صبح مہر کی آنکھ اذانوں پر کھلی تو اسنے اپنے برابر میں دیکھا جہاں وہ دنیا و جہان سے بے خبر سورہا تھا ۔ سوتے ہوئے بھی چہرے پر ایک روعب تھا جو اسکی سحر انگیز شخصیت کا خاصہ تھا ۔ بے اختیار ہی مہر کا دل دھڑک اٹھا ۔ اسنے ڈرتے ڈرتے اپنا نازک سا ہاتھ اسکی شیو پر رکھا جو کافی بڑھی ہوںٔی تھی تو اسکی چبھن محسوس کرتے ہی چہرے پر دلفریب مسکراہٹ آگںٔی۔ لیکن اسکے اٹھنے کے ڈر سے فوراً ہاتھ پیچھے کرتی نماز کے لیے اٹھ گںٔی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے واشروم میں بند ہونے کے بعد فارس نے اپنی نیند سے بوجھل آنکھیں کھولیں ۔ وہ اسکے لمس پر فوراً جاگ گیا تھا ۔ اپنی شیو پر ہاتھ پھیر کر وہاں اسکا احساس محسوس کرتے ہی گھنی مونچھوں تلے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گںٔی۔۔۔۔
پاگل۔۔۔۔ ( مسکراتے ہوئے بڑبڑاتا ہوا سیدھا ہوکر لیٹ گیا)
مہر جب وضو کر کے باہر نکلی تو اسے جاگتا پاکر سٹٹی ہی گم ہوگئی ۔۔۔۔۔
یا اللّٰہ۔۔۔۔کہیں انھیں پتا تو نہیں چل گیا تبھی آنکھ کھل گئی ( فنا ہوتی روح کے ساتھ سوچتی ہوںٔی اس سے نظریں چراتی آگے بڑھ گںٔی)
اسکا گریز اور خوف محسوس کرکے فارس کا دل کیا کہ زور زور سے ہنسنے لیکن پھر لڑاںٔی کا پروگرام ترک کرتے ہوئے واشروم میں گھس گیا ۔
وہ جب باہر آیا تو وہ نماز ادا کررہی تھی ۔ وہ بھی نمازِ فجر کی ادائیگی کے لیے مسجد کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔
یا اللّٰہ کیا سوچ رہے ہوں گے کیسی بے شرم لڑکی ہے جو نیند کا فاںٔدہ اٹھا کر ۔۔۔توبہ توبہ ( جیسے ہی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو پھر سے وہی یاد کرکے کانوں کو ہاتھا لگایا)
ہوسکتا ہے نا پتا چلا ہو اور میں ایسے ہی ہلکان ہورہی ہوں ( پھر خود ہی دلاسا دیتی مطمئن کرنے لگی جو ذرا مشکل ثابت ہورہا تھا)
اللّٰہ جی بس عزت رکھ لینا ( اور منہ پر ہاتھ پھیرتی اٹھ گںٔی)
ایسا کرتی ہوں انکے آنے سے پہلے ہی سوجاتی ہوں رات گںٔی بات گںٔی ( دماغ چلتے ہی خوش ہوتی واپس کمبل میں گھس گئی)
فارس جب واپس آیا تو اسے پورا کا پورا کمبل میں گھسا پایا ۔۔۔۔
چھوڑوں گا تو میں بھی نہیں ( یہ سوچتے ہی جاگنگ کے لیے تیاری کرنے لگا)
لگتا ہے سچ میں نہیں پتا ( اسکے کمرے میں خاموشی سے آنے پر کمبل کے اندر ہی خوش ہوتی ہو آنکھیں بند کرگںٔی)۔۔۔۔۔
🔥🔥
گڈ مارننگ فارس ( دانیہ چہکتی ہوئی ناشتے ہی ٹیبل پر آںٔی)
گڈ مارننگ ( فارس نے بھی مسکراتے ہوئے بولا)
دانیہ ہم غریبوں کی مارننگ بھی گڈ کردو ( عباس ناشتے کرتے ہوئے مسکین سی صورت بنا کر بولا)
تو سب اسکی بات پر مسکرانے لگے ۔ دانیہ اسے بھی مارننگ بول کر ناشتے پر جھک گئی)
مہر بھی مسکراتی چاۓ کا کپ منہ سے لگا گںٔی۔۔۔۔
اسے دیکھتے ہی فارس کو شرارت سوجھی۔۔۔۔۔
اماں جی یہاں عجیب سی جلن ہورہی ہے یہاں۔۔۔ ( فارس سیریس سی شکل بناتا شیو پر ہاتھ رکھ کر بولا)
مہر نے اسکی بات پر خوف سے سر اٹھا کر دیکھا جو اماں جی کی طرف ہی متوجہ تھا۔۔۔
یا اللّٰہ خیر ۔۔کوںٔی الرجی ہوگںٔی ہوگی کیا زیادہ ہورہی ہے ( اماں جی فوراً اسکا چہرا اپنی طرف کرکے بولیں)
ہاں ایسا لگ رہا ہے کسی چڑیل کے ناخن لگ گئے ہیں ایسی جلن ہورہی ہے ( ابکی بار مہر کو زبردست قسم کا اچھو لگ گیا )
آرام سے بچے آمنہ پانی دو بچی کو ۔۔۔۔۔
(اماں جی اسکے اچانک سے کھانسنے پر پریشان ہوگںٔیں)
دانیہ یہ سب بڑے غور سے دیکھ رہی تھی....
