وہ اس وقت کمرے میں بیٹھی کوفی کے سپ لینے کے ساتھ موباںٔل پر مصروف تھی کہ دھاڑ کر کے دروازے کھلنے پر وہ اچھل پڑی لیکن سامنے موجود انسان کو دیکھ اسے کافی حیرت ہوںٔی۔۔۔۔
فارس تم ۔۔۔۔۔۔( دانیہ کو اسکے تنے ہوئے چہرے کے نقوش کچھ اچھا سگنل نہیں دے رہے تھے )
ہاں دانیہ قمر میں ۔۔۔۔۔کیوں حیرت ہورہی ہے مجھے دیکھ کر ؟( فارس اس وقت سادہ نیوی بلو شرٹ پہنے اپنے پورے قد سے اسکے سر پر کھڑا تھا)
نہیں ایسی بات نہیں ہے آؤ بیٹھو ساتھ میں کوفی پیتے ہیں ( دانیہ اسکی بات کو اگنور کرتی مسکرا کر بولی)
لیکن فارس کووہ اس وقت زہر سے بھی زیادہ کڑوی لگی یہ ہی وہ فساد کی جڑ تھی جس کی وجہ سے اسنے اور اسکی مہر نے کتنا عرصہ ہجر کاٹا تھا ۔ وہ ہونٹ بھینچ کر اسکے پاس پہنچا اور اسکا جبڑا پکڑ کر کھڑا کیا کہ کوفی کا کپ چھوٹ کر موٹے روںٔیں کے قالین پر گرگیا.........
ت۔۔۔تمھارا دماغ ٹھیک ہے یہ کیا کررہے ہو تم چ۔۔چھوڑو مجھے درد ہو۔۔۔رہا ہے ( دانیہ اسکی گرفت میں درد سے بلبلا اٹھی )
درد ہورہا ہے تمھیں ہاں اور جو ہمارے ساتھ کیا اسکا کیا ہاں۔۔۔۔تمھیں کیا لگا کہ یہ سب ہتھکنڈے استعمال کرکے تم مجھے پالوگی تو یہ تمھاری بھول تھی دانیہ میں آج بھی صرف اور صرف مہر کا ہوں ۔۔۔۔( اسکی الفاظوں پر دانیہ وہیں ساکت ہوگئی )
چپ کیوں ہو بولتی کیوں نہیں ۔۔۔تم نے ہی تین سال پہلے وہ کھیل رچایا تھا نا مجھے اور مہر کو الگ کرنے کے لیے اور جو تم نے باخوبی کر بھی دیا تھا لیکن افسوس تم ہار گںٔی اس کھیل میں دانیہ قمر۔۔۔۔۔ مجھے تم جیسی عورت سے شدید نفرت محسوس ہورہی ہے ( جھٹکے سے اسکے ساکت چہرے کو چھوڑ کر بولا جبکہ دانیہ کو لگ رہا تھا کہ ساتھوں آسمان اس پر آگرے ہیں )
د۔۔۔دیکھو فارس تمھیں کوںٔی غلط فہمی ہوںٔی ہے .....
شٹ اپ جسٹ شٹ۔۔۔۔۔اپنے اس فحاش منہ سے میرا نام مت لو۔۔۔۔ میں تمھیں صرف یہ بتانے آیا ہوں کہ اگر اب میرے اور مہر کے بیچ آنے کی کوشش بھی کی تو میں تمھارا وجود مٹا دوں گا دانیہ قمر ( آسکی بات درمیان میں ہی کاٹ کر بہت بری طرح اس پر گرجا کہ دانیہ نے اسکے الفاظوں پر آنکھیں میچ لیں)
میں نے تمھیں بہت اچھا سمجھا تھا لیکن تم تومیری سوچ سے بھی زیادہ گھٹیا نکلی ۔۔۔۔آںٔی وارن یو۔۔۔۔۔ ہماری زندگی سے اپنا یہ منحوس سایہ بھی دور رکھنا ورنہ تمھارے لیے بلکل اچھا نہیں ہوگا( اور یہ کہہ کر وہ رکا نہیں اور جس طرح آیا تھا اسی طرح چلا گیا۔۔۔۔۔)
پیچھے دانیہ اسکے اس قدر تلخ الفاظوں پر خون کے گھونٹ پی کر رہے گںٔی۔۔۔۔۔
ا۔۔۔اتنی نفرت فارس مجھ سے۔۔۔اور اس کے لیے اس قدر محبت ( اسکے لہجے میں آنسوؤں کی نمی کے ساتھ بے یقینی ہی ںے یقینی تھی)
م۔۔۔۔میں تمھیں برباد کردوں گی مہر برباد کردوں گی اتنا عبرت ناک انجام کروں گی تمھارا کہ اپنی ہی شکل سے تمھیں نفرت ہوجاۓ گی ( بالوں کو مٹھیوں میں جکڑ کر پاگلوں کی طرح بولی)۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
اسکی جب آنکھ کھلی تو صبح کے ساڑے نو بج رہے تھے۔۔۔۔۔
اللّٰہ جی اتنی دیر سوتی رہ گںٔی میں ( وقت دیکھتے ہی فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی لیکن جیسے ہی یاد آیا کہ آج سنڈے ہے تو کچھ ریلکس ہوگئی)
اسی وقت دیھان اپنے برابر میں گیا جہاں جگہ خالی تھی ۔ رات کا منظر یاد کرکے ایک شرمگیں مسکراہٹ نے ہونٹوں کا احاطہ کرلیا لیکن کتوں کے بھونکنے کی آواز پر ایکدم ہی دل پکڑ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔
یہ تو میری جان نکال کر ہی رہیں گے ...پتا نہیں کس بیچارے کی شامت آئی ہے انکی طرف سے ( دھڑکتے دل کو سنبھالتی بال باندھ کر ٹیرس پر آگںٔی )
لیکن وہاں کا منظر دیکھ کر بس دیکھتی ہی رہ گںٔی جہاں فارس لان میں اپنے پالتو کتوں کے ساتھ کھیلنے میں مشغول تھا اور وہ کتے بھی اپنے مالک کے ساتھ اچھل گود کر نے میں مصروف تھے اس وقت وہ کہیں سے بھی خونخوار نہیں لگ رہے تھے۔۔۔۔۔۔
خود پر نظروں کی تپش محسوس کرکے فارس نے سر اٹھا کر ٹیرس کی طرف دیکھا تو وہاں وہ پری پیکر حیرت سے ٹکٹکی باندھے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
فارس کے اچانک اوپر دیکھنے پر وہ ہڑبڑا گںٔی۔ اسکے اس طرح ہڑبڑانے پر فارس کو شرارت سوجھی تو اسنے مسکرا کر اسکی طرف باںٔیں آنکھ دبا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی اس حرکت پر تو مہر کا منہ ہی کھل گیا لیکن فوراً ہی قابو کرتی حیا سے سرخ چہرے کے ساتھ کمرے کی طرف بڑھ گںٔی اور اسکی اس ادا پر فارس دل تھام کر رہ گیا۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
السلام علیکم اماں جی۔۔۔۔( مہر فریش ہوکر نیچے آںٔی تو اماں جی تسبیح پڑھنے میں مشغول تھیں)
واعلیکم السلام میری جان آؤ...( اسے دیکھ کر انکا چہرہ کھل اٹھا تھا )
مہر بھی مسکراتی ان کے ساتھ آکر بیٹھ گئی....
