جہنم کی سیر
جہنم میں میرا تیسرا دن تھا میں بہت کوششوں کے باوجود بھی جہنم کی دیوار نہیں پھلانگ پا رہا تھا.عجیب پاکستانی قسم کی جہنم تھی، ہر طرف چیخ پکار، گھپ اندھیرا، آگ اورگرم سریے (وہاں بھی "اتفاق فاؤنڈری" کا سریا دیکھ کر میاں برادران کی "پہنچ" کا اندازہ ہوا). خیر پہلا دن تو اسی بوکھلاہٹ میں گزر گیا کہ میں واقعی مرچکا ہوں یا ابھی پاکستان میں ہوں. شاید ابھی قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کیا دیکھتا ہوں کہ ایک طرف سے ایک قافلہ آرہا ہے جس نے مختلف بینرز اٹھائے ہوئے ہیں. قافلہ قریب آیا تو بینرز پر نظر پڑی.
"کافر کافر شیعہ کافر"
"احمدیوں سے ہاتھ ملانے والا مسلمان نہیں"" یہودی لابی کا بائیکاٹ"
"چارلی ہیبڈو مردہ باد"
اور ان جیسے دیگر پوسٹرز پر نظر پڑی ہیں. جہنم میں نیا ہونے کی وجہ سے مجھے ابھی فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آرہی تھی کہ ان کے ساتھ چلنا "جہنم کے فرائض" میں شامل ہے یا نہیں، اس لئے چھپ جانا بہتر سمجھا، ادھر ادھر دیکھا تو دیوار کے ساتھ ایک جھاڑی نظر آئی فوراً چھلانگ لگائی اور احتیاطاً دیوار کی طرف منہ کر لیا تاکہ کسی کی نظر پڑے بھی تو مجھے "مصروف" سمجھے. جونہی دیوار کی طرف دیکھا ایک اور جھٹکا لگا. دیوار پر جلی حروف میں لکھا تھا
"یہاں پر پیشاب کرنے والا کتا ہے"
، میں نے فورا منہ دوسری طرف کرلیا حالانکہ جہنم میں کیا کتا کیا بندہ،
قافلہ گزرا تو پیشتر اس کے کہ کوئی مجھے کتا سمجھے، میں جھاڑی سے باہر آگیا. میری سوچیں جہنم کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھیں. میں انہی سوچوں میں تھا کہ دو لمبے تڑنگے انسان نما فرشتے میرے قریب آئے. پہلے تو میں نے بھاگنے کا سوچا لیکن ان کے قد کاٹھ دیکھ کر اخلاقاً ارادہ ترک کردیا. میں نے بھرپور مودب بننے کی اپنی سی کوشش کی. میں سر اوپر کرکے ان کو دیکھے جارہا تھا. شاید ان کو ترس آگیا اور انہوں نے پلک جھپکتے ہی اپنے قد چھوٹے کرلئے. ایک فرشتہ میرے قریب آیا اور عجیب سے آواز میں کچھ بولا (شاید عربی زبان تھی جس کی آج تک مجھے سمجھ نہیں آئی ) میں نے اس کا پھنکارتا ہوا چہرا دیکھا تو نہ سمجھ آنے کی باوجود اس کو جواب دیا
"جی میری امی کا نام آمنہ ہے"
(میں نے سن رکھا تھا مردے امیوں کے نام سے اٹھائے جائیں گے)
میرا جواب سن کر دونوں فرشتوں کے منہ سے ہنسی کے فوارے نکل پڑے. میں حیران پریشان ان کو دیکھنے لگا. طوفان تھما تو دوسرے فرشتے نے پہلے کو پھر کچھ عربی میں کہا جو میرے سر سے میرا کی انگریزی کی طرح گزر گیا.