بھاںٔی آپ نے اس سے پہلے کیا کسی چڑیل کے ناخن کھاںٔیں ہیں جو اتنے تجربے سے بول رہے ہیں ( عباس اسکی شرارت سمجھتا ہوا چھیڑ کر بولا)
بس کیا بتاؤں تجھے اب ( فارس مہر کی طرف شرارت سے دیکھتا ہوا بولا جو کھانس کھانس کر اب آنکھوں میں آنسو لیے اسے ہی گھور رہی تھی)
ویسے مہر بھابی اپکے ناخن تو بڑے نہیں ہیں نا( عباس کے بولنے پر مہر نے فوراً دوپٹے کے نیچے ہاتھ چھپا دیا )
ن۔۔۔نہیں تو بڑے تو نہیں ہیں ( اسکے اس طرح گھبرانے پر عباس کا ایک قہقہہ فضا میں گونجا جس پر فارس نے بھی مسکراتے ہوئے اسکی کمر پر ایک دھپ لگاںٔی)
آمنہ بیگم نے مہر کی شکل دیکھ کر اسے فوراً ڈپٹا جو فارس کو گھورتی ہوئی بس رونے کے قریب ہی تھی )
اچھا اچھا سوری ( عباس فوراً اپنی جگہ سے اٹھ گیا اور سب کو مسکراتا چھوڑ یونی چلا گیا)
دانیہ دونوں کی نظر کا تبادلہ بڑے ضبط سے دیکھ رہی تھی......
شاہنواز صاحب اور باقی سب بھی اسکی باتوں میں شرارت محسوس کرتے ہوئے مسکرانے لگے......
ناشتے کے بعد سب اپنے اپنے کاموں سے چلے گںٔے۔ فارس اماں جی کے ساتھ لگ کر بیٹھا تھا ۔۔۔۔
کیوں تنگ کرتا ہے میری بچی کو ؟( اماں جی موقع دیکھتے ہی اسکے کان کھینچنے لگیں)
آپکی لاڈلی نے مجھے کم تنگ کیا ہے ( اپنے کان چھوڑواتا مسکرا کر بولا)
چپ نالاںٔق ۔۔۔ بچی بچاری کتنی پریشان ہوگںٔی تھی ( انکی اس بات پر زور کا قہقہہ لگاتا ہوا بولا)
ویسے کیسے بڑی بڑی آنکھیں پھاڑ کر مجھے دیکھ رہی تھی نا ۔۔۔۔۔
شریر ( اسکی ڈھٹاںٔی پر وہ بھی مسکرا دیں)
اسی وقت اسے سیڑھیوں سے یونی کے لیے تیار آتا دیکھ فوراً اماں جی کو خدا حافظ کرتا باہر چلا گیا ۔۔۔۔۔
سنو ( فارس گیٹ پر رکتا ہوا اسکی طرف مڑا )
وہ جو اپنے خیال میں آرہی تھی اسکے اچانک رکنے پر اس کے بازو سے ٹکراتے ٹکراتے بچی )
اب وہ بڑی بڑی آنکھیں کھولے حیران سی اسے دیکھ رہی تھی ....
اس بار جو جرات میرے سوتے ہوئے دیکھاںٔی ہیں اگلی بار جاگتے ہوئے دیکھانا تب جواب دونگا ( اسے ساکت چھوڑ کر سیاہ آنکھوں پر گلاسز لگاتا ہوا آگے بڑھ گیا)
ک۔۔۔کیا کہہ کر گںٔے ہیں ۔۔۔( خود سے بڑبڑاتی اپنے دھڑکتے دل کو سنبھالتی اسے دور جاتا دیکھتی رہی تب تک جب تک اسکی گاڑی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوگںٔی)
♥️♥️♥️♥️
کیا بات ہے ڈاکٹر فارس بڑا مسکرایا جارہا ہے ...( فارس اپنے کیبن میں بیٹھا صبح والا سین یاد کرتا مسکرا رہا تھا کہ اسکا ساتھی ڈاکٹر جنید جو اسی کے ساتھ امریکہ میں تھا کیبن میں آتے ہوئے شرارت سے بولا۔ وہ فارس کے بارے میں سب جانتا تھا)
ہاہاہاہا۔۔۔نہیں یار ایسا تو کچھ بھی نہیں( وہ اسکی بات پر ہنستے ہوئے سیدھا ہوکر بیٹھا)
جاؤ اب مجھ سے بھی چھپاؤ گے ( جنید ناراض ہوتے ہوئے بولا)
ایک تو۔۔۔تو بھی نہ منٹ منٹ بعد حسیناؤں کی طرح ناراض ہوجاتا ہے ( فارس اسکے ہاتھ سے پیشنٹ کی فاںٔل لیتا ہوا بولا)
پھر بتا دے کیا بھابھی سے صلح ہوگںٔی؟( آنکھوں میں شوخی لیے بڑے وثوق سے پوچھا)
بھابھی سنتے ہی اسکی آنکھوں کے آگے وہ بڑی بڑی نمی سے بھری شکوہ کرتی ہوںٔی آنکھیں آگںٔیں تو دل نے بے اختیار ہی ایک بیٹ مس کی......