رات میں تم دونوں کو دیر ہوگںٔی تھی اسی لیے میری بچی کی انکھ نہیں کھلی ( انکی بات پر رات میں واپسی کا منظر یاد کرکے ہی اسنے ایک جھرجھری لی )
دانیہ سے وہ اس بارے میں کوںٔی بات نہیں کرے گی یہ وہ وسوچ چکی تھی۔۔۔۔۔
جی کافی دیر ہوگںٔی تھی۔۔۔۔( خود کو نارمل کرکے بولی )
چلو جاؤ ناشتہ کرلو پہلے ( انکی بات پر جی کہتی اٹھ گںٔی)
ناشتے سے فارغ ہوکر وہ کچن میں آمنہ بیگم کے ساتھ ہاتھ بٹانے لگی ۔ جس پر وہ نہایت محبت سے اپنی خوبصورت سی بہو کو دیکھتیں جب کہ مسرت بیگم کو بھی اب مہر سے کوںٔی خاص مسلۂ نہیں تھا جب انکی بیٹی نے ہی آگے بڑھنے کا سوچ لیا تھا تو وہ کیوں دشمنیاں پالتیں ۔ یہی سوچ کر وہ بھی انکے ساتھ لگیں رہیں ۔۔۔۔۔۔
موم ۔۔۔۔۔۔ پلیز ایک کپ کوفی کا بھجوا دیجیئے گا اوپر میں بہت تھک گیا ہوں ( مہر کام میں ہی لگی ہوںٔی تھی کہ اپنے پیچھے سے اسکی آواز سنتی وہیں ہاتھ رک گیا)
اوکے بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔۔( آمنہ بیگم بولیں)
کتوں سے کھیل کر تھک گئے ہیں بھاںٔی موم جلدی سے انھیں چارج کریں تاکہ اپنا سنڈے پورا کتوں کے ساتھ اسپینڈ کرسکیں ( اسی وقت عباس بھی کچن میں گھس آیا اور جان کر فارس کے پالتو کتوں کو کتا بولنے لگا کیونکہ اسنے انکے خاص نام رکھے ہوئے تھے اور کتا کہنا اسے پسند نہیں تھا).
بہت زیادہ نہیں کتے دکھ رہے تمھیں ( فارس اسکی شرارت سمجھتا اسکے گلے میں بازو ڈال کر پورا اس پر چڑھ گیا )
آمنہ بیگم اور مسرت بیگم انکی شرارتیں دیکھتیں مسکرا رہی تھیں جبکہ مہر کے لبوں پر بھی اسکی آواز سن کر مسکراہٹ آگںٔی تھی۔ ۔۔۔۔
خدا کا خوف کریں بھاںٔی خود تو اپنے سٹاںٔل سے شادی کرلی وہ بھی اتنی حسین بھابھی سے اب میرے مستقبل کے چنوں منوں کے دشمن کیوں بن گںٔے ہیں ( عباس کی بات پر فارس کا جاندار قہقہہ لگا جبکہ مہر تو چہرے نیچے کرکے بری طرح جھینپ گئی تھی ۔ )
ادھر آ تیرے چنوں منوں کا انتظام میں کرتا ہوں ( ہنس کر کہتا اسکی گردن میں بازو ڈالے کھینچتا باہر لے گیا)
توبہ ہے ان لڑکوں سے ( انکے جانے کے بعد آمنہ بیگم اپنے شہزادوں کی حرکتوں پر مسکراتی ہوںٔیں بولیں جو بڑے ہوکر بھی بڑے نہیں ہوتے تھے خاص کر عباس)......
🔥🔥
دانیہ خود کو ریلکس کرتی نیچے ہی آگںٔی تھی۔ لاؤنج میں بیٹھے ہنستے بولتے فارس کو دیکھ کر اسکی ساری ہمت چھو ہوگںٔی لیکن پھر بھی گہرا سانس لے کر آگے بڑھ گںٔی۔
فارس جو عباس اور اماں جی کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا دانیہ کو دیکھ کر اسکی مسکراہٹ پل بھر میں غاںٔب ہوںٔی تھی۔ جسے دانیہ نے شدت سے محسوس کیا لیکن پھر مسکراتی سب کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔
اسی وقت مہر کوفی کا کپ ہاتھ میں پکڑی ہوئی اسی طرف آرہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی فارس کے لبوں کے ساتھ آنکھیں بھی مسکرا اٹھیں ۔ مہر نے چپ چاپ آگے بڑھ کر اسکی طرف کوفی کا کپ بڑھایا جسے دیکھتے ہی فارس کو شرارت سوجھی اور اس نے اسکی انگلیوں سے اپنی انگلیاں مس کرکے فوراً کپ پکڑ لیا کہ کہیں پچھلی بار کی طرح اس بار بھی الٹا نہ ہوجاۓ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی اس حرکت پر مہر اندر تک کانپ کر رہ گئی اسے امید ہی نہیں تھی کہ فارس سب کے سامنے یہ حرکت کرے گا۔ اسکی شرارت دیکھتی اماں جی بھی منہ پر دوپٹے کا پلو رکھتی مسکرادیں جبکہ دانیہ کی نظروں سے بھی کچھ پوشیدہ نہ رہ سکا۔۔۔۔۔۔۔
اہہہمممم۔۔۔۔۔( عباس کے گلا کھنکارنے پر دونوں ہوش کی دنیا میں واپس آۓ تھے)
برائے مہربانی ہم کنواروں کا بھی خیال کیا جاۓ ( اسکی بات پر جہاں فارس اور اماں جی مسکرا دیں وہیں مہر سرخ چہرے سے واپس پلٹ گںٔی)
موم یہ آج بار بار اپنے کنوارہ ہونے کا رونا رو رہا ہے میں تو کہتا ہوں اسکی رسی کسی کے پلو سے باندھ دیں ( کچن سے آتیں آمنہ بیگم کو دیکھ کر فارس مسکراہٹ دبا کر بولا)
جس پر عباس نے انتہائی مسکین شکل بنا کر ایسے سب کو دیکھا کہ سب مسکرانے پر مجبور ہوگںٔے....