پہلا فرشتہ پھر بولا
"اچھا تو تم بھی پاکستانی ہو"
"جی الحمدللہ" میں منمنایا
"اچھا ہاتھ آگے کرو ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ تمہیں کونسی سزائیں ملی ہیں" دوسرا فرشتہ تحکمانہ لہجے میں بولا
میں نے اس کا کرخت چہرا دیکھا تو فورا ایک ہاتھ جیب میں ڈال کر بٹوا ٹٹولا،
"کیا دیکھ رہے جیبوں میں.. ہمیں کیا پاکستانی پولیس سمجھ لیا ہے جو رشوت دینے کی سوچ رہے ہو..؟"
پہلا فرشتے کی پھنکارتی ہوئی آواز آئی
میں نے ارادہ ترک کردیا
"نہیں میں تو پسینہ صاف کرنے کے لئے رومال نکال رہا تھا"
میں نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے ان کی تصیح کی
"بیٹا تم پاکستانی جہنم میں بھی جھوٹ بولنے سے نہیں کتراتے اس لئے اب جھوٹ سے اجتناب کرنا ورنہ سزاؤں میں اضافہ ہوتا جائے گا"
پہلے فرشتے نے میرے دونوں ہاتھ پکڑے اور دوسرے فرشتے نے جھٹ سے کاپی پینسل نکال لی
"لکھو، نام عامر راہداری،
پانچ سال گرم سریوں کا بستر،
پانچ سال آگ میں جلنا، دس سال بچھوؤں اور سانپوں کے درمیان گزارنا، دس سال طاہر شاہ کا گانا "آئی ٹو آئی" سننا، پانچ سال علی عظمت کی چیخیں سننا اور دو سال میرا کو انگلش سکھانا۔ پہلی سزائیں تو مجھے منظور تھیں لیکن آخری سزائیں سن کر میرا گلا خشک ہونے لگا۔.
"پانی ملے گا تھوڑا سا" مجھے اپنے حلق سے ایک عجیب سی آواز سنائی دی.
"اونچا بولو" فرشتے نے کرخت لہجے میں حکم صادر فرمایا
"جی پانی پینا ہے" میں اپنی آواز سن کر تھوڑا حیران سا تھا.
"چلو ہمارے ساتھ"
دونوں فرشتے مجھے بازوؤں سے پکڑ کر چلنے لگے. میں نے ان کے ساتھ چلنا غنیمت سمجھا
اچانک ایک مانوس سے آواز سنائی دی
"چلی ساہواں دی ہنیری دو انار ہل گئے"
آواز سامنے سے آرہی تھی. بڑے بڑے سپیکر جن پر "المصطفی وڈھل ساؤنڈ سروس" لکھا تھا دور سے نظر آنے لگے. قریب پہنچا تو عجیب نظارا دیکھا
لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی بڑی بڑی داڑھیوں والے مولوی اور صوفی ایک سٹیج کے سامنے براجمان ہیں اور سٹیج پر دیدار اور نرگس کا مجرا چل رہا ہے.
اپنی سزائیں بھول کر میں نے فرشتوں سے پوچھا
"بھائی یہ قسم کی سزا ہے کیا یہ مجھے نہیں مل سکتی..؟
"یہ سزا نہیں ان سب کا بریک ٹائم ہے" فرشتے کا جواب سن کر میری جان میں جان آئی کہ مجھے بھی بریک ٹائم تو ملا کرے گا.
اچانک ایک خیال کوندا
"بھائی یہ سارے پاکستانی ہی ہیں جہنم میں یا کوئی اور قومیت بھی ہے..؟"
"باقی قومیں اپنی اپنی سزائیں صاف اور شفاف نیت سے کاٹ رہی ہیں یہ پاکستانی ہی ہیں جو بریک ٹائم میں احتجاج یا گانے سننے میں ضائع کردیتے ہیں"
پہلے فرشتے نے اپنے حساب سے میری معلومات میں اضافہ کیا لیکن پاکستانیوں کی یہ خاصیت مجھے پہلے سے پتا تھی.
"باقی قومیں بریک ٹائم میں کیا کرتی ہیں..؟
میں نے پوچھا
"وہ قومیں یا تو پڑھتی ہیں یا پھر مختلف تعمیری کام کرتی ہیں. یہ سپیکر ساؤنڈ سسٹم، بینرز، لکھائی وغیرہ باقی قوموں کی ایجادات ہیں"
دوسرے فرشتے نے اضافہ کیا.
تھوڑا آگے چلے ایک طرف سے آوازیں آرہی تھیں
"اوئے نواز، اوئے شہباز، اوئے زرداری، اوئے فرشتو"
میں سمجھ گیا کہ خان صاحب کا دھرنا عروج پر ہے اس لئے فرشتوں نے ادھر جانا مناسب نہ سمجھا. لیکن میرا دل "صنف نازک" دیکھنے کے لئے بے تاب ہورہا تھا. شاید فرشتے نے میرے دل کی بات جان لی اور بولا
"یہاں دھرنے میں مستورات کا داخلہ منع ہے اس لئے یہ گندی سوچ دل سے نکال دو"
"تو پھر دھرنے میں آتا کون ہے"
میں نے تجسس سے پوچھا
"صرف خود خان صاحب"
فرشتے نے میری معلومات میں اضافہ کیا
تھوڑا آگے بڑھے تو دیکھا ن لیگ کے تمام ارکان گفت وشنید میں مصروف تھے.
