تخلیق انسانی، حقیقتاً اور شرعاً تین وجودوں پر منحصر ہے۔
تخلیقی اعتبار سے دیکھا جائے تو انسان کا وجود روحانی، اخلاقی اور عاشقانہ، تینوں زاویوں کو مکمل کرتا ہے۔ مختصراً یہ کہ حیات کے آثار میں ان تین کا ہونا ایک ضروری عنصر ہے کہ جس کے تحت انسانی وجود اور انسانی جسد اور انسانی روح موجود ہے۔ یقیناً یہ پہلو ایسے ہیں کہ جو تنقید، تخلیق، تمثیل، تحویل، تقدیر اور تشریح، ہر قسم کے ذاتی معاملات کو ہر طرف سے مکمل کرنے والے ہیں۔
انسان کے وجود کو مکمل کرنے کے لیے اگر سمیٹ لیا جائے تو اسکو مولانا جلال الدین رومی کے ایک شعر میں بند کیا جا سکتا ہے،
زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی
بس!!! انسان کو مکمل کرنے کے لیے محض ایک یہ شعر کافی ہے کہ زندگی، بندگی ہے اور بندگی کے بغیر زندگی، شرمندگی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ شریعتِ محمدی میں بندگی کا ہونا لازم ہے اور بلکہ میں یہ کہوں گا کہ شریعتِ محمدی نام ہی بندگی کا ہے۔ اسلامی اصول و ضوابط یہی بتاتے ہیں کہ جب بھی بندگی کو اپنایا جاتا ہے تو پھر کبھی بھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ کسی صوفی یا مُلّا کو شرمندگی اٹھانی پڑے۔ بندگی تو نام ہی اسی کا ہے۔ چلتے چلتے بندگی کو مزید واضع کر دینا چاہیے۔
بندگی کے بارے میں ہمیشہ صوفیاء و اولیاء یہی کہا کرتے ہیں کہ بندگی اور زندگی دونوں مترادف ہیں۔ یقیناً ہیں، مگر بندگی بذاتِ خود ہے کیا؟؟
بندگی کو محض شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیا جائے تو یہ کافی ہو گا۔ مگر شریعتِ محمدی کے چند پہلوؤں کو بندگی کہا جائے تو وہ زیادہ بہتر رہے گا۔ مثلاً یہ کہ اعلیٰ اخلاق اور کردار بندگی کا ایک اہم جزو ہے۔ اخلاق سے انسان کی پہچان ہوتی ہے۔ اور جس کا کردار اچھا ہو تو اسے شرمندگی نہیں اٹھانی پڑتی۔ تو غور کیا جائے تو مولانا جلال الدین رومی کے اُس شعر پر اخلاق پورا اترتا ہے۔دوم یہ کہ اخلاق کے ساتھ روح کا گہرا تعلق ہے۔ اخلاق کا بہترین ہونا روحانی تسکین کا باعث ہے۔ اور روحانی تسکین اگر اخلاق کو سنوارنے میں کام آتی ہے تو یقیناً روحانی اخلاق بھی بندگی کا ایک اہم حصہ ہو گیا۔ یقیناً جس کی روح پاک ہو اسکو شرمندگی نہیں ہوتی، تو ایک اور زاویے سے مولانا جلال الدین رومی کے شعر کی تصدیق ہو جاتی ہے۔
تیسری اور اہم بات انسان کے اندر حقیقی عشق ہونا چاہیے۔ یہ عشق انسان کو مکمل کرتا ہے۔ یہی عشق جب انسان کے دل پر حاوی ہو گا تو کو بھی دنیاوی چیز اُس کی ذات پر حاوی نہیں ہو سکتی۔ اور جب انسان کے دل و دماغ میں نام ہی اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نقش ہو تو پھر اسکو کس بات کی شرمندگی ہو گی۔ اس زاویے سے بھی مولانا روم کا شعر واضع ہے۔
اس سے انسان کا وجود انتہائی جڑا ہوا ہے۔ بس جس چیز سے انسان کا وجود جڑا ہو وہی اُس کے وجود کو مکمل کرتی ہے۔ اب ہے بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ انسانی وجود کا تعلق صرف ان تین عناصر سے پورا ہو جاتا ہے۔
YOU ARE READING
تصوف کا مختصر جائزہ
Spiritualتصوف چونکہ زندگی کا فلسفہ ہے، اس لیے رہنمائی کے لیے یہ ایک تجزیہ حاضر ہے۔۔