نہیں یار ایسے اپنے نصیب کہاں ( سرد آہ بھرتا ہوا فاںٔل کے پیج پلٹنے لگا)
آبے چپ تجھے تو جیسے میں جانتا نہیں ضرور کوںٔی گل کھلا آیا ہے صبح تو ( جنید اسکی آہ پر لعنت بھیجتا ہوا بولا)
ہاہاہاہا۔۔۔ہے کھلا تو آیا ہوں ویسے تیری بھابھی کو تنگ کرکے بڑا مزہ آتا ہے ( فارس پھر سے ہنستا ہوا بولا)
ہاہاہاہا۔۔۔۔ہنس ہنس پھر تیری امریکہ والی حالت بھی مجھ سے چھپی نہیں ( جنید اسکو اچھی طرح تپا کر اسی وقت کیبن سے بھاگ گیا )
کمینہ۔۔۔۔( اور پیچھے بیچارہ دانت پیستا رہ گیا)........
🔥🔥
کیا بات ہے اتنا غصے میں کیوں ہو ؟( اس وقت وہ دونوں کلب میں بیٹھے تھے لیکن دانیہ آج صبح والا واقع بھول نہیں رہی تھی)
ہو نو واٹ تیمور میرا دل کرتا ہے اس مہر کو اس گھر سے غائب کردوں میرا دماغ پھٹا جارہا سوچ سوچ کر ( دانیہ غصہ پیتی چبا چبا کر بولی)
ریلیکس۔۔۔۔۔ کردینا اس میں کیا بڑی بات ہے بس کچھ دن رک جاؤ ( تیمور گلاس لبوں سے لگاتا ہوا بولا).
دانیہ سے جب سے اسکی دوستی ہوںٔی تھی وہ بھی یوں کلب میں آنے لگا تھا ......
لیکن کام تم نے سہی بندوں کے ہاتھ میں دیا ہے نا کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے ( دانیہ کی بات پر تیمور مسکراتے ہوئے بولا)
ارے دانیہ ڈارلنگ تم بس دیکھتی جاؤ کہ ہوتا کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
مجھے بے صبری سے اس دن کا انتظار ہے ( اسکی بات پر مسکراتی ہوئی بولی)
♥️♥️♥️♥️
رات کے گیارہ بجے وہ جب کمرے میں آیا تو مہر بڑے دیھان سے موٹے روںٔیں کے سفید غالیچے پر بیٹھی اپنا اساںٔنمنٹ بنانے میں مشغول تھی ۔ بالوں کی رفلی سی چٹیاں بناۓ دوپٹے کو لاپرواہی سے ایک شانے پر دھرے کتابوں پر جھکی ہوئی تھی۔ دوپٹہ ساںٔڈ پر ہونے کی وجہ سے اسکا سراپا اگلے کی آنکھیں خیرہ کر رہا تھا۔۔۔۔
اسنے زور سے گھڑی اتار کر ٹیبل پر رکھی تاکہ اسکا دیھان ادھر بھی آۓ ورنہ تو ایسے کتابوں میں گھسی تھی جیسے نیا پاکستان تشکیل دینا ہو . اسکی گھڑی پٹخنے کی آواز پر مہر نے چونک کر اوپر دیکھا لیکن جیسے ہی اپنے حلیے کا خیال آیا تو فوراً دوپٹہ ٹھیک کرتی دونوں کندھوں پر پھلا دیا۔ فارس بڑی دلچسپی سے محظوظ ہوتا ہوا اسکی گھبراہٹ دیکھ رہی تھا ۔ پھر اپنے کپڑے لے کر واشروم میں گھس گیا ۔ دس منٹ بعد نہا کر باہر نکلا تو وہ اسی طرح کتابوں پر جھکی ملی ۔ اسے دیکھتے ہی ہمت کرکے بولی۔۔۔۔۔
کھانا لاؤں آپکے لیے؟( وہ پچھلی بار کی عزت افزائی بھولی نہیں تھی اور نہ ہی آج کی اسی لیے ڈرتے ڈرتے بولی لیکن توقع کے خلاف جواب آنے پر حیران رہ گںٔی)
لے آؤ ( یہ کہتا ہوا بیڈ پر بیٹھ گیا تو وہ بھی جی کہتی اٹھ گںٔی۔ اسکی اس طرح آرام سے کہنے پر دل میں خوش بھی ہوگںٔی)
دس منٹ بعد جب وہ کھانا گرم کرکے لے کر آںٔی تو وہ کسی سے کال پر مصروف تھا اسے ایک نظر دیکھ سامنے صوفے پر جا کر بیٹھ گیا ۔ مہر نے کھانا اسکے آگے ٹیبل پر رکھا اور دوبارہ کتابوں میں سر دے کر بیٹھ گںٔی۔ کال بند کرکے اسنے خاموشی سے کھانا کھایا تب تک مہر بھی کام ختم کرچکی تھی۔ اسکے کھانا کھانے پر اٹھ کر برتن نیچے رکھ آںٔی اور آتے ہوۓ ایک کپ کوفی بھی بنا لے آںٔی۔۔۔۔۔
یہ لیں ( اسکے آگے کوفی کا کپ کرتے ہوںٔے بولی)
فارس بڑی حیرت سے اسکا یہ خالص بیویوں والا روپ دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
تھینک یو ( یہ کہتے ہوئے اسنے جان کر اسکی انگلیوں سے اپنی انگلیاں مس کرکے وہ کپ پکڑا کہ مہر نے اچانک گھبرا کر کپ چھوڑ دیا ).....
آہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔(گرم گرم کوفی گرنے سے وہ فوراً اپنا ہاتھ پکڑتا ہوا کراہ کے اٹھ گیا)
س۔۔۔۔سوری غلطی سے گرگںٔی.. ( مہر اسکے کراہنے پر فوراً بوکھلا کر اسکا ہاتھ پکڑ کر اس جگہ پھونک مارنے لگی)
اسکے اس طرح پکڑنے اور پھر پھونک مارنے پر فارس نے حیرت سے اسے دیکھا اور اسکی پریشانی دیکھتے ہوئے اپنی تکلیف بھول گیا۔۔۔۔
سوری۔۔۔میں نے جان کر نہیں کیا ہے بیٹھیں آپ میں ابھی دوا لگا دیتی ہوں ( اسے اسی طرح چھوڑ کر فوراً فرسٹ ایڈ بکس نکال لاںٔی )
آ ہ ہ ہ ( کریم کے لگاتے ہی اسنے جلن ہونے پر ہاتھ دوبارہ کھینچ لیا جسے مہر نے فوراً پھر سے پکڑ لیا)
ت۔۔۔تھوڑی سی جلن ہوگی ( گھبرا کر بولتی ہوںٔی ہلکے ہلکے وہاں لیپ کرنے لگی۔ وہ بڑے غور سے اب اسے قریب سے دیکھ رہا تھا۔ کالے سادہ کاٹن کے جوڑے میں وہ اسکے کے لیے پریشان سی سیدھا فارس کے دل میں اتر رہی تھی لیکن پھر اچانک اسکے کپڑے دیکھتے ہی ولیمے کی وہ سیاہ رات یاد آگںٔی جس میں اسنے یہی سیاہ جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا۔ وہ سب یاد آتے ہی فارس نے سختی سے لب بھینچ کر ہاتھ واپس کھینچ لیا۔۔۔۔
ک۔۔۔کیا ہوا زیادہ تکلیف ہورہی ہے؟( اسکے اس طرح سے ہاتھ کھینچنے پر پریشان ہوتے ہوئے بولی)
ہاں ہورہی ہے لیکن یہاں نہیں یہاں ( بولتے ہوئے دل کی طرف اشارہ کیا)
پہلے تو مہر ناسمجھی دیکھتی رہی لیکن جں سمجھ آیا تو فوراً نظریں جھکا گںٔی ....
کیا آپ مجھے معاف نہیں کرسکتے ؟( امید سے ایک نظریں جھکا کر سوال کیا)
جس پر فارس تمسخر اڑانے والے لہجے میں بولا۔۔۔۔۔
خود سے پوچھو کیا تمھاری یہ حرکت معافی کے قابل ہے مہر واجد ( اسکے جواب پر اپنے نازک سے لب سختی سے بھینچ گںٔی۔۔۔)
کوشش کرنے میں کیا حرج ہے ؟( پھر امید سے نظریں چرا کر سوال کیا گیا)
کوشش ۔۔۔۔ ہمم کوشش کرنے میں حرج تو کوںٔی بھی نہیں ہے لیکن کیا تم نے کوشش کی تھی مجھے سمجھنے کی ؟( پھر سے منہ پر مارا گیا جواب)
کیا ہوا مہر واجد نہیں ہے نا جواب جانتا ہوں ہوگا بھی کیسے لیکن تم فکر نہیں کرو آگے سے تمھیں یہ انتہائی قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ میں تمھیں چھوڑ۔۔۔۔۔۔
ن۔۔۔۔نہیں ایسے مت کہیں ( اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی مہر نے اچانک اسکے لبوں پر ہاتھ رکھ کر دھل کر روک دیا)
فارس بے یقینی سے اسکی یہ حرکت دیکھتا رہ گیا۔ ہوش آتے ہی مہر نے اپنا ہاتھ فوراً پیچھے کیا لیکن اس سے پہلے ہی فارس کی مضبوط پکڑ میں آگیا۔۔۔۔۔۔۔
کیوں مجھے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی یہ جانتے بوجھتے ہوۓ کہ میں دانیہ سے محبت کرتا ہوں؟( اسکا ہاتھ پکڑے ہوئے سوال کیا۔ مہر تو اپنی بے اختیاری پر خود کو لعنتیں دے رہی تھی).
