یار آج کل ولید نہیں دکھ رہا یونی میں تو کتنا سکون ہے نا۔۔..؟( دلآویز کلاس میں بیٹھی اپنا اساںٔنمنٹ بنا رہی تھی تب پیچھے کچھ لڑکیوں کی سرگوشی کی آواز اسکے کان میں پڑی۔۔۔۔)
ہاں یار قسم سے ورنہ تو آتے جاتے فقرے کستا تھا کسی کی عزت تو اسے کچھ لگتی ہی نہیں تھی۔۔۔۔( دوسری لڑکی منہ بسور کے بولی وہ بھی شاید ولید سے کافی تنگ تھی)
یہ بات دلآویز نے بھی نوٹ کی تھی کہ وہ کچھ دنوں سے یونی نہیں آرہا۔ اس واقعے کے بعد ایک بار آیا تھا لیکن پھر بھی کچھ بھی بولے بغیر غاںٔب ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دفعہ میں تو کہتی ہوں کبھی نہ آئے ادھر وہ کمینہ انسان۔۔۔۔۔۔۔۔( اب کے آواز تیسری لڑکی کی تھی۔۔۔)
دلآویز نے انکی آوازوں سے تنگ آکر اپنی کتابیں اٹھاتی لاںٔبریری میں چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حیات چچا عفان کا پتا چل گیا ہے۔۔۔۔۔( وجی گھر میں گھستے ہی انکے پاس آیا تھا)
کہاں ہے میرا بچہ ۔....( نجمہ نے فوراً اگے بڑھ کر پوچھا)
جنت اور دلآویز بھی رات کے کھانے کے لیے نیچے آرہی تھیں اور وجی کی بات سن چکی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجمہ چچی وہ اپنے لیے ہوۓ گھر میں ہے میری اسکے ایک دوست سے بات ہوںٔی ہے جسکا نمبر مجھے آج ہی ملا تھا۔۔۔۔۔۔( وجی انھیں بتاتا لاونج میں لگے صوفے پہ ٹک گیا۔۔۔۔۔)
تو گھر کا پتا کیا ہے ۔۔۔۔؟( کمال صاحب نے بھی بیچ میں ہی پوچھا)
جنت کے اب سہی معنوں میں ٹھنڈے پسینے چھوٹے تھے۔ عفان کا خوف دل سے جا کر نہیں دے رہا تھا اسکا پہلا والا روپ سوچتی تو جھرجھری سی آجاتی تھی۔ البتہ دلآویز بہت خوش تھی اپنے بھاںٔی کے ملنے پہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی پاپا وہ بھی چل گیا ہے ۔۔۔۔۔۔( وجی نے انکی بات کا جواب دیا)
تو ابھی چلو مجھے میرے بیٹے کے پاس جانا پے ایک ہفتہ ہوگیا ہے اس یہاں سے گںٔے ہوۓ ترس گںٔی ہوں میں اسکی شکل بھی دیکھنے کے لیے۔۔۔۔۔( نجمہ فوراً اٹھتے ہوۓ بولیں)
نہیں نجمہ صبح ہونے دو پھر چلی جانا۔۔۔۔۔( حیات صاحب نے انھیں دیکھتے ہوۓ کہا جو نکلنے جی تیاری میں تھیں).....