"جہنم ہمارا گھر ہے ہم گھر کو سجانا چاہتے ہیں پورے جہنم میں "اوور ہیڈ برج" اور "دو رویہ سڑکیں" نہ بنی تو جہنم کا حسن برباد ہوجائے گا" شہباز شریف کی گونجتی آواز سنائی دی،
"لیکن اتنا بجٹ نہیں ہمارے پاس، کہیں تو کاسہ لے کر جائیں یورپین جہنمیوں کے دروازے پر"
اسحاق ڈار نے اپنی خدمات پیش کیں
"جی جی بالکل، میں بھی کافی عرصے سے کوئی دوسرا جہنمی علاقہ نہیں گھوما دو فرشتے بک کروائیے گا"
نواز شریف نے اسحاق ڈار کو اجازت دیتے ہوئے کہا
فرشتے مجھے گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھے تو ایک قافلہ آتا دکھائی دیا وہ ایک مانوس سا نعرہ لگا رہے تھے
"کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے"
مجھے بھٹو دیکھنے کا بچپن سے ہی بڑا شوق تھا لیکن جب تھوڑا بڑا ہوا تو کسی کم بخت نے مجھے بتایا کہ بھٹو مر چکا ہے یہ تو پارٹی کو زندہ رکھنے کا نعرہ ہے. بھٹو کے نام پر لوٹنا اس پارٹی کے منشور میں شامل ہے.
قافلہ بالکل قریب پہنچا تو میں نے متجسس لہجے میں "صدیوں کے بیٹے" جناب قائم علی شاہ سے پوچھ لیا
"محترم شاہ صاحب، بھٹو کہاں پہ ہیں کیا میں ان کے ساتھ ایک عدد "سیلفی" کھنچوا سکتا ہوں..؟"
شاہ صاحب مردہ سی آواز میں بولے
"سائیں وہ تو جنت میں ہیں باقی ساری پارٹی جہنم میں ہے"
میں ان کا جواب سن کر دلبرداشتہ ہوکر فرشتوں کے ساتھ آگے بڑھ گیا.
تھوڑا آگے گئے تو علی عظمت اور طاہر شاہ کی آواز لوگوں کی سماعت میں انڈیلی جارہی تھی. مجھے سمجھ آگئی کہ بریک ٹائم ختم ہوگیا ہے.
فرشتوں نے اپنی انگلیاں کانوں میں گھسا دیں. میں نے بھی اخلاقا ان کو فالو کیا
تھوڑا آگے گئے تو ایک جگہ عوام کا جم غفیر نظر آیا. وہاں ایک بڑی سی الطاف بھائی کی تصویر نظر آئی. مجھے حیرت ہوئی کہ جہنم میں بھی بھائی کے اتنے کارکن ہیں تو اس کا مطلب ہے بھائی یہاں بھی طاقت ور ہیں.
میں نے تجسس کے مارے پوچھا،
"بھائی، بریک ٹائم تو ختم ہوچکا ہے تو یہ جلسہ کیوں.؟"
"یہ جلسہ نہیں بلکہ یہ بھی ایک قسم کی سزا ہے. سامنے بیٹھے ہوئے لوگ ایک گھنٹے کی سزا کے طور پر بھائی کو سن رہے ہیں"
اچھا تو بھائی خود جنت میں ہیں کیا..؟"
میرا تجسس ختم نہیں ہو پا رہا تھا
"بھائی مرنے کے بعد بھی مرنے سے ڈرتے ہیں اس لئے اپنی کوٹھری میں سزائیں کاٹتے رہے ہیں اور یہ تقریر ریکارڈ شدہ ہے"
فرشتوں نے مجھے آگے ہانکتے ہوئے بتایا.