کہو مہر واجد ( اس بار روعب سے پوچھا گیا)
اسکے لہجے میں سختی اور دوسرا اسکی پکڑ میں دگنی سختی کو محسوس کرتی مہر کی نشیلی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گںٔیں اور سر جھکا کر نفی میں سر ہلایا)
کیوں ۔۔۔؟( اسکے اس طرح اچانک جواب پر حیرانی سے پوچھا)
پ۔۔۔پتا نہیں ( اسکی مضبوط پکڑ میں س اپنی کلائی موڑ کر نکالنے کی کوشش کی لیکن ناکام)
پتا ہے تمھیں سب جانتی ہو لیکن بتانا نہیں چاہ رہی ( اسکے آنسوؤں سے بھری نشیلی آنکھوں میں اپنی سیاہ روعب دار آنکھیں گاڑھ کر بولا)...
لیکن وہ چپ چاپ بیٹھی رہی..۔۔۔۔
ٹھیک ہے مہر واجد جاؤ یہاں سے اور سوچ سمجھ کر جواب دینا کیونکہ فارس شاہنواز اپنا فیصلہ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے نہیں بدلے گا ( اسکی کلاںٔی کو جھٹکے سے چھوڑتا ہوا اٹھ کر باہر چلا گیا)
میں کیسے بتاؤں آپ کو کہ آپکی مہر آپکے بغیر ایک پل بھی نہیں رہ سکتی ( اسکے جاتے ہی بے بسی سے سوچتی چہرہ ہاتھوں میں چھپاتی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی)۔۔۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
لان میں آکر اسنے گہرے گہرے سانس لے کر خود کو ریلکس کیا۔ وہ جانتا تھا کہ کیوں وہ ایسے بول رہی ہے لیکن اسکے منہ سے سننا چاہتا تھا کہ ہاں فارس میں آپ سے محبت کرتی ہوں اسی لیے آپ کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی۔۔۔۔
لیکن نہیں وہ لڑکی تو ہونٹوں پر چپ کا لبادہ اوڑھے خود کو بھی مار رہی تھی اور اسے بھی ۔۔۔۔۔۔
صرف ایک بار کہہ دو مہر کہ تم نہیں رہ سکتی میرے بغیر قسم خدا کی سب بھلا دونگا سب کچھ ورنہ جو ہوگا شاید ہم دونوں کے حق میں بہتر نہ ہو ( بے بسی سے ٹہلتا ہوا سیگریٹ کے دھویں کو ہوا میں چھوڑتا ہوا بولا)
دونوں ایک ہی کیفیت میں تھے لیکن انا کی دیوار دونوں کے درمیان اس قدر اونچی تھی کہ نہ تو وہ اسکی سن سکتا تھا اور نہ ہی مہر اسکی طرف دیکھ سکتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
صبح جب وہ کمرے میں آیا تو مہر اسی جگہ لیٹی سو رہی تھی جہاں کل رات وہ اسے چھوڑ کر گیا تھا۔ ایک گہرا سانس بھرتا ہوا وارڈروب کی جانب بڑھ گیا اور تیار ہو کر بغیر ناشتہ کیے نکل گیا۔۔۔۔۔۔
مہر کو کمرے میں ہونے والی دستک نے جگایا۔ ہڑبڑا کر اس جگہ سے اٹھی اوع دروازے میں ملازمہ کو دیکھ کر حیران ہوںٔی۔۔۔۔۔
میں اتنی دیر سوتی رہ گںٔی۔۔۔( اور سوچتی اسی وقت یونی جانے کی تیاری کرنے لگی )
تیار ہوتی سب کی منتوں کے باوجود لیٹ ہونے کا کہتی ناشتے کے بغیر وہ بھی یونی کے لیے نکل گںٔی۔۔۔۔۔۔
دن پھر سے یونہی گزرنے لگے ۔ دونوں کے بیچ انا کی سرد دیوار اپنی جگہ قاںٔم تھی لیکن گرانے کی کوشش کوںٔی ایک بھی نہیں کررہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
آج ہفتہ تھا اور رات میں رانیہ کی منگنی کہ تقریب بھی۔ فارس گھر پر ہی تھا اور لیپ ٹاپ پر لگا کچھ کام نپٹا رہا تھا۔ مہر نیچے اماں جی کے پاس ہی بیٹھی انکا سر دبا رہی تھی۔ انکا میگرین کا درد پھر سے جاگ اٹھا تھا۔ آمنہ بیگم بھی کچن میں لگیں سب کے گھر ہونے کی وجہ سے کچھ اسپیشل بنانے کی تیاری میں تھیں اور ساتھ میں ہی مسرت بیگم انکی مدد کروا رہیں تھیں۔ دانیہ صبح سے کمرے سے نہیں نکلی تھی۔۔۔۔۔۔
شام کے وقت اماں جی نے اسے زبردستی اٹھا کر اوپر بھیجا تھا اور ساتھ ہی آمنہ بیگم سے کہہ کر ملازمہ کے ہاتھ میں اسکا آج کی تقریب میں پہننے کا لباس بھی بھیجوا کر بیوٹیشن کو بھی بلوا لیا تھا۔۔۔۔
"انکا کہنا تھا کہ میری بہو کی شادی کے بعد پہلی تقریب ہے جس میں سب سے زیادہ خوبصورت لگنی چاہیے "....