نہیں حیات صاحب بس اب اور نہیں مجھے اسکے پاس جانا ہے بس۔۔۔۔۔( نجمہ نے بھی جانے کی ضد پکڑی تو حیات صاحب نے ہتھیار ڈالتے ہوۓ کھانے کے بعد جانے جی ہامی بھر لی)
جنت نے تو سوچ کیا تھا کھانے کھانے کے بعد یہاں سے رفو چکر ہوجاۓ گی اپنے کمرے میں اور پھر نہیں نکلے گی۔۔۔۔۔
نگارش بھی آج خاموش سی بیٹھی تھی پروین ابراز نے بار بار پوچھ کر اسے زچ کردیا تھا لیکن وہ تھی جہ بس کچھ بتانے کا نام ہی نہیں کے رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
کھانے کے بعد نجمہ ، حیات صاحب، اور وجی عفان کی طرف چلے گںٔے تھے۔ جنت انھیں نکلتا دیکھ پہلی فرصت میں کمرے میں جاکر بند ہوگںٔی اور دلآویز بے چینی سے اپنے بھاںٔی کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھر کے اگے گاڑی کھڑے کرکے وہ سب باہر نکلے اور خوبصورت سے گھر پر نظر پڑتے ہی نجمہ کو اپنے بیٹی کی کامیابی پہ خوشی ہوںٔی۔ دو سے تین بیل کے بعد اندر سے قدموں کی چاپ کی آواز آںٔی۔ عفان نے جب دروازہ کھولا تو سامنے اپنے گھر والوں کو دیکھ کر حیران رہ گیا تھا اسے امید ہی نہیں تھی کہ آگے یہ سب ہونگے جبکہ نجمہ تو اسکی حالت دیکھ کے ہی روتے ہوۓ اسکے گلے سے لگ گںٔیں۔ عفان چپ چاپ بے تاثر چہرے سے اپنی ماں کو روتا دیکھ رہا تھا ۔ پھر انھیں خود سے الگ کرکے گھر کے اندر انے کی جگہ دی۔۔۔۔۔۔۔
میرے بچے یہ کیا حالت بنا دی ہے تو نے اپنی۔۔۔؟( نجمہ مسلسل روۓ جارہی تھیں)
کچھ نہی ہوا ہے مجھے ماما ٹھیک ہوں میں۔۔۔( عفان سامنے ہی صوفے پہ نظریں جھکائے بیٹھا تھا )
اسکی حالت اس وقت کسی ہارے ہوۓ جواری سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔ بڑھی شیو ، بکھرے بال ب، سلوٹوں والی شرٹ وہ کہیں سے بھی پہلی کی طرح نک سک سے تیار ہوا عفان نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھو برخودار جو تم نے حرکت کی ہے وہ کوںٔی چھوٹی بات نہیں تھی اسی وجہ سے زبیدہ کی کتنی طبیعت خراب ہوںٔی ہے تم نہیں جانتے۔۔۔۔( حیات صاحب اسکے جھکے سر کو دیکھ کر بولے تو اسنے جھٹکے سے سر اٹھا کر انھیں دیکھا)
کیا ہوا چچی کو وہ ٹھیک ہیں اب۔۔۔۔؟
ہاں اپنی بچیوں کی دعاؤں سے بچ گںٔی ہے اور اب وہی نہیں چاہتی کہ تم جنت کو چھوڑو۔۔۔۔۔( وجی خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا جبکہ حیات صاحب کی بات پر نجمہ کی بھویں تن گںٔیں)
لیکن پاپا میں اب یہ نہیں نبھا سکتا۔۔۔۔۔( عفان نے تاثرات سے عاری چہرے سے کہا)
تو حیات صاحب کو اس پہ شدید غصہ آیا پہلے غلطی کی اور اب اکڑ جبکہ نجمہ بیچ میں سے خوش ہوگںٔیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔
لگتا ہے تمھاری عقل گھانس چرنے چلی گئی ہے عفان۔۔۔۔پہلے اس بچی کی زندگی تباہ کی اور اب کہہ رہے ہو کہ میں نبھا نہیں سکوں گا۔۔۔۔۔( حیات صاحب کی دھاڑ پہ وہ لب بھینچ کر رہ گیا)
وجی ان سب میں خاموش سا بیٹھا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ عفان اپنی بہن کی وجہ سے اس سے چڑا ہوا ہے اسی لیے چپ رہنا ہی مناسب سمجھا۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں بچے کے ساتھ زبردستی کررہے ہیں۔۔۔( نجمہ جو چاہتی تھی وہی ہورہا تھا لیکن اپنے شوہر کی دھاڑ پر چڑ کر بولیں)
تک چپ رہو نجمہ تم ہی نے اسے سر چڑھایا ہے ۔۔۔اٹگو عفان تم اور گھر چلو تمھاری وجہ سے اس بچی کی ماں کو کچھ ہوا تو میں تمھیں چھوڑوں گا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( عفان صاحب نے اس بار بغیر لحاظ کے اسے کہا )
عفان کچھ دیر بیٹھا رہا پھر جھٹکے سے اٹھ کر اندر بڑھ گیا اور اگلے پندرہ منٹ میں وہ لوگ گاڑی میں تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر پہنچ کر سب نے اسے مسکرا کر ویلکم کیا لیکن وہ جھوٹا بھی نہ مسکرا سکا۔ ایک دلآویز تھی جسے اسنے مسکرا کر سینے سے لگایا تھا ۔ نگاہیں دوڑانے پہ یہاں وہاں دیکھا لیکن وہ دشمنِ جاں کہیں نہیں تھی۔۔۔۔۔۔