آگے کیا دیکھتا ہوں کہ ایک فٹ بال جیسا گول مٹول شخص نہایت مسکین صورت بنا کر بیٹھا ہے(مجھے طاہر اشرفی جیسا لگا) میں نے فرشتوں کی طرف سوالیہ نگاہ سے دیکھا
"یہ سزا کے آخری مراحل میں ہے. اس کی سزا تھی کہ اسے پانچ سال بچھوؤں اور سانپوں کے ساتھ رہنا ہے. یہ تمام سانپ اور بچھو کھا گیا ہے اب بےچارہ تیسرا سال ہے ایسے ہی گم سم سزا کے سال پورے کررہا ہے"
فرشتے نے مجھے بتایا.
تھوڑی ہی دیر میں مجھے بوریت ہونے لگی. میں نے جو کچھ پیچھے دیکھا تھا یہ سب میرا دیکھا بھالا تھا اور میں کچھ نیا دیکھنا چاہ رہا تھا. شاید فرشتوں کو بھی اس بوریت کا احساس ہوا اور انہوں نے مجھے آنکھیں بند کرنے کا کہا میں نے حکم پر عمل کیا. چند لمحوں بعد آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھتا ہوں ہر جانب مستورات ہی مستورات، میرا دل بلیوں ،کتوں، گھوڑوں اچھلنے لگا لیکن فورا ہی میرے جذبات پر اوس پڑ گئی. سوائے چند کے تمام عورتیں برقعے میں ملبوس خراماں خراماں گھومے جارہی تھیں. میں نے سوالیہ انداز میں فرشتے کی طرف دیکھا تو اس نے بتایا
"ایک دن غلطی سے ہم مولانا عبدالعزیر کو عورت سمجھ کر لے آئے جیسے ہی غلطی کا احساس ہوا اس وقت تک وہ تمام عورتوں کو برقعہ اوڑھا چکے تھے. اور اب مولانا عبدلعزیز کو سزا کے طور "ہیجڑا" سیکشن میں جمع کروادیا گیا ہے." فرشتے نے تفصیلا عرض کیا. اور جو برقعے کے بغیر تھیں ان کے بارے میں علم ہوا کہ وہ عاصمہ جہانگیر کے ہتھے چڑھ گئی تھیں. میری مسکین صورت دیکھ کر فرشتوں کو ترس ضرور آیا ہوگا لیکن انہوں نے اظہار نہیں کیا. تھوڑا آگے گئے تو فرشتوں نے میری معلومات میں اضافہ کیا کہ تمہیں پہلی سزا ان عورتوں کے ہاتھوں ملے گی جن کے ساتھ تم نے فلرٹ کیا.
میں ہکا بکا رہ گیا کہ ساری کی ساری جہنم میں کیسے آگئیں.
خیر مجھے ایک چارپائی قسم کے پھٹے پر الٹا لٹا دیا گیا اور کیا دیکھتا ہوں کہ سو ڈیڑھ سو عورتوں کی ایک لمبی لائن ہاتھ میں ہنٹر ٹائپ کوڑے پکڑ کر آرہی ہیں. میں اٹھ بیٹھا اور فرشتوں کو پکارا
"بھائی آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے یہ ساری میری نہیں ہیں. دھاندلی نہ کریں اور حق حلال کی سزا دیں"
بیٹے یہ ساری تمہاری ہیں لیکن ان میں سے اکثر نے تمہیں فیس بک پر اپنی اصلی تصویریں نہیں دی تھیں اس لئے تم پریشان ہو"
خیر ناچار پھر لیٹنا پڑا، پہلا کوڑا پڑا تو خدا کا شکر ادا کیا کہ صرف فلرٹ ہی کیا تھا شادی نہیں کی. درد تو بہت ہوا لیکن عزت نفس کا سوال تھا پی پچا گیا. کوڑے پڑتے رہے میں برداشت کرتا رہا. اچانک ایک مانوس سا چہرہ نظر آیا میں حیران سا رہ گیا کہ وہ میری دنیاوی بیوی تھی. میں اٹھ بیٹھا اوربیوی سے مخاطب ہوا
"بیگم خدا کو خوف کرو تم تو میری بیوی ہو تمہارے ساتھ میں نے کب فلرٹ کر لیا ہے"
بیگم کی آواز آئی
" رات کو آپ کا انبوکس دیکھنے کے بعد میرا اتنا تو فرض بنتا ہے ناں"
اور محترمہ نے میری رضائی کھینچ کر بلے سے ایک زوردار شاٹ لگا کر مجھے یاد دلایا کہ جہنم جہنم ہوتی ہے چاہے دنیاوی یا اخروی..
عامر راہداری