انکی فرماںٔش پر مہر دبا دبا احتجاج کرتی رہ گںٔی لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی اماں جی اسے کسی خاطر میں نہ لاںٔیں۔۔۔۔۔
خود تو انھوں نے سر درد کا بہانا کرکے جانے سے انکار کردیا اور باقی سب کو بھی جانے سے منع کردیا تاکہ وہ دونوں اکیلے جا کر کچھ وقت گزار سکیں ۔ جس پر سب اماں جی کی چالاکی دیکھتے ہوئے مسکراتے رہ گںٔے تھے سوائے دانیہ کے اسکا تو خون کھول اٹھا تھا ۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
اتنا بڑا دوپٹہ میں کیسے سنبھالو گی.۔۔۔۔( ملازمہ کے ہاتھوں آمنہ بیگم کا دیا ہوا منٹ گرین رنگ کا جوڑا جس کی قمیز پر ہلکا سا سلور نگوں جبکہ مختلف رنگ کے دوپٹے کے پلوؤں پر خوبصورت گوٹے کا کام ہوا وا تھا ۔ اسے دیکھتے ہی وہ پریشانی سے خود سے بولی)
اسکی بیچاری سی بڑبڑاہٹ لیپ ٹاپ پر کام میں لگے ہوئے فارس نے بھی باخوبی سنی تھی پھر بھی ہونٹوں پہ مچلتی مسکراہٹ دبا کر کام میں لگا رہا۔ اسی وقت کمرے میں دستک ہونے پر مہر نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی بیوٹیشن مسکراتی ہوںٔی کھڑی تھی۔۔۔
السلام علیکم میم ۔۔۔۔ مجھے اپکو تیار کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے.( وہ بیوٹیشن سامنے کھڑی خوبصورت سی لڑکی کو دیکھتی پروفیشنل مسکراہٹ کے ساتھ بولی)
لیکن اس لڑکی کے پریشانی والے تاثرات سمجھ نہ سکی ۔۔۔۔۔
فارس ....( ہمت کرکے اسے پکارا )
وہ جو اپنے کام میں لگا تھا اسکی میٹھی سی آواز میں اپنا نام سن کر سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔۔۔
وہ اماں جی نے بیوٹیشن کو بھیجا ہے ۔۔۔
تو کیا میں تیار ہونگا اس سے ؟( اسکی الٹی بات کا الٹا جواب دیا گیا جس پر وہ فوراً سٹپٹا گںٔی تو پیچھے ہی کھڑی بیوٹیشن بھی اسکی بات پر مسکرا دی ۔۔۔۔
ن۔۔۔نہیں کیسی باتیں کر رہے ہیں اب کیا آپ تیار ہونگے میں کہہ رہی تھی کہ آپ دوسرے روم میں چلے جاںٔیں تاکہ وہ مجھے تیار کرسکے .....( بالآخر ایک ہی سانس میں اپنی بات کہہ کر لمبی سانس لی).....
تم مجھے ہی میرے روم سے جانے کو کہہ رہی ہو ؟( اسے تنگ کرنے کے لیے ایک اور سوال )
پلیزززز۔۔۔( اسکے التجا کرنے پر گہرا سانس لیتا اٹھ گیا۔ )
بھوتنی مت بن جانا ۔۔۔( جاتے ہوئے جھک کر اسکے کان میں سرگوشی کی جس پر مہر اسے گھور کے رہ گںٔی)
آںٔیے۔۔۔۔( بیوٹیشن کو اندر آنے کا رستہ دیا جو اب بھی مسکرا رہی تھی )
لگتا ہے سر آپ سے بہت محبت کرتے ہیں ( بیوٹیشن کا اشارہ اسکی سرگوشی پر تھا اب مہر اسے کیا بتاتی کہ اسکے سر کیا بول کر گںٔے ہیں ۔ )
اسی لیے محض مسکرا کر رہ گںٔی۔۔۔۔۔
پھر اسنے اپنے ماہر ہاتھوں سے صرف گھنٹے میں ہی اسے تیار کردیا۔ مہر نے جب خود کو شیشے میں دیکھا تو نظریں ساکت ہوگںٔیں ۔ بیوٹیشن کے ہاتھوں نے اسکے خوبصورت نقوشوں کو اور خوبصورتی سے واضح کردیا تھا اور اسکی نشیلی آنکھوں پر گہرے سے کالے میک اپ نے انھیں اور حسین کردیا تھا ۔۔۔۔۔۔