عفان جاؤ زبیدہ سے مل آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔( اسے سب کے درمیان خاموش بیٹھا دیکھ حیات صاحب نے کہا تو وہ جی کہتا اوپر کی جانب چل دیا)
دروازے پہ تین دستک کے بعد اسنے لاک گھمایا تو وہ کھلتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت جو زبیدہ کے ساتھ اپنی جگہ پہ بیٹھی کسی کتاب کے مطالعے میں مشغول تھی دروازے کی دستک پہ چونک کر سیدھی ہوکر بیٹھی لیکن سامنے موجود ہستی کو دیکھ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا ۔ جبکہ عفان نے اس پہ ایک سرد نگاہ ڈال کر زبیدہ کے بیڈ کی طرف کرسی کھسکا کے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبیدہ چچی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( زبیدہ جو آنکھیں موندے لیٹی تھی اسکی آواز پہ آنکھیں وا کرکے سامنے موجود عفان کو دیکھا)
آگںٔے تم۔۔۔۔۔۔
نہیں چچی لیٹی رہیں ۔۔۔۔( انھیں اٹھ کے بیٹھتا دیکھ عفان بولا تو وہ تھوڑا سا ٹیک لگا کر بیٹھ گںٔیں)
کیسی طبعیت ہے اپکی چچی۔۔۔۔۔؟( وہ نظریں جھکائے پوچھا رہا تھا کیونکہ اسکی ہمت نہیں تھی کہ اتنی مہربان عورت جسکااسنے دل دکھایا لیکن پھر بھی وہ اسے قبولنے کو راضی تھی)
ٹھیک ہو بچے اب۔۔۔۔۔( زبیدہ اسکی شرمندگی محسوس کرسکتی تھیں)
جنت بھی چپ چاپ ساتھ بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی۔ اسکی بدلی حالت دیکھ ناجانے کیوں اسے اپنا آپ قصور وار لگا)
اتنی محبت تھی جو یہ حالت بنا دی ( وہ صرف سوچ ہی سکی)
عفان بچے میں یہ تو نہیں کہوں گی تم نے اچھا کیا ہے لیکن تم ایک بار مجھ سے کہتے تو میں خود تمھارے ہاتھ میں جنت کا ہاتھ دے دیتی بغیر کوںٔی بھی سوال کیے۔۔۔۔۔۔( زبیدہ کی بات پہ اسنے لب بھینچ کر اسے دیکھا)
یہی غلطی ہوگںٔی چچی بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن بیٹا تم جانتے ہو لڑکیوں کی عزت ایک آبگینے کی مانند ہوتی ہے زرا سی دراڑ اور سب ختم۔۔۔۔میں نہیں چاہتی کہ میری بچی چھوٹی سی عمر میں اپنے سر طلاق کا داغ لے کر بیٹھ جاۓ اور نہ ہی میری تم سے کوںٔی دشمنی ہے تم میرے بچوں کی طرح ہو میرے ہاتھوں میں پلے بڑے ہو اسی لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔( بولتے ہوۓ جنت کا ہاتھ پکڑ کر عفان کے ہاتھوں میں رکھ دیا)
اسی لیے بچے جنت کا ہاتھ میں بہت یقین سے تمھارے ہاتھ میں دے رہی ہوں مجھے امید ہے کہ تم مجھے مایوس نہیں کروگے۔۔۔۔۔۔( زبیدہ کے اس طرح ہاتھ دینے پر دونوں کی نظریں اچانک ملیں۔ عفان کے مضبوط گرفت میں پکڑا اپنا ہاتھ دیکھ جنت کی دھڑکنیں پل میں بے قابو ہوںٔیں تھیں۔ جبکہ عفان اسکی جھکی نظروں کو دیکھتا زبیدہ کی بات سن رہا تھا )
پھر نرمی سے جنت کا ہاتھ چھوڑ زبیدہ کا ہاتھ تھاما۔۔۔۔۔۔
میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں چچی مجھے معاف کردیں کہ میں نے آپکا دل دکھایا اور سب کا لیکن آپ فکر نہیں کریں میں آپکو کبھی کوںٔی شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔۔۔۔۔۔۔
مجھے پوری امید ہے بچے کہ تم مجھے شکایت کا موقع نہیں دوگے۔۔۔۔۔۔۔( زبیدہ نے مسکرا کر کہا تو عفان بھی مسکرا دیا)
جبکہ جنت اپنی شامت کے وقت کو قریب سوچتی ہول رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

YOU ARE READING
FiraaQ 🔥(COMPLETE) ☑️
Fantasyیہ کہانی ایک جواںٔن فیملی میں دو سوتیلی بہنوں کی ہے اور ایک ایسی لڑکی کی ہے جو دنیا کی طرف سے اور اپنوں کی طرف سے دھتکاری ہوئی ہے۔ یہ کہانی کسی کے صبر کی ہے کسی کے ہجر کی تو کسی کے فراق کی ہے ۔۔۔۔۔۔💖💖💖