ہاں موم بھاںٔی ٹھیک کہہ رہے ہیں میری کوںٔی ہلکی پھلکی سی منگنی ہی کرادیں ۔۔۔۔۔۔۔
توبہ توبہ کس قدر بے شرم لڑکے ہیں آج کل کے کیسے منہ پھاڑ کر شادی کے لیے بول رہا ہے اور ایک ہمارے دور کے لڑکے تھے اپنی ہی شادیوں پر شرم کے مارے منہ پر سے رومال ہی نہیں ہٹتے تھے نہ ہی نظریں اٹھتی تھیں ( عباس کی التجا پر اماں جی سر پیٹ کر رہ گںٔیں)
ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ اماں جی یہ نںٔی نسل بہت بےشرم ہے ( آمنہ بیگم بھی مسکراتی ساتھ بیٹھ گںٔیں تھیں)
توبہ کیسا ظالم سماج بنا ہوا ہے یہ گھر میری
شادی کی بات پر ایک چھوٹی سی معصوم سی خواہش ہی کی ہے کہ ہلکی پھلکی منگنی کروادو تاکہ یہ شادی شدہ لوگ ہم کنواروں کی چھاتیوں پر مونگ نہ دل سکیں ( عباس کے ہاتھ نچا نچا کر زنانہ انداز میں کی گئی بات پر جہاں اماں جی اور آمنہ بیگم کا منہ کھلا رہ گیا وہیں فارس کا زور دار قہقہہ لگا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اسکا اشارہ ابھی اسکی تھوڑی دیر پہلے والی حرکت کی طرف تھا)
دانیہ خاموشی سے سب کو خوش اور فارس کے زندگی سے بھرپور قہقہوں کو دیکھ اور سن رہی تھی.......
اے آمنہ اس کے لیے جلد از جلد بہو کا انتظام کر ورنہ جس رفتار سے یہ ہم سب پر الزام لگا رہا ہے اپنے کنوارے پن کا کوںٔی بعید نہیں کہ پرچا بھی کٹوا دے ۔۔۔۔۔۔( اماں جی کی بات پر عباس کا چہرا کھل اٹھا اور لپک کر انکے پاس پہنچ گیا)
آمنہ بیگم بھی انکی بات پر جی کہتی مسکرا دیں ۔۔۔۔۔
سچ میں کیا اماں جی میں بھی گھوڑی چڑھو گا ( انکے ہاتھ خوشی سے تھام کر پوچھا)
جس طرح کے تیرے لچھن پیں مجھے تو لگتا ہے گدھے کو گھوڑی چڑھا ہی دیں ( انکی بات پر سب ایک بار پھر مسکرا دںٔیے)
اماں جی تسی گریٹ ہو ۔۔۔چلیں میں اپنے دوستوں کو بتا دوں کہ میرے گھر والے آخر کار میرے بارے میں سنجیدہ ہوگںٔے ہیں( انکے گال چوم کر اڑتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا)
یا خدایا اس قدر ترسا ہوا لڑکا ہے ( سب کی مسکراہٹوں میں فارس کا دیھان اس پری پیکر پر گیا جو پتا نہیں کچن میں کس کام میں خود کو مصروف کیے بیٹھی تھی اور سامنے بیٹھی دانیہ کو تو وہ ایسے اگنور کیے بیٹھا تھا کہ جیسے وہ وہاں ہے ہی نہیں۔۔۔۔۔۔
سب کو کچھ کام کا بول کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔
جاؤ مہر بچے نماز پڑھ آؤ پھر کھانا لگائیں گے ( آمنہ بیگم اسے نیچے بیٹھا دیکھ کر بولیں تو وہ جی کہتی اٹھ گںٔی)
کمرے میں آںٔی تو فارس اسے کہیں نظر نہ آیا لیکن ٹیرس کے کھلے دروازے کو دیکھ کر سمجھ گںٔی کہ وہ وہیں ہوگا۔ خود وہ وضو کے لیے واشروم کی طرف بڑھ گںٔی اور باہر آکر نماز ادا کرنے لگی۔۔۔۔
دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز پر اسکے سیگریٹ کے کش لیتے لب مسکرا اٹھے وہ سمجھ گیا تھا کہ کون آیا ہوگا۔ کچھ دیر میں سیگریٹ کو پیروں تلے مسل کر کمرے کی جانب بڑھ گیا تو وہاں وہ نماز پڑھنے میں مشغول تھی ۔۔۔۔۔۔
مہر نے سلام پھیر کر اوپر دیکھا تو وہ دیوار سے ٹیک لگائے یک ٹک اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اسکے اس طرح ٹکٹکی باندھے دیکھنے پر مہر نظریں جھکا کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا گںٔی۔۔۔۔
دعا سے فارغ ہوکر جب اٹھی تو وہ وہیں کھڑا اسی پوزیشن میں اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
کیا دیکھ رہے ہیں؟( آخر مہر نے پوچھ ہی لیا)
اپنی بیوی کو دیکھ رہا ہوں تمھیں کیا کوںٔی مسلۂ ہے؟( کمال ڈھٹاںٔی سے جواب آیا)
جی ہے کیونکہ خیر سے بیوی بھی شاید میں ہی ہوں ( اسکے جواب پر تپ کر بولی)
جی نہیں میری بیوی تو رات میں تھی میرے پاس جو مجھے پیچھے سے تھام کر اظہارِ محبت کررہی تھی لیکن اب جو لڑکی سامنے ہے اسنے تو صبح سے منہ بھی نہیں لگایا( اسکی اس قدر کھلی گفتگو پر مہر صرف گھور کر رہ گںٔی)
پھر جاںٔیے اپنی رات والی بیوی کے ہی پاس یہاں کیا کررہے ہیں ؟( بیڈ کی چادر درست کرتی ہوںٔی روٹھے لہجے میں بولی)
ہاں تو اسے ہی ڈھونڈ رہا ہوں لیکن مل نہیں رہی کیا تم مدد کرسکتی ہو اسے ڈھونڈنے میں ؟( پل بھر میں فاصلہ طے کرتا اس تک آکر بولا)
اسکے پاس آکر کھڑے ہونے پر مہر فوراً بوکھلاتی پیچھے ہوںٔی.....
م۔۔۔میں کیوں کرونگی مدد اپکی بیوی ہے آپ ہی ڈھونڈیں ( جلدی سے کہہ کر جانے لگی تھی کہ اسکی کلاںٔی فارس کی گرفت میں آگںٔی)
مجھے خود کو نظر بھر کر دیکھنے تو دو تاکہ ان ترسی ہوںٔی نگاہوں کی پیاس بجھے ( اسکے بھاری گھمبیر لہجے پر مہر کا دل دھڑک اٹھا )
نیچے سب کھانے پر بلارہے ہیں آجاںٔیے ( اسکی گرفت سے اپنی کلاںٔی موڑ کر نکالنی چاہی لیکن ناکام)
فارس نے اسکی کلاںٔی گھما کر اسکا رخ اپنی طرف کیا ..........
