قسط ۵

1.1K 74 3
                                    

اس بار انبھاج اسی پر سکون انداز میں ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھی تھی جس انداز میں کچھ دیر پہلے ضرار حیدر بیٹھا تھا ۔
ضرار نے دروازہ کھولا اور اس کے مقابل آ کر کھڑا ہوا ، کچھ دیر تو اس نے انتظار کیا کہ شاید انبھاج کچھ بولے مگر وہ بھی انبھاج ولید تھی اگر بات شروع کر دیتی تو شان میں کمی نہ آ جاتی ۔
انبھاج کی خاموشی دیکھتے ہوئے ضرار نے ہی گفتگو کا آغاز کیا ۔
کچھ بولو گی یا اپنے دیدار کے لی بلایا ہے ۔ اس نے انبھاج کو چڑانے کے انداز میں کہا اور انبھاج چڑ بھی گئی ۔
دیدار کرنے کو بس یہی رہ گیا ہے جیسے ۔ انبھاج نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
ضرار نے اس کی بڑبڑاہٹ سننے کے باوجود ان سنی کر دی ۔
مجھے صرف جواب چاہیے کہ تم نے یہ سب کیوں کیا ۔ انبھاج نے غصے سے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
کیا کیا میں نے ۔ ضرار نے معصوم انداز میں بالکل انجان بنتے ہوئے کہا ۔
وہ کیا جس کی وجع سے میں یہاں بیٹھی ہوں ۔ انبھاج نے معنی خیز الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا ۔
کس نے کہا بیٹھنے کو جاؤ سو جاؤ جا کر ۔ ضرار نے پھر سے اسی معصومیت سے اسے چڑاتے ہوئے کہا ۔
میں اس نکاح کی بات کر رہی ہوں ۔ انبھاج نے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
اچھا تو سیدھی طرح کہو نہ اپنی خوش نصیبی پر رش کرنے کا دل کر رہا ہے ۔ ضرار نے اسی انداز میں جواب دیا ۔
خوش نصیبی مائے فٹ ۔ اس نے اس بار قدرِ اونچی آواز میں کہا ۔
زیادہ اونچا بولنے کی ضرورت نہیں پتا ہے مجھے
That your foot is also lucky۔
اس نے پھر سے چڑانے کے انداز میں کہا ۔
اب کی بار انبھاج دو منٹ تک تو اسے دیکھتی ہی رہ گئی ۔ کیا یہ صدیقی ہی ہے وہ صدیقی جو ہر بات کرنے سے پہلے کئی بار ایسے سوچتا تھا جیسے الفاظ کڑوڑوں کے بیچتا ہو اور ایک یہ شخص جو سامنے کھڑا تھا ایسے باتیں کر رہا تھا جیسے الفاظ اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں ، کہاں وہ صدیقی جو بات کرتا تھا تو روب اکھڑ پن اس کے وجود کا حصہ ہوتے تھے اور یہ بالکل ہی مختلف کیا سامنے کھڑا انسان حقیقت ہے یا کوئی بھول بھلیا کوئی خواب ہے یا کوئی سیراب اور اتنے میں ضرار کی آواز اسے اس کی سوچوں سے باہر لاتی ہے ۔

کیا ہوا کن سوچوں میں گم ہو ، فکر نہ کرو میں حقیقت ہی ہوں کوئی خواب نہیں ۔ ضرار کی آواز نے کھوئی ہوئی انبھاج کو حقیقی دنیا میں لایا۔
تم کون ہو ؟ انبھاج نے پر اسرار آواز میں سوال کیا۔
ضرار حیدر تمہارا شوہر ۔ ضرار نے اس بار سنجیدگی سے کہا ۔
تو وہ کون تھا جسے میں صدیقی کے نام سے جانتی ہوں ۔
وہ بھی میں ہی تھا مگر صدیقی میرے پی۔ایے کا نام تھا ۔
مگر کیوں ؟ انبھاج نے اس کی طرف کسی امید سے کہا ۔