میم آج تو سر آپ کو دیکھ کر دیوانے ہوجاںٔیں گے۔۔۔۔ ( بیوٹیشن کی آواز پر اسنے چونک کر اسے دیکھا اور جب اسکی بات سمجھ آںٔی تو سرخ چہرے سے فوراً اٹھ گںٔی اور کپڑے لے کر ڈریسنگ روم میں گھس گئی۔ جب باہر آںٔی تو اسنے باقی کی تیاری کرکے اسکے بالوں کو ہلکا سا کرل دے کر کچھ آگے اور کچھ پیچھے کر کے ہیراسٹاںٔل بنا کر دوپٹے کو پنوں سے سیٹ کردیا تھا ۔کانوں میں اںٔیر رنگز اور ہاتھوں میں صرف فارس کی پہناںٔی ہوئی انگوٹھی پہنے اب وہ مکمل تیار تھی ۔ بیوٹیشن اسے تیار کرکے جاچکی تھی۔ وہ کھڑی ہوںٔی خود کو شیشے میں ہی دیکھ رہی تھی کہ اکتایا سا فارس زور سے کمرے کا دروازہ کھولتا ہوا اندر آیا ۔ دروازے کی آواز سنتی مہر نے چونک گںٔی۔۔۔۔۔
فارس نے دروازہ بند کرکے جیسے ہی سامنے دیکھا تو چہرے کے ناگوار تاثرات بدل کر وہیں ساکت ہوگئے ۔ وہ گھبراںٔی سی اپنی بیوی کو بغیر پلکیں جھپکاۓ دیکھ رہا تھا ۔ آمنہ بیگم کے دںٔیے ہوئے جوڑے میں بیوٹیشن کے ہاتھوں کے کمال سے وہ اس قدر حسین لگ رہی تھی کہ فارس جدھر تھا وہیں رہ گیا۔ اسکی نشیلی آنکھوں نے اسے اسکی طرف بڑھنے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس کی آر پار ہوتی نظریں خود پر محسوس کرکے اسکی ہتھیلیوں میں پسینہ آگیا تھا ۔ اوپر سے اسکے اپنی جانب بڑھتے قدموں نے اسکی جان ہوا کردی۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چلتا ہوا عین اسکے پیچھے آکر کھڑا ہوگیا اور بڑے غور سے اسکا حسین سراپا دیکھنے لگا ۔ شیشے میں دونوں ایک ساتھ کھڑے ایک مکمل اور حسین کپل لگ رہے تھے ۔ ہیل پہننے کی وجہ سے مہر کا قد اسکے کندھوں تک آگیا تھا جسے دیکھتے ہی فارس کے چہرے پر مسکراہٹ آگںٔی اور جھک کر اسکے کان کے قریب سرگوشی کے انداز میں بولا۔۔۔۔۔
بیوٹیفل ....( اسکی اس سرگوشی پر مہر کا ہیل میں مقید پیر لڑکھڑا گیا لیکن بروقت فارس نے اسے کندھوں سے پکڑ کر گرنے سے بچا لیا )
کیا ہوا گھبرا کیوں رہی ہو ؟( آنکھوں میں شوخی شرارت لیے پوچھا)
ک۔۔چھ نہیں جاںٔیں تیار ہوجاںٔیں دیر ہوجاۓ گی ( اسکی پکڑ میں مچلتی ہوئی بولی)
ہوجانے دو دیر آج ( اسکے گھمبیر لہجے نے مہر کی رہی سہی جان بھی ٹانگوں سے نکال دی )
فارسس۔۔۔۔( زور سے اسکا نام لیا جیسے تنبیع کی جارہی تھی)
جی جا۔۔۔۔( اسی وقت مہر کا فوں بج اٹھا اور ماحول میں جو سرور تھا وہ چھناکے سے ٹوٹ گیا۔ ہوش میں آتے ہی فارس نے اسے جھٹکے سے چھوڑا تو وہ لڑکھڑاتی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل پکڑ گںٔی۔۔۔۔۔
کال پک کرو ( اسکرین پر چمکتے رانیہ کے نام کو دیکھ کر وہ بولا لیکن مہر آنکھوں میں بے یقینی اور نمی دیکھ کر نظریں چراتا ہوا اپنے ڈریسنگ روم میں گھس گیا۔۔۔۔۔
(اسکے بند دروازے کو دیکھتی آنکھوں میں نمی لیے کال پک کرلی )۔۔۔۔۔۔۔
وہ جب کپڑے چینج کرکے باہر آیا تو وہ بیڈ پر بیٹھی کال پر مصروف نظر آںٔی۔ ایک گہرا سانس لے کر شیشے کے اگے کھڑا ہوتا تیاری کرنے لگا۔۔۔۔۔
یہ میں کیا کہنے جارہا تھا اس بے قدری لڑکی سے جسنے میرے جذبات ہر بار اپنے پیروں تلے بے دردی سے روند ڈالے ( ہاتھوں پر گھڑی باندھتے ہوئے تلخی سے سوچا )
کاش کہ مہر تم مجھ سے خود سب کہتی تو آج یہ وقت کچھ اور ہوتا ( خود پر ایک نظر ڈالتا ہوا ضبط سے آنکھیں میچ گیا)
بلو پینٹ پر گرے رنگ کی پینٹ کوٹ جس میں واںٔٹ رنگ کی شرٹ پہنے بغیر ٹاںٔی کے کوٹ کو آگے سے کھلا رکھے وہ بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا ۔ بالوں کو جیل سے سیٹ کیے ہوئے ہاتھ میں پہنی راڈو کی مہنگی گھڑی کے ساتھ وہ اپنی چھا جانے والی پرسنیلٹی کے ساتھ تیار تھا ۔ ساںٔڈ ٹیبل سے اپنا موبائل سیگریٹ اور لاںٔٹر اٹھاتا بغیر اس پر ایک بھی نظر ڈالے نیچے کی جانب بڑھ گیا ۔ مہر نے کال سے فارغ ہوکر اسے نیچے جاتا دیکھ خود بھی گہرا سانس لیتی نیچے بڑھ گںٔی۔۔۔۔۔
ماشاءاللّٰہ۔۔۔۔میرے بچے کتنے پیارے لگ رہے ہیں اللّٰہ حاسدوں کی بری نظروں سے دونوں کو محفوظ رکھے ( سیڑھیوں سے اترتے فارس اور اسکے پیچھے ہی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی مہر بھی ساتھ ہی آرہی تھی۔ دانیہ کی نظریں تو مہر کا چھپا حسن جو آج کھل کر واضح ہورہا تھا دیکھتے ہی ساکت ہوگںٔیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکے نیچے آنے پر سب انکی شاندار جوڑے دیکھ کر سراہے بغیر نہ رہ سکے ۔۔۔۔۔
جا آمنہ وہ کنگن لے آ جو ہم نے فارس کی دلہن کے لیے رکھے تھے اور اپنی بہو کو اپنے ہاتھوں سے پہنا ۔۔۔۔( اماں جی کی بات پر آمنہ بیگم مسکراتی ہوئی جی کہہ کر کمرے کی جانب بڑھ گںٔیں تو فارس کی دلہن کے نام پر مہر فوراً جھینپ گئی)
ویسے بھابھی آج سہی بھاںٔی پر بجلیاں گراںٔی ہیں آپ نے دیکھںٔیے کیسے زخمی زخمی لگ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( عباس اپنی شرارت سے بعض نا آیا اور سرگوشی کے انداز میں مہر سے بولا)
جس پر مہر نے ایک مصنوعی گھوری سے اسے نوازا ۔ اسکی سرگوشی اتنی بھی ہلکی نہیں تھی کہ پاس میں بیٹھی اماں جی اور دانیہ نہ سن سکتی )
عباس بچی کو تنگ نہ کر ( اماں جی کی وارن کرتی آواز پر کان پکڑ کر مسکرا گیا جس پر مہر بھی اسکے انداز پر مسکرا دی)
دانیہ تو بس بے خود سی فارس کو دیکھ رہی تھی جو شاہنواز صاحب اور قمر صاحب کے ساتھ بیٹھا کچھ بات ڈسکس کر رہا تھا لیکن اسکی سحر انگیز شخصیت کا جادو وہ اپنے اوپر پوری طرح محسوس کررہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی وقت آمنہ بیگم ہاتھوں میں خوبصورت سے دو جڑاؤ کنگن لے آںٔی اور مہر کے نازک کلاںٔی میں پہنا کر اسکی روشن پیشانی کو شفقت سے چوم لیا۔ دانیہ یہ سب بہت ضبط سے دیکھ رہی تھی جن کنگن کو اسنے اپنے ہاتھوں میں ہمیشہ پہننے کے خواب دیکھے تھے آج انھیں کسی اور کے ہاتھوں کی زینت بنے دیکھ دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چل فارس اب نکل ورنہ دیر ہوجاۓ گی ( اماں جی کے کہنے پر وہ دونوں سب کو خدا حافظ کرکے آگے پیچھے نکل گںٔے ۔۔۔۔۔۔
اسی وقت دانیہ بھی اپنا موبائل پر میسج سینڈ کرتی مسکرا کر ریلکس ہوگئی.....
♥️♥️♥️♥️Assalamualaikum reader's...hope so k ap sb kheriyat se hongy or jisy koi b pareshani h Allah apny fazal u karam sy hum sbko apki azmaisho sy bachay (Ameen )......
So reader's aaj ki epi kesi lgi ap sbko ye vote or comments kr k zaror btaiye ga m bht wait krti ho ap k comments or vote ka.....and next epi bht special hone wali h or m tbhi jldi dngi jb ap sb mujhy votes and comments dengy 😉
Or jisne follow ni kiya wo mujhy insta or Wattpad py follow krde bcz m bht mza ka next novel likhne wali hn .....
From ....;;;
Your innocent writer Mehrmah shah 😊
YOU ARE READING
TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅
Fantasyek maghror shehzade ki kahani jo masoom si ladrki ki aankho ka dewana hojata ha... Lkn apni anaa k hatho majbor ho kr dono bichar jate hn۔۔۔۔۔