میں نے کیا بولا ہے اور تم کیا کہہ رہی ہو.... ( اسکا وہی ہاتھ پکڑ کر بولا)
اب تو یہیں ہوں ساری زندگی دیکھتے رہیے گا (وہ نظریں جھکا کر بولی تو اسکے اس خوبصورت جواب پر فارس کا چہرہ کھل اٹھا)
مجھے کبھی چھوڑ مت دینا مہر میں تمھارے بغیر ادھورا ہوں ( مسکرا کر کہتا ہوا اسکا دوسرا ہاتھ بھی تھام گیا)
آپکا اور میرا رشتہ یہ سانسوں کی ڈور ہی توڑ سکتی ہے اب ( اسکے جواب پر فارس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔ اسے امید نہیں تھی کہ یہ ڈرپوک سی لڑکی اتنے کھلے الفاظوں میں اظہار بھی کرسکتی ہے ).
اسی وقت دروازے کی دستک پر دونوں اس لمحے سے باہر آۓ۔۔۔۔۔
سہی کہتا ہے عباس یہ سارا کا سارا گھر ظالم سماج ہی بن گیا ہے( بد مزاح ہو کر منہ بناتا دروازے کی طرف بڑھ گیا )
اور پیچھے مہر بھی اسکی بات سن کر اور منہ بسورنے پر مسکراتی نیچے کی طرف بڑھ گںٔی۔۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
فور گاڈ سیک دانیہ تجھے ہو کیا گیا ہے کیوں اتنی اسموکنگ کر رہی ہے تیرا دوسرا پیکٹ شروع ہورہا گیا ہے ...(اس وقت سمیرا کے گھر میں اسکے ساتھ تھی اور وہ کب سے بیٹھی اس سے پوچھ رہی تھی لیکن وہ بس لال آنکھوں سے بیٹھی سیگریٹ پر سیگریٹ پھونک رہی تھی)
س۔۔۔۔سمیرا وہ میرا نہیں رہا ہے .....( آخر جب ضبط مشکل ہوا تو بول اٹھی لیکن اسکی آواز کی لڑکھڑاہٹ نے سمیرا کو ٹھٹکنے پر مجبور کردیا )
کون میری جان کس کی بات کر رہی ہے ۔۔۔ہاں چھوڑ اسے اور بتا مجھے ( سمیرا اسکے ہاتھ سے سیگریٹ ایش ٹرے میں رکھ کر بولی)
وہ۔۔۔۔فارس پتا ہے اسنے مجھے بہت برا بھلا کہا کہتا ہے میں اپنے اس فحاش منہ سے اسکا نام بھی نہ لوں اور نہ اسکے اور۔۔۔مہر کے درمیان میں آؤں۔۔۔( وہ بچوں کی طرح اسے کہتی رو رہی تھی)
سمیرا کو وہ اپنے حواسوں میں نا لگی لیکن اسنے اسے بولنے دیا تاکہ دل کا غبار چھٹ جائے۔۔۔۔۔
نہیں میری جان تو تو بہت پیاری ہے اسنے غصے میں کہا ہوگا فارس صرف دانیہ کا ہے اور کسی کا نہیں ( سمیرا اسکو ساتھ لگاتی اسکی کمر سہلا کر بولی)
ہاں۔۔۔تم صحیح کہہ رہی ہو فارس صرف دانیہ کا ہے اور کسی کا بھی نہیں ہے ۔۔۔میں۔۔۔میں اسے کسی اور کا ہونے ہی نہیں دونگی تم دیکھنا میں اور تیمور مل کر مہر کا و۔۔۔وہ حال کرینگے کہ اسکی روح بھی کانپ جاۓگی ۔۔۔۔( اس سے جھٹکے سے اس سے الگ ہوتی پاگلوں کی طرح بولی )
بلکل ٹھیک کہہ رہی ہو ۔۔۔تم دیکھنا فارس اور دانیہ ایک ہونگے ( سمیرا اسکا حوصلہ بڑھا کر بولی تو اسنے بھی تھک کر سر اسکے کندھے پر رکھ دیا )۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان ایسا ہی ہے برے لوگوں کی صحبت بجائے اسکو سدھارنے کے اور بگاڑ دیتی ہے سیدھے رستہ دکھانے کے بجائے غلط رستے پر گھسیٹ دیتی ہے ایسا ہی دانیہ کے ساتھ ہورہا تھا اس وقت وہ جذباتی کیفیت میں تھی اگر اسے محبت اور پیار سے سمجھایا جاتا تو سدھر جاتی لیکن سمیرا نے اسے اور بھڑکا کر غلط رستے کی طرف دھکیل دیا تھا اب اسکا کیا انجام ہونا تھا یہ تو وقت ہی بتاتا ۔۔۔۔
🔥🔥
ک۔۔۔کیا کررہے ہیں رستہ دیں ...(وہ عشاء کی نماز ادا کرکے نیچے آرہی تھی کہ دوڑ کر آتے فارس نے اسکا رستہ سیڑھیوں پر ہی روک دیا۔)
ہاۓ مہر جان بہت بڑی خوشخبری ہے ( فارس ایک ہاتھ پیچھے کرکے بولا)
اچھا کیا ہے پھر بتا دیں ( وہ بھی وہیں ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوگئی)
تمھارے شوہر کا اپنا ہسپٹل تیار ہوگیا ہے اور دو دن بعد بہت بڑے پیمانے پر اسکی افتتاحی پارٹی ہے ( کمر کے پیچھے سے مٹھاںٔی کا ڈبہ نکال کر اسکے سامنے کیا )
بہت بہت مبارک ہو آپ کو ڈاکٹر فارس ( مہر مسکرا کر دل سے اسکو مبارک باد دیتی ہاتھ مٹھاںٔی کی طرف لے جانے لگی تھی کہ فارس نے ڈبا پیچھے کردیا)
اب کیا ...؟( اسنے ناسمجھی سے پوچھا)
میں کھلادوں؟ ( معصوم سی شکل بنا کر منت بھرے لہجے میں بولا)
نہیں میں لے لونگی ( مہر ہچکچا کر بولی)
میری اتنی بڑی خوشی میں اتنا نہیں کرسکتی میرے لیے ( روٹھے پن سے اسکے پاس سے گزرنے لگا تھا کہ مہر فوراً سامنے آگںٔی)
اچھا ناراض کیوں ہورہے ہیں کھلا دیں ( اسکی ناراضگی کے ڈر سے فوراً مان گئی)
تو فارس نے بھی مسکراتے ہوئے ڈبے میں سے مٹھاںٔی کا ایک ٹکڑا لے کر اسکے منہ میں ڈال دیا جسے مہر نے مسکرا کر کھا لیا۔۔۔۔