تاکہ میری بیوی مجھے بد دعائیں نہ دے ویسے جانتا ہوں اچھی خاصی بددعائیں دی ہیں تم نے اس بچارے کو تب ہی آئے روز گرتا پڑتا رہتا تھا بچارا ۔ ضرار نے کچھ افسردگی اور کچھ شرارت سے کہا ۔
بچارا ۔ انبھاج نے دل ہی دل میں کہا ۔
مگر اب میں تمہارا شوہر ہوں اور تم میری بیوی ۔
میں نہیں مانتی اس شادی کو ۔
نہ مانو ۔ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔
ویسے بھی تمہیں کون سا کسی کی فکر ہے نہ اپنے باپ کی نہ میرے باپ کی نہ عافی کی نہ عفیفہ کی نہ ازلان کی نہ آفاق کی اور نہ دادی کی وہ سب تو میرے رشتے ہیں تمہارے کیا لگتے ہیں وہ جیئے مرے تمہیں کیا پاپا کی اتنی طبیعت خراب ہے پر تمہیں کیا ۔ ضرار نے اسے پوری طرح اموشنل بلیک میل کرتے ہوئے کہا ۔
نہیں مجھے بھی فکر ہے ان کی اور اسی لیے میں انہیں سب بتا دوں گی سب ۔۔۔۔ تمہاری سچائی تمہارا یہ گھٹیا رنگ سب بتاؤں گی میں ۔
جاؤ بتا دو پاپا کی طبیعت کا تو پتا ہی ہے ۔۔۔ پتا نہیں کیا بیتے گی ان پر اور عافی وہ تو اتنی خوش ہیں ہماری شادی پر وہ تو ٹوٹ ہی جائیں گی اور عفیفہ بچاری کتنا اچھا سمجھتی ہے اپنے بھائی کو اس کا کیا بنے گا اف اف کیا اعلیٰ ہو جائے گا نہ ۔ ضرار نے اسے پوری طرح اپنے الفاظ کے شکنجے میں لیتے ہوئے کہا ۔
اللّٰہ پوچھے تمہیں ضرار حیدر اللّٰہ پوچھے تمہیں ۔ انبھاج یہ کہتی صوفے سے اٹھی اور جا کر بیڈ پر لیٹ گئی اور پھر کچھ یاد آنے پر اٹھ کر بیٹھ گئی اور بولی۔
یہ مت سمجھنا کہ میں نے اس نکاح کو قبول کر لیا ۔
نہیں سمجھتا ، تم جان لو کہ میں کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے نہیں ہوں میں کبھی بھی تمہیں اس نکاح کو قبول کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالوں گا جب بھی تم اسے قبول کرو گی وہ پوری طرح تمہاری مرضی ہو گی وعدہ ہے یہ ضرار حیدر کا ۔ ضرار کا لہجا سنجیدہ اور انداز تو اس سے بھی زیادہ سنجیدہ تھا ۔
انبھاج بس اسے دیکھتی ہی رہ گئی کہ کیا یہ وہ ہی ہے جو وہ اسے سمجھتی ہے یا کچھ اور ہی ہے کیا ہے یہ شخص مگر جو بھی ہے اس سے اسے کیا فرق پڑے اسے تو صرف اسے سبق سیکھانا ہے آخر اتنی آسانی سے تو وہ بھی ہار نہیں ماننے والی اگر وہ ضرار حیدر ہے تو وہ بھی انبھاج ولید ۔
***********************************
گھر میں ایک عجیب خوشی پھیلی ہوئی تھی سب کے چہرے بتا رہے تھے کہ آج وہ کتنے خوش ہیں آخر آج انبھاج کا بطورِ انبھاج حیدر اس گھر میں پہلا دن تھا جس کی سب کو بہت خوشی تھی ماسوائے انبھاج حیدر کے ، انبھاج کا چہرہ کچھ مرجھایا مرجھایا سا تھا اور یہ کسی اور نے نوٹس کیا ہو یا نہ ہو عافی نے تو پہلی نظر میں ہی کر لیا تھا سب ڈئنگنگ ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے ۔
کیا ہوا میری بہو کو ۔ عافی نے انبھاج کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
