٔی مگر دل اسکو روتے دیکھ خوش ہوگیا تھا)
م۔۔۔۔میں کوفی بنا رہی ہوں پیو گی کیا؟( مہر بامشکل مسکرا کر بولی ورنہ آج تو اسکو دانیہ کا اپنے سامنے ہونا زہر سے بھی کڑوا لگا تھا ۔)
وہ اور فارس ایک ہونگے یہ تصور ہی اسکے لیے جانلیوا تھا لیکن وہ بھی مجبور تھی ........
ہاں ضرور تم بناو گی تو ضرور پیوں گی ( دانیہ مسکرا کر کہتی باہر چلی گںٔی اور مہر بھی مسکراتی کوفی بنانے لگی)
دانیہ نے اسے روتا دیکھ لیا تھا اور وہ سمجھ گںٔی تھی کہ ہو نا ہو اس میں اور فارس میں کوںٔی بات ہوںٔی ہے ۔۔۔۔۔
ہہہ۔۔۔۔مرنے سے تو بچ گںٔی لیکن جو اب سوچا ہے اس سے نہیں بچ سکو گی ( مسکراتے ہوئے لاؤنج میں ہی اماں جی کے ساتھ بیٹھ گںٔی)
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩






Assalamualaikum reader's...umeed h aap sb kheriyat sy hongy... sorry aaj episode late upload kr rahi hun bcz thodra busy thi...or ap sb k liye good news h ye novel bht jald khtm hone wala h or naya novel mainy likhna start krdia h lihaza ap sb mujhy Wattpad  or Instagram py follow kren ta k naya novel aaty hi apko pta chl jay...and comments, vote and share krna mt bhooliye ga or koi ghlti hojay tw nazarandaz krdijiye ga.......lots of love for you reader's..... thanks for support and ♥️
From.....
Ap sbki ki innocent writer MEHRMAH SHAH 😍

https://www.instagram.com/invites/contact/?i=qkd4azepmnmi&utm_content=ha49y4d

TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅Onde histórias criam vida. Descubra agora