خوش ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟( اسکے کھلے ہوئے چہرے کو دیکھ کر بولی)
بہت بہت خوش ۔۔۔۔ ( اسکی سن کر مسکرا کے جانے ہی لگی تھی کہ فارس کی آواز نے قدم پھر سے روک لیے)
سنو ( اسکے پکارنے پر سوالیہ نظروں سے پلٹ کر دیکھا)
آںٔی لو یو۔۔۔ ( اسکے مسکرا کر کہنے پر مہر کا چہرہ فوراً ہی سرخ ہوگیا )
اسکا گلنار ہوتے چہرے کو دیکھ کر فارس کا ایک جاندار قہقہہ بلند ہوا جس پر مہر اسے گھور کر نیچے بھاگ گںٔی......۔۔
کیا بات ہے میری بچی کے چہرے پر اتنے دھنک رنگ کیوں نظر آرہے ہیں؟( اماں جی اسکے خوبصورت چہرے کو دیکھ کر بولیں)
ن ۔۔نہیں اماں جی وہ۔۔۔۔( وہ نظریں جھکا کر ان کی پاس ہی بیٹھ گںٔی لیکن سمجھ نہ آیا کہ کیا بولے)
میں جانتی ہوں کہ تو اب خوش ہے اللّٰہ تیری خوشیوں کو کسی کی نظر نہ لگاۓ ۔۔۔میرے فارس کو تیری وجہ سے ہی اتنی بڑی کامیابی ملی ہے اللّٰہ تم دونوں کی جوڑی سدا قاںٔم رکھے ( اماں جی اسکی روشن پیشانی چوم کر بولیں تو وہ بھی انکی دعاؤں پر شرماتی مسکرا دی )۔۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
اور پھر اگلے دن سے ہی گھر میں تقریب کی تیاریاں شروع ہوگںٔیں تھیں۔ فارس اور باقی سب مرد باہر کے جب کی خواتین گھر کے کام نپٹانے میں لگی ہوںٔیں تھیں ۔ مہر بھی صبح یونی اور شام میں سب کے ساتھ بیٹھ گںٔی ۔ دانیہ خاموشی سے یہ سب دیکھ رہی تھی نا کچھ کہتی نہ کسی چیز میں شرکت کر رہی تھی وہ بامشکل خود کو نارمل کیے ہوۓ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر پتر عباس کے ساتھ جا کر اپنے گھر سب کو دعوت بھی دے آ اور آتے ہوئے اپنے لیے تقریب کا اچھا سا جوڑا بھی خرید لانا ( اماں جی اسکو دیکھتے ہی بولیں تو وہ گھر کا سنتی خوشی خوشی اٹھ گںٔی)
آںٔیں بھابھی جی شاہی سواری تیار ہے ( اسکو تیار ہوکر آتا دیکھ عباس گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول کر بولا )
تو مہر مسکرا کر شکریہ کہتی بیٹھ گںٔی......
عباس ایسا کریں گے کہ ہم پہلے گھر چل کر تقریب کے لیے انویٹیشن دیں گے اور پھر ساتھ میں رباب کو بھی لےلیں گے وہ کیا ہے نا کہ اسے شاپنگ سینس ہے جو مجھے بلکل نہیں ہے۔۔۔۔۔
جو حکم سرکار۔۔۔۔۔( مہر کے بولنے پر گاڑی چلاتے عباس نے مسکرا کر سر کو خم دیا).
تمھیں کوںٔی مسلۂ تو نہیں ہوگا نا ؟( اسکو دیر ہونے کے سبب پوچھ لیا)
مجھ غریب کی کونسی کوںٔی بیوی ہے جو گھر پر روٹی لگا کر میرا انتظار کررہی ہے ( مصنوعی رونا روتے ہوئے اسنے ایک ہاتھ سے اپنے آنسو پونچھے)
ہاہاہاہا۔۔۔۔لے آںٔیں گے تمھارے لیے بھی روٹی پر انتظار کرنے والی۔۔۔۔ ( اسکی شرارت پر مہر ہنس کر بولی)
ہاۓ تبھی تو بھابھی کو بھابھی ماں کہتے ہیں ( اسکی بات پر خوش ہوتا ڈراںٔیونگ کی طرف متوجہ ہوگیا)
گھر پہنچ کر مہر نے گاڑی سے اتر کر دروازے پر دستک دی تو عباس بھی اپنے گلاسز اتارتا ہوا اسکے پیچھے ہی کھڑا ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔
آ رہی ہوں بھںٔی کیا گیٹ توڑنا ہے ( اندر سے آتی غصے سے بھرپور آواز پر مہر نے مڑ کر عباس کو دیکھا جو اپنی مسکراہٹ دباۓ کھڑا تھا )
رباب ہے بیچاری کو ہی گیٹ کھولنا پڑتا ہے ( مہر تھوڑی شرمندہ ہوکر بولی جس پر وہ محض مسکرا کر سر ہلا گیا)
ارے مہر تم کیسی ہو ؟( گیٹ کھولتے ہی مہر کو سامنے دیکھتی اس سے لپٹ گںٔی)
میں بلکل ٹھیک تم کیسی ہو ( مہر بھی اسکے گال پر پیار کرتی مسکرا کر بولی)
بس کام کی چکی میں پس رہی ہوں ( اپنے مصنوعی آنسو صاف کرکے بولی تو مہر مسکرا دی)
لیکن پیچھے کھڑے عباس کی نظریں تو سامنے ہی ٹک گںٔی تھیں ۔ گھریلو سے حلیے میں موجود بالوں کی رفلی چٹیاں بنا کر ایک ساںٔڈ ڈالی ہوںٔی تھیں ۔ دمکتی رنگت پر خوبصورت تیکھے نقوش کے ساتھ وہ بھری بھری جسامت کی لڑکی سراپے حسن تھی۔ اسکی ہلکی سی مشابہت مہر پر تھی ۔۔۔۔۔۔
مہر یہ کون ہے ؟( اسکے پیچھے انجان لڑکے کو یوں ٹکٹکی باندھے دیکھ سرگوشی کے انداز میں بولی)
عباس ہے فارس کا چھوٹا بھاںٔی۔۔۔چلو ہمیں اندر تو آنے دو ۔۔۔آؤ عباس ( باہر ہی اسکی تفتیش پر مہر اسے ساںٔڈ پر کرتی بولی تو اسنے رستہ دینے کے ساتھ جھجھک کر عباس کو سلام کیا )
جسکا اسنے کھوںٔی کھوںٔی کیفیت میں جواب دیا.......