کیا اب میں صرف آپ کی بہو ہوں ۔ انبھاج نے اداس ہوتے ہوئے کہا ۔
نہیں ایسا کیوں کہہ رہی ہو تم ۔ عافی نے ہلکی سی ناراضگی دیکھاتے ہوئے کہا ۔
تو پھر بہو کیوں کہا ۔ انبھاج نے خفگی سے کہا ۔
ارے اتنی سی بات اب نہیں کہتی ، تم پہلے بھی میری بیٹی تھی اور آج بھی میری بیٹی ہی ہو اور ہمیشہ رہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔عافی نے انبھاج کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔اب خوش ۔
بہت خوش ۔ آخر اب یہی رشتے ہی تو تھے جن کی خاطر وہ اس ضرار حیدر کو جھیلنے کو تیار ہوئی تھی مگر درحقیقت جھیلنے تو وہ والا تھا انبھاج کو ۔
انبھاج کبھی گھر سے نہ بھاگتی اگر اس نے اس دن اپنے باپ کی اور صدیقی یعنی ضرار کی باتیں نہ سنی ہوتی وہ تو اس سے شادی بھی کر لیتی چاہے اسے اس شخص سے کتنی ہی نفرت کیوں نہ تھی مگر وہ کوئی بکاؤ مال تھوڑی تھی اور یہی اس کے گھر سے بھاگنے کی واحد وجع تھی اور اسی وجع سے ضرار سے شادی کرتے ہوئے اسے کوئی اعتراض نہیں ہوا بنا اسے دیکھے وہ شادی کے لیے تیار ہو گئی بنا کسی وعدے کے صرف حیدر مامو اور عفی کی محبت میں کہ کم از کم یہ رشتے تو اس کے پاس رہیں گے اور اب وہ ان کو کسی صورت نہیں کھونا چاہتی تھی ۔
اتنے میں وہاں ضرار بھی آ گیا وہ جوگنگ کرنے گیا ہوا تھا اور ابھی ڈائنگ ٹیبل پر سب کو جوائن کر رہا تھا دادی اور حیدر سلیمان کے علاوہ سب ہی وہاں موجود تھے حیدر صاحب تو ویسے ہی بیمار رہتے تھے اور آج دادی بھی کچھ اچھا محسوس نہیں کر رہی تھی اس لیے انہوں نے ناشتہ اپنے کمرے میں ہی کیا ۔
ہاں بھئی ازلان صاحب آپ کب کر رہیں ہیں شادی ۔ ضرار نے ازلان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
ارے ہماری اتنی قسمت ہم تو کنوارے ہی مریں گے ۔ ازلان نے ہنستے ہوئے کہا ۔
اور وہ جو دادی کو چیلنج دے رکھا ہے اس کا کیا ۔ عفیفہ نے لقمہ دیتے ہوئے کہا ۔
ہیں ہیں کون سا چیلنج زرا مجھے بھی تو پتا چلے ۔ ضرار نے دلچسپی سے کہا ۔
وہ بھائی دادی سے لڑائی مول لے رکھی ہے ازلان صاحب نے ۔ عفیفہ نے بڑے ہی لطف اندوز انداز میں کہا ۔
کوئی نئی بات بتاؤ یار ۔ ضرار نے منہ میں سیلڈ ڈالتے ہوئے کہا ۔
ہاں بتاتی ہوں سنے تو سہی ۔۔۔ پھر ازلان نے لڑائی کے بیچ میں جوش میں آ کر دادی کو چیلنج کر دیا کہ نہ کرواؤ میری شادی میں خود ہی کر آؤں گا اور لڑکی کی شکل تک نہیں دیکھاؤں گا ۔ عفیفہ نے دلچسپی سے کہا ۔
واہ بھئی ! تو ملی لڑکی ۔ ضرار نے اس وقت کے چپ ازلان کو چھیڑتے ہوئے کہا ۔
کہاں یار جب تک ان کی دعائیں میرے ساتھ ہیں تب تک تو ملنے سے رہی کوئی بھی لڑکی روز اٹھتے بیٹھتے نمازوں میں ، نفلوں میں ، تہجد میں ہر جگہ یہی دعائیں تو کرتی ہیں کہ کسی طرح ازلان کوارا ہی رہے ۔