اسکے بعد مہر اپنے امی بابا سے ملتی فارس کی کامیابی کا بتانے لگی جسے سنتے ہی سب نے اسے ڈھیروں دعاؤں دے کر تقریب میں شرکت کی حامی بھری۔ عباس بھی اپنی گپی عادت کی وجہ سے فوراً سب سے گھل مل گیا تھا۔۔۔۔۔
پھر مہر رباب کو شاپنگ کا کہہ کر ساتھ ہی لے آںٔی تھی ۔۔۔۔۔۔
گاڑی کی خاموشی میں عباس نے ہاتھ بڑھا کر گانے چلا دںٔیے اور نامحسوس سے انداز میں مرر کو پیچھے کی طرف سیٹ کردیا جہاں وہ کالے عباۓ میں کالے حجاب کے ساتھ باہر دیکھ رہی تھی۔ خود پر کسی کی مسلسل نظریں محسوس کرتی رباب نے چونک کر سامنے دیکھا تو وہ لمبا چوڑا خوبرو سا مرد مسکراتی نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رباب نے اسے دیکھ کر غصے سے چہرے کا رخ پھیر لیا اسکی اس ادا پر عباس مسکرا کر رہ گیا۔۔۔۔۔
گاڑی ایک مال کے پارکنگ میں پارک کر کے وہ تینوں اندر کی جانب بڑھ گںٔے تھے ۔۔۔۔۔
مہر اس شاپ میں چلتے ہیں یہاں آج کل کے فیشن کے لحاظ سے ڈریسز ہیں ( چلتے چلتے رباب کی آواز پر وہ دونوں اسکے پیچھے ہی چل دںٔیے)
عباس نے دیکھا کہ وہ بڑی چاہ سے مہر کے ساتھ جوڑے لگا لگا کر پسند کررہی تھی اور اسکا فیشن سینس بھی بہت اچھا تھا۔۔۔۔۔
بلاآخر ایک خوبصورت سا ڈریس اسے مہر کے لیے پسند آہی گیا تھا جسے پیک کروا کر جب وہ جانے لگے تو مہر نے کھینچ کر
زبردستی اسے بھی تقریب کے لیے سوٹ لے دیا۔۔۔۔
پلیز مہر مجھے ان سب کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔( رباب کو بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا اس سے کچھ بھی لینا)
خاموش پہلے تو کھینچ کھینچ کر مجھ سے سب لیتی تھی ( اسے ڈپٹی ڈریس ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگی)
پہلے کی بات اور تھی مہر (اسکے احتجاج پر بغیر کان دھرے وہ پیمنٹ کے لیے آگے بڑھ گںٔی)
جب کوںٔی اتنے پیار سے چیز دے رہا ہو تو انکار کرنے والے کو ناشکرا کہتے ہیں محترمہ ( مہر کے آگے جانے پر عباس تھوڑا جھک کر سرگوشی کے انداز میں بولا)
اسکی بھاری آواز پر رباب اچھل کر پیچھے ہوںٔی ....
بہت شکریہ مسٹر میں تو جیسے جانتی ہی نہیں تھی۔ ۔۔( دانت پیس کر کہتی ادھر ادھر دیکھنے لگی)
بلکل صحیح کہا آپ بلکل نہیں جانتی کہ میرا نام مسٹر نہیں عباس ہے ۔۔۔( اسے اسکا چڑنا مزہ دے رہا تھا)
اس سے پہلے وہ کوںٔی جوابی کارروائی کرتی مہر شاپنگ بیگ لے کر انکی طرف آگںٔی تھی اور رباب بس اسے گھور کر رہ گںٔی جس پر عباس نے مسکرا کر اسے اور جلا دیا ۔۔۔۔۔
اسکے بعد واپسی کے سارے رستے خود پر نظروں کی تپش محسوس کرکے بھی انجانی بنی بیٹھی رہی جس پر عباس بھی ڈھٹاںٔی سے وقفے وقفے سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
بلاآخر سفرنے اختتام پر مہر نے اسےواپس گھر چھوڑا تو وہ شکر کرتی گھر کے اندر تک چلی گںٔی۔۔۔۔۔
🔥🔥
اور پھر فارس کی کامیابی کا دن بھی آگیا تھا۔تقریب گھر ہی میں رکھی گںٔی تھی۔ جس میں شہر کے بڑے بڑے ڈاکٹرس اور شاہنواز صاحب اور قمر صاحب کی طرف سے جانے مانے بزنس کی دنیا کے لوگ ، دوست احباب کے ساتھ خاندان بھر کے لوگ بھی شامل تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا بات ہے برخودار کس کی راہ تک رہے ہو ؟( نیوی بلو پینٹ کوٹ میں واںٔٹ شرٹ پر بلو ٹاںٔی ہی لگاۓ ہوئے وہ اپنی سحر انگیز شخصیت اور بھرپور مردانہ وجاہت سے اج سب کا دل دھڑکا رہا تھا )
کسی کا بھی تو نہیں بھاںٔی ( فارس کے پوچھنے پر اینٹرنس پر نظر ٹکاۓ عباس فوراً اسکی نفی کرتے ہوۓ بولا)
ٹھیک ہے مت بتاؤ مجھے خود ہی پتا لگ جائے گا اور اسکے بعد میرے پاس مت آنا کسی مدد کی غرض سے ( فارس اسکی بات پر لاپرواہی سے کندھے اچکا کر نکلنے ہی لگا تھا کہ عباس نے اسکا چوڑا بازو پکڑ کر روک دیا)
اچھا بتاؤں گا تو ڈانٹیں گے تو نہیں؟( بلیک جینس پر واںٔٹ شرٹ اور اوپر گرے کوٹ میں معصوم سی شکل بنا کر بولا)
اب یہ تو سن کر ہی پتا چلے گا ویسے تم نے کونسا سدھر جانا ہے پھر بھی اسی لیے بتادو ( فارس کے انداز پر عباس بھی ڈھٹاںٔی سے دانت نکالتا بتانے کے لیے تیار ہوگیا)
وہ بھاںٔی۔۔۔مہر بھابھی کی چھوٹی۔۔۔۔۔۔
رباب پہ دل ہار آئے ہو مجھے اندازہ تھا جو تم کل سے واپس آکر کھسکے ہوۓ مجنوں کی طرح فلک کی جانب دیکھ کر مسکرا رہے تھے تو مجھے اندازہ ہوگیا تھا ( اسکی بات کاٹ کر فارس بولا تو عباس کا منہ کھل گیا)
توبہ ۔۔۔۔توبہ اب اتنا برا نقشہ بھی مت کھینچیں میرا ۔۔۔۔اچھا بتاںٔیں نا میری ہیلپ کریں گے نا ( عباس اسکا بھاری ہاتھ تھام کر بچوں کی طرح منت کے انداز میں بولا تو فارس مسکرا کر رہ گیا)
ہمممم۔۔۔سوچا جا سکتا ہے خیر ابھی تو وہ آگںٔی ہے وہیں توجہ فرماںٔیں ۔۔۔( فارس بے نیازی سے بولا)
کہاں کہاں۔۔۔؟( عباس فوراً متلاشی نظریں گھمانے لگا لیکن وہ کہیں نظر نہ آںٔی)
ہاہاہا۔۔۔۔۔میں تو چیک کر رہا تھا کہ کوںٔی گنجائش رہ تو نہیں گںٔی لیکن تم تو عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب گںٔے ہو ( قہقہہ لگا کر فارس چلا گیا اور پیچھے وہ اپنے بھاںٔی کی حرکت پر دانت پیستا رہ گیا)....