ازلان کی بات پر ضرار دل کھول کر ہنسا اور اسے یوں ہنستا دیکھ کر انبھاج کا دل جل گیا اور جانے کیا دعا نکلی کہ ضرار کو ہچکی لگ گئی ۔
لگتا ۔۔ ہے ۔۔ کوئی بڑی شدت سے یاد ۔۔۔ کر رہا ہے ۔ ضرار نے ہچکی لیتے ہوئے انبھاج کو دیکھا ۔
اسے یاد کرتی ہے میری جوتی ۔ انبھاج نے اس کی نظروں کے تاکب کو سمجھتے ہوئے دل ہی دل میں کہا ۔
اچھا میں آفس چلتا ہوں ۔ ضرار نے پانی کا گلاس اندر انڈولتے ہوئے ہچکی پر قابو پاتے ہوئے کہا ۔
ارے آج بھی آفس ابھی شادی کو ایک دن بھی نہیں ہوا ۔ عافی نے غصہ دیکھاتے ہوئے کہا ۔
جلدی آ جاؤں گا ۔
جلدی آؤ یا لیٹ مجھے نہیں پتا تم اب کم ازکم دو ہفتے تو نہیں جا رہے آفس ۔ عافی نے تلمہی کرتے ہوئے کہا
دو ہفتے نہ نہ ۔۔میں دو ہفتے آفس نہ گیا تو ۔۔۔
اس کی بات بیچ میں ہی رہ گئی عافی نے ٹوکتے ہوئے کہا۔
چلو ایک ہفتہ ٹھیک ہے ۔ عافی نے سوالیہ نظروں سے کہا ۔
ٹھیک ہے مگر ایک ہفتے بعد آپ نہیں روکیں کی مجھے ۔ ضرار نے آخری فیصلہ سناتے ہوئے کہا ۔
ٹھیک ہے نہیں روکوں گی مگر ابھی سکون سے بیٹھ جاؤ ۔ عافی نے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
ٹھیک ہے بیٹھ رہا ہوں ۔ اس نے کرسی کھینچتے ہوئے کہا ۔
اور مجھے ایک ضروری بات بھی کرنی ہے تم سے ۔ عافی نے کچھ یاد آنے پر کہا۔
ہاں بولیں ۔ ضرار نے پلیٹ میں چمچ چلاتے ہوئے کہا ۔
وہ حیدر کہہ رہے ہیں کہ تمہارا ولیمہ کر دیں ۔
میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہہ رہا ہوں ابھی میں کسی قسم کی شو شا نہیں چاہتا کوئی تام جھام نہیں ۔
مگر ضرار لوگ کیا کہیں گے کہ اکلوتے بیٹے کی شادی کی ہے اور کسی کو کانو کان خبر تک نہیں ہونے دی اور ویسے بھی نکاح تمہاری مرضی کے مطابق ہوا ہے کسی کو نہیں بلایا ، ولیمہ تو بنتا ہے ۔
جب میں نے کہہ دیا ہے تو بس کہہ دیا جب میں چاہوں گا تب ولیمہ بھی ہو جائے گا اور پوری دھوم دھام سے ہو گا مگر اب نہیں ۔ اس نے دو ٹوک انداز میں کہا ۔
اچھا ٹھیک ہے اب میں کیا کہہ سکتی ہوں ۔ عافی نے ہار مان جانے کے انداز میں کہا۔
انبھاج اس سوچ میں تھی کہ آخر اس نے ایسا کیوں کیا اس طرح ولیمہ نہ کرنے کے پیچھے کیا وجع ہے اور پھر ایک خیال نے اس کے دماغ میں گھنٹی بجائی۔۔۔۔ کیا ضرار یہ رات کے کئے ہوئے وعدے کی وجع سے کہہ رہا ہے مگر یہ اتنا اچھا ۔۔۔۔۔نہیں نہیں ضرور اس کے پیچھے بھی اس کی اپنی ہی کوئی وجع ہو گی میں بھی پاگل ہوں جو یہ سوچ رہی ہوں کہ یہ یہ سب میرے لیے کر رہا ہے جس نے میرے ساتھ اتنا غلط کیا ، مجھے اتنا بڑا دھوکا دیا اتنی تکلیف پہنچائی وہ میرا بھلا کیسے چاہ سکتا ہے ۔ انبھاج نے آہ بھرتے ہوئے سوچا ۔
بھائی ولیمہ نہیں کرنا وہ تو ٹھیک ہے مگر آپ لوگ ہنی مون پر کہاں جا رہے ہیں ۔
عفیفہ سب جانتی تھی اور پھر بھی وہ یہ سوال کر رہی تھی اس پر ضرار نے اس کو آنکھوں ہی آنکھوں میں ڈانٹا تھا مگر ساتھ ہی شرارت سے بولا ۔