لاںٔٹ پنک کلر کے خوبصورت جوڑے جس کے بارڈر ،آستینوں اور دوپٹے کے پلوؤں پر سلور کلر کے نگوں کا کام ہوا تھا۔ ہم رنگ دوپٹے کو سر پر ٹکاۓ لاںٔٹ سے میک اپ میں وہ حسین کے ساتھ پروقار بھی لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
اہممم۔۔۔ویسے آج تو آپ ڈاکٹر فارس کی بیوی لگ رہی ہیں پروقار سی ( رمشا کی شرارت بھری سرگوشی پر مہر فوراً جھینپ گئی)
ہاں دیکھ فارس بھاںٔی کے نام سے اسکی شکل پر کیسے کیسے رنگ بکھر جاتے ہیں نا( رانیہ اسے تنگ کرنے کے موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی)
تم ۔۔۔تم دونوں بہت بدتمیز ہو ( انکی باتوں سے اپنے گلنار ہوتے چہرے کے ساتھ اماں جی کے پاس آگںٔی)
اور پیچھے وہ ارے ارے کرتی رہ گںٔیں۔۔۔۔
تقریب اپنے عروج پر تھی۔ شاہنواز صاحب فخر سے سب کی تعریفیں وصول رہے تھے ۔ آمنہ بیگم اور اماں جی تو اپنے لاڈلے کی کامیابی پر نہال ہوئی جارہی تھیں ۔ مسرت بیگم بھی مسکرا کر لوگوں میں شامل تھیں۔ ایسے میں لاںٔٹ پرپل رنگ کے خوبصورت کام والے جوڑے میں کھڑی خوبصورت سی دانیہ سب سے الگ تھلگ تھی۔ اسنے فارس سے دوبارہ بات کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اسے زرا بھی لفٹ نہیں کروا رہا تھا۔ اب وہ مکمل ایک ساںٔڈ پر بیٹھی سب کے خوشیوں اور مسرتوں سے بھرپور چہرے دیکھ رہی تھی۔ مسرت بیگم اور باقی سب کے پوچھنے پر اسنے طبیعیت خرابی کا بہانہ بنا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
عباس بے چینی سے دوستوں میں کھڑا تھا کہ داخلی دروازے پر لاںٔٹ بلو رنگ کے سلور کام والے جوڑے میں سر پر دوپٹہ لیے سارہ بیگم اور واجد صاحب کے ساتھ اندر آتی اس خوبصورت سی رباب پر عباس کی نظریں پلٹنا بھول گںٔیں تھیں ۔ جو اب اسکے گھر والوں سے مسکرا کر مل رہی تھی۔ اسے مسکراتا دیکھ عباس کے بے اختیار دل نے ایک بیٹ مس کی تو وہ مسکراتا سینے پر ہاتھ رکھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر میں کھانے کا دور چلا تو سب باتوں کو ایک طرف رکھ کر کھانے کی طرف متوجہ ہوگںٔے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہممم۔۔۔اپکو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ؟( چاںٔنیز کی پلیٹ کے ساتھ بھرپور انصاف کرتی رباب کا ہاتھ مردانا آواز پر وہیں رک گیا)
سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے وہی خوبرو سے عباس کو دیکھ کر کچھ بدمزاح ہوگںٔی۔۔۔
جی ہے تو ( چمچے کو پلیٹ میں گھماتی ہوںٔی بولی)
جی کہیے نا ( عباس جانثار انداز بولا)
تھوڑی سی تمیز کی لیکن مجھے نہیں آپ کو ( ہاتھوں سے تھوڑے کا اشارہ کرتی عباس کا منہ بنا گںٔی تھی)
تمیز ہے تبھی تو پوچھ رہا ہوں ورنہ منہ بھی نہیں لگاتا میں کسی کو ( بےنیازی سے اسکی بات پر بالوں کو انگلیوں سے سنوار کر بولا)...
ہاہاہاہا۔۔۔۔جیسے میں تو آپکے ہی منہ کے لیے انیس سالوں سے اس دنیا کی بھیڑ میں انتظار کررہی تھی نا ۔۔۔چلو جاؤ مسٹر اپنا رستہ ناپو( اسے اپنی بہن کا یہ تاڑو دیور کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا)
اسکے تمسخر والے انداز پر عباس آندر تک کھول گیا اور جھک کر تھوڑا اسکے کان کے پاس سرگوشی کے انداز میں بولا۔۔۔۔۔
کہہ تو تم بلکل ٹھیک رہی ہو رباب واجد زندگی کے انیس سال غیر ارادںٔی طور پر تم نے میرے لیے ہی انتظار کیا ہے لیکن اب زیادہ دیر نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ میں جو آگیا ہوں تمھارے انتظار کو ختم کرنے(آپ سے تم کا طویل سفر مختصر عرصےمیں طے کرتے اسکی بھاری سرگوشی پر رباب اچھل کر پیچھے کو ہوںٔی تھی)
لیکن اسکی بات سمجھتی اسے گھور کر رہ گںٔی۔۔۔۔۔
مجھے تم سے کوںٔی بھی بات نہیں کرنی ۔۔۔۔( یہ کہہ کر پیر پٹختی پلیٹ ہاتھ میں لیے مہر کے برابر میں بیٹھ گںٔی)
ہاۓ اور ہمیں دن رات صرف آپ سے ہی باتیں کرنی ہیں ( دل پر ہاتھ رکھ کر کہتا بقول فارس کے کھسکا ہوا مجنوں ہی لگ رہا تھا).
اسکے بعد پوری تقریب میں اسنے رباب کو اپنی ںے اختیار نظروں سے زچ کرکے رکھا رہا۔ وہ بھی ڈھیٹ بنی نو لفٹ کا بورڈ لگاںٔی سب کے ساتھ باتوں میں لگی ہوںٔی تھی۔ بلآخر فارس کی کامیابی کی یہ حسین شام اختتام پزیر ہوںٔی تو سب مہمانوں نے بھی اپنی اپنی راہ لی۔۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
کیا کررہی ہو مجھے دیکھ تو لینے دو خود کو ( شیشے کے سامنے کھڑی مہر کانوں سے جھمکیاں نکالنے ہی والی تھی کہ کمرے میں آتے فارس نے اسے وہیں روک دیا)
سارا ٹاںٔم سامنے ہی تھی آپ کے دیکھ لیا ہے ( کہتے ہی اتارنے لگی کہ اسنے آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ کے روک لیا )
اسکے لمس پر فوراً اچھل کر پیچھے ہوںٔی ۔۔۔
کیا کررہے ہیں ؟( اب وہ اپنی پشت پر کھڑی اس خوبرو شخص کو دیکھ رہی تھی جو بغیر پلک جھپکاۓ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اسکے یوں ٹکٹکی باندھنے پر مہر فوراً ہی نظریں جھکا گںٔی ۔۔۔۔۔
کتنی بار کہا ہے انھیں جھکا مت دیا کرو انھیں انکھوں میں میری جان بستی ہے ( اپنے پیچھے سے اسکی بھاری آواز پر بھی مہر نے لرزتی پلکیں نہیں اٹھاںٔیں)
تو فارس نے مسکراتے ہوئے اپنی کوٹ میں سے ایک مخملی کیس نکالا اور اس میں سے خوبصورت ڈاںٔمنڈ کا نازک سا نگ والا پینڈنٹ اسکی سفید سراحی دار گردن کی زینت بنا دیا.....
یہ۔۔۔۔۔؟( اپنی گردن میں اس پینڈنٹ کو دیکھ مہر کی نظروں میں واضح ستاںٔش تھی)
ہاں یہ تمھارے لیے میرے عشق کی چھوٹی سی نشانی ( اسکو کندھوں سے تھام کر محبت اور چاہ سے بولا تو مہر شرما کر مسکرا دی)
بہت بہت خوبصورت ہےتھینک یو ( مہر نے مسکرا کر سچے دل سے اس کی تعریف کی تو فارس بھی مسکرا دیا)
لیکن تم سے زیادہ کچھ بھی حسین نہیں ہے مہر۔۔۔۔۔۔میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں ہیں کہ جن میں تمھیں بیان کر سکوں نم کہ فارس شاہنواز تمھیں کتنا چاہتا ہے ( اسکا رخ اپنی جانب کرکے شدتِ جذبات سے بولا تو وہ نظریں جھکا گںٔی)
پتا ہے جب تم پہلی بار ڈر کر میری باہوں میں سماںٔی تھی تب سے میں تمھاری دید کا تمھاری محبت یہاں تک کہ تمھارا بھی طلب گار ہوں یہ جو ماہ و سال ہمارے درمیان میں آگںٔے تھے انھوں نے بھی صرف میری دیوانگی میں اضافہ ہی کیا ہے ( اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھامے دیوانہ وار اپنی محبت کا اعتراف کررہا تھا)
ا۔۔۔ایک بات پوچھوں؟( اسکے حصار میں آواز بھی لڑکھڑا گئی تھی)
پوچھ کیوں رہی ہو بلا جھجک بولو( محبت سے اسکے بال کان کے پیچھے اڑا کر بولا)
آپ ڈیپریشن پلز اور سلیپنگ پلز کیوں لیتے تھے ؟( مہر کے سوال پر اسکے بالوں کو سنوارتے فارس کے ہاتھ وہیں رک گںٔے پھر گہرا سانس لیتا ہوا بولا)
تمھاری یاد سے آزادی کے لیے۔۔۔( اسکی بات پر مہر نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسکی آنکھوں میں دیکھا)
امریکہ جانے کے بعد مجھے سخت ڈیپریشن ہوگیا تھا میرے کچھ ساتھی ڈاکٹرس جو کہ دوست بھی تھے وہی مجھے زبردستی ہسپٹل لے گئے پھر ۔۔۔۔۔( اتنا کہہ کر وہ رک گیا تو مہر کی نشیلی آنکھوں میں ایکدم آنسو آگںٔے)
میری وجہ سے آپ نے بہت تکلیف گزاری پے نا ( نظریں جھکا کر روتے ہوئے بولی تو فارس نے اسکا چہرہ تھوڑی سے اوپر کرکے نفی میں سر ہلاتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اسکے آنسو صاف کیے )
نہیں تم نے مجھے تکلیف نہیں دی تم نے تو وہی کیا جو تمھیں دکھایا گیا تھا ( اسکی بات پر آنسو بھری نظروں سے اسے دیکھتی رہ گںٔی)
آ۔۔۔آپ مجھے معاف........
شٹ اپ آںٔندہ تمھارے منہ سے یہ لفظ نہ سنو میں ( اسکی بات درشتگی سے درمیان میں کاٹ کر بولا تو وہ وہیں خاموش ہوگںٔی)
سنیں۔۔۔ ( کچھ دیر خاموشی میں ایک دوسرے کی دھڑکنوں کی آواز سنتے رہے )
سنا دیں ( مسکرا کر جانثار انداز میں بولا)
مجھے نا ...
ہاں تمھیں نا؟ ...(اسکی رکنے پر تھوڑا جھک کر بولا)
وہ مجھے نا ( مہر پھر وہیں رک گںٔی)
ہاں بولو تمھیں نا کیا ؟( فارس اب کے تجسس سے بولا)
وہ مجھے نا صبح یونی جانا ہے ( یہ کہہ کر اسے پیچھے کی ساںٔیڈ دھکیلتی وارڈروب کی جانب بڑھ گئی)
اور فارس اسکی چلاکی دیکھ کر رہ گیا)
ویسے مہر جان تم جتنی معصوم لگتی ہو نا اتنی ہو نہیں ( واشروم جاتے ہوئے پیچھے سے اسکی خفگی سے بھرپور آواز آںٔی)
تو یہ آپکی غلطی ہے نا کہ لوگوں کی شکلوں پر اعتبار کرتے ہیں ( مسکرا کر کہتی اسکا کھلا منہ چھوڑ کر دھاڑ سے اندر بند ہوگئی)
ہاۓ لڑکی بہت ستاتی ہو ( گہری سانس بھرتا بالوں میں ہاتھ پھیر کر ڈریسنگ روم میں گھس گیا )
🔥🔥Assalamualaikum reader's..... aaj ki epi ap sb ko kesi lgi or daniya kamar ka kya anjaam hona chahye zaror bataiye ga Q k mainy wo abhi ni likha h.......
Koi ghlti hogai ho tw mazrat...
Allah Hafiz
Mehrmah shah.....
KAMU SEDANG MEMBACA
TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅
Fantasiek maghror shehzade ki kahani jo masoom si ladrki ki aankho ka dewana hojata ha... Lkn apni anaa k hatho majbor ho kr dono bichar jate hn۔۔۔۔۔