اپنی بھابی سے پوچھو کہاں جانا چاہتی ہے ۔
وہ ۔۔۔۔۔۔ وہ میری طبیعت بہت خراب ہے ۔ انبھاج نے اپنی طرف سے کمال ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا مگر وہ کہاں جانتی تھی کہ سب اس کی اداکاری سے واقف ہیں سب نے بامشکل اپنی ہنسی روکی عافی نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا ۔
کیا ہوا انبھاج سب ٹھیک تو ہے ۔
ہاں عافی بس سر میں درد ہے اور دل خراب ہو رہا اور۔۔۔
اچھا کوئی نہیں کل تک ٹھیک ہو جائے گی ۔ عافی نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ۔
مجھے تو لگتا ہے شاید پورا ہفتہ ہی میں بیمار رہوں گی وہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے جب بھی میں بیمار ہوتی ہوں کم از کم ہفتہ لگتا ہے ٹھیک ہونے میں ۔ انبھاج نے اپنی اداکاری جاری رکھی ۔
اور اب تو ضرار کی ہنسی چھوٹ گئی وہ ساتھ ساتھ ہنس رہا تھا اور ساتھ ہی سوری کہا رہا تھا ۔
انبھاج کو اس کی اس حرکت پر بہت غصہ آ رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس کا سر پھاڑ ڈالے ۔
کیا ہو گیا ایسے کیوں ہنس رہے ہو ۔ عافی نے غصے میں کہا اور ساتھ ہی ساتھ آنکھوں ہی آنکھوں میں تلمہی بھی کی ۔
کچھ نہیں بس کسی دوست کی بات یاد آ گئی تھی ۔ ضرار نے بات سنبھالتے ہوئے کہا ۔
کون سی بات ہے ہمیں بھی تو پتا چلے تاکہ ہم بھی دل کھول کر ہنس سکیں ۔ ازلان نے بات کے بیچ میں ٹانگ اڑاتے ہوئے کہا ۔
تجھے تو بعد میں بتاتا ہوں میں ۔ ضرار نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
بتا بھی کیا بات ہے ۔ ازلان نے زور دیتے ہوئے کہا ۔
بعد میں بتا دوں گا تجھے میں ۔ ضرار نے ایک ایک بات پر زور دیتے ہوئے کہا ۔
اور اب تو ازلان کا چپ ہونا بنتا ہی تھا ۔
اتنے میں عفیفہ کو کسی unknown نمبر سے کال آتی ہے عفیفہ کال اٹھاتی یے
کون ؟
آگے سے مکمل خاموشی تھی
کون ؟ عفیفہ دوبارہ پوچھتی ہے ۔
مگر اس بار بھی وہی خاموشی برکرارا رہتی ہے مگر اس خاموشی کو وہ با خوبی پہچانتی تھی اتنی اچھی طرح جتنی اچھی طرح وہ خود کو پہچانتی تھی آخر دو ہفتے گزارے تھے اس خاموشی کے ساتھ اسے پہچاننے میں وہ غلطی نہیں کر سکتی تھی ۔
عفیفہ وہاں سے اٹھ کر سائیڈ پر آ جاتی ہے ۔
یہ تم ہو نہ ۔۔ میں جانتی ہوں تم ہو بولو چپ کیوں ہو بولو ۔ اور پھر کال آینڈ ہو جاتی ہے عفیفہ کو سمجھ نہیں آ رہی ہوتی کہ اس میں اتنی ہمت کہاں سے آ گئی کہ اس نے اسے مخاطب کر لیا
کون تھا عفیفہ ۔ ضرار نے اسے پکارا
کوئی نہیں بھائی رونگ نمبر ۔ عفیفہ اسے سب کچھ بتائے گی مگر ابھی نہیں ابھی کل ہی تو اس کی شادی ہوئی ہے وہ اس طرح اسے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی ۔
***********************************

مجھے تم قبول ہو (✔✔Complete )Opowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz